الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
زکاۃ کے احکام و مسائل
The Book of Zakat
33. باب النَّهْيِ عَنِ الْمَسْأَلَةِ:
33. باب: سوال کرنے کی ممانعت۔
حدیث نمبر: 2392
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثني حرملة بن يحيى ، اخبرنا ابن وهب ، اخبرني يونس ، عن ابن شهاب ، قال: حدثني حميد بن عبد الرحمن بن عوف ، قال: سمعت معاوية بن ابي سفيان وهو يخطب يقول: إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " من يرد الله به خيرا يفقهه في الدين، وإنما انا قاسم ويعطي الله ".وحَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ مُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ وَهُوَ يَخْطُبُ يَقُولُ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ، وَإِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَيُعْطِي اللَّهُ ".
حمید بن عبد الرحمٰن بن عوف نے کہا: میں نے حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ سے سنا وہ خطبہ دیتے ہو ئے کہہ رہے تھے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فر ما رہے تھے اللہ جس کے ساتھ بھلا ئی کا ارادہ فر ما تا ہے اسے دین کا گہرا فہم عطا فر ما دیتا ہے اور میں تو بس تقسیم کرنے والا ہوں اور دیتا اللہ ہے۔
حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خطبہ میں بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپصلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے اللہ جس کے ساتھ بہت بڑی خیر اور بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے۔ اسے دین کا گہرا فہم عطا فرماتا ہے۔ اور میں تو بس تقسیم کنندہ ہوں اور دینے والا اللہ ہی ہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1037

   صحيح البخاري71معاوية بن صخرمن يرد الله به خيرا يفقهه في الدين إنما أنا قاسم والله يعطي لن تزال هذه الأمة قائمة على أمر الله لا يضرهم من خالفهم حتى يأتي أمر الله
   صحيح البخاري3116معاوية بن صخرمن يرد الله به خيرا يفقهه في الدين الله المعطي وأنا القاسم لا تزال هذه الأمة ظاهرين على من خالفهم حتى يأتي أمر الله وهم ظاهرون
   صحيح البخاري7312معاوية بن صخرمن يرد الله به خيرا يفقهه في الدين إنما أنا قاسم ويعطي الله لن يزال أمر هذه الأمة مستقيما حتى تقوم الساعة أو حتى يأتي أمر الله
   صحيح مسلم2389معاوية بن صخرمن يرد الله به خيرا يفقهه في الدين
   صحيح مسلم4956معاوية بن صخرمن يرد الله به خيرا يفقهه في الدين لا تزال عصابة من المسلمين يقاتلون على الحق ظاهرين على من ناوأهم إلى يوم القيامة
   صحيح مسلم2392معاوية بن صخرمن يرد الله به خيرا يفقهه في الدين إنما أنا قاسم ويعطي الله
   مشكوة المصابيح200معاوية بن صخرمن يرد الله به خيرا يفقهه في الدين وإنما انا قاسم والله يعطي
   مسند اسحاق بن راهويه10معاوية بن صخرمن يرد الله به خيرا يفقهه في الدين
   بلوغ المرام1317معاوية بن صخر من يرد الله به خيرا يفقهه في الدين

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 71  
´ناسمجھ لوگ مدعیان علم اور واعظ خطرہ ایمان`
«. . . يَقُولُ:" مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ . . .»
. . . جس شخص کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی کا ارادہ کرے اسے دین کی سمجھ عنایت فرما دیتا ہے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 71]

تشریح:
ناسمجھ لوگ جو مدعیان علم اور واعظ و مرشد بن جائیں نیم حکیم خطرہ جان، نیم ملا خطرہ ایمان ان ہی کے حق میں کہا گیا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 71   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 200  
´دین کی فقاہت`
«. . . ‏‏‏‏وَعَنْ مُعَاوِيَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ وَإِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَاللَّهِ يُعْطِي» . . .»
. . . سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی کا ارادہ کرنا چاہتا ہے، تو اس کو دین کی سمجھ عطا فرما دیتا ہے اور میں (علوم الہیٰ کو) لوگوں میں تقسيم کرنے والا ہوں اور اللہ دیتا ہے۔ اس حدیث کوبخاری, مسلم نے روایت کیا ہے۔ (یعنی اللہ کتاب و سنت کا علم مجھے عطا فرماتا ہے میں اسے لوگوں کو سنا دیتا ہوں۔) . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْعِلْمِ: 200]

تخریج:
[صحيح بخاري 71]،
[صحيح مسلم 2389]

فقہ الحدیث:
➊ فقہ اصل میں فہم اور سوجھ بوجھ کو کہتے ہیں۔ اس حدیث میں «تفقه فى الدين» کی بڑی فضیلت ہے۔ اس تفقہ والے یعنی فقہاء سے کون لوگ مراد ہیں؟ اس کی تشریح میں حافظ ابن حجر العسقلانی نے لکھا ہے:
«وقد جزم البخاري بأن المراد بهم أهل العلم بالآثار، وقال أحمد بن حنبل: إن لم يكونوا أهل الحديث فلا أدري من هم. . .»
(امام) بخاری نے بطور جزم بتایا ہے کہ ان سے مراد آثار (احادیث) جاننے والے علماء ہیں۔
اور احمد بن حنبل نے فرمایا:
اگر یہ لوگ اہل حدیث (محدثین) نہیں ہیں تو پھر مجھے نہیں پتا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ [فتح الباري ج1 ص164 تحت ح71] نیز دیکھئے عمدۃ القاری [ج2 ص52]
◄ امام بخاری کے قول کے لئے دیکھئے [مسألة الاحتجاج بالشافعي للخطيب: ص47 وسنده صحيح]
◄ امام احمد بن حنبل کے قول کے بارے میں دیکھئے: [معرفة علوم الحديث للحاكم:ص2 وسنده حسن]
◄ یہ کہنا کہ محدثین کرام فقہاء نہیں تھے، بہت بڑا جھوٹ ہے۔
◄ امام بخاری کے بارے میں حافظ ابن حجر نے فرمایا:
«وإمام الدنيا فى فقه الحديث»
اور آپ فقہ حدیث میں دنیا کے امام تھے۔ [تقريب التهذيب: 5725]
◄ امام مسلم کے بارے میں فرمایا:
«. . . عالم بالفقه» فقہ کے عالم۔ [تقريب التهذيب: 6623]
«وإنما أنا قاسم» اور میں تو تقسیم کرنے والا ہوں کی تشریح میں قسطلانی نے لکھا ہے:
«أي أقسم بينكم تبليغ الوحي من غير تخصيص»
یعنی میں بغیر کسی تخصیص کے تمہارے درمیان وحی کو تقسیم کر رہا ہوں۔ [ارشاد الساري ج1 ص170]
◄ معلوم ہوا کہ قاسم سے مراد قرآن و حدیث کا علم لوگوں میں تقسیم کرنا اور پھیلانا ہے۔ بعض لوگوں نے اس سے تقسیم مال (یعنی مال غنیمت کی لوگوں میں تقسیم) مراد لیا ہے اور یہ مفہوم بھی صحیح ہے۔
➌ یہ حدیث سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے خطبے میں بیان فرمائی، جو اس کی دلیل ہے کہ خلفائے اسلام حدیث کو حجت سمجھتے تھے اور عوام میں اس کی علانیہ تبلیغ بھی کرتے تھے، لہٰذا منکرین حدیث کا صحیح حدیث سے انکار خوارج ومعتزلہ کی تقلید اور عجمی سازش ہے۔
➍ یہ تقسیم کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی میں تھا اور آپ کی وفات کے بعد اب تمام تفقہ آپ کی احادیث صحیحہ کی اتباع میں ہی ہے۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث\صفحہ نمبر: 200   
  الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 10  
´خیر و بھلائی کس میں ہے؟`
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ جس کے ساتھ خیر و بھلائی کا ارادہ چاہتا ہے اسے دین میں سمجھ بوجھ عطا فرما دیتا ہے۔ [مسند اسحاق بن راهويه/كتاب العلم/حدیث: 10]
فوائد: مذکورہ حدیث سے فقاہت فی الدین کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔
فقاہت سے مراد قرآن و حدیث کا فہم ہے نہ اس سے مراد مروجہ اور مخصوص فقہ جیسا کہ لوگوں میں مشہور ہے۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«نَضَّرَ اللَّهُ امْرَأً سَمِعَ مَقَالَتِي فَوَعَاهَا وَحَفِظَهَا وَبَلَّغَهَا فَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ إِلَى مَنْ هُوَ أَفْقَهُ مِنْهُ» [ترمذي: 2658، مسند أحمد: 1/ 436]
اللہ تعالی تروتازہ رکھے اس شخص کو جس نے میری بات سنی، اس کو یاد کیا اور پھر اس کو آگے پہنچا دیا، کئی حاملین فقہ غیر فقیہ ہوتے ہیں اور کئی حاملین فقہ اپنے سے زیادہ فقیہ تک میری بات پہنچا دیتے ہیں۔
اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حدیث کو فقہ کہا ہے۔
لیکن افسوس کے آج فقیہ اس کو کہا جاتا ہے جو قرآن و حدیث کی نصوص سے انحراف کر کے صرف اقوال ائمہ اور ان پر مبنی تخریجات کا علم رکھتے ہوں۔
؎ خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
   مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث\صفحہ نمبر: 10   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.