الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
لین دین کے مسائل
The Book of Transactions
15. باب مَنْ بَاعَ نَخْلاً عَلَيْهَا ثَمَرٌ:
15. باب: جو شخص کھجور کا درخت بیچے اور اس پر کھجور لگی ہو۔
حدیث نمبر: 3901
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يحيى بن يحيى ، قال: قرات على مالك ، عن نافع ، عن ابن عمر ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " من باع نخلا قد ابرت، فثمرتها للبائع، إلا ان يشترط المبتاع ".حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ بَاعَ نَخْلًا قَدْ أُبِّرَتْ، فَثَمَرَتُهَا لِلْبَائِعِ، إِلَّا أَنْ يَشْتَرِطَ الْمُبْتَاعُ ".
یحییٰ بن یحییٰ نے کہا: میں نے امام مالک کے سامنے قراءت کی، انہوں نے نافع سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے کھجور کا ایسا درخت فروخت کیا جس پر نر کھجور کا بورڈ ڈالا گیا ہو تو اس کا پھل فروخت کرنے والے کا ہے الا یہ کہ خریدار (بیع کے دوران میں) شرط طے کر لے
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے پیوند کردہ کھجور کا درخت فروخت کیا، تو اس کا پھل فروخت کرنے والے کا ہے اِلا یہ کہ خریدار پھل لینے کی شرط لگا لے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1543

   صحيح البخاري2379عبد الله بن عمرمن ابتاع نخلا بعد أن تؤبر فثمرتها للبائع إلا أن يشترط المبتاع من ابتاع عبدا وله مال فماله للذي باعه إلا أن يشترط المبتاع
   صحيح البخاري2204عبد الله بن عمرمن باع نخلا قد أبرت فثمرها للبائع إلا أن يشترط المبتاع
   صحيح البخاري2206عبد الله بن عمرأيما امرئ أبر نخلا ثم باع أصلها فللذي أبر ثمر النخل إلا أن يشترطه المبتاع
   صحيح البخاري2716عبد الله بن عمرمن باع نخلا قد أبرت فثمرتها للبائع إلا أن يشترط المبتاع
   صحيح مسلم3905عبد الله بن عمرمن ابتاع نخلا بعد أن تؤبر فثمرتها للذي باعها إلا أن يشترط المبتاع من ابتاع عبدا فماله للذي باعه إلا أن يشترط المبتاع
   صحيح مسلم3902عبد الله بن عمرأيما نخل اشتري أصولها وقد أبرت فإن ثمرها للذي أبرها إلا أن يشترط الذي اشتراها
   صحيح مسلم3901عبد الله بن عمرمن باع نخلا قد أبرت فثمرتها للبائع إلا أن يشترط المبتاع
   صحيح مسلم3903عبد الله بن عمرأيما امرئ أبر نخلا ثم باع أصلها فللذي أبر ثمر النخل إلا أن يشترط المبتاع
   جامع الترمذي1244عبد الله بن عمرمن ابتاع نخلا بعد أن تؤبر فثمرتها للذي باعها إلا أن يشترط المبتاع من ابتاع عبدا وله مال فماله للذي باعه إلا أن يشترط المبتاع
   سنن أبي داود3433عبد الله بن عمرمن باع عبدا وله مال فماله للبائع إلا أن يشترطه المبتاع من باع نخلا مؤبرا فالثمرة للبائع إلا أن يشترط المبتاع
   سنن النسائى الصغرى4639عبد الله بن عمرأيما امرئ أبر نخلا ثم باع أصلها فللذي أبر ثمر النخل إلا أن يشترط المبتاع
   سنن النسائى الصغرى4640عبد الله بن عمرمن ابتاع نخلا بعد أن تؤبر فثمرتها للبائع إلا أن يشترط المبتاع من باع عبدا وله مال فماله للبائع إلا أن يشترط المبتاع
   سنن ابن ماجه2211عبد الله بن عمرمن باع نخلا قد أبرت فثمرتها للذي باعها إلا أن يشترط المبتاع من ابتاع عبدا وله مال فماله للذي باعه إلا أن يشترط المبتاع
   سنن ابن ماجه2212عبد الله بن عمرمن باع نخلا وباع عبدا جمعهما جميعا
   سنن ابن ماجه2210عبد الله بن عمرمن اشترى نخلا قد أبرت فثمرتها للبائع إلا أن يشترط المبتاع
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم483عبد الله بن عمرمن باع نخلا قد ابرت فثمرها للبائع إلا ان يشترطه المبتاع
   بلوغ المرام718عبد الله بن عمر من ابتاع نخلا بعد أن تؤبر فثمرتها للذي باعها إلا أن يشترط المبتاع
   مسندالحميدي625عبد الله بن عمرمن باع عبدا وله مال، فماله للذي باعه إلا أن يشترط المبتاع، ومن باع نخلا بعد أن تؤبر، فثمرها للبائع إلا أن يشترطه المبتاع

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 483  
´جانوروں سے حسن سلوک کی فضیلت`
«. . . 234- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من باع نخلا قد أبرت فثمرها للبائع إلا أن يشترطه المبتاع. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کھجور کے وہ درخت بیچے جن کی پیوندکاری کی گئی ہو تو اس کے پھل کا حقدار بیچنے والا ہے الا یہ کہ خریدنے والا شرط طے کر لے کہ پھل میرا ہو گا . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 483]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 2204، ومسلم 77/1543، من حديث مالك به]
تفقہ:
➊ عام دلیل اپنے عموم پر جاری رہتی ہے الا یہ کہ کوئی خاص دلیل اس کی تخصیص کر دے۔
➋ لین دین اور دیگر امور میں مسلمان آپس میں جو شرائط طے کر لیں ان کا اعتبار ہوگا الا یہ کہ یہ شرائط واضح طور پر کتاب و سنت کے خلاف ہوں تو رد کردی جائیں گی۔
➌ درختوں کی پیوند کاری جائز ہے۔
➍ عبادات ہوں یا معاملات اسلام ہر سلسلے میں ہماری رہنمائی کرتا ہے۔
➎ معاملات میں جھگڑے سے بچنے کے لئے وضاحت اور صراحت مستحب ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 234   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2210  
´قلم کئے ہوئے کھجور کے درخت کو بیچنے یا مالدار غلام کو بیچنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کوئی تابیر (قلم) کئے ہوئے کھجور کا درخت خریدے، تو اس میں لگنے والا پھل بیچنے والے کا ہو گا، الا یہ کہ خریدار خود پھل لینے کی شرط طے کر لے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2210]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
درختوں کا پھل اس وقت بننا شروع ہوتا ہے جب پھول کے نر حصے کا زردانہ مادہ حصے کی ڈنڈی کے سرے تک پہنچ جائے۔
عام درختوں میں ایک ہی پھول میں نر اور مادہ حصے ہوتے ہیں، اس طرح مادہ پھول آسانی سے بارآور ہو جاتا ہے جو بعد میں پھل بن جاتا ہے۔
بعض پودوں میں نر پھول الگ ہوتے ہیں اور مادہ پھول الگ۔
ان میں حشرات اور ہوا کے ذریعے سے نر پھول کا زردانہ مادہ پھول تک پہنچ جاتا ہے اور پھل بننا شروع ہو جاتا ہے۔
کھجور کے درخت میں نر پھول ایک درخت پر لگتے ہیں اور مادہ پھول دوسرے درخت پر۔
ان میں اگر ہوااور حشرات کے ذریعے سے بار آوری پر اعتماد کیا جائے تو پھل بہت کم لگتا ہے، اس لیے نر درخت کے پھول لے کر مادہ درخت پر چڑھ کر اس کے پھولوں پر چھڑکے جاتے ہیں۔
اس طرح پھل زیادہ لگتا ہے۔
عربی میں اسے تأبیر کہتے ہیں۔

(2)
تأبیر ایک مشقت طلب کام ہے اور اس پر پیداور کی مقدار کا انحصار ہے، اس لیے اگر تأبیر کے بعد درخت بیچا جائے تو بیچنے والے کی محنت ضائع جاتی ہے، چنانچہ سودا کرتے وقت یہ وضاحت ہونی چاہیے کہ صرف درخت بیچا جارہا ہے یا اس کا پھل بھی۔
اگر وضاحت نہ کی گئی ہو تو صرف درخت فروخت ہوگا، اس کا پھل بدستور بیچنے والے کی ملکیت رہے گا، البتہ آئندہ سالوں میں جب خریدار تأبیر کرے گا تو پھل کا مستحق بھی وہی ہوگا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2210   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1244  
´پیوند کاری کے بعد کھجور کے درخت کو بیچنے کا اور ایسے غلام کو بیچنے کا بیان جس کے پاس مال ہو۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: جس نے «تأبیر» ۱؎ (پیوند کاری) کے بعد کھجور کا درخت خریدا تو اس کا پھل بیچنے والے ہی کا ہو گا ۲؎ الا یہ کہ خریدنے والا (خریدتے وقت پھل کی) شرط لگا لے۔ اور جس نے کوئی ایسا غلام خریدا جس کے پاس مال ہو تو اس کا مال بیچنے والے ہی کا ہو گا الا یہ کہ خریدنے والا (خریدتے وقت مال کی) شرط لگا لے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1244]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
تأبیر:
پیوند کاری کرنے کو کہتے ہیں،
اس کی صورت یہ ہے کہ نرکھجورکا گابھا لے کرمادہ کھجورکے خوشے میں رکھ دیتے ہیں،
جب وہ گابھا کھلتااورپھٹتا ہے تو باذن الٰہی وہ پھل زیادہ دیتاہے۔

2؎:
اس سے معلوم ہوا کہ اگر پیوند کا ری نہ کی گئی ہو تو پھل کھجور کے درخت کی بیع میں شامل ہوگا اور وہ خریدارکا ہوگا،
جمہورکی یہی رائے ہے،
جب کہ امام ابوحنیفہ کا یہ قول ہے کہ دونوں صورتوں میں بائع کا حق ہے،
اور ابن ابی لیلیٰ کا کہنا ہے کہ دونوں صورتوں میں خریدارکا حق ہے،
مگریہ دونوں اقوال احادیث کے خلاف ہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1244   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3433  
´بیچے جانے والے غلام کے پاس مال ہو تو وہ کس کا ہو گا؟`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے کسی غلام کو بیچا اور اس کے پاس مال ہو، تو اس کا مال بائع لے گا، الا یہ کہتے ہیں کہ خریدار پہلے سے اس مال کی شرط لگا لے ۱؎، (ایسے ہی) جس نے تابیر (اصلاح) کئے ہوئے (گابھا دئیے ہوئے کھجور کا درخت بیچا تو پھل بائع کا ہو گا الا یہ کہ خریدار خریدتے وقت شرط لگا لے (کہ پھل میں لوں گا)۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3433]
فوائد ومسائل:
توضیح۔
کھجوروں پر پھل آنے سے پہلے ان کی خاص انداز سے اصلاح کی جاتی ہے۔
اور مادہ کھجوروں میں نر کا بور وغیرہ ڈالا جاتا ہے۔
اسے تابیر (بورڈالنا۔
یا پیوندکاری)
کہتے ہیں۔
اس حدیث میں یہ اشارہ ہے۔
کہ اگر غیر تابیرشدہ کھجور بیچی گئی ہو اور اس پر پھل ہو تو وہ خریدار کیا ہوگا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3433   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3901  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
تابير:
درخت یا کھیتی کو درست اور بار آور کرنا۔
تابیر کا معنی عام طور پر پیوندکاری کیا جاتا ہے جس سے ذہن عام پودوں کی پیوندکاری کی طرف منتقل ہو جاتا ہے،
جب کہ تابیر قلم یا شگوفہ لگانے کا نام نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے کھجور کے نر اور مادہ درخت الگ الگ بنائے ہیں۔
نر کا بور مادہ کے بور سے ہوا یا کیڑوں مکوڑوں کے ذریعے ملتا ہے تو وہ حاملہ ہو جاتا ہے اور پھل بن جاتا ہے،
اگر یہ عمل بالکل نہ ہو تو مادہ کے پھول بار آور نہیں ہوتے،
اگر کم بور پہنچے تو کم پھل لگتا ہے،
اس لیے عرب کے لوگ نر اور مادہ درختوں پر پھل کا گابھہ نکلنے کے ساتھ نر کے گابھے کا بور لے کر مادہ کے گابھے کا غلاف چاک کر کے اس میں چھڑک دیتے تھے جس سے عمل تلقیح مکمل ہو کر پھل زیادہ اور موٹا لگتا تھا۔
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے:
اگر تابیر کےبعد پھل دار درخت فروخت کیا جائے تو اس کا پھل مالک کا ہے الا یہ کہ خریدار خریدتے وقت پھل لینے کی شرط لگالے۔
اس پر تقریباً تمام فقہاء کا اتفاق ہے۔
اگر تابیر نہیں کی،
تو جمہور کے نزدیک وہ پھل خریدار کا ہو گا۔
الا یہ کہ بائع خود رکھنے کی شرط لگالے۔
لیکن امام ابو حنیفہ اور امام اوزاعی کے نزدیک پھل ہر صورت میں بائع کا ہوگا۔
الا یہ کہ مشتری شرط لگا لے۔
اگر بعض درخت تابیر شدہ ہوں اور بعض کو تابیر نہ کیا گیا ہو،
تو شوافع کے نزدیک سارا پھل بائع کا ہوگا اور احمد کے نزدیک تابیر شدہ درخت کا پھل بائع کا اورغیر تابیر شدہ درخت کا پھل مشتری کا ہوگا۔
اور امام مالک کے نزدیک اغلب اور اکثر کے مطابق فیصلہ ہو گا۔
اور اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا جو شرط،
عقد کے منافی نہیں ہے۔
وہ شرط لگائی جا سکتی ہےوہ نهي عن بيع و شرط کے منافی نہیں ہے۔
علامہ تقی عثمانی نے تسلیم کیا ہے۔
إن الشرط إذا لم يكن مخالفا لمقتضي العقد لا يفسد به البيع اگر شرط،
عقد کے تقاضاکے منافی نہیں ہے تو وہ بیع پر اثر انداز نہیں ہو گی۔
(تکملة،
ج:
ا،
ص: 425)

اس لیے اگر سواری کے جانور پر فوری سواری کی ضرورت نہیں ہے تو سواری کا مالک،
اس پر کچھ مسافت سوار رہنے کی شرط لگا سکتا ہے۔
اس لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کو سوار رہنے کی شرط لگانے کی اجازت دی تھی تو اس کی تاویل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
کیونکہ حضورکے پاس سواری موجود تھی،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جابر کے اونٹ پر سوار ہونے کی ضرورت نہ تھی۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 3901   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.