الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: جہاد کا بیان
The Book of Jihad (Fighting For Allah’S Cause)
131. بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنْ رَفْعِ الصَّوْتِ فِي التَّكْبِيرِ:
131. باب: بہت چلا کر تکبیر کہنا منع ہے۔
(131) Chapter. What is disliked as regards raising the voice when saying Takbir (i.e., Allah is the Most Great)
حدیث نمبر: 2992
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن يوسف، حدثنا سفيان، عن عاصم، عن ابي عثمان، عن ابي موسى الاشعري رضي الله عنه قال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فكنا إذا اشرفنا على واد هللنا وكبرنا ارتفعت اصواتنا، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" يا ايها الناس اربعوا على انفسكم فإنكم لا تدعون اصم، ولا غائبا، إنه معكم إنه سميع قريب تبارك اسمه وتعالى جده".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكُنَّا إِذَا أَشْرَفْنَا عَلَى وَادٍ هَلَّلْنَا وَكَبَّرْنَا ارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُنَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ ارْبَعُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ فَإِنَّكُمْ لَا تَدْعُونَ أَصَمَّ، وَلَا غَائِبًا، إِنَّهُ مَعَكُمْ إِنَّهُ سَمِيعٌ قَرِيبٌ تَبَارَكَ اسْمُهُ وَتَعَالَى جَدُّهُ".
ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عاصم نے، ان سے ابوعثمان نے، ان سے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ جب ہم کسی وادی میں اترتے تو «لا إله إلا الله» اور «الله اكبر» کہتے اور ہماری آواز بلند ہو جاتی اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے لوگو! اپنی جانوں پر رحم کھاؤ، کیونکہ تم کسی بہرے یا غائب اللہ کو نہیں پکار رہے ہو۔ وہ تو تمہارے ساتھ ہی ہے۔ بیشک وہ سننے والا اور تم سے بہت قریب ہے۔ برکتوں والا ہے۔ اس کا نام اور اس کی عظمت بہت ہی بڑی ہے۔

Narrated Abu Musa Al-Ash`ari: We were in the company of Allah's Apostle (during Hajj). Whenever we went up a high place we used to say: "None has the right to be worshipped but Allah, and Allah is Greater," and our voices used to rise, so the Prophet said, "O people! Be merciful to yourselves (i.e. don't raise your voice), for you are not calling a deaf or an absent one, but One Who is with you, no doubt He is All-Hearer, ever Near (to all things).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 52, Number 235


   صحيح البخاري2992عبد الله بن قيساربعوا على أنفسكم فإنكم لا تدعون أصم ولا غائبا إنه معكم إنه سميع قريب تبارك اسمه و جده
   صحيح البخاري6610عبد الله بن قيساربعوا على أنفسكم فإنكم لا تدعون أصم ولا غائبا إنم
   سنن أبي داود1526عبد الله بن قيسإنكم لا تدعون أصم ولا غائبا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1526  
´توبہ و استغفار کا بیان۔`
ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھا، جب لوگ مدینہ کے قریب پہنچے تو لوگوں نے تکبیر کہی اور اپنی آوازیں بلند کیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگو! تم کسی بہرے یا غائب کو آواز نہیں دے رہے ہو، بلکہ جسے تم پکار رہے ہو وہ تمہارے اور تمہاری سواریوں کی گردنوں کے درمیان ہے ۱؎، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابوموسیٰ! کیا میں تمہیں جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ نہ بتاؤں؟، میں نے عرض کیا: وہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ «لا حول ولا قوة إلا بالله» ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1526]
1526. اردو حاشیہ:
➊ اللہ عزوجل بذاتہ عرش معلیٰ پر ہے۔ اور اپنے علم۔ سمع۔ بصر۔ اور قدرت کے لہاظ سے اپنے بندوں اور مخلوق کے انتہائی قریب ہے۔ اسی مفہوم میں یہاں ذکر ہوا ہے کہ وہ تمہارے اور تمہاری سواریوں کی گردنوں کے درمیان ہے۔
➋ قران کریم اور احادیث صحیحہ میں اللہ عزوجل کی صفات دو انداز سے مذکور ہوئی ہیں۔ اثباتی اور سلبی۔ جیسا کہ سورہ اخلاص میں ہے کہ وہ اکیلا ہے۔ صمد ہے ان میں اثبات ہے۔ اس نے جنا نہیں وہ جنا نہیں گیا۔ کوئی اس کی برابری کرنے والا نہیں ہے۔ ان میں سلب کا اثبات ہے۔ مذکورہ بالا حدیث میں دوسری نوع کی صفات کا ذکر ہے۔ وہ بہرا نہیں ہے یعنی سمیع ہے۔ وہ غائب نہیں ہے۔ یعنی قریب ہے۔
➌ چلا چلا کر اللہ کا ذكر كرنا بے عقلی ہے۔ جن مواقع پر اونچی آوازسے ذکرکرنے کا بیان آیا ہے۔ وہاں آواز بالکل مناسب اور معقول رکھنے کی تعلیم ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ [وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذَٰلِكَ سَبِيلًا) [بني إسرایئل:110]
➍ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے کلمہ [لاحول ولاقوة ]
كو كلمه استدلام وتفويض سے تعبیر کیا ہے۔ یعنی بندہ فی ذاتہ کسی چیز کا مالک نہیں۔ مگر وہی جو اللہ چاہے۔
➎ شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اس میں (إِنَّ الذِي تدعونَه بينَكُم و بين أعناقِ ركابِكم]
بے شک جسے تم پکارتے ہو وہ تمہارے او ر تمہاری سواریوں کی گردنوں کے درمیان ہے۔ کے الفاظ منکر ضعیف ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1526   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2992  
2992. حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: ہم ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ جارہے تھے۔ جب ہم کسی بلندی پر چڑھتے تو روز سے لَا إلَهَ إِلَّا اللَّهُ اور الله أكبر کہتے۔ جب ہماری آوزیں بلند ہوئیں تو نبی ﷺ نے فرمایا: اے لوگوں! اپنی جانوں پر رحم کرو کیونکہ تم کسی بہرے یا غائب کو نہیں پکاررہے بلکہ وہ تو تمھارے ساتھ ہی ہے۔ بے شک وہ خوب سنتا ہے اور انتہائی قریب ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2992]
حدیث حاشیہ:
قسطلانی ؒنے طبری ؒ سے نقل کیا کہ اس حدیث سے ذکر بالجہر کی کراہیت ثابت ہوئی اور اکثر سلف صحابہ اور تابعین کا یہی قول ہے۔
میں (مولانا وحید الزمان مرحوم)
کہتا ہوں تحقیق اس باب میں یہ ہے کہ سنت کی پیروی کرنا چاہئے جہاں جہر آنحضرت ﷺ سے منقول ہے وہاں جہر کرنا بہتر ہے۔
جیسے اذان میں اور باقی مقاموں میں آہستہ ذکر کرنا بہتر ہے۔
بعضوں نے کہا اس حدیث میں جس جہر سے آپﷺ نے منع فرمایا وہ بہت زور کا جہر ہے جس سے لوگ پریشان ہوں‘ نہ جہر متوسط‘ بالجملہ بہت زور سے نعرے مارنا اور ضربیں لگانا جیسا کہ بعض درویشوں کا معمول ہے‘ سنت کے خلاف ہے اور حضرت ﷺ کی پیروی ان پیروں کی پیروی پر مقدم ہے۔
(وحیدی)
مگر اسلامی شان و شوکت کے اظہار کے لئے جنگ جہاد وغیرہ مواقع پر نعرہ تکبیر بلند کرنا یہ امر دیگر ہے جیسا کہ پیچھے مذکور ہوا۔
روایت میں اللہ کے ساتھ ہونے سے مراد یہ ہے کہ وہ ہر وقت تمہاری ہر بلند اور آہستہ آواز کو سنتا ہے اور تم کو ہر وقت وہ دیکھ رہا ہے۔
وہ اپنی ذات والا صفات سے عرش عظیم پر مستوی ہے۔
مگر اپنے علم اور سمع کے لحاظ سے ہر انسان کے ساتھ ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2992   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2992  
2992. حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: ہم ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ جارہے تھے۔ جب ہم کسی بلندی پر چڑھتے تو روز سے لَا إلَهَ إِلَّا اللَّهُ اور الله أكبر کہتے۔ جب ہماری آوزیں بلند ہوئیں تو نبی ﷺ نے فرمایا: اے لوگوں! اپنی جانوں پر رحم کرو کیونکہ تم کسی بہرے یا غائب کو نہیں پکاررہے بلکہ وہ تو تمھارے ساتھ ہی ہے۔ بے شک وہ خوب سنتا ہے اور انتہائی قریب ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2992]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ اللہ أکبر کہتے وقت آواز اس قدر بلند نہ کی جائے جو حد اعتدال اور حد جواز سے گزر جائے اور حد کراہت تک پہنچ جائے۔
مطلق بلند آواز سے منع نہیں کیا گیا بلکہ حد اعتدال سے تجاوز ممنوع ہے۔

واضح رہے کہ روایت میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہمارے ساتھ ہے جیسے اس کی شان کے لائق ہےوہ ہر وقت ہماری بلند آہستہ آواز سنتا ہے اور ہمیں ہر آن دیکھ رہا ہے نیز اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے غائب کے مقابلے میں قریب کو بیان کیا ہے حالانکہ غائب کے مقابلے میں حاضر ہوتا ہے اس سے معلوم ہوا کہ حاضر و ناظر صفات الٰہیہ سے نہیں ہے لیکن ہم لوگ ان الفاظ کو بطور صفات الٰہیہ بکثرت استعمال کرتے ہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2992   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.