الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
مسافروں کی نماز اور قصر کے احکام
7. باب جَوَازِ الاِنْصِرَافِ مِنَ الصَّلاَةِ عَنِ الْيَمِينِ وَالشِّمَالِ:
7. باب: نماز پڑھ کے دائیں بائیں دونوں طرف مڑنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1638
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا ابو معاوية ، ووكيع ، عن الاعمش ، عن عمارة ، عن الاسود ، عن عبد الله ، قال: " لا يجعلن احدكم للشيطان من نفسه جزءا، لا يرى إلا ان حقا عليه، ان لا ينصرف إلا عن يمينه، اكثر ما رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم، ينصرف عن شماله ".حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، وَوَكِيعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عُمَارَةَ ، عَنِ الأَسْوَدِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: " لَا يَجْعَلَنَّ أَحَدُكُمْ لِلشَّيْطَانِ مِنْ نَفْسِهِ جُزْءًا، لَا يَرَى إِلَّا أَنَّ حَقًّا عَلَيْهِ، أَنْ لَا يَنْصَرِفَ إِلَّا عَنْ يَمِينِهِ، أَكْثَرُ مَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَنْصَرِفُ عَنْ شِمَالِهِ ".
ابو معاویہ اور وکیع نے اعمش سے، انھوں نے عمارہ سے، انھوں نے اسود سے اور انھوں نے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ (بن مسعود) سے روایت کی، کہا: تم میں سے کوئی شخص اپنی ذات میں سے شیطان کاحصہ نہ رکھے (وہم اور وسوسے کا شکار نہ ہو) یہ خیال نہ کرے کہ اس پر لازم ہے کہ وہ نماز سےدائیں کے علاوہ کسی اور جانب سے رخ نہ موڑے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اکثر دیکھا تھا، آپ بائیں جانب سے رخ مبارک موڑتے تھے۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ تم میں سے کوئی اپنی ذات سے شیطان کو حصہ نہ دے، یہ نہ خیال کرے کہ اس پر لازم ہے کہ وہ نماز سے دائیں طرف ہی مڑے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اکثر دیکھا ہے کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم بائیں طرف پھرتے تھے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 707

   صحيح البخاري852عبد الله بن مسعودلا يجعل أحدكم للشيطان شيئا من صلاته يرى أن حقا عليه أن لا ينصرف إلا عن يمينه لقد رأيت النبي كثيرا ينصرف عن يساره
   صحيح مسلم1638عبد الله بن مسعودلا يجعلن أحدكم للشيطان من نفسه جزءا لا يرى إلا أن حقا عليه أن لا ينصرف إلا عن يمينه أكثر ما رأيت رسول الله ينصرف عن شماله
   صحيح مسلم1313عبد الله بن مسعوديسلم تسليمتين
   جامع الترمذي295عبد الله بن مسعوديسلم عن يمينه عن يساره السلام عليكم ورحمة الله السلام عليكم ورحمة الله
   سنن أبي داود1042عبد الله بن مسعودلا يجعل أحدكم نصيبا للشيطان من صلاته أن لا ينصرف إلا عن يمينه وقد رأيت رسول الله أكثر ما ينصرف عن شماله
   سنن أبي داود996عبد الله بن مسعوديسلم عن يمينه عن شماله حتى يرى بياض خده السلام عليكم ورحمة الله السلام عليكم ورحمة الله
   سنن النسائى الصغرى1326عبد الله بن مسعوديسلم عن يمينه السلام عليكم ورحمة الله حتى يرى بياض خده الأيمن عن يساره السلام عليكم ورحمة الله حتى يرى بياض خده الأيسر
   سنن النسائى الصغرى1324عبد الله بن مسعوديسلم عن يمينه حتى يبدو بياض خده عن يساره حتى يبدو بياض خده
   سنن النسائى الصغرى1325عبد الله بن مسعوديسلم عن يمينه عن يساره السلام عليكم ورحمة الله السلام عليكم ورحمة الله حتى يرى بياض خده من هاهنا بياض خده من هاهنا
   سنن ابن ماجه930عبد الله بن مسعودلا يجعلن أحدكم للشيطان في نفسه جزءا يرى أن حقا لله عليه أن لا ينصرف إلا عن يمينه قد رأيت رسول الله أكثر انصرافه عن يساره
   سنن ابن ماجه914عبد الله بن مسعوديسلم عن يمينه عن شماله حتى يرى بياض خده السلام عليكم ورحمة الله

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1042  
´نماز سے فارغ ہو کر کس طرف سے پلٹنا چاہئے؟`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ تم میں سے کوئی شخص اپنی نماز کا کچھ حصہ شیطان کے لیے نہ بنائے کہ وہ صرف دائیں طرف ہی سے پلٹے، حال یہ ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ آپ اکثر بائیں طرف سے پلٹتے تھے، عمارہ کہتے ہیں: اس کے بعد میں مدینہ آیا تو میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں کو (بحالت نماز) آپ کے بائیں جانب دیکھا ۱؎۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 1042]
1042۔ اردو حاشیہ:
➊ حضرت عمارہ رضی اللہ عنہا کا استشہاد یوں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نماز کے بعد اذکار وغیرہ سے فارغ ہو کر اپنے گھروں کو بائیں جانب ہی جانا ہوتا تھا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم عموماًاپنے بائیں جانب سے ہی اپنا منہ موڑتے رہے ہوں گے۔
➋ بقول حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سنت کے کسی ایک ہی انداز میں اس قدر اصرار کے دوسرے سے اعراض یا اس کی تکذیب سمجھی جائے۔ دین میں بےحد برا عمل ہے، گویا شیطان کا حصہ ملانا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1042   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث914  
´سلام پھیرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دائیں اور بائیں جانب سلام پھیرتے، یہاں تک کہ آپ کے رخسار کی سفیدی دکھائی دینے لگتی، اور آپ کہتے: «السلام عليكم ورحمة الله» ۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 914]
اردو حاشہ:
فوائدومسائل:

(1)
نماز سے فارغ ہونے کا طریقہ سلام پھیرنا ہے۔
جیسے کہ حدیث 275 اور 276 میں بیان ہوا ہے۔

(2)
سلام پھیرنے کے مختلف طریقے وارد ہیں۔
مثلاً
(الف)
السلام و علیکم ورحمة اللہ۔
  السلام علیکم ورحمة اللہ (جیسے حدیث 916 میں آرہا ہے۔)

(ب)
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاته۔
  السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاته۔ (بلوغ المرام، لإبن حجر، الصلاۃ، باب صفة الصلاۃ، حدیث: 253)

(ج)
  صرف ایک سلام کےساتھ نماز سے فارغ ہونا بھی درست ہے۔
ایک سلام کہتے ہوئے تھوڑا سا دایئں طرف منہ کرنا چاہیے۔ (جامع الترمذي، الصلاة، باب: 106، حدیث: 296)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 914   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 295  
´نماز میں سلام پھیرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دائیں اور بائیں «السلام عليكم ورحمة الله السلام عليكم ورحمة الله» کہہ کر سلام پھیرتے تھے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 295]
اردو حاشہ:
1؎:
اس سے دونوں طرف دائیں اور بائیں سلام پھیرنے کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے،
ابو داؤد کی روایت میں ((حَتَّى يُرَى بَيَاضُ خَدِّهِ)) کا اضافہ ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 295   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1638  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
شریعت جس چیز کو لازم اور واجب قرارنہیں دیتی اس کو اپنی طرف سے واجب ٹھہرنا اپنے میں سے شیطان کو حصہ دینا ہے اس لیے اس حدیث سے بقول علامہ سعیدی یہ قاعدہ مستبط ہوا کہ شریعت نے جس عبادت کا جوحکم بیان کیا ہے اس سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے جو شخص اس حکم سے تجاوز کرتا ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت بدل کر نئی شریعت بنا رہا ہے ہمارے خیال میں اس سے بڑھ کر اور گمراہی نہیں ہے شرح صحیح مسلم (ج2ص: 418)
لیکن اب سوال یہ ہے کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے فوت شدہ مسلمانوں کو ایصال ثواب کے لیے تیسرے دسویں اور چالیسوں دن قرآن پا ک کی تلاوت کرنا اور صدقہ کرنا ثابت نہیں ہے تو کیا اس کا امر مستحب قراردینا شریعت سازی نہیں ہے جب کہ صورت حال یہ ہے تیجا،
ساتواں اور دسواں وغیرہ نہ کرنے والے کو ملامت کی جاتی ہے اور یہ واجب ٹھہرانے کی علامت ہے- علامہ سعیدی لکھتے ہیں،
واجب اور مستحب میں یہ فرق ہے کہ واجب کے تارک کو نہ کرنے پر ٹوکا جاتا ہے اور اسے ملامت کی جاتی ہے کہ تم نے یہ کام کیوں نہیں کیا اور مستحب کے تارک کو ملامت نہیں کی جاتی نہ ہی نہ کرنے پر ٹوکا جاتا ہے اگر کوئی شخص کسی مستحب کام کے نہ کرنے پر ٹوک رہا ہے تو دوسرے لفظوں میں وہ اس مستحب کو واجب بنا رہا ہے۔
(اَلْعَيَاذُ بِاللهِ)
(شرح مسلم الرواح: 2 /418)
پہلے تو تیجے،
ساتویں وغیرہ کی اپنی طرف سے تعیین کر لی جب کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے اور پھر یہ کام نہ کرنے والے کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو کیا یہ اس کو لازم اور واجب قرار دینا نہیں ہے جو گمراہی میں بدعت سئیہ ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 1638   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.