الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: حکومت اور قضا کے بیان میں
The Book of Al-Ahkam (Judgements)
20. بَابُ مَوْعِظَةِ الإِمَامِ لِلْخُصُومِ:
20. باب: فریقین کو امام کا نصیحت کرنا۔
(20) Chapter. The advice of the Imam (ruler) to the litigants.
حدیث نمبر: 7169
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن هشام، عن ابيه، عن زينب بنت ابي سلمة، عن ام سلمة رضي الله عنها، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" إنما انا بشر وإنكم تختصمون إلي، ولعل بعضكم ان يكون الحن بحجته من بعض، فاقضي على نحو ما اسمع، فمن قضيت له من حق اخيه شيئا فلا ياخذه، فإنما اقطع له قطعة من النار".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ وَإِنَّكُمْ تَخْتَصِمُونَ إِلَيَّ، وَلَعَلَّ بَعْضَكُمْ أَنْ يَكُونَ أَلْحَنَ بِحُجَّتِهِ مِنْ بَعْضٍ، فَأَقْضِي عَلَى نَحْوِ مَا أَسْمَعُ، فَمَنْ قَضَيْتُ لَهُ مِنْ حَقِّ أَخِيهِ شَيْئًا فَلَا يَأْخُذْهُ، فَإِنَّمَا أَقْطَعُ لَهُ قِطْعَةً مِنَ النَّارِ".
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے، ان سے ہشام نے، ان سے ان کے والد نے، ان سے زینب بنت ابی سلمہ نے اور ان سے ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بلاشبہ میں ایک انسان ہوں، تم میرے پاس اپنے جھگڑے لاتے ہو ممکن ہے تم میں سے بعض اپنے مقدمہ کو پیش کرنے میں فریق ثانی کے مقابلہ میں زیادہ چرب زبان ہو اور میں تمہاری بات سن کر فیصلہ کر دوں تو جس شخص کے لیے میں اس کے بھائی (فریق مخالف) کا کوئی حق دلا دوں، چاہئے کہ وہ اسے نہ لے کیونکہ یہ آگ کا ایک ٹکڑا ہے جو میں اسے دیتا ہوں۔

Narrated Um Salama: Allah's Apostle said, "I am only a human being, and you people (opponents) come to me with your cases; and it may be that one of you can present his case eloquently in a more convincing way than the other, and I give my verdict according to what I hear. So if ever I judge (by error) and give the right of a brother to his other (brother) then he (the latter) should not take it, for I am giving him only a piece of Fire." (See Hadith No. 638, Vol. 3).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 89, Number 281


   صحيح البخاري6967زينب بنت عبد اللهأنا بشر وإنكم تختصمون إلي ولعل بعضكم أن يكون ألحن بحجته من بعض وأقضي له على نحو ما أسمع فمن قضيت له من حق أخيه شيئا فلا يأخذ فإنما أقطع له قطعة من النار
   صحيح البخاري2458زينب بنت عبد اللهأنا بشر وإنه يأتيني الخصم فلعل بعضكم أن يكون أبلغ من بعض فأحسب أنه صدق فأقضي له بذلك فمن قضيت له بحق مسلم فإنما هي قطعة من النار فليأخذها أو فليتركها
   صحيح البخاري7185زينب بنت عبد اللهأنا بشر وإنه يأتيني الخصم فلعل بعضا أن يكون أبلغ من بعض أقضي له بذلك وأحسب أنه صادق فمن قضيت له بحق مسلم فإنما هي قطعة من النار فليأخذها أو ليدعها
   صحيح البخاري7181زينب بنت عبد اللهأنا بشر وإنه يأتيني الخصم فلعل بعضكم أن يكون أبلغ من بعض فأحسب أنه صادق فأقضي له بذلك فمن قضيت له بحق مسلم فإنما هي قطعة من النار فليأخذها أو ليتركها
   صحيح البخاري2680زينب بنت عبد اللهإنكم تختصمون إلي ولعل بعضكم ألحن بحجته من بعض فمن قضيت له بحق أخيه شيئا بقوله فإنما أقطع له قطعة من النار فلا يأخذها
   صحيح البخاري7169زينب بنت عبد اللهأنا بشر وإنكم تختصمون إلي ولعل بعضكم أن يكون ألحن بحجته من بعض فأقضي على نحو ما أسمع فمن قضيت له من حق أخيه شيئا فلا يأخذه فإنما أقطع له قطعة من النار
   صحيح مسلم4473زينب بنت عبد اللهإنكم تختصمون إلي ولعل بعضكم أن يكون ألحن بحجته من بعض فأقضي له على نحو مما أسمع منه فمن قطعت له من حق أخيه شيئا فلا يأخذه فإنما أقطع له به قطعة من النار
   صحيح مسلم4475زينب بنت عبد اللهأنا بشر وإنه يأتيني الخصم فلعل بعضهم أن يكون أبلغ من بعض فأحسب أنه صادق فأقضي له فمن قضيت له بحق مسلم فإنما هي قطعة من النار فليحملها أو يذرها
   جامع الترمذي1339زينب بنت عبد اللهأنا بشر ولعل بعضكم أن يكون ألحن بحجته من بعض فإن قضيت لأحد منكم بشيء من حق أخيه فإنما أقطع له قطعة من النار فلا يأخذ منه شيئا
   سنن النسائى الصغرى5403زينب بنت عبد اللهتختصمون إلي وإنما أنا بشر ولعل بعضكم ألحن بحجته من بعض فمن قضيت له من حق أخيه شيئا فلا يأخذه فإنما أقطعه به قطعة من النار
   سنن النسائى الصغرى5424زينب بنت عبد اللهتختصمون إلي وإنما أنا بشر ولعل بعضكم ألحن بحجته من بعض فإنما أقضي بينكما على نحو ما أسمع فمن قضيت له من حق أخيه شيئا فإنما أقطع له قطعة من النار
   سنن ابن ماجه2317زينب بنت عبد اللهأنا بشر ولعل بعضكم أن يكون ألحن بحجته من بعض وإنما أقضي بينكم على نحو مما أسمع منكم فمن قضيت له من حق أخيه شيئا فلا يأخذه فإنما أقطع له قطعة من النار يأتي بها يوم القيامة
   بلوغ المرام1194زينب بنت عبد الله إنكم تختصمون إلي ولعل بعضكم أن يكون ألحن بحجته من بعض فأقضي له على نحو ما أسمع منه فمن قطعت له من حق أخيه شيئا فإنما أقطع له قطعة من النار
   مسندالحميدي298زينب بنت عبد اللهإنما أنا بشر وإنكم تختصمون إلي، ولعل بعضكم أن يكون ألحن بحجته من بعض فأيكم قضيت له من حق أخيه بشيء فلا يأخذ به؛ فإنما أقطع له به قطعة من النار

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2317  
´حاکم کا فیصلہ حرام کو حلال اور حلال کو حرام نہیں کرتا۔`
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ میرے پاس جھگڑے اور اختلافات لاتے ہو اور میں تو ایک انسان ہی ہوں، ہو سکتا ہے تم میں سے کوئی اپنی دلیل بیان کرنے میں دوسرے سے زیادہ چالاک ہو، اور میں اسی کے مطابق فیصلہ کرتا ہوں جو تم سے سنتا ہوں، لہٰذا اگر میں کسی کو اس کے بھائی کا کوئی حق دلا دوں تو وہ اس کو نہ لے، اس لیے کہ میں اس کے لیے آگ کا ایک ٹکڑا دلاتا ہوں جس کو وہ قیامت کے دن لے کر آئے گا۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الأحكام/حدیث: 2317]
اردو حاشہ:
فوائد  و مسائل:

(1)
قاضی کو فریقین کے دلائل گواہوں کی گواہی اور دیگر قرائن کی روشنی میں صحیح فیصلہ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
اس کے باوجود اگر اس سے غلط فیصلہ ہو گیا تو اسے گناہ نہیں ہوگا۔

(2)
  اگر ایک شخص کو معلوم ہے کہ اس معاملے میں میرا موقف درست نہیں لیکن قاضی اس کے حق میں فیصلے دے دیتا ہے تو اس سے اصل حقیقت میں فرق نہیں پڑتا لہٰذا اس کے لیے وہ چیز لینا جائز نہیں جسے قاضی اس کی قرار دے چکا ہے۔

(3)
  اس حدیث کی روشنی میں علمائے کرام نے یہ اصول بیان فرمایا ہے:
قاضی کا فیصلہ ظاہراً نافذ ہوتا ہے باطناً نہیں۔
اس کا یہی مطلب ہے کہ قاضی کے فیصلے سے کسی دوسرے کی چیز حلال نہیں ہو جاتی مثلاً اگر جھوٹے گواہوں کی مدد سے یہ فیصلہ لے لیا جائے کہ فلاں عورت کا نکاح ہو چکا ہے تو مرد کے لیے اس عورت کے ساتھ ازدواجی تعلقات قائم کرنا جائز نہیں ہو گا۔
اگر وہ ایسا کرے گا تو زنا کا مرتکب ہو گا اور قیامت والے دن اسے اس کی سزا ملے گی۔
اس طرح اگر قاضی یہ فیصلہ کر دے کہ فلاں عورت کو طلاق ہو چکی ہے جبکہ حقیقت میں مرد نے طلاق نہ دی ہو تو مرد اپنی اس بیوی سے ازدواجی تعلقات قائم رکھنے پر اللہ کے ہاں مجرم نہیں ہو گا۔

(4)
  نبی اکرم ﷺ کو علم غیب حاصل نہیں تھا البتہ بعض معاملات میں وحی کے ذریعے سے آپ کو خبر دے دی جاتی تھی۔

(5)
  ناجائز طور پر حاصل کیا ہوا مال قیامت کے دن سزا کا باعث بھی ہو گا اور رسوائی کا سبب بھی، جب مجرم سب لوگوں کےسامنے اپنے جرم کے ثبوت سمیت موجود ہو گا اور اسے اس کے مطابق سرعام سزا ملے گی۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2317   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1194  
´(قضاء کے متعلق احادیث)`
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیشک تم لوگ اپنے جھگڑے میرے پاس لے کر آتے ہو اور تم میں سے بعض اپنے دلائل بڑی خوبی و چرب زبانی سے بیان کرتا ہے تو میں نے جو کچھ سنا ہوتا ہے اسی کے مطابق اس کے حق میں فیصلہ کر دیتا ہوں۔ پس جسے اس کے بھائی کے حق میں سے کوئی چیز دوں تو میں اس کے لئے آگ کا ٹکرا کاٹ کر دے رہا ہوں۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1194»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الأحكام، باب موعظة الإمام للخصوم، حديث:7169، ومسلم، الأقضية، باب الحكم بالظاهر واللحن بالحجة، حديث:1713.»
تشریح:
1. یہ حدیث اس پر دلیل ہے کہ ظاہر بیانات کی روشنی میں فیصلہ واجب ہے۔
2. حاکم کا فیصلہ کسی چیز کی حقیقت میں کوئی تبدیلی پیدا کر سکتا ہے نہ کسی معاملے کو بدل سکتا ہے‘ یعنی نہ حرام کو حلال کر سکتا ہے اور نہ حلال کو حرام۔
جمہور کا یہی موقف ہے مگر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ قاضی کا فیصلہ ظاہری اور باطنی دونوں طرح نافذ ہو جاتا ہے‘ مثلاً: ایک جج جھوٹی شہادت کی بنیاد پر فیصلہ دیتا ہے کہ فلاں عورت فلاں کی بیوی ہے باوجودیکہ وہ خاتون اجنبی ہے تو وہ اس مرد کے لیے حلال ہو جائے گی۔
لیکن اس قول کی قباحت اور اس کا باطل ہونا کسی پر مخفی نہیں ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 1194   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1339  
´قاضی کے فیصلے کی بنا پر دوسرے کا مال لینے پر وارد وعید کا بیان۔`
ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ اپنا مقدمہ لے کر میرے پاس آتے ہو میں ایک انسان ہی ہوں، ہو سکتا ہے کہ تم میں سے کوئی آدمی اپنا دعویٰ بیان کرنے میں دوسرے سے زیادہ چرب زبان ہو ۱؎ تو اگر میں کسی کو اس کے مسلمان بھائی کا کوئی حق دلوا دوں تو گویا میں اسے جہنم کا ایک ٹکڑا کاٹ کر دے رہا ہوں، لہٰذا وہ اس میں سے کچھ بھی نہ لے ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الأحكام/حدیث: 1339]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی اپنی دلیل دوسرے کے مقابلے میں زیادہ اچھے طریقے سے پیش کرسکتا ہے۔

2؎:
یہ حدیث اس بات پر دلیل ہے کہ ظاہری بیانات کی روشنی میں فیصلہ واجب ہے،
حاکم کا فیصلہ حقیقت میں کسی چیز میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں کرسکتا،
اورنفس الامر میں نہ حرام کو حلال کرسکتا ہے اور نہ حلال کو حرام،
جمہورکی یہی رائے ہے،
لیکن امام ابوحنیفہ ؒ کا کہنا ہے کہ قاضی کا فیصلہ ظاہری اور باطنی دونوں طرح نافذ ہوجاتا ہے مثلاً ایک جج جھوٹی شہادت کی بنیادپر فیصلہ دے دیتا ہے کہ فلاں عورت فلاں کی بیوی ہے باوجودیکہ وہ اجنبی ہے تو امام ابوحنیفہ ؒ کے نزدیک وہ اس مرد کے لیے حلال ہوجائے گی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1339   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7169  
7169. سیدنا ام سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بس میں تو صرف ایک انسان ہوں، تم میرے پاس اپنے مقدمات لاتے ہو، ممکن ہے کہ تم میں سے کوئی اپنا مقدمہ پیش کرنے میں دوسرے سے زیادہ چرب زبان ہو اور میں اس کی باتیں سن کر اس کے حق میں فیصلہ کر دوں تو میں نے جس کے لیے اس کے بھائی کے حق کا ٖفیصلہ کر دیا تو وہ اس کو نہ لے کیونکہ وہ تو میں اسے آگ کا ٹکڑا کاٹ کر دے رہا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7169]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ کسی بھی قاضی کا فیصلہ عنداللہ صحیح نہیں ہو سکتا گو وہ نافذ کر دیا جائے، غلط غلط ہی رہے گا۔
اس حدیث سے امام مالک اور امام شافعی اور امام احمد اور اہل حدیث اور جمہور علماء کا مذہب ثابت ہوا کہ قاضی کا فیصلہ ظاہر میں نافذ ہوتا ہے لیکن اس کے فیصلے سے جو شے حرام ہے وہ حلال نہیں ہوتی نہ حلال حرام ہوتی ہے اور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا قول رد ہوگیا کہ قاضی کا فیصلہ ظاہراً اور باطناً دونوں طرح نافذ ہو جاتا ہے اور اس مسئلہ کا ذکر اوپر ہوچکا ہے۔
حدیث سے یہ بھی نکلا کہ آنحضرت صلی اللہ علے وسلم کو غیب کا علم نہ تھا۔
البتہ اللہ تعالیٰ اگر آپ کو بتلا دیتا تو معلوم ہو جاتا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 7169   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7169  
7169. سیدنا ام سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بس میں تو صرف ایک انسان ہوں، تم میرے پاس اپنے مقدمات لاتے ہو، ممکن ہے کہ تم میں سے کوئی اپنا مقدمہ پیش کرنے میں دوسرے سے زیادہ چرب زبان ہو اور میں اس کی باتیں سن کر اس کے حق میں فیصلہ کر دوں تو میں نے جس کے لیے اس کے بھائی کے حق کا ٖفیصلہ کر دیا تو وہ اس کو نہ لے کیونکہ وہ تو میں اسے آگ کا ٹکڑا کاٹ کر دے رہا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7169]
حدیث حاشیہ:
اس سے معلوم ہوا کہ قاضی فیصلہ کرتے وقت فریقین کو وعظ و نصیحت کرے کہ کوئی دوسرےکے حق پر ڈاکا نہ مارے بلکہ صرف اپنا حق لینے کے لیے تگ ودو اور کوشش کرے۔
نیز اس حدیث سے پتا چلا کہ قاضی کا فیصلہ صرف ظاہر میں نافذ ہوتا ہے۔
کہ اس سے جھگڑا ختم ہو جاتا ہے لیکن اس فیصلے سے جو چیز حرام ہو وہ حلال نہیں ہو جاتی اور نہ حلال چیز حرام ہی ہوتی ہے۔
کسی بھی قاضی کا غلط فیصلہ اللہ تعالیٰ کے ہاں صحیح نہیں ہو سکتا کہ اسے جوں کا توں نافذ کر دیا جائے۔
غلط، غلط ہی رہے گا جیسا کہ ہم کتاب الحدود میں اس کی وضاحت بیان کر آئے ہیں۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 7169   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.