الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں
The Book of Tauhid (Islamic Monotheism)
32. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَلاَ تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ عِنْدَهُ إِلاَّ لِمَنْ أَذِنَ لَهُ حَتَّى إِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوبِهِمْ قَالُوا مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ قَالُوا الْحَقَّ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ} :
32. باب: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ”اور اس کے ہاں کسی کی شفاعت بغیر اللہ کی اجازت کے فائدہ نہیں دے سکتی، (وہاں فرشتوں کا بھی یہ حال ہے) کہ جب اللہ پاک کوئی حکم اتارتا ہے تو فرشتے اسے سن کر اللہ کے خوف سے گھبرا جاتے ہیں یہاں تک کہ جب ان کی گھبراہٹ دور ہوتی ہے تو وہ آپس میں پوچھتے ہیں کہ تمہارے رب کا کیا ارشاد ہوا ہے وہ فرشتے کہتے ہیں کہ جو کچھ اس نے فرمایا وہ حق ہے اور وہ بلند ہے بڑا ہے“۔
(32) Chapter. The Statement of Allah: “Intercession with Him profits not, except for him whom He permits. So much so that when fear is banished from their (angels) hearts, they (angels) say,’What is it that your Lord has said?’ They say, ’The truth. And He is the Most High, the Most Great.’ " (V.34:23) Allah has does not say, "What is it that your Lord created?"
حدیث نمبر: 7482
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا يحيى بن بكير، حدثنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، اخبرني ابو سلمة بن عبد الرحمن، عن ابي هريرة، انه كان يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ما اذن الله لشيء ما اذن للنبي صلى الله عليه وسلم يتغنى بالقرآن"، وقال صاحب له يريد ان يجهر به.(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا أَذِنَ اللَّهُ لِشَيْءٍ مَا أَذِنَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَغَنَّى بِالْقُرْآنِ"، وَقَالَ صَاحِبٌ لَهُ يُرِيدُ أَنْ يَجْهَرَ بِهِ.
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے اور ان کو ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے خبر دی اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کسی بات کو اتنا متوجہ ہو کر نہیں سنتا جتنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قرآن پڑھنا متوجہ ہو کر سنتا ہے جو خوش آوازی سے اس کو پڑھتا ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ایک ساتھی نے کہا اس حدیث میں «يتغنى بالقرآن» کا یہ معنی ہے کہ اس کو پکار کر پڑھتا ہے۔

Narrated Abu Huraira: Allah's Apostle said, "Allah never listens to anything as He listens to the Prophet reciting Qur'an in a pleasant sweet sounding voice." A companion of Abu Huraira said, "He means, reciting the Qur'an aloud."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 93, Number 574


   صحيح البخاري5023عبد الرحمن بن صخرلم يأذن الله لشيء ما أذن للنبي يتغنى بالقرآن
   صحيح البخاري7482عبد الرحمن بن صخرما أذن الله لشيء ما أذن للنبي يتغنى بالقرآن
   صحيح البخاري5024عبد الرحمن بن صخرما أذن الله لشيء ما أذن للنبي أن يتغنى بالقرآن
   صحيح البخاري7544عبد الرحمن بن صخرما أذن الله لشيء ما أذن لنبي حسن الصوت بالقرآن يجهر به
   صحيح مسلم1849عبد الرحمن بن صخرما أذن الله لشيء كأذنه لنبي يتغنى بالقرآن يجهر به
   صحيح مسلم1845عبد الرحمن بن صخرما أذن الله لشيء ما أذن لنبي يتغنى بالقرآن
   صحيح مسلم1847عبد الرحمن بن صخرما أذن الله لشيء ما أذن لنبي حسن الصوت يتغنى بالقرآن يجهر به
   سنن أبي داود1473عبد الرحمن بن صخرما أذن الله لشيء ما أذن لنبي حسن الصوت يتغنى بالقرآن يجهر به
   سنن النسائى الصغرى1018عبد الرحمن بن صخرما أذن الله لشيء ما أذن لنبي حسن الصوت يتغنى بالقرآن يجهر به
   سنن النسائى الصغرى1019عبد الرحمن بن صخرما أذن الله لشيء يعني أذنه لنبي يتغنى بالقرآن
   مسندالحميدي979عبد الرحمن بن صخرما أذن الله لشيء ما أذن لنبي يتغنى بالقرآن

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1018  
´خوش الحانی سے قرآن پڑھنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: اللہ تعالیٰ کوئی چیز اتنی پسندیدگی سے نہیں سنتا جتنی خوش الحان نبی کی زبان سے قرآن سنتا ہے، جو اسے خوش الحانی کے ساتھ بلند آواز سے پڑھتا ہو۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/باب سجود القرآن/حدیث: 1018]
1018۔ اردو حاشیہ:
خوب صورت آواز والے نبی سے مراد بعض کے نزدیک خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں لیکن حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد انبیاء کی جماعت ہے۔ جنھوں نے اس سے مراد صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لیے ہیں، انہیں وہم ہوا ہے۔ [فتح الباري: 87/9، تحت حدیث: 5023]
➋ اس حدیث مبارکہ سے اللہ کی صفت سماع ثابت ہوتی ہے جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 1018   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1019  
´خوش الحانی سے قرآن پڑھنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نبی کے خوش الحانی سے قرآن پڑھنے کو اللہ تعالیٰ جس طرح سنتا ہے اس طرح کسی اور چیز کو نہیں سنتا۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/باب سجود القرآن/حدیث: 1019]
1019۔ اردو حاشیہ: بعض لوگ جنھیں اللہ تعالیٰ کی فکر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی بڑھ کر ہے ایسی احادیث سن کر بڑے پیچاں و غلطاں ہو جاتے ہیں کہ کان لگانا، غور کرنا، توجہ فرمانا، سنتا تواللہ تعالیٰ کی شان کے لائق نہیں، لہٰذا تاویل کرنی چاہیے۔ گزارش ہے کہ ان تاویلات سے تو یہ احادیث ہی بے معنیٰ ہو جاتی ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے اسمائے حسنیٰ ہی سے محروم ہو جاتا ہے۔ تف ہے ایسی عقل پر جواللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑھانے بیٹھ جائے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کو جاننے والے تھے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 1019   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1473  
´قرآت میں ترتیل کے مستحب ہونے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کسی کی اتنی نہیں سنتا جتنی ایک خوش الحان رسول کی سنتا ہے جب کہ وہ قرآن کو خوش الحانی سے بلند آواز سے پڑھ رہا ہو۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1473]
1473. اردو حاشیہ: یہاں [يتغنی بالقرآن]
كے معنی [يجهر به]
یعنی بلند آواز سے پڑھنا لیے گئے ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1473   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7482  
7482. سیدنا ابو ہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے، وہ کہا کرتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کسی بات کو اتنی توجہ سے نہیں سنتا جس قدر نبی ﷺ کے قرآن پڑھنے کو متوجہ ہو کر سنتا ہے جبکہ وہ اسے خوش الحانی سے پڑھتے ہیں۔ سیدنا ابو ہریرہ ؓ کے ایک شاگرد نے اس کے معنیٰ یہ کیے ہیں کہ جب آپ اسے بلند آواز سے پڑھتے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7482]
حدیث حاشیہ:

شارحین نے لکھا ہے کہ یہ حدیث امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ عنوان کے مطابق نہیں ہے حتی کہ علامہ کرمانی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث میں مذکورہ لفظ اذن سے قول مراد لیا ہے، حالانکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جیسے فقیہ سے یہ بات بہت بعید ہے۔
(عمدة القاري: 672/16)

ہمارے نزدیک اس لفظ کے معنی ہیں:
متوجہ ہو کر سننا۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ توجہ سے اسی کلام کو سنا جا سکتا ہے جو حروف وآواز پر مشتمل ہو اور خوش الحانی سے بھی وہی کلام پڑھا جا سکتا ہے جو الفاظ واصوات پر مشتمل ہو۔
اللہ تعالیٰ کا کلام بھی حروف وآواز پر مشتمل ہے اور وہ حقیقی کلام سے متصف ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 7482   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.