الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: جہاد کا بیان
The Book of Jihad (Fighting For Allah’S Cause)
70. بَابُ الْحِرَاسَةِ فِي الْغَزْوِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ:
70. باب: اللہ کے راستے میں جہاد میں پہرہ دینا کیسا ہے؟
(70) Chapter. Vigilance during holy battles in Allah’s Cause.
حدیث نمبر: 2887
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) وزادنا عمرو، قال: اخبرنا عبد الرحمن بن عبد الله بن دينار، عن ابيه، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" تعس عبد الدينار، وعبد الدرهم، وعبد الخميصة، إن اعطي رضي وإن لم يعط سخط تعس وانتكس، وإذا شيك فلا انتقش طوبى لعبد آخذ بعنان فرسه في سبيل الله اشعث راسه مغبرة قدماه، إن كان في الحراسة كان في الحراسة، وإن كان في الساقة كان في الساقة، إن استاذن لم يؤذن له، وإن شفع لم يشفع" قال: ابو عبد الله لم يرفعه إسرائيل ومحمد بن جحادة عن ابي حصين، وقال: تعسا كانه يقول فاتعسهم الله طوبى فعلى من كل شيء طيب وهي ياء حولت إلى الواو وهي من يطيب.(مرفوع) وَزَادَنَا عَمْرٌو، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" تَعِسَ عَبْدُ الدِّينَارِ، وَعَبْدُ الدِّرْهَمِ، وَعَبْدُ الْخَمِيصَةِ، إِنْ أُعْطِيَ رَضِيَ وَإِنْ لَمْ يُعْطَ سَخِطَ تَعِسَ وَانْتَكَسَ، وَإِذَا شِيكَ فَلَا انْتَقَشَ طُوبَى لِعَبْدٍ آخِذٍ بِعِنَانِ فَرَسِهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَشْعَثَ رَأْسُهُ مُغْبَرَّةٍ قَدَمَاهُ، إِنْ كَانَ فِي الْحِرَاسَةِ كَانَ فِي الْحِرَاسَةِ، وَإِنْ كَانَ فِي السَّاقَةِ كَانَ فِي السَّاقَةِ، إِنِ اسْتَأْذَنَ لَمْ يُؤْذَنْ لَهُ، وَإِنْ شَفَعَ لَمْ يُشَفَّعْ" قَالَ: أَبُو عَبْدِ اللهِ لَمْ يَرْفَعْهُ إِسْرَائِيلُ وَمُحَمَّدُ بْنُ جُحَادَةَ عَنْ أَبِي حَصِينٍ، وَقَالَ: تَعْسًا كَأَنَّهُ يَقُولُ فَأَتْعَسَهُمُ اللَّهُ طُوبَى فُعْلَى مِنْ كُلِّ شَيْءٍ طَيِّبٍ وَهِيَ يَاءٌ حُوِّلَتْ إِلَى الْوَاوِ وَهِيَ مِنْ يَطِيبُ.
اور عمرو ابن مرزوق نے ہم سے بڑھا کر بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن دینار نے خبر دی، انہوں نے اپنے باپ سے، انہوں نے ابوصالح سے، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اشرفی کا بندہ اور روپے کا بندہ اور کمبل کا بندہ تباہ ہوا، اگر اس کو کچھ دیا جائے تب تو خوش جب نہ دیا جائے تو غصہ ہو جائے، ایسا شخص تباہ سرنگوں ہوا۔ اس کو کانٹا لگے تو اللہ کرے پھر نہ نکلے۔ مبارک کا مستحق ہے وہ بندہ جو اللہ کے راستے میں (غزوہ کے موقع پر) اپنے گھوڑے کی لگام تھامے ہوئے ہے، اس کے سر کے بال پراگندہ ہیں اور اس کے قدم گرد و غبار سے اٹے ہوئے ہیں، اگر اسے چوکی پہرے پر لگا دیا جائے تو وہ اپنے اس کام میں پوری تندہی سے لگا رہے اور اگر لشکر کے پیچھے (دیکھ بھال کے لیے) لگا دیا جائے تو اس میں بھی پوری تندہی اور فرض شناسی سے لگا رہے۔ (اگرچہ زندگی میں غربت کی وجہ سے اس کی کوئی اہمیت بھی نہ ہو کہ) اگر وہ کسی سے ملاقات کی اجازت چاہے تو اسے اجازت بھی نہ ملے اور اگر کسی کی سفارش کرے تو اس کی سفارش بھی قبول نہ کی جائے۔ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے کہا کہ اسرائیل اور محمد بن جحادہ نے ابوحصین سے یہ روایت مرفوعاً نہیں بیان کی ہے اور کہا کہ قرآن مجید میں جو لفظ «تعسا‏» آیا ہے گویا یوں کہنا چاہئے کہ «فأتعسهم الله‏.‏» (اللہ انہیں گرائے ہلاک کرے) «طوبى فعلى» کے وزن پر ہے ہر اچھی اور طیب چیز کے لیے۔ واو اصل میں یا تھا (طیبیٰ) پھر یا کو واو سے بدل دیا گیا اور یہ طیب سے نکلا ہے۔

Narrated Abu Huraira: The Prophet said, " Let the slave of Dinar and Dirham, of Quantify and Khamisa perish as he is pleased if these things are given to him, and if not, he is displeased. Let such a person perish and relapse, and if he is pierced with a thorn, let him not find anyone to take it out for him. Paradise is for him who holds the reins of his horse to strive in Allah's Cause, with his hair unkempt and feet covered with dust: if he is appointed in the vanguard, he is perfectly satisfied with his post of guarding, and if he is appointed in the rearward, he accepts his post with satisfaction; (he is so simple and unambiguous that) if he asks for permission he is not permitted, and if he intercedes, his intercession is not accepted."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 52, Number 137


   صحيح البخاري2887عبد الرحمن بن صخرتعس عبد الدينار والدرهم والقطيفة والخميصة إن أعطي رضي وإن لم يعط لم يرض
   صحيح البخاري6435عبد الرحمن بن صخرتعس عبد الدينار والدرهم والقطيفة والخميصة إن أعطي رضي وإن لم يعط لم يرض
   جامع الترمذي2375عبد الرحمن بن صخرلعن عبد الدينار لعن عبد الدرهم
   سنن ابن ماجه4135عبد الرحمن بن صخرتعس عبد الدينار وعبد الدرهم وعبد القطيفة وعبد الخميصة
   سنن ابن ماجه4136عبد الرحمن بن صخرتعس عبد الدينار وعبد الدرهم وعبد الخميصة تعس وانتكس وإذا شيك فلا انتقش
   بلوغ المرام1267عبد الرحمن بن صخر‏‏‏‏تعس عبد الدينار والدرهم والقطيفة إن اعطي رضي وإن لم يعط لم يرض
   صحيح البخاري2886عبد الرحمن بن صخرتعس عبد الدينار والدرهم، والقطيفة، والخميصة إن اعطي رضي وإن لم يعط، لم يرض

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ مبشر احمد رباني حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2887  
´اشرفی کا بندہ تباہ ہوا`
«. . . عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" تَعِسَ عَبْدُ الدِّينَارِ، وَعَبْدُ الدِّرْهَمِ، وَعَبْدُ الْخَمِيصَةِ . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اشرفی کا بندہ اور روپے کا بندہ اور کمبل کا بندہ تباہ ہوا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ: 2887]

فوائد و مسائل
❀ حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«تعس عبدالدينار وعبدالدرهم وعبد القطيفة»
درہم و دینار اور چادر کا بندہ تباہ ہو گیا۔ [ابن ماجه، كتاب الزهد، باب فى المكثرين 4135، بخاري الجهاد و السير، باب الحراسته فى الغزو فى سبيل الله 2886]
↰ ان احادیث سے معلوم ہوا کہ عبد کی اضافت اسماء میں جب غیر اللہ کی طرف ہوتی ہے تو یہ لفظ عبادت کے معنوں میں مستعمل ہوتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے ناموں کو بدل دیا تھا کیونکہ یہ شرکیہ نام ہیں۔ اگر انھیں شرکیہ نہ سمجھا جائے تو پھر ان میں شرک کی بو ضرور موجود ہے۔
   احکام و مسائل، حدیث\صفحہ نمبر: 20   
   الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1267    
پیسے کا غلام ہلاک ہو گیا
«وعن ابي هريرة رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: ‏‏‏‏تعس عبد الدينار والدرهم والقطيفة إن اعطي رضي وإن لم يعط لم يرض .‏‏‏‏ اخرجه البخاري»
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہلاک ہو گیا دینار، درہم اور چادر کا غلام اگر اسے دیا جائے تو خوش ہو جاتا ہے اور اگر اسے نہ دیا جائے تو خوش نہیں ہوتا۔ بخاری۔ [بلوغ المرام/كتاب الجامع: 1267]

تخریج:
[بخاري 6435]
[تحفته الاشراف 431/9، 439/9 ]

مفردات: «تَعِسَ» «مَنَعَ» اور «سَمِعَ» دونوں کے وزن پر آتا ہے جب کسی کو مخاطب کرنا ہو تو «‏‏‏‏مَنَعَ» استعمال کرتے ہیں،
مثلاً «تَعَسْتَ» اور جب کسی کے بارے میں بیان کرنا ہو تو «فَرِح» کی طرح مثلاً «تَعِسَ» «فُلَانٌ» اس کا معنی ہلاک ہو گیا، پھسل گیا، گر گیا۔ [قاموس ]
«اَلْقَطِيْفَةِ» وہ چادر جس کو جھالر لگی ہو۔

فوائد:
➊ اس حدیث میں دینار، درہم اور چادر کا ذکر بطور مثال ہے مراد یہ ہے کہ وہ آدمی دنیا کی طلب میں اس مقام پر جا پہنچا کہ دنیا کی چیزیں اس کے مالک کی طرح اسے ہر طرف لیے پھرتی ہیں انہیں حاصل کرنے کے لیے وہ ہر ذلت برداشت کرنے کے لئے تیار ہے جس طرح غلام مالک کا ہر حکم مانتا ہے اس کی خوشی اور ناخوشی بھی اسی کے ارد گرد گھومتی ہے کہ اس کی پسندیدہ دنیا کی چیز اسے ملتی ہے یا نہیں اللہ تعالیٰ نے منافقین کے متعلق فرمایا:
«وَمِنْهُم مَّن يَلْمِزُكَ فِي الصَّدَقَاتِ فَإِنْ أُعْطُوا مِنْهَا رَضُوا وَإِن لَّمْ يُعْطَوْا مِنْهَا إِذَا هُمْ يَسْخَطُونَ» [ 9-التوبة:58 ]
اور بعض لوگ ان میں سے ایسے ہیں کہ صدقات کی تقسیم میں تجھ پر طعن کرتے ہیں۔ اگر ان کو کچھ مل جاتا ہے تو خوش ہو جاتے ہیں اور اگر نہیں ملتا تو فورا بگڑ بیٹھتے ہیں۔
پھر دنیا میں لوگوں کی پسندیدہ چیزیں بھی مختلف ہیں کوئی مال کا بھوکا ہے، کوئی عہدہ کا،کوئی حسینوں کا غلام ہے، کوئی جائیداد اور کوٹھیوں کے چکر میں گرفتار ہے۔
➋ انسان کی پیدائش کا اصل مقصد اللہ کی عبادت کرنا ہے۔
«وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ» [51-الذاريات:56]
اور میں نے جن و انس کو اسی لیے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔
اس لئے اس کا اصل مقصد اللہ کی رضا ہونا چاہیے دنیا کمانا یا اس کی خواہش رکھنا منع نہیں شرط صرف یہ ہے کہ آدمی ان چیزوں کا غلام نہ بنے بلکہ اللہ کا غلام بنے یہ چیزیں اس کو اللہ کی غلامی سے غافل نہ کر دیں۔ بلکہ وہ دنیا بھی اسی لیے حاصل کرے کہ وہ اللہ کی بندگی میں اس کی معاون ہو گی۔ ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائے جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا ہے:
«وَمِنَ النَّاسِ مَن يَعْبُدُ اللَّـهَ عَلَى حَرْفٍ فَإِنْ أَصَابَهُ خَيْرٌ اطْمَأَنَّ بِهِ وَإِنْ أَصَابَتْهُ فِتْنَةٌ انقَلَبَ عَلَى وَجْهِهِ خَسِرَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةَ ذَلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِينُ» [22-الحج:11]
اور لوگوں میں سے ایک وہ بھی ہے جو اللہ کی عبادت کنارے پر (رہ کر) کرتا ہے سو اگر اسے بھلائی حاصل ہو جائے تو اس کے ساتھ مطمئن ہو جاتا ہے اگر اسے آزمائش آ جائے تو اپنے چہرے پر پھر جاتا ہے۔ یہ دنیا اور آخرت میں نامراد ہو گیا واقعی یہ کھلا نقصان ہے۔
   شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث\صفحہ نمبر: 104   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4136  
´مالداروں کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہلاک ہوا دینار کا بندہ، درہم کا بندہ اور شال کا بندہ، وہ ہلاک ہو اور (جہنم میں) اوندھے منہ گرے، اگر اس کو کوئی کانٹا چبھ جائے تو کبھی نہ نکلے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4136]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
دنیا کا لالچ مذموم ہے۔

(2)
جب محبت ونفرت کی بنیاد محض دنیوی مفاد پر ہوجائے تو خلوص باقی نہیں رہتا۔
اس صورت میں خلیفۃالمسلمین یا اس کے نائب سے بیعت بھی اللہ کی رضا کے لیے اور اسلامی سلطنت کی حفاظت اور خدمت کے لیے نہیں ہوتی۔
اس طرح یہ عظیم نیکی بھی تمام برکات سے محروم ہوکر برائی میں تبدیل ہوجاتی ہے۔

(3)
دینی جماعتوں اور تنظیموں سے تعلق اللہ کی رضا اور ثواب کے لیے ہونا چاہیے۔
اسی نیت سے عہدہ اور ذمہ داری قبول کی جائےاگر محسوس ہو کہ محنت کرنے کے باوجود جماعت میں اہلیت تسلیم نہیں کی جارہی تو اکابر سے ناراض ہوکر جماعت سے الگ نہ ہوجائے۔
ہاں اگر یہ محسوس کیا جائے کہ جماعت یا تنظیم کے عہدیدار صحیح انداز سے کام نہیں کررہے اور توجہ دلانے کے باوجود اصلاح پر آمادہ نہیں تو خاموشی کے ساتھ تنظیم سے الگ ہوجائے۔

(4)
درہم و دینار کے بندے سے مراد وہ شخص ہے جو دنیا کے مال ودولت کی اتنی خواہش رکھتا ہے کہ اس کی تمام سر گرمیوں کا محور حصول دولت بن کر رہ جاتا ہے۔
اس طرح وہ دولت سے خدمت لینے کی بجائے دولت جمع کرنے اور سنبھالنے میں مصروف رہتا ہے گویا دولت اس کا آقا یا معبود ہے اور وہ غلام یا پجاری۔

(5)
دولت کے پجاری کے لیے بد دعا کی گئی ہے کہ وہ تباہ ہوجائے۔
منہ کے بل گرنے اور سر کے بل اوندھا ہوجانے سے یہی مراد ہے۔
کانٹا نہ نکالےجانے سے مراد یہ ہے کہ وہ مشکلات میں پھنسا رہے اور اس کی مدد اور نجات کی کوئی صورت پیدا نہ ہو۔
واللہ اعلم۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 4136   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2375  
´درہم و دینار کے پجاری ملعون ہیں۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دینار کا بندہ ملعون ہے، درہم کا بندہ ملعون ہے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الزهد/حدیث: 2375]
اردو حاشہ:
نوٹ:
(سند میں حسن بصری مدلس ہیں،
اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ان کا سماع بھی نہیں ہے،
اور روایت عنعنہ سے ہے)

   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2375   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2887  
2887. حضرت ابوہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ہلاک ہوا درہم ودینار سے منقش چادر کا بندہ، اگر اسے مل جائے توراضی، نہ ملے تو ناراض۔ اللہ کرے یہ ہلاک ہوجائے۔ سرنگوں ہوکر گر پڑے۔ اگر اسے کانٹا چبھے توکوئی نہ نکالے۔ اور اس شخص کے لیے خوشخبری ہے جس نے جہاد کے لیے گھوڑے کی باگ پکڑی ہے اس کا سر پراگندہ اور پاؤں خاک آلودہ ہیں۔ اگر وہ پاسبان ہے تو پاسبانی کرے اور اگروہ لشکر کے پیچھے حفاظت پر مامور ہوتو لشکر کے پیچھے رہے۔ اگر وہ (جانے کی) اجازت مانگے تو اجازت نہ ملے اور اگر وہ کسی کی سفارش کرے تو قبول نہ کی جائے۔ امام بخاری ؒنے (قرآن مجید کے لفظ) تعساً کی بابت فرمایا: گویا کہ یوں فرمایا جارہاہے: اللہ نے انھیں ہلاک کردیا۔ طوبى 'فعليٰ کے وزن پر ہے، ہر اچھی پاکیزہ چیز پر بولا جاتا ہے۔ اس میں جوواؤہے، یہ دراصل "یاء" تھا، یعنی طُيبي اس(یاء) کوواؤ سے بدلاگیا ہے، اور یہ يطيبُ سےہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2887]
حدیث حاشیہ:
حدیث ہذا میں ایک غریب مخلص مرد مجاہد کے چوکی پہرہ دینے کا ذکر ہے‘ یہی باب سے وجہ مطابقت ہے‘ اللہ والے بزرگ ایسے ہی پوشیدہ غریب نامعلوم غیر مشہور بزرگ ہوتے ہیں جن کی دعائیں اللہ قبول کرتا ہے مگر یہ مقام ہر کسی کو نصیب نہیں ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2887   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2887  
2887. حضرت ابوہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ہلاک ہوا درہم ودینار سے منقش چادر کا بندہ، اگر اسے مل جائے توراضی، نہ ملے تو ناراض۔ اللہ کرے یہ ہلاک ہوجائے۔ سرنگوں ہوکر گر پڑے۔ اگر اسے کانٹا چبھے توکوئی نہ نکالے۔ اور اس شخص کے لیے خوشخبری ہے جس نے جہاد کے لیے گھوڑے کی باگ پکڑی ہے اس کا سر پراگندہ اور پاؤں خاک آلودہ ہیں۔ اگر وہ پاسبان ہے تو پاسبانی کرے اور اگروہ لشکر کے پیچھے حفاظت پر مامور ہوتو لشکر کے پیچھے رہے۔ اگر وہ (جانے کی) اجازت مانگے تو اجازت نہ ملے اور اگر وہ کسی کی سفارش کرے تو قبول نہ کی جائے۔ امام بخاری ؒنے (قرآن مجید کے لفظ) تعساً کی بابت فرمایا: گویا کہ یوں فرمایا جارہاہے: اللہ نے انھیں ہلاک کردیا۔ طوبى 'فعليٰ کے وزن پر ہے، ہر اچھی پاکیزہ چیز پر بولا جاتا ہے۔ اس میں جوواؤہے، یہ دراصل "یاء" تھا، یعنی طُيبي اس(یاء) کوواؤ سے بدلاگیا ہے، اور یہ يطيبُ سےہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2887]
حدیث حاشیہ:

اپنے کام سے دل جمی رکھنے والے واقعی گم نام اور خاموش طبع ہوتے ہیں۔
ایسے لوگوں کوکرسی کی چاہت اور شہرت کی طلب نہیں ہوتی۔
دنیاداروں کے ہاں ایسےشخص کو کوئی قدر وقیمت نہیں ہوتی لیکن اللہ کے ہاں ان کا بہت اونچا مقام ہوتا ہے۔
انھیں اپنے کام سے غرض ہوتی ہے۔
جہاں ان کی ڈیوٹی لگائے جائے وہ اسے پوری طرح انجام دیتے ہیں۔
اگرچہ خلاف طبع امور کیوں نہ پیش آئیں وہ خدمت کی بجا آوری سے سرمو انحراف نہیں کرتے۔

امام بخاری ؒنے اللہ کی راہ میں پہرہ دینے کی فضیلت ثابت کی ہے کہ اس میں ایک غریب،مخلص مرد مجاہد کے پہرہ دینے کا ذکر ہے جسے اللہ اور اس کے رسول مقبول ﷺنے پسندفرمایا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2887   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.