الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
The Book of As-Salat (The Prayer)
90. بَابُ سُتْرَةُ الإِمَامِ سُتْرَةُ مَنْ خَلْفَهُ:
90. باب: امام کا سترہ مقتدیوں کو بھی کفایت کرتا ہے۔
(90) Chapter. The Sutra of the Imam is also a Sutra for those who are behind him.
حدیث نمبر: 494
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا إسحاق، قال: حدثنا عبد الله بن نمير، قال: حدثنا عبيد الله بن عمر، عن نافع، عن ابن عمر،" ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا خرج يوم العيد امر بالحربة، فتوضع بين يديه فيصلي إليها والناس وراءه، وكان يفعل ذلك في السفر، فمن ثم اتخذها الامراء".(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ،" أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا خَرَجَ يَوْمَ الْعِيدِ أَمَرَ بِالْحَرْبَةِ، فَتُوضَعُ بَيْنَ يَدَيْهِ فَيُصَلِّي إِلَيْهَا وَالنَّاسُ وَرَاءَهُ، وَكَانَ يَفْعَلُ ذَلِكَ فِي السَّفَرِ، فَمِنْ ثَمَّ اتَّخَذَهَا الْأُمَرَاءُ".
ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن نمیر نے کہا کہ ہم سے عبیداللہ بن عمر نے نافع کے واسطہ سے بیان کیا۔ انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب عید کے دن (مدینہ سے) باہر تشریف لے جاتے تو چھوٹے نیزہ (برچھا) کو گاڑنے کا حکم دیتے وہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے گاڑ دیا جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑے ہوتے۔ یہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں بھی کیا کرتے تھے۔ (مسلمانوں کے) خلفاء نے اسی وجہ سے برچھا ساتھ رکھنے کی عادت بنا لی ہے۔

Narrated Ibn `Umar: Whenever Allah's Apostle came out on `Id day, he used to order that a Harba [??] (a short spear) to be planted in front of him (as a Sutra for his prayer) and then he used to pray facing it with the people behind him and used to do the same while on a journey. After the Prophet , this practice was adopted by the Muslim rulers (who followed his traditions).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 9, Number 473


   صحيح البخاري498عبد الله بن عمريركز له الحربة فيصلي إليها
   صحيح البخاري494عبد الله بن عمرإذا خرج يوم العيد أمر بالحربة فتوضع بين يديه فيصلي إليها والناس وراءه وكان يفعل ذلك في السفر فمن ثم اتخذها الأمراء
   صحيح البخاري972عبد الله بن عمرتركز الحربة قدامه يوم الفطر والنحر ثم يصلي
   صحيح البخاري973عبد الله بن عمريغدو إلى المصلى والعنزة بين يديه تحمل وتنصب بالمصلى بين يديه فيصلي إليها
   صحيح مسلم1115عبد الله بن عمرإذا خرج يوم العيد أمر بالحربة فتوضع بين يديه فيصلي إليها والناس وراءه وكان يفعل ذلك في السفر فمن ثم اتخذها الأمراء
   صحيح مسلم1116عبد الله بن عمريركز يغرز العنزة ويصلي إليها
   سنن أبي داود687عبد الله بن عمرإذا خرج يوم العيد أمر بالحربة فتوضع بين يديه فيصلي إليها والناس وراءه وكان يفعل ذلك في السفر فمن ثم اتخذها الأمراء
   سنن النسائى الصغرى748عبد الله بن عمريركز الحربة ثم يصلي إليها
   سنن النسائى الصغرى1566عبد الله بن عمريخرج العنزة يوم الفطر ويوم الأضحى يركزها فيصلي إليها
   سنن ابن ماجه1305عبد الله بن عمرإذا صلى يوم عيد أو غيره نصبت الحربة بين يديه فيصلي إليها والناس من خلفه
   سنن ابن ماجه941عبد الله بن عمرتخرج له حربة في السفر فينصبها فيصلي إليها
   سنن ابن ماجه1304عبد الله بن عمريغدو إلى المصلى في يوم العيد والعنزة تحمل بين يديه فإذا بلغ المصلى نصبت بين يديه فيصلي إليها

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 687  
´نمازی کے سترہ کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب عید کے دن نکلتے تو برچھی (نیزہ) لے چلنے کا حکم دیتے، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھی جاتی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف چہرہ مبارک کر کے نماز پڑھتے، اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ہوتے، اور ایسا آپ سفر میں کرتے تھے، اسی وجہ سے حکمرانوں نے اسے اختیار کر رکھا ہے۔ [سنن ابي داود/تفرح أبواب السترة /حدیث: 687]
687۔ اردو حاشیہ:
یعنی امراء و حکام لوگ جو عید وغیرہ کے موقع پر بھالا، نیزہ وغیرہ لے کر نکلنے کا اہتمام کرتے ہیں اس کی اصل یہی ہے۔ نماز فرض ہو یا نفل، سفر ہو یا حضر، ہر موقع پر سترے کا خیال رکھنا چاہیے۔ نیز امام کا سترہ مقتدیوں کے لیے بھی کافی ہوتا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 687   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 748  
´نمازی کے سترہ کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (اپنے سامنے) نیزہ گاڑتے تھے، پھر اس کی طرف (رخ کر کے) نماز پڑھتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب القبلة/حدیث: 748]
748 ۔ اردو حاشیہ:
➊ سترے سے مراد وہ چیز ہے جو نمازی کی نماز کو شیطان اور گزرنے والوں سے محفوظ کرے۔ سترہ نمازی کے خیالات کو منتشر ہونے سے بچاتا ہے، بشرطیکہ نظر سترے سے تجاوز نہ کرے جیسا کہ مسنون ہے۔ اسی طرح سترہ نمازی کے آگے سے گزرنے والوں کے اثرات بد سے نماز اور نمازی کو محفوظ کرتا ہے۔ نمازی کے آگے سے گزرنا نمازی کے خشوع و خضوع کو ختم کرتا ہے اور گزرنے والے کو گناہ گار بناتا ہے۔ سترے کے آگے سے گزرنا نمازی اور گزرنے والے کو ان دونوں چیزوں سے بچاتا ہے۔
➋ اکیلے نمازی کو اگر وہ کھلی جگہ نماز پڑھ رہا ہے تو اسے اپنے سامنے سترہ رکھنا چاہیے۔ امام کے پیچھے ہو تو صرف امام کے سامنے سترے کا ہونا کافی ہے۔ پہلے سے موجود چیز بھی سترہ بن سکتی ہے جیسے ستون وغیرہ۔
➌ سترہ تقریباً ڈیڑھ فٹ اونچا اور اتنا موٹا ہونا چاہیے کہ دور سے صاف نظر آئے، ایسا نہ ہو کہ کسی کو پتا ہی نہ چلے۔ پالان کی پچھلی لکڑی بھی تقریباً ڈیڑھ فٹ اونچی ہوتی ہے۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 748   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث941  
´نمازی کے سترہ کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سفر میں نیزہ لے جایا جاتا اور اسے آپ کے آگے گاڑ دیا جاتا، آپ اس کی جانب نماز پڑھتے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 941]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
اس سے معلوم ہوا کہ نبی کریمﷺ سفر میں بھی سترے کا اہتمام فرماتے تھے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 941   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:494  
494. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب عید کے دن (مدینے سے) باہر تشریف لے جائے تو چھوٹا نیزہ گاڑنے کا حکم دیتے۔ جب اس کی تعمیل کر دی جاتی تو آپ اس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے اور لوگ آپ کے پیچھے کھڑے ہوتے تھے۔ دوران سفر میں بھی ایسا ہی کرتے تھے۔ (مسلمانوں کے) خلفاء نے بھی اسی وجہ سے برچھا ساتھ رکھنے کی عادت اپنا لی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:494]
حدیث حاشیہ:

اس روایت سے امام بخاری ؒ کا قائم کردہ عنوان اس طرح ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب عیدین کی نماز پڑھانے کے لیے باہر تشریف لے جاتے تو نیزہ وغیرہ آپ کے ساتھ ہوتا اور آپ کے سامنے نصب کردیاجاتا، پھر آپ نماز پڑھاتے، اسی سترے کو مقتدیوں کے لیے بھی کافی خیال کیاجاتا تھا، کیونکہ مقتدیوں کے لیے الگ سترے کا ہونا کسی روایت سے ثابت نہیں، نیز یہ بھی تفصیل نہیں کہ نیزے کو صرف امام کے لیے سترہ مانا جائے، پھر امام کو قوم کے حق میں سترہ قرار دیا جائے۔

سعد القرظ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نیزہ حضرت نجاشی نے رسول اللہ ﷺ کو بطور ہدیہ بھیجا تھا جسے آپ نے اس طرح کی ضروریات کے لیے استعمال فرمایا جبکہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نیزہ حضرت زبیر بن عوام ؓ کو غزوہ احد میں ایک مشرک سے ہاتھ لگا تھا جسے رسول اللہ ﷺ نے ان سے لے لیا۔
حافظ ابن حجر ؒ نے ان دونوں روایات میں اس طرح تطبیق دی ہے کہ پہلے حضرت زبیر بن عوام ؓ والا نیزہ استعمال ہوتا تھا۔
پھر نجاشی کا ہبہ کیا ہوا نیزہ استعمال ہونے لگا۔
(فتح الباري: 741/1)

رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں نیزہ وغیرہ کے ساتھ رکھنے میں مختلف مصلحتیں تھیں جن میں ایک مصلحت یہ تھی کہ اسے کھلے میدان میں نماز کے وقت بطور سترہ استعمال کیا جاتا تھا، نیزبوقت ضرورت دشمن سے بچاؤ کے بھی کام آسکتا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 494   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.