الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
جنازے کے احکام و مسائل
The Book of Prayer - Funerals
23. باب الصَّلاَةِ عَلَى الْقَبْرِ:
23. باب: قبر پر نماز جنازہ پڑھنا۔
حدیث نمبر: 2215
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثني ابو الربيع الزهراني ، وابو كامل فضيل بن حسين ، واللفظ لابي كامل، قالا: حدثنا حماد وهو ابن زيد ، عن ثابت البناني ، عن ابي رافع ، عن ابي هريرة ، ان امراة سوداء كانت تقم المسجد او شابا، ففقدها رسول الله صلى الله عليه وسلم، فسال عنها او عنه، فقالوا: مات، قال: " افلا كنتم آذنتموني "، قال: فكانهم صغروا امرها او امره، فقال: " دلوني على قبره "، فدلوه " فصلى عليها "، ثم قال: " إن هذه القبور مملوءة ظلمة على اهلها، وإن الله عز وجل ينورها لهم بصلاتي عليهم ".وحَدَّثَنِي أَبُو الرَّبِيعِ الزَّهْرَانِيُّ ، وَأَبُو كَامِلٍ فُضَيْلُ بْنُ حُسَيْنٍ ، واللفظ لأبي كامل، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ وَهُوَ ابْنُ زَيْدٍ ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّ امْرَأَةً سَوْدَاءَ كَانَتْ تَقُمُّ الْمَسْجِدَ أَوْ شَابًّا، فَفَقَدَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَ عَنْهَا أَوْ عَنْهُ، فَقَالُوا: مَاتَ، قَالَ: " أَفَلَا كُنْتُمْ آذَنْتُمُونِي "، قَالَ: فَكَأَنَّهُمْ صَغَّرُوا أَمْرَهَا أَوْ أَمْرَهُ، فَقَالَ: " دُلُّونِي عَلَى قَبْرِهِ "، فَدَلُّوهُ " فَصَلَّى عَلَيْهَا "، ثُمَّ قَالَ: " إِنَّ هَذِهِ الْقُبُورَ مَمْلُوءَةٌ ظُلْمَةً عَلَى أَهْلِهَا، وَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يُنَوِّرُهَا لَهُمْ بِصَلَاتِي عَلَيْهِمْ ".
حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک سیاہ فام عورت مسجد میں جھاڑو دیا کرتی تھی۔یا ایک نوجوان تھا۔۔۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نہ پایاتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت۔۔۔یا اس مرد۔۔۔کے بارے میں پوچھا تو لوگوں (صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین) نے کہا: وہ فوت ہوگیا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا تم لوگوں کو مجھے اطلاع نہیں دینی چاہیے تھی؟"کہا: گویا ان لوگوں نے اس عورت۔۔۔یا اس مرد۔۔۔کے معاملے کو معمولی خیال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مجھے اس کی قبردکھاؤ۔"صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی قبر دیکھائی۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےاس کی نماز جنازہ پڑھی، پھر فرمایا: "اہل قبور کے لئے یہ قبریں تاریکی سے بھری ہوئی ہیں اورمیری ان پر نماز پڑھنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان کے لئے ان (قبروں) کو منور فرمادیتا ہے۔"
حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک حبشن (حبشی عورت) یا حبشی جوان مسجد میں جھاڑو دیا کرتا تھا اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گم پایا (اس کو نہ دیکھا) تو اس عورت یا مرد کے بارے میں پوچھا تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے بتایا: وہ فوت ہو گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے مجھے اطلاع کیوں نہیں؟ راوی کا خیال ہے گویا کہ سب نے اس کے معاملہ کو حقیر خیال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے اس کی قبر دکھاؤ۔ ساتھیوں نے اس کی قبر دیکھائی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےاس انسان کا جنازہ پڑھا، پھر فرمایا: یہ قبریں قبر والوں کے لیے اندھیرے سے بھری ہوئی ہیں اور اللہ تعالی میری ان پر نماز پڑھنے سے ان کو (قبروں کو) ان کے لئے (اموات) کے لیے روشن اور منور فرما دیتا ہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 956

   صحيح البخاري460عبد الرحمن بن صخرصلى على قبرها
   صحيح البخاري458عبد الرحمن بن صخرأفلا كنتم آذنتموني به دلوني على قبره أو قال قبرها أتى قبرها فصلى عليها
   صحيح البخاري1337عبد الرحمن بن صخرأفلا آذنتموني فقالوا إنه كان كذا وكذا قصته قال فحقروا شأنه قال فدلوني على قبره فأتى قبره فصلى عليه
   صحيح مسلم2215عبد الرحمن بن صخرالقبور مملوءة ظلمة على أهلها وإن الله ينورها لهم بصلاتي عليهم
   سنن أبي داود3203عبد الرحمن بن صخرألا آذنتموني به قال دلوني على قبره فدلوه فصلى عليه
   سنن ابن ماجه1527عبد الرحمن بن صخرهلا آذنتموني فأتى قبرها فصلى عليها
   بلوغ المرام447عبد الرحمن بن صخر‏‏‏‏افلا كنتم آذنتموني؟

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 447  
´دفن کرنے کے بعد میت کی قبر پر بھی نماز جنازہ پڑھنی جائز ہے`
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی قبر کا راستہ بتا دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں جا کر قبر پر نماز جنازہ پڑھی . . . [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 447]
لغوی تشریح:
«تَقُمُّ» قاف پر ضمہ اور میم پر تشدید ہے، یعنی جھاڑو دیا کرتی تھی۔ لکڑیاں، کپڑے کے چیتھڑے، کوڑا کرکٹ، غبار اور بھوسا وغیرہ باہر نکالا کرتی تھی۔ یہ خاتون سیام فام تھی اور اس کا نام محجن تھا۔
«آذَنْتُمونِي» اس کی وفات کی مجھے اطلاع دیتے تاکہ میں بھی اس کی نماز جنازہ پڑھتا۔
«صَغَّرُو» نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کے اعتبار سے انہوں نے اس کی وفات کو معمولی سمجھا۔
«دُلُّونِي» دال پر ضمہ ہے اور یہ «دلَالَهٌ» سے امر کا صیغہ ہے۔
«فَدَلُّوهُ» دال پر فتحہ اور لام پر ضمہ ہے اور یہ «دلَالةُ» سے ماضی کا صیغہ ہے۔
«ظُلُمَةٌ» تمییز واقع ہونے کی بنا پر منصوب ہے۔

فوائد و مسائل:
اس حدیث سے کئی مسائل ثابت ہوتے ہیں۔
➊ دفن کرنے کے بعد میت کی قبر پر بھی نماز جنازہ پڑھنی جائز ہے، گو تدفین سے پہلے بھی اس پر نماز جنازہ پڑھی جا چکی ہو۔ حضرت براء بن معرور رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ بھی آپ نے ایک ماہ بعد ان کی قبر پر پڑھی تھی کیونکہ ان کی وفات کے وقت آپ مکہ مکرمہ میں تھے۔ [الطبقات الكبري لابن سعد: 620، 618/3]
➋ مرنے والے کی قبر وہی ہے جہاں اسے دفن کیا ہو، انہی قبروں کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ان میں تاریکی ہی تاریکی ہے، روشنی نام کی کوئی چیز نہیں۔
➌ مسجد کی صفائی کرنے والے مرتبہ اور مقام بلند ہے۔
➍ مسجد کی صفائی مسلمان خاتون بھی کر سکتی ہے۔
➎ مسجد کو صاف ستھرا اور پاک رکھنا ضروری ہے، صفائی جھاڑو سے بھی کی جا سکتی ہے اور کپڑے سے بھی۔
➏ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی غریبوں سے محبت کا ثبوت بھی ملتا ہے کہ آپ کو اپنے کارکن مرد و عورت دونوں سے کس قدر تعلق اور لگاؤ تھا۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 447   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1527  
´(مردہ دفن ہو جائے تو) قبر پر نماز جنازہ پڑھنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک کالی عورت مسجد میں جھاڑو دیا کرتی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نہیں دیکھا، کچھ روز کے بعد اس کے متعلق پوچھا تو آپ سے عرض کیا گیا کہ اس کا انتقال ہو گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر مجھے خبر کیوں نہ دی، اس کے بعد آپ اس کی قبر پہ آئے، اور اس پر نماز جنازہ پڑھی۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1527]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
خدام کی خبر گیری اور ان کے حالات معلوم کرنا اخلاقی فرض ہے۔

(2)
چند دن بعد غالباً اس لئے دریافت فرمایا کہ اس سے پہلے یہ خیال ہوسکتا ہے کہ کسی کام سے یا کسی ر شتہ دار کو ملنے چلی گئی ہوگی یا معمولی بیماری یا مصروفیت کی وجہ سے مسجد کی صفائی کے لئے نہیں آ سکی۔

(3)
جو شخص کسی وجہ سے نماز جنازہ میں شریک نہ ہوسکا ہو وہ قبر پر جاکر نماز جنازہ ادا کرسکتا ہے۔
اس کی کیفیت وہی ہوگی جیسے میت چار پائی پر سامنے رکھ کر جنازہ پڑھا جاتا ہے۔

(4)
نماز جنازہ کی مذکورہ بالا صورت کے سوا کوئی بھی نماز ادا کرنا حرام ہے۔
ارشاد نبوی ہے۔
ساری زمین مسجد (عبادت کی جگہ)
ہے۔
سوائے قبرستان اور حمام کے (سنن ابی داؤد، الصلاۃ، باب فی المراضع لاتجوز فیھا الصلاۃ، حدیث: 493، وجامع الترمذي، الصلاۃ، باب ما جاء أن الأرض کلھا مسجد إلا المقبرۃ والحمام، حدیث: 317)
 نیز ارشاد نبوی ہے۔
قبروں کی طرف رخ کر کے نماز نہ پڑھو۔
نہ ان پر بیٹھو۔ (صحیح مسلم، الجنائز، باب النھی عن الجلوس علی القبر والصلاۃ علیه، حدیث: 974)

(5)
سنن بہیقی میں اس خاتون کا نام ام محجن رضی اللہ تعالیٰ عنہ مذکور ہے۔
دیکھئے: (سنن الکبریٰ للبہقي: 48/4)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1527   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3203  
´قبر پر جنازہ پڑھنا۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک کالی عورت یا ایک مرد مسجد میں جھاڑو دیا کرتا تھا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے موجود نہ پایا تو لوگوں سے اس کے متعلق پوچھا، لوگوں نے بتایا کہ وہ تو مر گیا ہے، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگوں نے مجھے اس کی خبر کیوں نہیں دی؟ آپ نے فرمایا: مجھے اس کی قبر بتاؤ، لوگوں نے بتائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھی۔ [سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3203]
فوائد ومسائل:

قبر پر جا کر نماز جنازہ پڑھنی جائز ہے۔

رسول اللہ ﷺ ضعیف مسلمانوں کا بھی خاص خیال رکھا کرتے تھے۔

مسجد کی صفائی ستھرائی بہت ہی بڑے اجر کا کام ہے۔
اور یہ اسی عمل کی برکت تھی کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کی قبر پر جاکر نماز جنازہ پڑھی۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3203   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2215  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:

مسجد کی دیکھ بھال اور صفائی کرنا ایک بہت اچھا کام ہے۔
اس کام کو حقیر خیال نہیں کرنا چاہیے۔

امام کو اپنے مقتدیوں کا خیال رکھنا چاہیے اگر ان میں سے کوئی غیر حاضر ہو یا نظر نہ آئے تو اس کے بارے میں ساتھیوں سے معلومات حاصل کرنی چاہیے۔

قبر پر نماز جنازہ پڑھنا جائز ہے اور اس کا طریقہ وہی ہے جو عام جنازہ کا ہے جمہور کے نزدیک قبر پر جنازہ پڑھنا جائز ہے۔
امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک صرف میت کا ولی اگر اس نے جنازہ نہ پڑھا ہو تو قبر پر جنازہ پڑھ سکتا ہے۔

امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک بھی قبر پر جنازہ پڑھنا صحیح نہیں ہے یہ صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ ہے لیکن یہ بات درست نہیں ہے کیونکہ آپﷺ کے ساتھ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے بھی نماز جنازہ پڑھی تھی۔

قبر کی ظلمت اور اندھیرا نیک لوگوں کی دعاؤں کے نتیجہ میں زائل ہو جاتا ہے اور قبر روشن ہو جاتی ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 2215   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.