الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
مسافروں کی نماز اور قصر کے احکام
The Book of Prayer - Travellers
18. باب جَامِعِ صَلاَةِ اللَّيْلِ وَمَنْ نَامَ عَنْهُ أَوْ مَرِضَ:
18. باب: رات کی نماز کے احکام اور جس سے سونے یا بیمار ہونے کی وجہ سے رہ جائے۔
حدیث نمبر: 1739
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن المثنى العنزي ، حدثنا محمد بن ابي عدي ، عن سعيد ، عن قتادة ، عن زرارة ، ان سعد بن هشام بن عامر اراد ان يغزو في سبيل الله، فقدم المدينة، فاراد ان يبيع عقارا له بها، فيجعله في السلاح والكراع، ويجاهد الروم حتى يموت، فلما قدم المدينة، لقي اناسا من اهل المدينة فنهوه عن ذلك، واخبروه ان رهطا ستة ارادوا ذلك في حياة نبي الله صلى الله عليه وسلم، فنهاهم نبي الله صلى الله عليه وسلم، وقال:" اليس لكم في اسوة، فلما حدثوه بذلك، راجع امراته وقد كان طلقها واشهد على رجعتها، فاتى ابن عباس، فساله عن وتر رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال ابن عباس: الا ادلك على اعلم اهل الارض بوتر رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: من؟ قال: عائشة، فاتها فاسالها، ثم ائتني فاخبرني بردها عليك، فانطلقت إليها، فاتيت على حكيم بن افلح، فاستلحقته إليها، فقال: ما انا بقاربها، لاني نهيتها ان تقول في هاتين الشيعتين شيئا، فابت فيهما إلا مضيا، قال: فاقسمت عليه، فجاء فانطلقنا إلى عائشة فاستاذنا عليها، فاذنت لنا فدخلنا عليها، فقالت: احكيم، فعرفته؟ فقال: نعم، فقالت: من معك؟ قال: سعد بن هشام، قالت: من هشام؟ قال: ابن عامر، فترحمت عليه، وقالت: خيرا، قال قتادة وكان اصيب يوم احد: فقلت: يا ام المؤمنين، انبئيني عن خلق رسول الله صلى الله عليه وسلم، قالت: الست تقرا القرآن؟ قلت: بلى، قالت: فإن خلق نبي الله صلى الله عليه وسلم، كان القرآن، قال: فهممت ان اقوم ولا اسال احدا عن شيء حتى اموت، ثم بدا لي، فقلت: انبئيني عن قيام رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: الست تقرا يايها المزمل سورة المزمل آية 1؟ قلت: بلى، قالت: فإن الله عز وجل، افترض قيام الليل في اول هذه السورة، فقام نبي الله صلى الله عليه وسلم، واصحابه حولا، وامسك الله خاتمتها اثني عشر شهرا في السماء، حتى انزل الله في آخر هذه السورة التخفيف، فصار قيام الليل تطوعا بعد فريضة، قال: قلت: يا ام المؤمنين، انبئيني عن وتر رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت:" كنا نعد له، سواكه، وطهوره، فيبعثه الله ما شاء ان يبعثه من الليل، فيتسوك، ويتوضا، ويصلي تسع ركعات، لا يجلس فيها إلا في الثامنة، فيذكر الله ويحمده ويدعوه ثم ينهض، ولا يسلم، ثم يقوم فيصلي التاسعة، ثم يقعد فيذكر الله ويحمده ويدعوه، ثم يسلم تسليما يسمعنا، ثم يصلي ركعتين بعد ما يسلم وهو قاعد، وتلك إحدى عشرة ركعة، يا بني، فلما اسن نبي الله صلى الله عليه وسلم واخذ اللحم، اوتر بسبع وصنع في الركعتين مثل صنيعه الاول، فتلك تسع يا بني، وكان نبي الله صلى الله عليه وسلم، إذا صلى صلاة احب ان يداوم عليها، وكان إذا غلبه نوم او وجع عن قيام الليل، صلى من النهار ثنتي عشرة ركعة، ولا اعلم نبي الله صلى الله عليه وسلم قرا القرآن كله في ليلة، ولا صلى ليلة إلى الصبح، ولا صام شهرا كاملا غير رمضان، قال: فانطلقت إلى ابن عباس، فحدثته بحديثها، فقال: صدقت لو كنت اقربها او ادخل عليها لاتيتها حتى تشافهني به، قال: قلت: لو علمت انك لا تدخل عليها ما حدثتك حديثها.
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى الْعَنَزِيُّ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنْ سَعِيدٍ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ زُرَارَةَ ، أَنَّ سَعْدَ بْنَ هِشَامِ بْنِ عَامِرٍ أَرَادَ أَنْ يَغْزُوَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَقَدِمَ الْمَدِينَةَ، فَأَرَادَ أَنْ يَبِيعَ عَقَارًا لَهُ بِهَا، فَيَجْعَلَهُ فِي السِّلَاحِ وَالْكُرَاعِ، وَيُجَاهِدَ الرُّومَ حَتَّى يَمُوتَ، فَلَمَّا قَدِمَ الْمَدِينَةَ، لَقِيَ أُنَاسًا مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ فَنَهَوْهُ عَنْ ذَلِكَ، وَأَخْبَرُوهُ أَنَّ رَهْطًا سِتَّةً أَرَادُوا ذَلِكَ فِي حَيَاةِ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَهَاهُمْ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ:" أَلَيْسَ لَكُمْ فِيَّ أُسْوَةٌ، فَلَمَّا حَدَّثُوهُ بِذَلِكَ، رَاجَعَ امْرَأَتَهُ وَقَدْ كَانَ طَلَّقَهَا وَأَشْهَدَ عَلَى رَجْعَتِهَا، فَأَتَى ابْنَ عَبَّاسٍ، فَسَأَلَهُ عَنْ وِتْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: أَلَا أَدُلُّكَ عَلَى أَعْلَمِ أَهْلِ الأَرْضِ بِوِتْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: مَنْ؟ قَالَ: عَائِشَةُ، فَأْتِهَا فَاسْأَلْهَا، ثُمَّ ائْتِنِي فَأَخْبِرْنِي بِرَدِّهَا عَلَيْكَ، فَانْطَلَقْتُ إِلَيْهَا، فَأَتَيْتُ عَلَى حَكِيمِ بْنِ أَفْلَحَ، فَاسْتَلْحَقْتُهُ إِلَيْهَا، فَقَالَ: مَا أَنَا بِقَارِبِهَا، لِأَنِّي نَهَيْتُهَا أَنْ تَقُولَ فِي هَاتَيْنِ الشِّيعَتَيْنِ شَيْئًا، فَأَبَتْ فِيهِمَا إِلَّا مُضِيًّا، قَالَ: فَأَقْسَمْتُ عَلَيْهِ، فَجَاءَ فَانْطَلَقْنَا إِلَى عَائِشَةَ فَاسْتَأْذَنَّا عَلَيْهَا، فَأَذِنَتْ لَنَا فَدَخَلْنَا عَلَيْهَا، فَقَالَتْ: أَحَكِيمٌ، فَعَرَفَتْهُ؟ فَقَالَ: نَعَمْ، فَقَالَتْ: مَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: سَعْدُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَتْ: مَنْ هِشَامٌ؟ قَالَ: ابْنُ عَامِرٍ، فَتَرَحَّمَتْ عَلَيْهِ، وَقَالَتْ: خَيْرًا، قَالَ قَتَادَةُ وَكَانَ أُصِيبَ يَوْمَ أُحُدٍ: فَقُلْتُ: يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ، أَنْبِئِينِي عَنْ خُلُقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: أَلَسْتَ تَقْرَأُ الْقُرْآنَ؟ قُلْتُ: بَلَى، قَالَتْ: فَإِنَّ خُلُقَ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ الْقُرْآنَ، قَالَ: فَهَمَمْتُ أَنْ أَقُومَ وَلَا أَسْأَلَ أَحَدًا عَنْ شَيْءٍ حَتَّى أَمُوتَ، ثُمَّ بَدَا لِي، فَقُلْتُ: أَنْبِئِينِي عَنْ قِيَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: أَلَسْتَ تَقْرَأُ يَأَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ سورة المزمل آية 1؟ قُلْتُ: بَلَى، قَالَتْ: فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ، افْتَرَضَ قِيَامَ اللَّيْلِ فِي أَوَّلِ هَذِهِ السُّورَةِ، فَقَامَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَصْحَابُهُ حَوْلًا، وَأَمْسَكَ اللَّهُ خَاتِمَتَهَا اثْنَيْ عَشَرَ شَهْرًا فِي السَّمَاءِ، حَتَّى أَنْزَلَ اللَّهُ فِي آخِرِ هَذِهِ السُّورَةِ التَّخْفِيفَ، فَصَارَ قِيَامُ اللَّيْلِ تَطَوُّعًا بَعْدَ فَرِيضَةٍ، قَالَ: قُلْتُ: يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ، أَنْبِئِينِي عَنْ وِتْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ:" كُنَّا نُعِدُّ لَهُ، سِوَاكَهُ، وَطَهُورَهُ، فَيَبْعَثُهُ اللَّهُ مَا شَاءَ أَنْ يَبْعَثَهُ مِنَ اللَّيْلِ، فَيَتَسَوَّكُ، وَيَتَوَضَّأُ، وَيُصَلِّي تِسْعَ رَكَعَاتٍ، لَا يَجْلِسُ فِيهَا إِلَّا فِي الثَّامِنَةِ، فَيَذْكُرُ اللَّهَ وَيَحْمَدُهُ وَيَدْعُوهُ ثُمَّ يَنْهَضُ، وَلَا يُسَلِّمُ، ثُمَّ يَقُومُ فَيُصَلِّي التَّاسِعَةَ، ثُمَّ يَقْعُدُ فَيَذْكُرُ اللَّهَ وَيَحْمَدُهُ وَيَدْعُوهُ، ثُمَّ يُسَلِّمُ تَسْلِيمًا يُسْمِعُنَا، ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ بَعْدَ مَا يُسَلِّمُ وَهُوَ قَاعِدٌ، وَتِلْكَ إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً، يَا بُنَيَّ، فَلَمَّا أَسَنَّ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَخَذَ اللَّحْمَ، أَوْتَرَ بِسَبْعٍ وَصَنَعَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ مِثْلَ صَنِيعِهِ الأَوَّلِ، فَتِلْكَ تِسْعٌ يَا بُنَيَّ، وَكَانَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذَا صَلَّى صَلَاةً أَحَبَّ أَنْ يُدَاوِمَ عَلَيْهَا، وَكَانَ إِذَا غَلَبَهُ نَوْمٌ أَوْ وَجَعٌ عَنْ قِيَامِ اللَّيْلِ، صَلَّى مِنَ النَّهَارِ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً، وَلَا أَعْلَمُ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَرَأَ الْقُرْآنَ كُلَّهُ فِي لَيْلَةٍ، وَلَا صَلَّى لَيْلَةً إِلَى الصُّبْحِ، وَلَا صَامَ شَهْرًا كَامِلًا غَيْرَ رَمَضَانَ، قَالَ: فَانْطَلَقْتُ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، فَحَدَّثْتُهُ بِحَدِيثِهَا، فَقَالَ: صَدَقَتْ لَوْ كُنْتُ أَقْرَبُهَا أَوْ أَدْخُلُ عَلَيْهَا لَأَتَيْتُهَا حَتَّى تُشَافِهَنِي بِهِ، قَالَ: قُلْتُ: لَوْ عَلِمْتُ أَنَّكَ لَا تَدْخُلُ عَلَيْهَا مَا حَدَّثْتُكَ حَدِيثَهَا.
ابن ابی عدی نے سعید (ابن ابی عروبہ) سے، انھوں نے قتادہ سے اور انھوں نے زرارہ سے روایت کی کہ (حضرت انس رضی اللہ عنہ کے قریبی عزیز) سعد بن ہشام بن عامر نے ارادہ کیا کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جنگ (جہاد) کریں، وہ مدینہ منورہ آگئے اور وہاں ا پنی ایک جائیداد فروخت کرنی چاہی تاکہ اس سے ہتھیار اور گھوڑے مہیا کریں اور موت آنے تک رومیوں کے خلاف جہاد کریں، چنانچہ جب مدینہ آئے تو اہل مدینہ میں سے کچھ لوگوں سے ملے، انھوں نے اس کو اس ارادے سے روکا اور ان کو بتایا کہ چھ افراد کے ایک گروہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں ایسا کرنے کاارادہ کیاتھا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں روک دیا تھا۔آپ نے فرمایا تھا: "کیا میرے طرز عمل میں تمھارے لئے نمونہ نہیں ہیں؟"چنانچہ جب ان لوگوں نے انھیں یہ بات بتائی تو انھوں نے اپنی بیوی سے رجوع کرلیا جبکہ وہ اسے طلاق دے چکے تھے، اور اس سے رجو ع کے لئے گواہ بنائے۔پھر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوکر ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر (بشمول قیام اللیل) کے بارے میں سوال کیا تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا میں تمھیں اس ہستی سے آگاہ نہ کروں۔جو روئے زمین کے تمام لوگوں کی نسبت ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر کو زیادہ جاننے والی ہے؟سعد نے کہا: وہ کون ہیں؟انھوں نےکہا: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ان کے پاس جاؤ اور پوچھو، پھر (دوبارہ) میرے پاس آنا اور ان کا جواب مجھے بھی آکر بتانا، (سعدنے کہا:) میں ان کی طرف چل پڑا اور (پہلے) حکیم بن افلح کے پاس آیا اور انھیں اپنے ساتھ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس چلنے کو کہا تو انھوں نے کہا: میں ان کے پاس نہیں جاؤں گا کیونکہ میں نے انھیں (آپس میں لڑنے والی) ان دو جماعتوں کے بارے میں کچھ بھی کہنے سے روکا تھا۔تو وہ ان دونوں کے بارے میں اسی طریقے پر چلتے رہنے کے سوا اور کچھ نہ مانیں۔ (سعد نے) کہا: تو میں نے انھیں قسم دی تو وہ آگئے، پس ہم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف چل پڑے، اور ان سے حاضری کی اجازت طلب کی، انھوں نے اجازت مرحمت فرمادی اور ہم ان کے گھر (دروازے) میں داخل ہوئے، انھوں نے کہا: کیا حکیم ہو؟انہوں نے اسے پہچان لیا، اس نے کہا: جی ہاں۔تو انھوں نے کہا: تمہارے ساتھ کون ہے؟اس نے کہا: سعد بن ہشام۔انھوں نے پوچھا: ہشام کون؟ اس نے کہا: عامر رضی اللہ عنہ (بن امیہ انصاری) کے بیٹے۔تو انہوں نے ان کے لئے رحمت کی دعا کی اور کلمات خیر کہے۔قتادہ نے کہا: وہ (عامر رضی اللہ عنہ) غزوہ احد میں شہید ہوگئے تھے۔میں نے کہا: ام المومنین! مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلق مبارک کے بارے میں بتایئے۔انھوں نے کہا: کیاتم قرآن نہیں پڑھتے؟میں نے عرض کی: کیوں نہیں!انھوں نے کہا: اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق قرآن ہی تھا (آپ کی سیرت وکردار قرآن کا عملی نمونہ تھی) کہا: اس پر میں نے یہ چاہا کہ اٹھ (کر چلا) جاؤں اور موت تک کسی سے کچھ نہ پوچھوں، پھر اچانک ذہن میں آیا تو میں نے کہامجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے (رات کے) قیام کے بارے میں بتائیں، تو انھوں نے کہا: کیا تم (یَا أَیُّہَا الْمُزَّمِّلُ) نہیں پڑ ھتے؟ میں نے عرض کی کیوں نہیں!انھوں نے کہا: اللہ تعالیٰ نے اس سورت کے آغاز میں رات کا قیام فرض قرار دیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں نے سال بھر قیام کیا اور اللہ تعالیٰ نے اس سورت کی آخری آیات بارہ ماہ تک آسمان پر روکے رکھیں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس سورت کے آخر میں تخفیف کا حکم نازل فرمایاتو رات کا قیام فرض ہونے کے بعد نفل (میں تبدیل) ہوگیا۔ سعد نے کہا: میں نے عرض کی: اے ام المومنین! مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر کے بارے میں بتایئے۔تو انھوں نے کہا: ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے آپ کی مسواک اور آپ کے وضو کا پانی تیار کرکے رکھتے تھے اللہ تعالیٰ رات کو جب چاہتا، آپ کو بیدار کردیتا تو آپ مسواک کرتے، وضو کرتے اور پھر نو رکعتیں پڑھتے، ان میں آپ آٹھویں کے علاوہ کسی رکعت میں نہ بیٹھتے، پھر اللہ کا ذکر کرتے، اس کی حمد بیان کرتے اور دعا فرماتے، پھر سلام پھیرے بغیر کھڑے ہوجاتے، پھر کھڑے ہوکرنویں رکعت پڑھتے، پھر بیٹھتے اللہ کا ذکر اور حمد کرتے اور اس سے دعا کرتے، پھر سلام پھیرتے جو ہمیں سناتے، پھر سلام کے بعد بیٹھ کر دو رکعتیں پڑھتے، تو میرے بیٹے! یہ گیارہ رکعتیں ہو گئیں۔پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک بڑھی اور (جسم پر کسی حد تک) گوشت چڑھ گیا (جسم مبارک بھاری ہوگیا) تو آپ سات وتر پڑھنے لگ گئے اور دو رکعتوں میں وہی کرتے جو پہلے کرتے تھے (بیٹھ کر پڑھتے) تو بیٹا!یہ نو رکعتیں ہوگئیں اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی نماز پڑھتے تو آپ پسند کرتے کہ اس پرقائم رہیں اور جب نیند یا بیماری غالب آجاتی اور رات کا قیام نہ کر سکتے تو آپ دن کو بارہ رکعتیں پڑھ لیتے۔میں نہیں جانتی کہ اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی پورا قرآن ایک رات میں پڑھا ہو اور نہ ہی آپ نے کسی رات صبح تک نماز پڑھی اور نہ رمضان کے سوا کبھی پورے مہینے کے روزے رکھے۔ (سعد نے) کہا: پھر میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کی طرف گیا اور انھیں ان (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا) کی حدیث سنائی تو انھوں نے کہا: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے سچ کہا، اگر میں ان کے قریب ہوتا یا ان کے گھر جاتا ہوتا تو ان کے پاس جاتا تاکہ وہ مجھے یہ حدیث رو برو سناتیں۔ (سعد نے) کہا: میں نےکہا: اگر مجھے علم ہوتا ہے کہ آپ ان کے ہاں حاضر نہیں ہوتے تو میں آپ کو ان کی حدیث نہ سناتا (یہ سعد بالآخر سرزمین ہند میں شہید ہوئے)
سعد بن ہشام بن عامر نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں جنگ (جہاد) کرنے کا ارادہ کیا تو مدینہ منورہ آ گئے اور وہاں ا پنی ایک جائیداد فروخت کرنی چاہی تاکہ اس سے ہتھیار اور گھوڑے مہیا کریں اور موت آنے تک رومیوں کے خلاف جہاد کریں، چنانچہ جب مدینہ آئے تو اہل مدینہ میں سے کچھ لوگوں سے ملے، انھوں نے اس کو اس ارادے سے روکا اور ان کو بتایا کہ چھ افراد کے ایک گروہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں ایسا کرنے کا ارادہ کیا تھا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں روک دیا تھا۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: کیا میرے طرز عمل میں تمھارے لئے نمونہ نہیں ہے؟ چنانچہ جب ان لوگوں نے انھیں یہ بات بتائی تو انھوں نے اپنی بیوی سے رجوع کر لیا جبکہ وہ اسے طلاق دے چکے تھے، اور اس سے رجوع کے لئے گواہ بنائے۔ پھر حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی خدمت میں حاضر ہو کر ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر (بشمول قیام اللیل) کے بارے میں سوال کیا تو حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے کہا: کیا میں تمھیں اس ہستی سے آگاہ نہ کروں، جو روئے زمین کے تمام لوگوں کی نسبت ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر کو زیادہ جاننے والی ہے؟ سعد نے کہا: وہ کون ہیں؟ انھوں نےکہا: حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ان کے پاس جاؤ اور پوچھو، پھر (دوبارہ) میرے پاس آنا اور ان کا جواب مجھے بھی آ کر بتانا، (سعدنے کہا:) میں ان کی طرف چل پڑا اور (پہلے) حکیم بن افلح کے پاس آیا اور انھیں اپنے ساتھ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس چلنے کو کہا تو انھوں نے کہا: میں ان کے پاس نہیں جاؤں گا کیونکہ میں نے انھیں (آپس میں لڑنے والی) ان دو جماعتوں کے بارے میں کچھ بھی کہنے سے روکا تھا۔ تو وہ ان دونوں کے بارے میں اسی طریقے پر چلتے رہنے کے سوا اور کچھ نہ مانیں۔ (سعد نے) کہا: تو میں نے انھیں قسم دی تو وہ آ گئے، پس ہم حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی طرف چل پڑے، اور ان سے حاضری کی اجازت طلب کی، انھوں نے اجازت مرحمت فرما دی اور ہم ان کے گھر (دروازے) میں داخل ہوئے، انھوں نے کہا: کیا حکیم ہو؟ انہوں نے اسے پہچان لیا، اس نے کہا: جی ہاں۔ تو انھوں نے کہا: تمہارے ساتھ کون ہے؟ اس نے کہا: سعد بن ہشام۔ انھوں نے پوچھا: ہشام کون؟ اس نے کہا: عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ (بن امیہ انصاری) کے بیٹے۔ تو انہوں نے ان کے لئے رحمت کی دعا کی اور کلمات خیر کہے۔ قتادہ نے کہا: وہ (عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ) غزوہ احد میں شہید ہو گئے تھے۔ میں نے کہا: ام المؤمنین! مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلق مبارک کے بارے میں بتایئے۔ انھوں نے کہا: کیا تم قرآن نہیں پڑھتے؟ میں نے عرض کیا: کیوں نہیں! انھوں نے کہا: اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق قرآن ہی تھا (آپصلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت وکردار قرآن کا عملی نمونہ تھی) کہا: اس پر میں نے یہ چاہا کہ اٹھ (کر چلا) جاؤں اور موت تک کسی سے کچھ نہ پوچھوں، پھر اچانک ذہن میں آیا تو میں نے کہا مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے (رات کے) قیام کے بارے میں بتائیں، تو انھوں نے کہا: کیا تم ﴿يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ﴾ نہیں پڑ ھتے؟ میں نے عرض کی کیوں نہیں! انھوں نے کہا: اللہ تعالیٰ نے اس سورت کے آغاز میں رات کا قیام فرض قرار دیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں نے سال بھر قیام کیا اور اللہ تعالیٰ نے اس سورت کی آخری آیات بارہ ماہ تک آسمان پر روکے رکھیں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس سورت کے آخر میں تخفیف کا حکم نازل فرمایا تو رات کا قیام فرض ہونے کے بعد نفل (میں تبدیل) ہو گیا۔ سعد نے کہا: میں نے عرض کیا: اے اُمُّ الْمُؤمنین! مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر کے بارے میں بتایئے۔ تو انھوں نے کہا: ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے آپصلی اللہ علیہ وسلم کی مسواک اور آپصلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کا پانی تیار کر کے رکھتے تھے اللہ تعالیٰ رات کو جب چاہتا، آپصلی اللہ علیہ وسلم کو بیدار کر دیتا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم مسواک کرتے، وضو کرتے اور پھر نو رکعتیں پڑھتے، ان میں آپصلی اللہ علیہ وسلم آٹھویں کے علاوہ کسی رکعت میں نہ بیٹھتے، پھر اللہ کا ذکر کرتے، اس کی حمد بیان کرتے اور دعا فرماتے، پھر سلام پھیرے بغیر کھڑے ہو جاتے، پھر کھڑے ہو کرنویں رکعت پڑھتے، پھر بیٹھتے اللہ کا ذکر اور حمد کرتے اور اس سے دعا کرتے، پھر سلام پھیرتے جو ہمیں سناتے پھر سلام كے بعد بیٹھ کر دو رکعتیں پڑھتے، تو میرے بیٹے! یہ گیارہ رکعتیں ہو گئیں۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک بڑھی اور(جسم پر کسی حد تک) گوشت چڑھ گیا (جسم مبارک بھاری ہو گیا) تو آپصلی اللہ علیہ وسلم سات وتر پڑھنے لگ گئے اور دو رکعتوں میں وہی کرتے جو پہلے کرتے تھے (بیٹھ کر پڑھتے) تو بیٹا! یہ نو رکعتیں ہو گئیں اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی نماز پڑھتے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم پسند کرتے کہ اس پرقائم رہیں اور جب نیند یا بیماری غالب آ جاتی اور رات کا قیام نہ کر سکتے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم دن کو بارہ رکعتیں پڑھ لیتے۔ میں نہیں جانتی کہ اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی پورا قرآن ایک رات میں پڑھا ہو اور نہ ہی آپصلی اللہ علیہ وسلم نے کسی رات صبح تک نماز پڑھی اور نہ رمضان کے سوا کبھی پورے مہینے کے روزے رکھے۔ (سعد نے) کہا: پھر میں ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف گیا اور انھیں ان (حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا) کی حدیث سنائی تو انھوں نے کہا: حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے سچ کہا، اگر میں ان کے قریب ہوتا یا ان کے گھر جاتا ہوتا تو ان کے پاس جاتا تاکہ وہ مجھے یہ حدیث رو برو سناتیں۔ سعد کہتے ہیں، میں نے کہا، اگر مجھے علم ہوتا کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس نہیں جاتے تو میں آپصلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی حدیث نہ سناتا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 746

   صحيح البخاري6310عائشة بنت عبد اللهيصلي من الليل إحدى عشرة ركعة إذا طلع الفجر صلى ركعتين خفيفتين اضطجع على شقه الأيمن يجيء المؤذن فيؤذنه
   صحيح البخاري994عائشة بنت عبد اللهيصلي إحدى عشرة ركعة كانت تلك صلاته تعني بالليل فيسجد السجدة من ذلك قدر ما ي قرأ أحدكم خمسين آية قبل أن يرفع رأسه ويركع ركعتين قبل صلاة الفجر يضطجع على شقه الأيمن يأتيه المؤذن للصلاة
   صحيح البخاري1159عائشة بنت عبد اللهصلى النبي العشاء ثم صلى ثماني ركعات وركعتين جالسا وركعتين بين النداءين ولم يكن يدعهما أبدا
   صحيح البخاري1140عائشة بنت عبد اللهيصلي من الليل ثلاث عشرة ركعة منها الوتر وركعتا الفجر
   صحيح البخاري1123عائشة بنت عبد اللهيصلي إحدى عشرة ركعة كانت تلك صلاته يسجد السجدة من ذلك قدر ما يقرأ أحدكم خمسين آية قبل أن يرفع رأسه ويركع ركعتين قبل صلاة الفجر ثم يضطجع على شقه الأيمن حتى يأتيه المنادي للصلاة
   صحيح البخاري1170عائشة بنت عبد اللهيصلي بالليل ثلاث عشرة ركعة ثم يصلي إذا سمع النداء بالصبح ركعتين خفيفتين
   صحيح مسلم1717عائشة بنت عبد اللهيصلي بالليل إحدى عشرة ركعة يوتر منها بواحدة فإذا فرغ منها اضطجع على شقه الأيمن حتى يأتيه المؤذن فيصلي ركعتين خفيفتين
   صحيح مسلم1806عائشة بنت عبد اللهإذا قام من الليل ليصلي افتتح صلاته بركعتين خفيفتين
   صحيح مسلم1724عائشة بنت عبد اللهيصلي ثلاث عشرة ركعة يصلي ثمان ركعات ثم يوتر ثم يصلي ركعتين وهو جالس فإذا أراد أن يركع قام فركع ثم يصلي ركعتين بين النداء والإقامة من صلاة الصبح
   صحيح مسلم1722عائشة بنت عبد اللهيصلي ثلاث عشرة ركعة بركعتي الفجر
   صحيح مسلم1739عائشة بنت عبد اللهيتسوك ويتوضأ ويصلي تسع ركعات لا يجلس فيها إلا في الثامنة فيذكر الله ويحمده ويدعوه ثم ينهض ولا يسلم ثم يقوم فيصل التاسعة ثم يقعد فيذكر الله ويحمده ويدعوه ثم يسلم تسليما يسمعنا ثم يصلي ركعتين بعد ما يسلم وهو قاعد وتلك إحدى عشرة ركعة يا بني فلما أسن نبي
   صحيح مسلم1718عائشة بنت عبد اللهيصلي فيما بين أن يفرغ من صلاة العشاء وهي التي يدعو الناس العتمة إلى الفجر إحدى عشرة ركعة يسلم بين كل ركعتين ويوتر بواحدة فإذا سكت المؤذن من صلاة الفجر وتبين له الفجر وجاءه المؤذن قام فركع ركعتين خفيفتين ثم اضطجع على شقه الأيمن حتى يأتيه المؤذن للإقامة
   جامع الترمذي440عائشة بنت عبد اللهيصلي من الليل إحدى عشرة ركعة يوتر منها بواحدة فإذا فرغ منها اضطجع على شقه الأيمن
   جامع الترمذي443عائشة بنت عبد اللهيصلي من الليل تسع ركعات
   سنن أبي داود1350عائشة بنت عبد اللهيصلي من الليل ثلاث عشرة ركعة يوتر بتسع أو كما قالت ويصلي ركعتين وهو جالس وركعتي الفجر بين الأذان والإقامة
   سنن أبي داود1340عائشة بنت عبد اللهيصلي من الليل ثلاث عشرة ركعة كان يصلي ثماني ركعات ويوتر بركعة ثم يصلي قال مسلم بعد الوتر ثم اتفقا ركعتين وهو قاعد فإذا أراد أن يركع قام فركع ويصلي بين أذان الفجر والإقامة ركعتين
   سنن أبي داود1363عائشة بنت عبد اللهيصلي ثلاث عشرة ركعة من الليل ثم إنه صلى إحدى عشرة ركعة وترك ركعتين ثم قبض حين قبض وهو يصلي من الليل تسع ركعات وكان آخر صلاته من الليل الوتر
   سنن أبي داود1362عائشة بنت عبد اللهيوتر بأربع وثلاث وست وثلاث وثمان وثلاث وعشر وثلاث ولم يكن يوتر بأنقص من سبع ولا بأكثر من ثلاث عشرة
   سنن أبي داود1334عائشة بنت عبد اللهيصلي من الليل عشر ركعات ويوتر بسجدة ويسجد سجدتي الفجر فذلك ثلاث عشرة ركعة
   سنن أبي داود1361عائشة بنت عبد اللهصلى العشاء ثم صلى ثماني ركعات قائما وركعتين بين الأذانين ولم يكن يدعهما
   سنن أبي داود1335عائشة بنت عبد اللهيصلي من الليل إحدى عشرة ركعة يوتر منها بواحدة فإذا فرغ منها اضطجع على شقه الأيمن
   سنن أبي داود1336عائشة بنت عبد اللهيصلي فيما بين أن يفرغ من صلاة العشاء إلى أن ينصدع الفجر إحدى عشرة ركعة يسلم من كل ثنتين ويوتر بواحدة ويمكث في سجوده قدر ما يقرأ أحدكم خمسين آية قبل أن يرفع رأسه فإذا سكت المؤذن بالأولى من صلاة الفجر قام فركع ركعتين خفيفتين ثم اضطجع على شقه الأيمن حتى يأتي
   سنن أبي داود1360عائشة بنت عبد اللهيصلي بالليل ثلاث عشرة ركعة بركعتي الفجر
   سنن أبي داود1352عائشة بنت عبد اللهيصلي بالناس صلاة العشاء ثم يأوي إلى فراشه فينام فإذا كان جوف الليل قام إلى حاجته وإلى طهوره فتوضأ ثم دخل المسجد فصلى ثماني ركعات يخيل إلي أنه يسوي بينهن في القراءة والركوع والسجود ثم يوتر بركعة ثم يصلي ركعتين وهو جالس ثم يضع جنبه فربما جاء بلال فآذنه بالص
   سنن أبي داود1339عائشة بنت عبد اللهيصلي بالليل ثلاث عشرة ركعة ثم يصلي إذا سمع النداء بالصبح ركعتين خفيفتين
   سنن النسائى الصغرى1602عائشة بنت عبد اللهيتسوك ويتوضأ ويصلي ثماني ركعات لا يجلس فيهن إلا عند الثامنة يجلس فيذكر الله ويدعو ثم يسلم تسليما يسمعنا ثم يصلي ركعتين وهو جالس بعد ما يسلم ثم يصلي ركعة فتلك إحدى عشرة ركعة يا بني فلما أسن رسول الله وأخذ اللحم أوتر بسبع وصلى
   سنن النسائى الصغرى1652عائشة بنت عبد اللهيصلي بالليل صلاة العشاء ثم يأوي إلى فراشه فينام فإذا كان جوف الليل قام إلى حاجته وإلى طهوره فتوضأ ثم دخل المسجد فيصلي ثماني ركعات يخيل إلي أنه يسوي بينهن في القراءة والركوع والسجود ويوتر بركعة ثم يصلي ركعتين وهو جالس ثم يضع جنبه فربما جاء بلال فآذنه بالصل
   سنن النسائى الصغرى1725عائشة بنت عبد اللهيصلي من الليل ثمان ركعات ويوتر بالتاسعة ويصلي ركعتين وهو جالس
   سنن النسائى الصغرى1710عائشة بنت عبد اللهيصلي من الليل تسعا فلما أسن وثقل صلى سبعا
   سنن النسائى الصغرى1720عائشة بنت عبد اللهإذا أوتر بتسع ركعات لم يقعد إلا في الثامنة فيحمد الله ويذكره ويدعو ثم ينهض ولا يسلم ثم يصلي التاسعة فيجلس فيذكر الله ويدعو ثم يسلم تسليمة يسمعنا ثم يصلي ركعتين وهو جالس فلما كبر وضعف أوتر بسبع ركعات لا يقعد إلا في السادسة ثم ينهض ولا يسلم فيصلي الس
   سنن النسائى الصغرى1721عائشة بنت عبد اللهيستاك يتوضأ ويصلي تسع ركعات لا يجلس فيهن إلا عند الثامنة ويحمد الله ويصلي على نبيه ويدعو بينهن ولا يسلم تسليما ثم يصلي التاسعة ويقعد وذكر كلمة نحوها ويحمد الله ويصلي على نبيه ويدعو ثم يسلم تسليما يسمعنا ثم يصلي ركع
   سنن النسائى الصغرى1722عائشة بنت عبد اللهيتسوك ويتوضأ ثم يصلي تسع ركعات لا يقعد فيهن إلا في الثامنة فيحمد الله ويذكره ويدعو ثم ينهض ولا يسلم ثم يصلي التاسعة فيجلس فيحمد الله ويذكره ويدعو ثم يسلم تسليما يسمعنا ثم يصلي ركعتين وهو جالس فتلك إحدى عشرة ركعة يا بني فلما أسن رسول الله صلى الله عليه
   سنن النسائى الصغرى1697عائشة بنت عبد اللهيصلي من الليل إحدى عشرة ركعة يوتر منها بواحدة ثم يضطجع على شقه الأيمن
   سنن النسائى الصغرى1724عائشة بنت عبد اللهيوتر بتسع ويركع ركعتين وهو جالس
   سنن النسائى الصغرى1750عائشة بنت عبد اللهيصلي إحدى عشرة ركعة فيما بين أن يفرغ من صلاة العشاء إلى الفجر بالليل سوى ركعتي الفجر ويسجد قدر ما يقرأ أحدكم خمسين آية
   سنن النسائى الصغرى1726عائشة بنت عبد اللهيصلي من الليل تسع ركعات
   سنن النسائى الصغرى1727عائشة بنت عبد اللهيصلي من الليل إحدى عشرة ركعة ويوتر منها بواحدة ثم يضطجع على شقه الأيمن
   سنن النسائى الصغرى1329عائشة بنت عبد اللهيصلي فيما بين أن يفرغ من صلاة العشاء إلى الفجر إحدى عشرة ركعة ويوتر بواحدة ويسجد سجدة قدر ما يقرأ أحدكم خمسين آية قبل أن يرفع رأسه
   سنن النسائى الصغرى1757عائشة بنت عبد اللهيصلي ثلاث عشرة ركعة تسع ركعات قائما يوتر فيها وركعتين جالسا فإذا أراد أن يركع قام فركع وسجد ويفعل ذلك بعد الوتر فإذا سمع نداء الصبح قام فركع ركعتين خفيفتين
   سنن النسائى الصغرى686عائشة بنت عبد اللهيصلي فيما بين أن يفرغ من صلاة العشاء إلى الفجر إحدى عشرة ركعة يسلم بين كل ركعتين ويوتر بواحدة ويسجد سجدة قدر ما يقرأ أحدكم خمسين آية ثم يرفع رأسه فإذا سكت المؤذن من صلاة الفجر وتبين له الفجر ركع ركعتين خفيفتين ثم اضطجع على شقه الأيمن حتى يأتيه المؤذن بالإ
   سنن النسائى الصغرى1782عائشة بنت عبد اللهيصلي ثلاث عشرة ركعة يصلي ثمان ركعات ثم يوتر ثم يصلي ركعتين وهو جالس فإذا أراد أن يركع قام فركع ويصلي ركعتين بين الأذان والإقامة في صلاة الصبح
   سنن النسائى الصغرى1723عائشة بنت عبد اللهيوتر بتسع ركعات ثم يصلي ركعتين وهو جالس فلما ضعف أوتر بسبع ركعات ثم صلى ركعتين وهو جالس
   سنن النسائى الصغرى1316عائشة بنت عبد اللهيتسوك ويتوضأ ويصلي ثمان ركعات لا يجلس فيهن إلا عند الثامنة فيجلس فيذكر الله ويدعو ثم يسلم تسليما يسمعنا
   سنن ابن ماجه1177عائشة بنت عبد اللهيسلم في كل ثنتين ويوتر بواحدة
   سنن ابن ماجه1191عائشة بنت عبد اللهيتسوك ويتوضأ ثم يصلي تسع ركعات لا يجلس فيها إلا عند الثامنة فيدعو ربه فيذكر الله ويحمده ويدعوه ثم ينهض ولا يسلم ثم يقوم فيصلي التاسعة ثم يقعد فيذكر الله ويحمده ويدعو ربه ويصلي على نبيه ثم يسلم تسليما يسمعنا ثم يصلي ركعتين بعد ما يسلم وهو قاعد فتلك إحد
   سنن ابن ماجه1359عائشة بنت عبد اللهيصلي من الليل ثلاث عشرة ركعة
   سنن ابن ماجه1360عائشة بنت عبد اللهيصلي من الليل تسع ركعات
   سنن ابن ماجه1358عائشة بنت عبد اللهيصلي ما بين أن يفرغ من صلاة العشاء إلى الفجر إحدى عشرة ركعة يسلم في كل اثنتين ويوتر بواحدة ويسجد فيهن سجدة بقدر ما يقرأ أحدكم خمسين آية قبل أن يرفع رأسه فإذا سكت المؤذن من الأذان الأول من صلاة الصبح قام فركع ركعتين خفيفتين
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم160عائشة بنت عبد اللهيصلي بالليل إحدى عشرة ركعة يوتر منها بواحدة. فإذا فرغ منها اضطجع على شقه الايمن

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 160  
´ایک رکعت وتر کا جواز`
«. . . ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يصلي بالليل إحدى عشرة ركعة يوتر منها بواحدة. فإذا فرغ منها اضطجع على شقه الايمن . . .»
. . . سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو گیارہ رکعات نماز پڑھتے تھے۔ ان میں سے ایک وتر (آخر میں) پڑھتے تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے فارغ ہوتے تو دائیں کروٹ لیٹ جاتے تھے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 160]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه مسلم 736، من حديث ما لك به .]

تفقه:
➊ رات کی نماز گیارہ رکعات اس طرح پڑھنی چاہئے کہ ہر دو رکعتوں پر سلام پھیر دیا جائے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد فجر (کی اذان) تک گیارہ رکعات پڑھتے تھے اور اسی نماز کو لوگ عتمہ بھی کہتے تھے۔ آپ ہر دو رکعات پر سلام پھیرتے تھے اور ایک وتر پڑھتے تھے۔الخ [صحيح مسلم 736/122]
➋ اس حدیث اور دیگر متواتر احادیث سے ایک رکعت وتر کا جواز صراحت سے ثابت ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک رکعت وتر کا ثبوت قولاً و فعلاً دونوں طرح ثابت ہے۔ دیکھئے: [صحيح بخاري:969 وصحيح مسلم:751-745]
➍ سیدنا ابوایوب الانصاری رضی اللہ عنہ نے فرمایا: وتر حق ہے، جو چاہے پانچ وتر پڑھے، جو چاہے تین وتر پڑھے اور جو چاہے ایک وتر پڑھے۔ [سنن النسائي 239/2 ح 1713، وسندہ صحیح]
➎ سلف صالحین میں سے سیدنا سعد بن ابی وقاص، سیدنا معاویہ بن ابی سفیان اور سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہم وغیرہم سے ایک وتر پڑھنا ثابت ہے۔ دیکھئے: [صحيح بخاري:6365، 3764، 3765، شرح معاني الآثار للطحاوي 294/1 وسنن الدارقطني 34/2 ح 1657، وسندہ حسن وقال النيموي فى آثار السنن:604 وإسناد حسن]
➏ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب کی طرح تین وتر پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔ دیکھئے: [صحيح ابن حبان، الاحسان 3420 وإسناده صحيح، المستدرك للحاكم 304/1 ونقل النيموي عن العراقي قال: إسناده صحيح/آثار السنن: 592]
سيدنا عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہما دو رکعت علیحدہ اور ایک رکعت علیحدہ پڑھتے تھے۔ دیکھئے: [صحيح بخاري: 991]
● یہ حدیث مرفوع بھی ہے۔ دیکھئے: [ابن حبان الاحسان:2426 (2435)وسندہ حسن]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 35   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 686  
´مؤذن کا امام کو نماز کی خبر دینے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عشاء سے فارغ ہونے سے لے کر فجر تک گیارہ رکعتیں پڑھتے تھے، ہر دو رکعت کے درمیان سلام پھیرتے، اور ایک رکعت وتر پڑھتے ۱؎ اور ایک اتنا لمبا سجدہ کرتے کہ اتنی دیر میں تم میں کا کوئی پچاس آیتیں پڑھ لے، پھر اپنا سر اٹھاتے، اور جب مؤذن فجر کی اذان دے کر خاموش ہو جاتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر فجر عیاں اور ظاہر ہو جاتی تو ہلکی ہلکی دو رکعتیں پڑھتے، پھر اپنے داہنے پہلو پر لیٹ جاتے یہاں تک کہ مؤذن آ کر آپ کو خبر کر دیتا کہ اب اقامت ہونے والی ہے، تو آپ اس کے ساتھ نکلتے۔ بعض راوی ایک دوسرے پر اس حدیث میں اضافہ کرتے ہیں۔ [سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 686]
686 ۔ اردو حاشیہ:
➊ اس حدیث میں امام ابن شہاب زہری رحمہ اللہ کے تین شاگرد ہیں: ابن ابی ذئب، یونس اور عمرو بن حارث۔ ظاہر ہے کہ جب تین شخص روایت بیان کریں تو ان میں کبھی کچھ نہ کچھ لفظی اختلاف ہو ہی سکتا ہے، چونکہ تینوں راوی ثقہ ہیں، لہٰذا متن پر کوئی منفی اثر مرتب نہ ہو گا۔
➋ گیارہ رکعت تہجد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمومی معمول تھا۔ کبھی کبھار آپ تیرہ رکعت بھی پڑھ لیتے تھے۔ ان میں دو رکعتیں عشاء کے بعد کی سنتیں ہوتیں، یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم افتتاحی طور پر دو رکعات آغاز میں پڑھ لیتے جیسا کہ بعض روایات سے ظاہر ہوتا ہے۔ رمضان المبارک میں یہی گیارہ رکعت قیام رمضان یا تراویح بن جاتی تھیں، البتہ آپ انہیں لمبا کر لیتے تھے۔ آپ سے تراویح اور تہجد الگ الگ پڑھنا ثابت نہیں۔ یہ ایک ہی نماز ہے۔ عام حالت میں تہجد یا وتر اور رمضان میں تراویح۔
➌ سنت فجر کے بعد لیٹنا مسنون ہے، تہجد پڑھنے والا سنتوں کے بعد فجر کی نماز تک لیٹ سکتا ہے، مگر وضو کا خیال رہے۔
➍ ایک وتر باقی سے الگ پڑھنا جائز ہے۔ احناف تین رکعت ایک سلام کے ساتھ پڑھنے کے قائل ہیں۔ اس روایت سے ان کے موقف کی تردید ہوتی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 686   
  الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 19  
پہلے تشہد میں درود پڑھنا
------------------
سوال: کیا دونوں تشہدوں میں درود پڑھنا ضروری ہے، پہلے تشہد میں پڑھنے کی کیا دلیل ہے؟
جواب: ارشاد باری تعالیٰ ہے:
«إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِيمًا» [الأحزاب: 56]
بیشک اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی (آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر) درود وسلام بھیجو۔
اس آیت کریمہ کا حکم عام ہے اور یہ نماز کو بھی شامل ہے کیونکہ جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے آ کر سوال کیا کہ ہم نے سلام کہنا تو سیکھ لیا ہے، آپ ہمیں بتائیں کہ ہم صلاۃ کیسے پڑھیں اور بعض روایات میں نماز کی صراحت بھی آتی ہے، جیسا کہ سنن دارقطنی میں حدیث ہے:
«عَنْ أَبِيْ مَسْعُوْدٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ اَقْبَلَ رَجُلٌ حَتّٰي جَلَسَ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ عِنْدَهُ فَقَالَ يَا رَسُوْلَ اللهِ! اَمَّا السَّلَامُ فَقَدْ عَرَفْنَاهُ فَكَيْفَ نُصَلِّيْ عَلَيْكَ اِذَا نَحْنُ صَلَّيْنَا فِيْ صَلَاتِنَا؟ فَقَالَ قُوْلُوْا اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰي . . . إلخ» [سنن دارقطني 355/1]
حضرت ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ گیا، ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے، اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! سلام تو ہم نے جان لیا ہے مگر ہم آپ پر صلاۃ کیسے بھیجیں؟ جب ہم نماز پڑھ رہے ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم «اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰي . . . إلخ» کہو۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام تو پہلے ہی پڑھتے تھے لیکن جب یہ آیت نازل ہوئی تو اس کے بعد انہوں نے سلام کے ساتھ صلاۃ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھ لی۔
مذکورہ بالا آیت سورۂ احزاب کی ہے جو 5ھ میں نازل ہوئی۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر صلاۃ و سلام پڑھنے کا حکم دیا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جو تشہد میں سلام پہلے ہی پڑھتے تھے، اب انہوں نے اس کے ساتھ صلاۃ کا بھی اضافہ کر لیا، یعنی جہاں سلام پڑھنا ہے، اس کے ساتھ ہی صلاۃ پڑھنی ہے، یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ اگر ہم پہلے تشہد میں صرف سلام پڑھیں، صلاۃ نہ پڑھیں تو « ﴿وَسَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا﴾ » پر تو عمل ہو گا لیکن « ﴿صَلُّوْا عَلَيْهِ﴾ » پر عمل نہیں ہو گا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آخری تشہد سے پہلے تشہد میں صلاۃ پڑھنا صحیح حدیث سے ثابت ہے۔
سعد بن ہشام سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام اللیل کے متعلق روایت کرتے ہیں اور کہتے ہیں:
«فَقُلْتُ یَا اُمَّ الْمُؤْمِنِیْنَ! اَنْبِئِیْنِيْ عَنْ وِتْرِ رَسُوْلِ اللهِ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ كُنَّا نُعِدُّ لِرَسُوْلِ اللهِ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ سِوَاكَهُ وَطَھُوْرَهُ فَیَبْعَثُهُ اللهُ فِیْمَا شَاءَ اَنْ یَبْعَثَهُ مِنَ اللَّیْلِ فَیَتَسَوَّكُ وَیَتَوَضَّأُ ثُمَّ یُصَلِّيْ تِسْعَ رَكَعَاتٍ لَا یَجْلِسُ فِیْھِنَّ اِلَّاعِنْدَ الثَّامِنَةِ فَیَدْعُوْ رَبَّهُ وَ یُصَلِّيْ عَلٰی نَبِیِّهِ ثُمَّ یَنْھَضُ وَلَا یُسَلِّمُ ثُمَّ یُصَلِّيْ التَّاسِعَةَ فَیَقْعُدُ ثُمَّ یَحْمَدُ رَبَّهُ وَیُصَلِّيْ عَلٰی نَبِیِّهِ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَیَدْعُوْ ثُمَّ یُسَلِّمُ تَسْلِیْمًا» [أبوعوانة 324/2، بيهقي 500/2، نسائي 1721]
میں نے کہا: اے ام المؤمنین! آپ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر کے متعلق بتائیں۔ تو انہوں نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مسواک اور طہارت کے لیے پانی تیار کر دیتے۔ رات کے وقت جب اللہ تعالیٰ چاہتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اٹھا دیتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسواک کرتے اور وضو کرتے پھر نو رکعتیں ادا کرتے، آٹھویں کے سوا کسی رکعت میں نہیں بیٹھتے تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں اپنے رب سے دعا کرتے اور اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے، پھر کھڑے ہو جاتے اور سلام نہیں پھیرتے تھے، پھر نویں رکعت ادا کر کے بیٹھتے اور اللہ کی حمد کر کے اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے اور دعاکرتے، پھر سلام پھیر دیتے۔
اس حدیث سے واضح ہو گیا کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی آخری قعدے سے پہلے والے قعدے میں درود پڑھا ہے۔ لہٰذا ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق آخری قعدے سے پہلے والے قعدے میں بھی درود پڑھناچاہیے۔
   احکام و مسائل، حدیث\صفحہ نمبر: 193   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1177  
´ایک رکعت وتر پڑھنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر دو رکعت پہ سلام پھیرتے تھے، اور ایک رکعت وتر پڑھتے تھے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1177]
اردو حاشہ:
فائده:
اس قسم کی احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریمﷺ تین وتر بھی دو سلاموں کے ساتھ پڑھتے تھے۔
یعنی دو رکعت پڑھ کرسلام پھیر دیتے اور پھر ایک رکعت پڑھتے۔
اس اعتبارسے تین وتر دوسلام کے ساتھ پڑھنا افضل ہے۔
اگرچہ ایک سلام اور ایک تشہد کے ساتھ بھی جائز ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1177   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 440  
´نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی تہجد کی کیفیت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو گیارہ رکعتیں پڑھتے تھے ان میں سے ایک رکعت وتر ہوتی۔ تو جب آپ اس سے فارغ ہو جاتے تو اپنے دائیں کروٹ لیٹتے ۱؎۔ [سنن ترمذي/أبواب السهو/حدیث: 440]
اردو حاشہ:
1؎:
اضطجاع کے ثبوت کی صورت میں تہجد سے فراغت کے بعد داہنے کروٹ لیٹنے کی جو بات اس روایت میں ہے یہ کبھی کبھار کی بات ہے،
ورنہ آپ کی زیادہ تر عادت مبارکہ فجر کی سنتوں کے بعد لیٹنے کی تھی،
اسی معنی میں ایک قولی روایت بھی ہے جو اس کی تائید کرتی ہے (دیکھئے حدیث رقم 420)

نوٹ:
(اضطجاع کا ذکر صحیح نہیں ہے،
صحیحین میں آیا ہے کہ اضطجاع فجر کی سنت کے بعد ہے)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 440   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1334  
´تہجد کی رکعتوں کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو دس رکعتیں پڑھتے اور ایک رکعت وتر ادا کرتے اور دو رکعت فجر کی سنت پڑھتے، اس طرح یہ کل تیرہ رکعتیں ہوتیں۔ [سنن ابي داود/أبواب قيام الليل /حدیث: 1334]
1334. اردو حاشیہ: فائدہ: فجر کی سنتوں کو بھی بعض روایات میں رات کی نماز میں شمار کیا گیا ہے۔ اس لیے کہ یہ اول وقت میں پڑھی جاتی تھیں اور وتروں کے ساتھ گویا متصل ہوتی تھیں۔ اس طرح رات کی نماز کی تعداد تیرہ ہوجاتی ہے۔ تاہم زیادہ روایات میں یہ تعداد گیارہ ہی بیان ہوئی ہے، یعنی ان میں فجر کی دوسنتیں شامل نہیں کی گئی۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1334   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1739  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
كُرَاعِ:
گھوڑا۔
(2)
عَليٰ رِجْعَتِهَا:
را پر زبر اور زیر دونوں آ سکتے ہیں۔
طلاق سے رجوع پر گواہ بنا لیے۔
(3)
بِرَدِّهَا عَلَيْكَ:
تیرے سوال کا جو جواب دیں مجھے بتانا۔
(4)
فَاسْتَلْحَقْتُهُ اِلَيْهَا:
میں نے اس سے،
ان کے پاس جانے کے لیے ساتھ چلنے کا مطالبہ کیا۔
(5)
مَا اَنَا بِقَارِبِهَا:
میں ان کے پاس جانا نہیں چاہتا۔
(6)
اَلشِّيْعَتَيْنِ:
شیعہ گروہ اور جماعت کو کہتے ہیں،
دو گروہوں سے مراد حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قصاص کا مطالبہ کرنے والے اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حمایتی ہیں،
یعنی آپ کسی کا ساتھ نہ دیں۔
(7)
فَاَبَتْ فِيْهِمَا اِلَّامُضِيّاً:
انہوں نے ان کے معاملہ میں مداخلت نہ کرنے سے انکار کر لیا،
یعنی قصاص کا مطالبہ کرنے والوں کی حمایت کی۔
فوائد ومسائل:

اگر کوئی کسی معاملے میں مشورہ لے تو اسےمشورہ صحیح صحیح شریعت کے مطابق دینا چاہیے اور بیوی وبچوں سے الگ تھلک ہو جانا اور جائیداد کو بیچ کر زندگی جہاد کے لیے وقف کر دینا درست نہیں ہے۔
زندگی کے ہر مسئلے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو نمونہ بنایا جائے گا۔
اورہر کام میں آپﷺ کا طرز عمل ہی مشعل راہ ہوگا۔

اگر کسی عالم سے کوئی مشورہ پوچھا جائے اور وہاں اس سے بہتر بتانے والا موجود ہو تو اس کی طرف راہنمائی کرنی چاہیے اور اس کے جواب سے آ گاہی حاصل کرنے کی کوشش کرنا بہتر ہو گا۔

مسئلہ پوچھنے کے لیے عالم کے آشنا اور واقف کار کو ساتھ لے جانا بہتر ہے۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی آپﷺ کی سیرت وکردار اور ہر عمل قرآن کے مطابق تھا گویا آپﷺ قرآن کریم کی عملی تفسیر تھے۔

جب تک پانچ نمازیں فرض نہیں ہوئی تھیں تہجد سب کے لیے فرض تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ پر ایک سال تک رات کا قیام فرض رہا پھر سورہ مزمل کی آخری آیت:
﴿إِنَّ رَبَّكَ يَعْلَمُ.......الآية﴾ سے اس كی فرضیت منسوخ ہو گئی ااوراکثر علمائے امت کے نزدیک تہجد کی نماز آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی فرض نہیں رہی تھی لیکن آپﷺ نے ساری عمر اس کی پابندی فرمائی ہے۔

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے آپﷺ آخری عمر میں نو رکعات پڑھتے تھے جن میں صرف آٹھویں رکعات پر بیٹھتے اور اس میں تشہد،
ذکرواذکار اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا اور دعا فرماتے اور پھر اٹھ کر نویں رکعت پڑھتے اور اس پر سلام پھیرتے اور قِیَامُ اللَّیْل کو ہی وتر کہا جاتا ہے۔
اس لیے وتر پڑھنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے۔

آخری عمر میں جب آ پﷺ عمر رسیدہ ہونے کے ساتھ بھاری بھرکم بھی ہو گئے تو صرف سات رکعات پڑھنے لگے اور بعد میں دو رکعت بیٹھ کر پڑھ لیتے تھے۔

نیند یا بیماری کے غلبہ کی وجہ سے اگر آپﷺ کی تہجد کی نماز رہ جاتی تو چونکہ آپﷺ کاعمومی عمل رات میں گیارہ رکعات پڑھنے کا تھا۔
اس لیے اس کی جگہ آپﷺ دن کو بارہ رکعات پڑھ لیتے۔

رات کےقیام کو ہی وتر بھی کہتے ہیں،
یہ پہلے فرض تھا پھر اس کی فرضیت ختم ہو گئی۔
اب وتر فرض نہیں ہے بلکہ سنت مؤکدہ ہے بعض لوگ اسے فرض قرار دیتے ہیں بعض فرض سے نیچے واجب کا ایک درجہ اپنے پاس سے بنا کر واجب قرار دیتے ہیں،
ان لوگوں کی بات درست نہیں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 1739   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.