الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: دل کو نرم کرنے والی باتوں کے بیان میں
The Book of Ar-Riqaq (Softening of The Hearts)
18. بَابُ الْقَصْدِ وَالْمُدَاوَمَةِ عَلَى الْعَمَلِ:
18. باب: نیک عمل پر ہمیشگی کرنا اور درمیانی چال چلنا (نہ کمی ہو نہ زیادتی)۔
(18) Chapter. The adoption of a middle course (not to go to extremes), and the regularity of one’s deeds.
حدیث نمبر: 6467
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا محمد بن الزبرقان، حدثنا موسى بن عقبة، عن ابي سلمة بن عبد الرحمن، عن عائشة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" سددوا، وقاربوا، وابشروا، فإنه لا يدخل احدا الجنة عمله"، قالوا: ولا انت يا رسول الله، قال:" ولا انا، إلا ان يتغمدني الله بمغفرة ورحمة"، قال اظنه عن ابي النضر، عن ابي سلمة، عن عائشة، وقال عفان، حدثنا وهيب، عن موسى بن عقبة، قال: سمعت ابا سلمة، عن عائشة، عن النبي صلى الله عليه وسلم:" سددوا وابشروا"، قال مجاهد: قولا سديدا وسدادا صدقا.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الزِّبْرِقَانِ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" سَدِّدُوا، وَقَارِبُوا، وَأَبْشِرُوا، فَإِنَّهُ لَا يُدْخِلُ أَحَدًا الْجَنَّةَ عَمَلُهُ"، قَالُوا: وَلَا أَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:" وَلَا أَنَا، إِلَّا أَنْ يَتَغَمَّدَنِي اللَّهُ بِمَغْفِرَةٍ وَرَحْمَةٍ"، قَالَ أَظُنُّهُ عَنْ أَبِي النَّضْرِ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، وَقَالَ عَفَّانُ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" سَدِّدُوا وَأَبْشِرُوا"، قَالَ مُجَاهِدٌ: قَوْلًا سَدِيدًا وَسَدَادًا صِدْقًا.
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن زبرقان نے، کہا ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے، ان سے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے، ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دیکھو جو نیک کام کرو ٹھیک طور سے کرو اور حد سے نہ بڑھ جاؤ بلکہ اس کے قریب رہو (میانہ روی اختیار کرو) اور خوش رہو اور یاد رکھو کہ کوئی بھی اپنے عمل کی وجہ سے جنت میں نہیں جائے گا۔ صحابہ نے عرض کیا: اور آپ بھی نہیں یا رسول اللہ! فرمایا اور میں بھی نہیں۔ سوا اس کے کہ اللہ اپنی مغفرت و رحمت کے سایہ میں مجھے ڈھانک لے۔ مدینی نے بیان کیا کہ میرا خیال ہے کہ موسیٰ بن عقبہ نے یہ حدیث ابوسلمہ سے ابوالنصر کے واسطے سے سنی ہے، ابوسلمہ نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے۔ اور عفان بن مسلم نے بیان کیا کہ ہم سے وہیب نے بیان کیا، ان سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ابوسلمہ رضی اللہ عنہ سے سنا اور انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا درستی کے ساتھ عمل کرو اور خوش رہو۔ اور مجاہد نے بیان کیا کہ «سدادا سديدا» ہر دو کے معنیٰ صدق کے ہیں۔

Narrated `Aisha: The Prophet said, "Do good deeds properly, sincerely and moderately, and receive good news because one's good deeds will not make him enter Paradise." They asked, "Even you, O Allah's Apostle?" He said, "Even I, unless and until Allah bestows His pardon and Mercy on me."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 76, Number 474


   صحيح البخاري6464عائشة بنت عبد اللهسددوا وقاربوا اعلموا أن لن يدخل أحدكم عمله الجنة أحب الأعمال إلى الله أدومها وإن قل
   صحيح البخاري6467عائشة بنت عبد اللهسددوا وقاربوا وأبشروا لا يدخل أحدا الجنة عمله
   صحيح مسلم7122عائشة بنت عبد اللهسددوا وقاربوا وأبشروا لن يدخل الجنة أحدا عمله قالوا ولا أنت يا رسول الله قال ولا أنا إلا أن يتغمدني الله منه برحمة أحب العمل إلى الله أدومه وإن قل

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6467  
6467. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتی ہیں کہ آپ نے فرمایا: نیک عمل کرتے وقت حد سے نہ بڑھو بلکہ قریب قریب رہو، یعنی میانہ روی اختیار کرو۔ تمہیں خوشی ہونی چاہیئے کہ کوئی بھی اپنے عمل کی وجہ سے جنت میں نہیں جائے گا۔ صحابہ کرام نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے بھی نہیں؟ فرمایا: میں بھی مگر اس وقت جب اللہ تعالٰی مجھےاپنی رحمت اور مغفرت کے سائے میں ڈھانپ لے۔ ایک دوسری روایت ہے سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے مروی ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتی ہیں کہ آپ نے فرمایا: میانہ روی اختیار کرو اور خوش رہو۔ امام مجاہد نے (قولاً سدیدًا) کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا کہ سدید اور سداد کے معنیٰ ہیں: سچائی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6467]
حدیث حاشیہ:
یعنی سچائی کو ہر حال میں اختیار کرو تم اعمال خیر کروگے تم کو جنت کی بلکہ دنیا میں بھی کامیابی کی بشارت ہے۔
قرآن کی آیت ﴿قُولُوا قولا سَدِیدا﴾ (الأعراف: 43)
کی طرف اشارہ ہے۔
عفان بن مسلم حضرت اما م بخاری کے استاد ہیں اس سند کو لا کر امام بخاری نے علی بن عبد اللہ مدینی کا گمان رفع کیا کہ اگلی روایت منقطع ہے کیونکہ اس میں موسیٰ کے سماع کی ابو سلمہ سے صراحت ہے حدیث میں سدودا کا لفظ آیا تھا سدیداسدادا کا بھی وہی مادہ ہے اس مناسبت سے امام بخاری نے اس کی تفسیر یہاں بیان کر دی۔
قرآن شریف میں جو ہے ﴿تِلْكُمُ الْجَنَّةُ أُورِثْتُمُوهَا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ﴾ (الاعراف: 43)
اس کے معارض نہیں ہے کیونکہ عمل صالح بھی منجملہ اسباب دخول جنت ایک سبب ہے لیکن اصلی سبب رحمت اور عنایت الٰہی ہے بعض نے کہا آیت میں ترقی درجات مراد ہے نہ محض دخول جنت اور ترقی اعمال صالحہ کے لحاظ سے ہوگی اس حدیث سے معتزلہ کا رد ہوتا ہے جو کہتے ہیں اعمال صالحہ کرنے والے کو بہشت میں لے جانا اللہ پر واجب ہے۔
معاذاللہ منه۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 6467   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6467  
6467. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتی ہیں کہ آپ نے فرمایا: نیک عمل کرتے وقت حد سے نہ بڑھو بلکہ قریب قریب رہو، یعنی میانہ روی اختیار کرو۔ تمہیں خوشی ہونی چاہیئے کہ کوئی بھی اپنے عمل کی وجہ سے جنت میں نہیں جائے گا۔ صحابہ کرام نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے بھی نہیں؟ فرمایا: میں بھی مگر اس وقت جب اللہ تعالٰی مجھےاپنی رحمت اور مغفرت کے سائے میں ڈھانپ لے۔ ایک دوسری روایت ہے سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے مروی ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتی ہیں کہ آپ نے فرمایا: میانہ روی اختیار کرو اور خوش رہو۔ امام مجاہد نے (قولاً سدیدًا) کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا کہ سدید اور سداد کے معنیٰ ہیں: سچائی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6467]
حدیث حاشیہ:
(1)
ان احادیث میں کسی کام کو میانہ روی کے ساتھ ہمیشہ کرنے کی اہمیت و افادیت بیان کی گئی ہے۔
اس عنوان کے دو اجزاء نہیں بلکہ ایک ہی جز کے دو رخ ہیں کیونکہ اسی کام کو ہمیشہ کیا جا سکتا ہے جو میانہ روی اور اعتدال کے ساتھ کیا جائے اور اس میں افراط یا تفریط سے اس کی افادیت اور اہمیت مجروح ہو جاتی ہے قرآن کریم میں بیشمار مقامات پر اعتدال قائم رکھنے پر زور دیا گیا ہے۔
ہم صرف تین آیات پیش کرتے ہیں:
٭ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
آپ اپنی نماز کو نہ زیادہ بلند آواز سے پڑھیں اور نہ بالکل پست آواز سے بلکہ ان کے درمیان اعتدال کا لہجہ اختیار کریں۔
(بني إسرائیل: 110)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ نماز میں قرآن اتنی بلند آواز سے نہ پڑھیں کہ مشرک قرآن کو برا بھلا کہیں اور نہ اتنی آہستہ پڑھیں کہ آپ کے صحابہ بھی نہ سن سکیں بلکہ درمیانی راہ اختیار کریں۔
دوسرے مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے:
نہ تم اپنا ہاتھ گردن سے باندھ رکھو اور نہ اسے پوری طرح کھلا ہی چھوڑ دو ورنہ تم خود ملامت زدہ اور درماندہ بن کر رہ جاؤ گے۔
(بنی اسرائیل: 17/29)
اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ خرچ کرتے وقت نہ تو بخل سے کام لیا جائے اور نہ اتنا زیادہ ہی خرچ کیا جائے کہ اپنی ضرورت کے لیے بھی کچھ نہ رہے بلکہ میانہ روی کو اختیار کرنا چاہیے۔
خرچ کرتے وقت اللہ تعالیٰ کی ہدایت یہ ہے:
اور جو لوگ خرچ کرتے ہیں وہ تو اسراف کرتے ہیں اور نہ بخل سے کام لیتے ہیں بلکہ ان کا خرچ دونوں انتہاؤں کے درمیان اعتدال پر ہوتا ہے۔
(الفرقان: 67)
مطلب یہ ہے کہ ضرورت کے کاموں میں حد سے زیادہ خرچ کرنا معیوب ہے، اسی طرح ضرورت کے وقت پیسہ خرچ نہ کرنا بلکہ اسے جوڑ کر رکھنا اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں بلکہ اعتدال کی پالیسی کو اختیار کرنا چاہیے۔
(2)
اسراف اور بخل کے درمیان صفت کو اقتصاد یا قصد کہتے ہیں۔
اسی صفت کو اسلام نے پسند کیا ہے۔
اقتصاد یہ ہے کہ انسان اپنی ضرورت پر اتنا ہی خرچ کرے جتنا ضروری ہو، نہ کم ہو نہ زیادہ۔
امام بخاری رحمہ اللہ کے عنوان اور پیش کردہ احادیث کا یہی مقصد ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 6467   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.