الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
The Book of Commentary
108. سورة {إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرِ} :
108. باب: سورۃ «إنا أعطيناك الكوثر» کی تفسیر۔
(108) SURAT AL-KAUTHAR (A River in Paradise)
حدیث نمبر: Q4964
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
وقال ابن عباس: شانئك: عدوك.وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: شَانِئَكَ: عَدُوَّكَ.
‏‏‏‏ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «شانئك» تیرا دشمن۔

حدیث نمبر: 4964
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا آدم، حدثنا شيبان، حدثنا قتادة، عن انس رضي الله عنه، قال: لما عرج بالنبي صلى الله عليه وسلم إلى السماء، قال:"اتيت على نهر حافتاه قباب اللؤلؤ مجوفا، فقلت: ما هذا يا جبريل؟" قال:" هذا الكوثر".(مرفوع) حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: لَمَّا عُرِجَ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى السَّمَاءِ، قَالَ:"أَتَيْتُ عَلَى نَهَرٍ حَافَتَاهُ قِبَابُ اللُّؤْلُؤِ مُجَوَّفًا، فَقُلْتُ: مَا هَذَا يَا جِبْرِيلُ؟" قَالَ:" هَذَا الْكَوْثَرُ".
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شیبان بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے بیان کیا، ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج ہوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں ایک نہر پر پہنچا جس کے دونوں کناروں پر خولدار موتیوں کے ڈیرے لگے ہوئے تھے۔ میں نے پوچھا اے جبرائیل! یہ نہر کیسی ہے؟ انہوں نے بتایا کہ یہ حوض کوثر ہے (جو اللہ نے آپ کو دیا ہے)۔

Narrated Anas: When the Prophet was made to ascend to the Heavens, he said (after his return), "I came upon a river the banks of which were made of tents of hollow pearls. I asked Gabriel. What is this (river?' He replied, 'This is the Kauthar.'
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 488


   صحيح البخاري6581أنس بن مالكبينما أنا أسير في الجنة إذا أنا بنهر حافتاه قباب الدر المجوف الكوثر الذي أعطاك ربك مسك أذفر
   صحيح البخاري4964أنس بن مالكأتيت على نهر حافتاه قباب اللؤلؤ مجوفا هذا الكوثر
   صحيح مسلم894أنس بن مالكالكوثر إنه نهر وعدنيه ربي عليه خير كثير هو حوض ترد عليه أمتي يوم القيامة آنيته عدد النجوم يختلج العبد منهم فأقول يا رب إنه من أمتي
   جامع الترمذي3359أنس بن مالكإنا أعطيناك الكوثر هو نهر في الجنة
   جامع الترمذي2542أنس بن مالكما الكوثر قال ذاك نهر أعطانيه الله يعني في الجنة أشد بياضا من اللبن أحلى من العسل فيها طير أعناقها كأعناق الجزر إن هذه لناعمة قال رسول الله أكلتها أحسن منها
   جامع الترمذي3360أنس بن مالكبينا أنا أسير في الجنة إذ عرض لي نهر حافتاه قباب اللؤلؤ الكوثر الذي أعطاكه الله طينة فاستخرج مسكا رفعت لي سدرة المنتهى فرأيت عندها نورا عظيما
   جامع الترمذي3359أنس بن مالكرأيت نهرا في الجنة حافتاه قباب اللؤلؤ الكوثر الذي أعطاكه الله
   سنن أبي داود4748أنس بن مالكعرض له نهر حافتاه الياقوت المجيب أو قال المجوف استخرج مسكا الكوثر الذي أعطاك الله
   سنن أبي داود4747أنس بن مالكالكوثر نهر وعدنيه ربي في الجنة وعليه خير كثير عليه حوض ترد عليه أمتي يوم القيامة آنيته عدد الكواكب
   سنن أبي داود784أنس بن مالكالكوثر نهر وعدنيه ربي في الجنة
   سنن النسائى الصغرى905أنس بن مالكالكوثر هذا نهر وعدنيه ربي في الجنة آنيته أكثر من عدد الكواكب ترد علي أمتي يختلج العبد منهم فأقول يارب إنه من أمتي يقول إنك لا تدري ما أحدثوا بعدك

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 784  
´ «بسم الله الرحمن الرحيم» زور سے نہ پڑھنے کے قائلین کی دلیل کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابھی ابھی مجھ پر ایک سورۃ نازل ہوئی ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھا: «بسم الله الرحمن الرحيم * إنا أعطيناك الكوثر» یہاں تک کہ آپ نے پوری سورۃ ختم فرما دی، پھر پوچھا: تم جانتے ہو کہ کوثر کیا ہے؟، لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس کو زیادہ جانتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوثر ایک نہر کا نام ہے، جسے میرے رب نے مجھے جنت میں دینے کا وعدہ کیا ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 784]
784۔ اردو حاشیہ:
مذکورۃ الصدر دونوں احادیث صحیح اور حسن ہیں۔ لہٰذا ترجیح صحیح احادیث کو ہے۔ نیز اگلے باب کی حدیث کہ «بسم الله» سے دو صورتوں کے مابین فرق و فصل نمایاں ہوتا تھا۔ اس سے یہی جانب راحج معلوم ہوتی ہے کہ «بسم الله» سورت کا جز نہیں۔ تفصیل کے لئے دیکھیے: نیل الاوطار۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 784   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 905  
´(نماز میں) «‏‏‏‏بسم اللہ الرحمن الرحیم» ‏‏‏‏ پڑھنے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن آپ یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان تشریف فرما تھے کہ یکایک آپ کو جھپکی سی آئی، پھر مسکراتے ہوئے نے اپنا سر اٹھایا، تو ہم نے آپ سے پوچھا: اللہ کے رسول! آپ کو کس چیز نے ہنسایا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھ پر ابھی ابھی ایک سورت اتری ہے «‏‏‏‏بسم اللہ الرحمن الرحيم ‏* إنا أعطيناك الكوثر * فصل لربك وانحر * إن شانئك هو الأبتر» شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان، نہایت رحم والا ہے، یقیناً ہم نے آپ کو کوثر عطا فرمائی، تو آپ اپنے رب کے لیے صلاۃ پڑھیں، اور قربانی کریں، یقیناً آپ کا دشمن ہی لاوارث اور بے نام و نشان ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا تم جانتے ہو کہ کوثر کیا ہے؟ ہم نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ جنت کی ایک نہر ہے جس کا میرے رب نے وعدہ کیا ہے، جس کے آبخورے تاروں کی تعداد سے بھی زیادہ ہیں، میری امت اس حوض پر میرے پاس آئے گی، ان میں سے ایک شخص کھینچ لیا جائے گا تو میں کہوں گا: میرے رب! یہ تو میری امت میں سے ہے؟ تو اللہ تعالیٰ مجھ سے فرمائے گا: تمہیں نہیں معلوم کہ اس نے تمہارے بعد کیا کیا بدعتیں ایجاد کی ہیں۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الافتتاح/حدیث: 905]
905 ۔ اردو حاشیہ:
➊ سورۂ کوثر میں مذکور الکوثر کی تفسیر میں اسلاف اہل علم کا اختلاف ہے۔ مختلف اہل علم صحابہ اور تابعین وغیرہ نے اس کی مختلف تفسیریں بیان کی ہیں لیکن اس حدیث میں خود زبان رسالت سے الکوثر کی تفسیر معلوم ہو گئی ہے کہ وہ جنت میں ایک نہر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا وعدہ کیا گیا ہے۔ وہ بہت وسیع و عریض ہے۔ اس طرح کہ اس کی لمبائی اور چوڑائی برابر ہیں۔ اس کے آب خورے آسمان کے تاروں سے بھی زیادہ ہیں۔ اس کے متعلق حدیث شریف میں یہ صراحت بھی ہے کہ جس نے اس نہر کا پانی پی لیا، اسے کبھی پیاس نہیں لگے گی۔ اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے اور اس کی خوشبو کستوری کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ ہے۔ [صحیح البخاري، الرقاق، حدیث: 6579، وصحیح مسلم، الفضائل، حدیث: 2292]
➋ مقتدی اپنے امام سے، چھوٹا اپنے بڑے سے اور اسی طرح مرید اپنے پیر سے کوئی نئی بات دیکھ کر اس کی بابت سوال کر سکتا ہے جس طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسکراتے دیکھا تو آپ سے مسکرانے کا سبب پوچھ لیا۔ بزرگوں اور مشائخ کو ایسے سوال کا جواب بھی دینا چاہیے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اس سوال کا جواب بھی دیا تھا۔
➌ اس اونگھ سے مراد وحی کی کیفیت ہو گی۔
➍ امام صاحب کا استدلال یہ ہے کہ (بسم اللہ الرحمن الرحیم) سورت کا جز ہے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھا اگرچہ یہ احتمال بھی ہے کہ آپ نے (بسم اللہ الرحمن الرحیم) تبرکا پڑھی ہو۔ دونوں صورتوں میں ہر سورت سے پہلے (بسم اللہ الرحمن الرحیم) پڑھنی ہے، خواہ جز ہو یا تبرک کے طور پر۔ البتہ سروجہر، یعنی آہستہ اور اونچی کی بحث ہو سکتی ہے۔ آپ نے مندرجہ بالا حدیث میں تو جہراً ہی پڑھی ہے مگر یہ نماز سے باہر کی بات ہے۔ نماز کے اندر اکثر روایات آہستہ پڑھنے کے بارے میں آتی ہیں اگرچہ کبھی کبھار جہرا بھی جائز ہے۔
➎ امام شافعی (بسم اللہ الرحمن الرحیم) کو ہر سورت کا جز سمجھتے ہیں جب کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اسے تبرک خیال کرتے ہیں۔ درست بات یہ ہے کہ یہ سورۂ فاتحہ کا جز ہے۔
آپ کے بعد اس نے کیا نیاکام کیا۔ یہ اشارہ ارتداد کی طرف بھی ہو سکتا ہے اور بدعات کے اجرا کی طرف بھی۔ واللہ أعلم۔
➐ بدعت اس قدر خطرناک اور سنگین جرم ہے کہ روزقیامت بدعتی شخص کو حوض کوثر سے دور ہٹا کر جہنم کی طرف دھکیل دیا جائے گا۔
➑ بدعتی کو حوض کوثر کے پانی کا ایک گھونٹ بھی نصیب نہیں ہو گا کیونکہ بدعتی نے جرم عظیم کا ارتکاب کیا کہ اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو بدلا اور خود کو مقام رسالت پر فائز کر لیا، لہٰذا اس کے لیے سخت ترین وعید ہے۔ اعاذنا اللہ منه۔
➒ اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عالم الغیب نہیں۔
➓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس جہان فانی سے رخصت ہو چکے ہیں۔
(11) اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مختار کل نہیں۔ قیامت والے دن بھی صرف اسے ہی نجات ملے گی جسے اللہ چاہے گا۔ اور اسے معاف فرمائے گا، لہٰذا درج ذیل عقیدہ تعلیمات نبوی کے منافی اور ایمان کے فنا کا موجب ہے کہ اللہ کے پلڑے میں وحدت کے سوا کیا ہے جو کچھ ہمیں لینا ہے لے لیں گے محمد سے
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 905   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3359  
´سورۃ الکوثر سے بعض آیات کی تفسیر۔`
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ارشاد باری «إنا أعطيناك الكوثر» کے متعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ ایک نہر ہے جنت میں جس کے دونوں کناروں پر موتی کے گنبد بنے ہوئے ہیں، میں نے کہا: جبرائیل! یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا: یہ وہ کوثر ہے جو اللہ نے آپ کو دی ہے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3359]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ کوثر وہ خیر کثیر ہے جو نبیﷺکو دی گئی ہے اس پر بعض لوگوں نے ان کے شاگرد سعید بن جبیرسے کہا کہ کہا تو یہ جاتا ہے کہ وہ ایک نہر ہے جنت میں؟ تو اس پر سعید بن جبیر نے کہا:
یہ نہر بھی منجملہ خیر کثیر ہی کے ہے گویا سعید بن جبیر نے دونوں روایتوں کے درمیان تطبیق دینے کی کوشش کی ہے،
ویسے جب بزبان رسالت مآب صحیح سند سے یہ تصریح آ گئی کہ کوثر جنت میں ایک نہر ہے تو پھر کسی اور روایت کی طرف جانے کی ضرورت نہیں (تحفة وتفسیرابن جریر)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3359   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.