وعن انس رضي الله عنه ان النبي صلى الله عليه وآله وسلم استخلف ابن ام مكتوم يؤم الناس وهو اعمى. رواه احمد وابو داود. ونحوه لابن حبان عن عائشة رضي الله عنها.وعن أنس رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم استخلف ابن أم مكتوم يؤم الناس وهو أعمى. رواه أحمد وأبو داود. ونحوه لابن حبان عن عائشة رضي الله عنها.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو اپنا نائب بنایا۔ وہ لوگوں کی امامت کراتے تھے جب کہ وہ نابینا تھے۔ اسے احمد اور ابوداؤد نے روایت کیا ہے اور ابن حبان نے بھی اسی طرح کی حدیث سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے نقل کی ہے۔
हज़रत अनस रज़िअल्लाहुअन्ह से रिवायत है कि नबी करीम सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने इब्न उम्म मकतूम रज़िअल्लाहुअन्ह को अपना उपाध्यक्ष बनाया । वह लोगों की इमामत कराते थे जब कि वह नेत्रहीन थे । इसे अहमद और अबू दाऊद ने रिवायत किया है और इब्न हब्बान ने भी इसी तरह की हदीस हज़रत आयशा रज़ियल्लाहु अन्हा से बताई है ।
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الصلاة، باب أمامة الأعمي، حديث:595، وأحمد:3 /132، وحديث عائشة أخرجه ابن حبان(الإحسان):3 /287.»
Narrated Anas (RA):
The Prophet (ﷺ) appointed Ibn Umm Maktum (RA) to lead the people in prayer in his absence and he [Ibn Umm Maktum (RA)] was blind. [Reported by Ahmad and Abu Dawud].
Ibn Hibban also reported something similar from 'Aishah (RA).
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 595
´نابینا کی امامت کا بیان۔` انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو اپنا جانشین مقرر فرمایا، وہ لوگوں کی امامت کرتے تھے، حالانکہ وہ نابینا تھے۔ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 595]
595۔ اردو حاشیہ: نابینے شخص کی امامت بلا کراہت جائز ہے، بشرطیکہ اس میں صلاحیت ہو۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 595
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 338
´نماز باجماعت اور امامت کے مسائل کا بیان` سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو اپنا نائب بنایا۔ وہ لوگوں کی امامت کراتے تھے جب کہ وہ نابینا تھے۔ اسے احمد اور ابوداؤد نے روایت کیا ہے اور ابن حبان نے بھی اسی طرح کی حدیث سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے نقل کی ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 338»
تخریج: «أخرجه أبوداود، الصلاة، باب أمامة الأعمي، حديث:595، وأحمد:3 /132، وحديث عائشة أخرجه ابن حبان(الإحسان):3 /287.»
تشریح: 1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ امام کو اپنا نائب مقرر کرنا جائز ہے جو لوگوں کو نماز پڑھائے۔ 2.دوسرا مسئلہ یہ ثابت ہوا کہ نابینے کی امامت درست اور جائز ہے۔ 3. تیسرا یہ بھی معلوم ہوا کہ نابینا دوسروں کی بہ نسبت علم شریعت کا زیادہ عالم ہو سکتا ہے۔ 4. اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ افضل کی موجودگی میں دوسرا بھی نائب مقرر کیا جا سکتا ہے۔ 5. یہ نابینے صحابی حضرت عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ تھے‘ ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی عدم موجودگی میں کئی دفعہ اپنا نائب مقرر فرمایا اور غزوۂ تبوک کے موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو انتظامی امور وغیرہ کے لیے اپنا نائب مقرر فرمایا اور حضرت عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں نماز کی امامت کے لیے مقرر فرمایا۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 338