الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: تقدیر کے بیان میں
The Book of Al-Qadar (Divine Preordainment)
7. بَابُ لاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلاَّ بِاللَّهِ:
7. باب: «لا حول ولا قوة إلا بالله» کی فضیلت کا بیان۔
(7) Chapter. La haula wa Ia quwwata Illa billah (There is neither might nor power except with Allah).
حدیث نمبر: 6610
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثني محمد بن مقاتل ابو الحسن، اخبرنا عبد الله، اخبرنا خالد الحذاء، عن ابي عثمان النهدي، عن ابي موسى، قال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزاة، فجعلنا لا نصعد شرفا، ولا نعلو شرفا، ولا نهبط في واد، إلا رفعنا اصواتنا بالتكبير، قال: فدنا منا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال" يا ايها الناس، اربعوا على انفسكم، فإنكم لا تدعون اصم ولا غائبا، إنما تدعون سميعا بصيرا، ثم قال: يا عبد الله بن قيس، الا اعلمك كلمة هي من كنوز الجنة: لا حول ولا قوة إلا بالله".(مرفوع) حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ أَبُو الْحَسَنِ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزَاةٍ، فَجَعَلْنَا لَا نَصْعَدُ شَرَفًا، وَلَا نَعْلُو شَرَفًا، وَلَا نَهْبِطُ فِي وَادٍ، إِلَّا رَفَعْنَا أَصْوَاتَنَا بِالتَّكْبِيرِ، قَالَ: فَدَنَا مِنَّا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ" يَا أَيُّهَا النَّاسُ، ارْبَعُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ، فَإِنَّكُمْ لَا تَدْعُونَ أَصَمَّ وَلَا غَائِبًا، إِنَّمَا تَدْعُونَ سَمِيعًا بَصِيرًا، ثُمَّ قَالَ: يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ قَيْسٍ، أَلَا أُعَلِّمُكَ كَلِمَةً هِيَ مِنْ كُنُوزِ الْجَنَّةِ: لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ".
مجھ سے ابوالحسن محمد بن مقاتل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم کو خالد حذاء نے خبر دی، انہیں ابوعثمان نہدی نے اور ان سے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوہ میں تھے اور جب بھی ہم کسی بلندی پر چڑھتے یا کسی نشیبی علاقہ میں اترتے تو تکبیر بلند آواز سے کہتے۔ بیان کیا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے قریب آئے اور فرمایا اے لوگو! اپنے آپ پر رحم کرو، کیونکہ تم کسی بہرے یا غیر موجود کو نہیں پکارتے بلکہ تم اس ذات کو پکارتے ہو جو بہت زیادہ سننے والا بڑا دیکھنے والا ہے۔ پھر فرمایا: اے عبداللہ بن قیس! (ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ) کیا میں تمہیں ایک کلمہ نہ سکھا دوں جو جنت کے خزانوں میں سے ہے۔ (وہ کلمہ ہے) «لا حول ولا قوة إلا بالله» یعنی طاقت و قوت اللہ کے سوا اور کسی کے پاس نہیں۔

Narrated Abu Musa: While we were with Allah's Apostle in a holy battle, we never went up a hill or reached its peak or went down a valley but raised our voices with Takbir. Allah's Apostle came close to us and said, "O people! Don't exert yourselves, for you do not call a deaf or an absent one, but you call the All- Listener, the All-Seer." The Prophet then said, "O `Abdullah bin Qais! Shall I teach you a sentence which is from the treasures of Paradise? ( It is): 'La haula wala quwata illa billah. (There is neither might nor power except with Allah).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 77, Number 607


   صحيح البخاري2992عبد الله بن قيساربعوا على أنفسكم فإنكم لا تدعون أصم ولا غائبا إنه معكم إنه سميع قريب تبارك اسمه و جده
   صحيح البخاري6610عبد الله بن قيساربعوا على أنفسكم فإنكم لا تدعون أصم ولا غائبا إنم
   سنن أبي داود1526عبد الله بن قيسإنكم لا تدعون أصم ولا غائبا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1526  
´توبہ و استغفار کا بیان۔`
ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھا، جب لوگ مدینہ کے قریب پہنچے تو لوگوں نے تکبیر کہی اور اپنی آوازیں بلند کیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگو! تم کسی بہرے یا غائب کو آواز نہیں دے رہے ہو، بلکہ جسے تم پکار رہے ہو وہ تمہارے اور تمہاری سواریوں کی گردنوں کے درمیان ہے ۱؎، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابوموسیٰ! کیا میں تمہیں جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ نہ بتاؤں؟، میں نے عرض کیا: وہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ «لا حول ولا قوة إلا بالله» ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1526]
1526. اردو حاشیہ:
➊ اللہ عزوجل بذاتہ عرش معلیٰ پر ہے۔ اور اپنے علم۔ سمع۔ بصر۔ اور قدرت کے لہاظ سے اپنے بندوں اور مخلوق کے انتہائی قریب ہے۔ اسی مفہوم میں یہاں ذکر ہوا ہے کہ وہ تمہارے اور تمہاری سواریوں کی گردنوں کے درمیان ہے۔
➋ قران کریم اور احادیث صحیحہ میں اللہ عزوجل کی صفات دو انداز سے مذکور ہوئی ہیں۔ اثباتی اور سلبی۔ جیسا کہ سورہ اخلاص میں ہے کہ وہ اکیلا ہے۔ صمد ہے ان میں اثبات ہے۔ اس نے جنا نہیں وہ جنا نہیں گیا۔ کوئی اس کی برابری کرنے والا نہیں ہے۔ ان میں سلب کا اثبات ہے۔ مذکورہ بالا حدیث میں دوسری نوع کی صفات کا ذکر ہے۔ وہ بہرا نہیں ہے یعنی سمیع ہے۔ وہ غائب نہیں ہے۔ یعنی قریب ہے۔
➌ چلا چلا کر اللہ کا ذكر كرنا بے عقلی ہے۔ جن مواقع پر اونچی آوازسے ذکرکرنے کا بیان آیا ہے۔ وہاں آواز بالکل مناسب اور معقول رکھنے کی تعلیم ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ [وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذَٰلِكَ سَبِيلًا) [بني إسرایئل:110]
➍ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے کلمہ [لاحول ولاقوة ]
كو كلمه استدلام وتفويض سے تعبیر کیا ہے۔ یعنی بندہ فی ذاتہ کسی چیز کا مالک نہیں۔ مگر وہی جو اللہ چاہے۔
➎ شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اس میں (إِنَّ الذِي تدعونَه بينَكُم و بين أعناقِ ركابِكم]
بے شک جسے تم پکارتے ہو وہ تمہارے او ر تمہاری سواریوں کی گردنوں کے درمیان ہے۔ کے الفاظ منکر ضعیف ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1526   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6610  
6610. حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ہم ایک جنگ میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھے۔ جب ہم کسی اونچی جگہ پر چڑھتے اور اس پر بلند ہوتے یا کسی وادی کے نشیب میں اترتے تو بآواز بلند اللہ اکبر کہتے۔ اس دوران میں رسول اللہ ﷺ ہمارے قریب آئے اور فرمایا: لوگو! اپنے آپ پر رحم کرو کیونکہ تم کسی بہرے یا غیر حاضر کو نہیں پکار رہے بلکہ تم اس ہستی کو پکارتے ہو جو بہت سننے والا اور خوب دیکھنے والا ہے، پھر فرمایا: اے عبداللہ بن قیس! کیا میں تجھے ایک کلمہ نہ سکھاؤں جو جنت کے خزانوں میں سے ہے؟ وہ کلمہ لا حول ولا قوة إلا بالله ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6610]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس کلمے کے معنی یہ ہیں کہ گناہوں سے بچنے کی ہمت اور اچھے کام کرنے کی طاقت صرف اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے سامنے انتہائی بے بس اور لاچار ہے۔
اس کی توفیق کے علاوہ نہ تو گناہوں سے محفوظ رہ سکتا ہے اور نہ اس میں کوئی اچھا کام کرنے کی ہمت ہی ہے، ہاں جب اللہ توفیق دے تو اس کی اطاعت میں مصروف رہتا ہے۔
(2)
اس کلمے میں توحید کے ساتھ ساتھ تقدیر پر ایمان بھی ہے۔
ایک حدیث میں ہے کہ جب بندہ لا حول ولا قوة إلا بالله پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرا بندہ مطیع ہو گیا اور اس نے خود کو میرے حوالے کر دیا۔
(المستدرك للحاکم: 21/7)
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم معراج کی رات حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ملے تو انہوں نے فرمایا:
اے محمد! اپنی امت سے کہیں کہ وہ جنت میں بکثرت پودے لگائیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:
’‘جنت میں پودے کیسے لگائے جا سکتے ہیں؟ تو انہوں نے فرمایا:
وہ بکثرت لا حول ولا قوة إلا بالله پڑھیں۔
(مسند أحمد: 418/5)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 6610   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.