الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: عیدین کے مسائل کے بیان میں
The Book of The Two Eid (Prayers and Festivals).
14. بَابُ حَمْلِ الْعَنَزَةِ أَوِ الْحَرْبَةِ بَيْنَ يَدَيِ الإِمَامِ يَوْمَ الْعِيدِ:
14. باب: امام کے آگے آگے عید کے دن عنزہ یا حربہ لے کر چلنا۔
(14) Chapter. To put the Anaza (spearheaded stick) or Harba in front of the Imam on Eid day.
حدیث نمبر: 973
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا إبراهيم بن المنذر الحزامي، قال: حدثنا الوليد، قال: حدثنا ابو عمرو الاوزاعي، قال: اخبرني نافع، عن ابن عمر، قال:" كان النبي صلى الله عليه وسلم يغدو إلى المصلى والعنزة بين يديه تحمل، وتنصب بالمصلى بين يديه فيصلي إليها".(مرفوع) حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ الْحِزَامِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَمْرٍو الْأَوْزَاعِيُّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ:" كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَغْدُو إِلَى الْمُصَلَّى وَالْعَنَزَةُ بَيْنَ يَدَيْهِ تُحْمَلُ، وَتُنْصَبُ بِالْمُصَلَّى بَيْنَ يَدَيْهِ فَيُصَلِّي إِلَيْهَا".
ہم سے ابراہیم بن المنذر حزامی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ولید بن مسلم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوعمرو اوزاعی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے نافع نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بیان کیا۔ انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عیدگاہ جاتے تو برچھا (ڈنڈا جس کے نیچے لوہے کا پھل لگا ہوا ہو) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے آگے لے جایا جاتا تھا پھر یہ عیدگاہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے گاڑ دیا جاتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی آڑ میں نماز پڑھتے۔

Narrated Ibn `Umar: The Prophet used to proceed to the Musalla and an 'Anaza used to be carried before him and planted in the Musalla in front of him and he would pray facing it (as a Sutra).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 15, Number 90


   صحيح البخاري498عبد الله بن عمريركز له الحربة فيصلي إليها
   صحيح البخاري494عبد الله بن عمرإذا خرج يوم العيد أمر بالحربة فتوضع بين يديه فيصلي إليها والناس وراءه وكان يفعل ذلك في السفر فمن ثم اتخذها الأمراء
   صحيح البخاري972عبد الله بن عمرتركز الحربة قدامه يوم الفطر والنحر ثم يصلي
   صحيح البخاري973عبد الله بن عمريغدو إلى المصلى والعنزة بين يديه تحمل وتنصب بالمصلى بين يديه فيصلي إليها
   صحيح مسلم1115عبد الله بن عمرإذا خرج يوم العيد أمر بالحربة فتوضع بين يديه فيصلي إليها والناس وراءه وكان يفعل ذلك في السفر فمن ثم اتخذها الأمراء
   صحيح مسلم1116عبد الله بن عمريركز يغرز العنزة ويصلي إليها
   سنن أبي داود687عبد الله بن عمرإذا خرج يوم العيد أمر بالحربة فتوضع بين يديه فيصلي إليها والناس وراءه وكان يفعل ذلك في السفر فمن ثم اتخذها الأمراء
   سنن النسائى الصغرى748عبد الله بن عمريركز الحربة ثم يصلي إليها
   سنن النسائى الصغرى1566عبد الله بن عمريخرج العنزة يوم الفطر ويوم الأضحى يركزها فيصلي إليها
   سنن ابن ماجه1305عبد الله بن عمرإذا صلى يوم عيد أو غيره نصبت الحربة بين يديه فيصلي إليها والناس من خلفه
   سنن ابن ماجه941عبد الله بن عمرتخرج له حربة في السفر فينصبها فيصلي إليها
   سنن ابن ماجه1304عبد الله بن عمريغدو إلى المصلى في يوم العيد والعنزة تحمل بين يديه فإذا بلغ المصلى نصبت بين يديه فيصلي إليها

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 687  
´نمازی کے سترہ کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب عید کے دن نکلتے تو برچھی (نیزہ) لے چلنے کا حکم دیتے، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھی جاتی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف چہرہ مبارک کر کے نماز پڑھتے، اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ہوتے، اور ایسا آپ سفر میں کرتے تھے، اسی وجہ سے حکمرانوں نے اسے اختیار کر رکھا ہے۔ [سنن ابي داود/تفرح أبواب السترة /حدیث: 687]
687۔ اردو حاشیہ:
یعنی امراء و حکام لوگ جو عید وغیرہ کے موقع پر بھالا، نیزہ وغیرہ لے کر نکلنے کا اہتمام کرتے ہیں اس کی اصل یہی ہے۔ نماز فرض ہو یا نفل، سفر ہو یا حضر، ہر موقع پر سترے کا خیال رکھنا چاہیے۔ نیز امام کا سترہ مقتدیوں کے لیے بھی کافی ہوتا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 687   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 748  
´نمازی کے سترہ کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (اپنے سامنے) نیزہ گاڑتے تھے، پھر اس کی طرف (رخ کر کے) نماز پڑھتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب القبلة/حدیث: 748]
748 ۔ اردو حاشیہ:
➊ سترے سے مراد وہ چیز ہے جو نمازی کی نماز کو شیطان اور گزرنے والوں سے محفوظ کرے۔ سترہ نمازی کے خیالات کو منتشر ہونے سے بچاتا ہے، بشرطیکہ نظر سترے سے تجاوز نہ کرے جیسا کہ مسنون ہے۔ اسی طرح سترہ نمازی کے آگے سے گزرنے والوں کے اثرات بد سے نماز اور نمازی کو محفوظ کرتا ہے۔ نمازی کے آگے سے گزرنا نمازی کے خشوع و خضوع کو ختم کرتا ہے اور گزرنے والے کو گناہ گار بناتا ہے۔ سترے کے آگے سے گزرنا نمازی اور گزرنے والے کو ان دونوں چیزوں سے بچاتا ہے۔
➋ اکیلے نمازی کو اگر وہ کھلی جگہ نماز پڑھ رہا ہے تو اسے اپنے سامنے سترہ رکھنا چاہیے۔ امام کے پیچھے ہو تو صرف امام کے سامنے سترے کا ہونا کافی ہے۔ پہلے سے موجود چیز بھی سترہ بن سکتی ہے جیسے ستون وغیرہ۔
➌ سترہ تقریباً ڈیڑھ فٹ اونچا اور اتنا موٹا ہونا چاہیے کہ دور سے صاف نظر آئے، ایسا نہ ہو کہ کسی کو پتا ہی نہ چلے۔ پالان کی پچھلی لکڑی بھی تقریباً ڈیڑھ فٹ اونچی ہوتی ہے۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 748   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث941  
´نمازی کے سترہ کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سفر میں نیزہ لے جایا جاتا اور اسے آپ کے آگے گاڑ دیا جاتا، آپ اس کی جانب نماز پڑھتے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 941]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
اس سے معلوم ہوا کہ نبی کریمﷺ سفر میں بھی سترے کا اہتمام فرماتے تھے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 941   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 973  
973. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ صبح سویرے عیدگاہ کی طرف تشریف لے جاتے اور نیزہ آپ کے آگے آگے اٹھایا جاتا تھا، اسے عیدگاہ میں آپ کے سامنے گاڑ دیا جاتا تو آپ اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:973]
حدیث حاشیہ:
تشریح اوپر گزر چکی ہے اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ آنحضرت ﷺ عیدین کی نماز جنگل (میدان)
میں پڑھا کرتے تھے پس مسنون یہی ہے جو لوگ بلا عذر بار ش وغیرہ مساجد میں عیدین کی نماز ادا کرتے ہیں وہ سنت کے ثواب سے محروم رہتے ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 973   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:973  
973. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ صبح سویرے عیدگاہ کی طرف تشریف لے جاتے اور نیزہ آپ کے آگے آگے اٹھایا جاتا تھا، اسے عیدگاہ میں آپ کے سامنے گاڑ دیا جاتا تو آپ اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:973]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ کے زمانے میں یہ بات عام ہو چکی تھی کہ بادشاہ وقت جب عیدین کی نماز کے لیے عید گاہ جاتا تو لوگ اس کے آگے ہتھیار اٹھا کر چلتے تھے۔
امام بخاری ؒ نے اس کا جواز ثابت کیا ہے۔
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز عید کے لیے نکلتے تھے تو نیزہ ساتھ لے کر جانے کا حکم فرماتے تھے۔
اسے عیدگاہ پہنچ کر آپ کے سامنے گاڑ دیا جاتا تو آپ اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے اور باقی لوگ آپ کے پیچھے ہوتے۔
دوران سفر میں بھی ایسا کرتے تھے۔
اسی سے امراء نے یہ طریقہ اختیار کر لیا تھا۔
(2)
ازدحام میں ایسا کرنا منع ہے کیونکہ ایسے موقع پر کسی کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔
اس کا سبب خوف ہلاکت ہے۔
لیکن جب کوئی شخص امام کے آگے ہتھیار اٹھا کر جا رہا ہے جس سے کسی کو تکلیف کا خطرہ نہیں تو اس صورت میں اسلحہ اٹھانا جائز ہے، کیونکہ اس میں علت نہی نہیں پائی جاتی۔
منع کی صورت اس کے برعکس ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 973   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.