الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: صلح کے مسائل کا بیان
The Book of Peacemaking
10. بَابُ هَلْ يُشِيرُ الإِمَامُ بِالصُّلْحِ:
10. باب: کیا امام صلح کے لیے فریقین کو اشارہ کر سکتا ہے؟
(10) Chapter. Should the Imam suggest reconciliation?
حدیث نمبر: 2706
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا يحيى بن بكير، حدثنا الليث، عن جعفر بن ربيعة، عن الاعرج، قال: حدثني عبد الله بن كعب بن مالك، عن كعب بن مالك،" انه كان له على عبد الله بن ابي حدرد الاسلمي مال، فلقيه، فلزمه حتى ارتفعت اصواتهما، فمر بهما النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا كعب، فاشار بيده، كانه يقول: النصف، فاخذ نصف ما له عليه وترك نصفا".(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنِ الْأَعْرَجِ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ،" أَنَّهُ كَانَ لَهُ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي حَدْرَدٍ الْأَسْلَمِيِّ مَالٌ، فَلَقِيَهُ، فَلَزِمَهُ حَتَّى ارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُهُمَا، فَمَرَّ بِهِمَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا كَعْبُ، فَأَشَارَ بِيَدِهِ، كَأَنَّهُ يَقُولُ: النِّصْفَ، فَأَخَذَ نِصْفَ مَا لَهُ عَلَيْهِ وَتَرَكَ نِصْفًا".
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے جعفر بن ربیعہ نے، ان سے اعرج نے بیان کیا کہ مجھ سے عبداللہ بن کعب بن مالک نے بیان کیا اور ان سے کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ عبداللہ بن حدرد اسلمی رضی اللہ عنہ پر ان کا قرض تھا، ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے ان کا پیچھا کیا، (آخر تکرار میں) دونوں کی آواز بلند ہو گئی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ادھر سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اے کعب! اور اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا، جیسے آپ کہہ رہے ہوں کہ آدھا (قرض کم کر دے) چنانچہ انہوں نے آدھا قرض چھوڑ دیا اور آدھا لیا۔

Narrated `Abdullah bin Ka`b bin Malik from Ka`b bin Malik: `Abdullah bin Abu Hadrad Al-Aslami owed Ka`b bin Malik some money. One day the latter met the former and demanded his right, and their voices grew very loud. The Prophet passed by them and said, "O Ka`b," beckoning with his hand as if intending to say, "Deduct half the debts." So, Ka`b took half what the other owed him and remitted the other half.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 49, Number 869


   صحيح البخاري2706كعب بن مالكأخذ نصف ما له عليه وترك نصفا
   صحيح البخاري2710كعب بن مالكضع الشطر فقال كعب قد فعلت يا رسول الله فقال رسول الله قم فاقضه
   صحيح البخاري2418كعب بن مالكضع من دينك هذا قال لقد فعلت يا رسول الله
   صحيح البخاري457كعب بن مالكضع من دينك هذا قال لقد فعلت يا رسول الله قال قم فاقضه
   صحيح البخاري471كعب بن مالكضع الشطر من دينك قال كعب قد فعلت يا رسول الله قال رسول الله قم فاقضه
   صحيح مسلم3984كعب بن مالكضع الشطر من دينك قال كعب قد فعلت يا رسول الله قال رسول الله قم فاقضه
   سنن أبي داود3595كعب بن مالكقم فاقضه
   سنن النسائى الصغرى5410كعب بن مالكضع من دينك هذا قال قد فعلت قال قم فاقضه
   سنن النسائى الصغرى5416كعب بن مالكأخذ نصفا مما عليه وترك نصفا
   سنن ابن ماجه2429كعب بن مالكدع من دينك هذا فقال قد فعلت قال قم فاقضه

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2429  
´قرض کی وجہ سے قید کرنے اور قرض دار کو پکڑے رہنے کا بیان۔`
کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے مسجد نبوی میں ابن ابی حدرد سے اپنے قرض کا مطالبہ کیا یہاں تک کہ ان دونوں کی آوازیں اونچی ہو گئیں، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے گھر میں سے سنا تو آپ گھر سے نکل کر ان کے پاس آئے، اور کعب رضی اللہ عنہ کو آواز دی، تو وہ بولے: حاضر ہوں، اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے قرض میں سے اتنا چھوڑ دو، اور اپنے ہاتھ سے آدھے کا اشارہ کیا، تو وہ بولے: میں نے چھوڑ دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن ابی حدرد رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اٹھو، جاؤ ان ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الصدقات/حدیث: 2429]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
قرض خواہ مقروض سےقرض کی واپسی کا تقاضا کرسکتا ہے۔

(2)
دوآدمیوں میں کسی بات پرجھگڑا ہو جائے تو صلح کرا دیں چاہیے خاص طورپروہ شخص جس کوجھگڑنے والوں پر کسی قسم کی فضیلت حاصل ہو اوراس کی بات مانی جاتی ہو تو اس کےلیے ضروری ہے کہ جھگڑا ختم کرائے۔

(3)
صلح کے لیے صاحب حق اپنا کچھ حق چھوڑ دے تو بہت ثواب کی بات ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2429   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3595  
´صلح کا بیان۔`
کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ابن ابی حدرد سے اپنے اس قرض کا جو ان کے ذمہ تھا مسجد کے اندر تقاضا کیا تو ان دونوں کی آوازیں بلند ہوئیں یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سنا آپ اپنے گھر میں تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں کی طرف نکلے یہاں تک کہ اپنے کمرے کا پردہ اٹھا دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کو پکارا اور کہا: اے کعب! تو انہوں نے کہا: حاضر ہوں، اللہ کے رسول! پھر آپ نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے فرمایا کہ آدھا قرضہ معاف کر دو، کعب نے کہا: میں نے معاف کر دیا اللہ کے رسول۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الأقضية /حدیث: 3595]
فوائد ومسائل:
فائدہ: قاضی اور حاکم کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ عوام کے تنازعات میں ان کی صلح کرا دے۔
اور مالی حقوق میں صاحب حق خوشی سے اگر اپنا حق چھوڑدے تو جائز ہے، صلح میں جبر نہیں ہے۔
 
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3595   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2706  
2706. حضرت کعب بن مالک ؓ سے روایت ہے، ان کا حضرت عبداللہ بن ابی حدرداسلمی ؓ کے ذمے کچھ قرض تھا۔ جب دونوں کی ملاقات ہوئی تو حضرت کعب ؓ نے انھیں پکڑ لیا حتیٰ کہ دونوں کی آوازیں بلند ہونے لگیں۔ نبی کریم ﷺ ادھرسے گزرے تو آپ نے فرمایا: اے کعب! اور اپنے دست اقدس سے اشارہ فرمایا۔ گویا آپ نصف قرض کم کرنے کا فرمارہے تھے، چنانچہ حضرت کعب ؓ نے اپنے قرض سے نصف لے لیا اور نصف معاف کردیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2706]
حدیث حاشیہ:
اسلامی تعلیم یہی ہے کہ اگر مقروض نادار ہے تو اس کو ڈھیل دینا یا پھر معاف کردینا ہی بہتر ہے۔
جو قرض خواہ کے اعمال خیر میں لکھا جاے گا ﴿وَإِنْ كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَى مَيْسَرَةٍ وَأَنْ تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَكُمْ﴾ (البقرة: 280)
آیت قرآنی کا یہی مطلب ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2706   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2706  
2706. حضرت کعب بن مالک ؓ سے روایت ہے، ان کا حضرت عبداللہ بن ابی حدرداسلمی ؓ کے ذمے کچھ قرض تھا۔ جب دونوں کی ملاقات ہوئی تو حضرت کعب ؓ نے انھیں پکڑ لیا حتیٰ کہ دونوں کی آوازیں بلند ہونے لگیں۔ نبی کریم ﷺ ادھرسے گزرے تو آپ نے فرمایا: اے کعب! اور اپنے دست اقدس سے اشارہ فرمایا۔ گویا آپ نصف قرض کم کرنے کا فرمارہے تھے، چنانچہ حضرت کعب ؓ نے اپنے قرض سے نصف لے لیا اور نصف معاف کردیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2706]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے اس عنوان سے ایک اخلاقی مسئلے کی طرف اشارہ کیا ہے۔
جمہور کا موقف ہے کہ حاکم کو صلح کے متعلق حکم دینے کا اختیار ہے اگرچہ فریقین میں سے کسی کی حق تلفی ہی کیوں نہ ہو جبکہ مالکیہ کا کہنا ہے کہ حاکم کو کسی کی حق تلفی کا اختیار نہیں ہے۔
امام بخاری ؒ کا رجحان پہلے موقف کی طرف ہے جیسا کہ مذکورہ حدیث سے ثابت ہوتا ہے۔
(2)
مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے کہ حضرت کعب ؓ کا قرض دو اوقیے چاندی تھا۔
انہوں نے ایک اوقیہ وصول کر کے دوسرا معاف کر دیا۔
(المصنف لابن أبي شیبة: 780/7)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2706   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.