الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
قتل کی ذمہ داری کے تعین کے لیے اجتماعی قسموں، لوٹ مار کرنے والوں (کی سزا)، قصاص اور دیت کے مسائل
The Book of Muharibin, Qasas (Retaliation), and Diyat (Blood Money)
9. باب تَغْلِيظِ تَحْرِيمِ الدِّمَاءِ وَالأَعْرَاضِ وَالأَمْوَالِ:
9. باب: خون اور عزت اور مال کا حق کیسا سخت ہے۔
حدیث نمبر: 4383
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، ويحيى بن حبيب الحارثي وتقاربا في اللفظ، قالا: حدثنا عبد الوهاب الثقفي ، عن ايوب ، عن ابن سيرين ، عن ابن ابي بكرة ، عن ابي بكرة ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه قال: " إن الزمان قد استدار كهيئته يوم خلق الله السماوات والارض السنة اثنا عشر شهرا، منها اربعة حرم، ثلاثة متواليات ذو القعدة وذو الحجة والمحرم ورجب شهر مضر الذي بين جمادى وشعبان، ثم قال: اي شهر هذا؟، قلنا: الله ورسوله اعلم، قال: فسكت حتى ظننا انه سيسميه بغير اسمه، قال: اليس ذا الحجة؟، قلنا: بلى، قال: فاي بلد هذا؟، قلنا: الله ورسوله اعلم، قال: فسكت، حتى ظننا انه سيسميه بغير اسمه، قال: اليس البلدة؟، قلنا: بلى، قال: فاي يوم هذا؟، قلنا: الله ورسوله اعلم، قال: فسكت، حتى ظننا انه سيسميه بغير اسمه، قال: اليس يوم النحر؟، قلنا: بلى يا رسول الله، قال: فإن دماءكم واموالكم، قال محمد: واحسبه قال واعراضكم حرام عليكم كحرمة يومكم هذا في بلدكم هذا في شهركم هذا، وستلقون ربكم، فيسالكم عن اعمالكم، فلا ترجعن بعدي كفارا او ضلالا يضرب بعضكم رقاب بعض، الا ليبلغ الشاهد الغائب، فلعل بعض من يبلغه يكون اوعى له من بعض من سمعه، ثم قال: الا هل بلغت؟ "، قال ابن حبيب في روايته: ورجب مضر، وفي رواية ابي بكر فلا ترجعوا بعدي ,حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَيَحْيَى بْنُ حَبِيبٍ الْحَارِثِيُّ وَتَقَارَبَا فِي اللَّفْظِ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ ، عَنْ ابْنِ أَبِي بَكْرَةَ ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " إِنَّ الزَّمَانَ قَدِ اسْتَدَارَ كَهَيْئَتِهِ يَوْمَ خَلَقَ اللَّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ السَّنَةُ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا، مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ، ثَلَاثَةٌ مُتَوَالِيَاتٌ ذُو الْقَعْدَةِ وَذُو الْحِجَّةِ وَالْمُحَرَّمُ وَرَجَبٌ شَهْرُ مُضَرَ الَّذِي بَيْنَ جُمَادَى وَشَعْبَانَ، ثُمَّ قَالَ: أَيُّ شَهْرٍ هَذَا؟، قُلْنَا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: فَسَكَتَ حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيُسَمِّيهِ بِغَيْرِ اسْمِهِ، قَالَ: أَلَيْسَ ذَا الْحِجَّةِ؟، قُلْنَا: بَلَى، قَالَ: فَأَيُّ بَلَدٍ هَذَا؟، قُلْنَا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: فَسَكَتَ، حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيُسَمِّيهِ بِغَيْرِ اسْمِهِ، قَالَ: أَلَيْسَ الْبَلْدَةَ؟، قُلْنَا: بَلَى، قَالَ: فَأَيُّ يَوْمٍ هَذَا؟، قُلْنَا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: فَسَكَتَ، حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيُسَمِّيهِ بِغَيْرِ اسْمِهِ، قَالَ: أَلَيْسَ يَوْمَ النَّحْرِ؟، قُلْنَا: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَإِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَأَحْسِبُهُ قَالَ وَأَعْرَاضَكُمْ حَرَامٌ عَلَيْكُمْ كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا فِي بَلَدِكُمْ هَذَا فِي شَهْرِكُمْ هَذَا، وَسَتَلْقَوْنَ رَبَّكُمْ، فَيَسْأَلُكُمْ عَنْ أَعْمَالِكُمْ، فَلَا تَرْجِعُنَّ بَعْدِي كُفَّارًا أَوْ ضُلَّالًا يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ، أَلَا لِيُبَلِّغْ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ، فَلَعَلَّ بَعْضَ مَنْ يُبَلِّغُهُ يَكُونُ أَوْعَى لَهُ مِنْ بَعْضِ مَنْ سَمِعَهُ، ثُمَّ قَالَ: أَلَا هَلْ بَلَّغْتُ؟ "، قَالَ ابْنُ حَبِيبٍ فِي رِوَايَتِهِ: وَرَجَبُ مُضَرَ، وَفِي رِوَايَةِ أَبِي بَكْرٍ فَلَا تَرْجِعُوا بَعْدِي ,
ابوبکر بن ابی شیبہ اور یحییٰ بن حبیب حارثی۔۔ دونوں کے الفاظ قریب قریب ہیں۔۔ دونوں نے کہا: ہمیں عبدالوہاب ثقفی نے ایوب سے حدیث بیان کی، انہوں نے ابن سیرین سے، انہوں نے ابن ابی بکرہ سے، انہوں نے حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بلاشبہ زمانہ گھوم کر اپنی اسی حالت پر آ گیا ہے (جو اس دن تھی) جس دن اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا تھا۔ سال کے بارہ مہینے ہیں، ان میں سے چار حرمت والے ہیں، تین لگاتار ہیں: ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم اور (ان کے علاوہ) رجب جو مضر کا مہینہ ہے، (جس کی حرمت کا قبیلہ مضر قائل ہے) جو جمادیٰ اور شعبان کے درمیان ہے۔" اس کے بعد آپ نے پوچھا: " (آج) یہ کون سا مہینہ ہے؟" ہم نے کہا: اللہ اور اس کا رسول زیادہ جاننے والے ہیں۔ کہا: آپ خاموش ہو گئے حتی کہ ہم نے خیال کیا کہ آپ اسے اس کے (معروف) نام کے بجائے کوئی اور نام دیں گے۔ (پھر) آپ نے فرمایا: "کیا یہ ذوالحجہ نہیں ہے؟" ہم نے جواب دیا: کیوں نہیں! (پھر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: "یہ کون سا شہر ہے؟" ہم نے جواب دیا: اللہ اور اس کا رسول سب سے بڑھ کر جاننے والے ہیں۔ کہا: آپ خاموش رہے حتی کہ ہم نے خیال کیا کہ آپ اس کے (معروف) نام سے ہٹ کر اسے کوئی اور نام دیں گے، (پھر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: "کیا یہ البلدہ (حرمت والا شہر) نہیں؟" ہم نے جواب دیا: کیوں نہیں! (پھر) آپ نے پوچھا: "یہ کون سا دن ہے؟" ہم نے جواب دیا: اللہ اور اس کا رسول سب سے بڑھ کر جاننے والے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: "کیا یہ یوم النحر (قربانی کا دن) نہیں ہے؟" ہم نے جواب دیا: کیوں نہیں، اللہ کے رسول! (پھر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بلاشبہ تمہارے خون، تمہارے مال۔۔ محمد (بن سیرین) نے کہا: میرا خیال ہے، انہوں نے کہا:۔۔ اور تمہاری عزت تمہارے لیے اسی طرح حرمت والے ہیں جس طرح اس مہینے میں، اس شہر میں تمہارا یہ دن حرمت والا ہے، اور عنقریب تم اپنے رب سے ملو گے اور وہ تم سے تمہارے اعمال کے بارے میں پوچھے گا، تم میرے بعد ہرگز دوبارہ گمراہ نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو، سنو! جو شخص یہاں موجود ہے وہ اس شخص تک یہ پیغام پہنچا دے جو یہاں موجود نہیں، ممکن ہے جس کو یہ پیغام پہنچایا جائے وہ اسے اس آدمی سے زیادہ یاد رکھنے والا ہو جس نے اسے (خود مجھ سے) سنا ہے۔" پھر فرمایا: "سنو! کیا میں نے (اللہ کا پیغام) ٹھیک طور پر پہنچا دیا ہے؟" ابن حبیب نے اپنی روایت میں "مضر کا رجب" کہا: اور ابوبکر کی روایت میں ("تم میرے بعد ہرگز دوبارہ" کے بجائے) "میرے بعد دوبارہ" (تاکید کے بغیر) ہے
حضرت ابوبکرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زمانہ گھوم کر اپنی اس حالت کی طرف آ گیا ہے، جس پر اس وقت تھا، جب اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا تھا، سال کے بارہ (12) ماہ ہیں، جن میں سے چار محترم (عزت و احترام والے) ہیں، تین متواتر ہیں، ذوالقعدہ، ذوالحجۃ، محرم اور رجب مضریوں کا مہینہ جو جمادی ثانی اور شعبان کے درمیان میں آتا ہے۔ پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ کون سا ماہ ہے؟ ہم نے عرض کیا، اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے حتی کہ ہم نے خیال کیا، آپصلی اللہ علیہ وسلم اس ماہ کا کوئی اور نام رکھیں گے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا ذوالحجہ نہیں ہے؟ ہم نے کہا، کیوں نہیں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تو یہ کون سا شہر ہے؟ ہم نے عرض کیا، اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے سکوت اختیار کیا حتی کہ ہم نے خیال کیا، آپصلی اللہ علیہ وسلم اس کا کوئی اور نام رکھیں گے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا یہ البلدہ (مکہ مکرمہ) نہیں ہے؟ ہم نے کہا، کیوں نہیں! وہی ہے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، تو یہ کون سا دن ہے؟ ہم نے کہا، اللہ اور اس کا رسول خوب جانتے ہیں، آپصلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے حتی کہ ہم نے گمان کیا کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم اس کا نام کوئی اور رکھیں گے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا یہ قربانی کا دن نہیں ہے؟ ہم نے کہا، جی ہاں، اے اللہ کے رسول! آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلاشبہ، تمہارے خون، تمہارے اموال، (محمد بن سیرین کہتے ہیں)، میرا خیال ہے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا: تمہاری عزتیں، تمہارے لیے محترم ہیں، جس طرح تمہارا یہ دن، تمہارے اس شہر میں، تمہارے اس ماہ میں محترم ہے اور تم یقینا اپنے رب سے ملو گے، وہ تم سے تمہارے اعمال کے بارے میں پوچھے گا تو میرے بعد تم کافر یا گمراہ نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردن مارنے لگے، خبردار! موجود، غیر موجود تک پیغام پہنچا دے، ہو سکتا ہے، جن کو بات پہنچائی جائے، ان میں سے بعض سننے والوں میں سے اس کو زیادہ یاد رکھے پھر آپ نے فرمایا: خبردار! کیا میں نے پیغام پہنچا دیا؟ ابن حبیب نے اپنی روایت میں رجب مضر کہا ہے اور ابوبکر کی روایت میں ہے، فلا ترجعوا،
ترقیم فوادعبدالباقی: 1679

   صحيح البخاري4406نفيع بن الحارثالزمان قد استدار كهيئة يوم خلق السموات والأرض السنة اثنا عشر شهرا منها أربعة حرم ثلاثة متواليات ذو القعدة وذو الحجة والمحرم ورجب مضر الذي بين جمادى وشعبان دماءكم وأموالكم وأعراضكم عليكم حرام كحرمة يومكم هذا في بلدكم هذا في شهركم هذا وستلقون ربك
   صحيح البخاري4662نفيع بن الحارثالزمان قد استدار كهيئته يوم خلق الله السموات والأرض السنة اثنا عشر شهرا منها أربعة حرم ثلاث متواليات ذو القعدة وذو الحجة والمحرم ورجب مضر الذي بين جمادى وشعبان
   صحيح البخاري3197نفيع بن الحارثالزمان قد استدار كهيئته يوم خلق الله السموات والأرض السنة اثنا عشر شهرا منها أربعة حرم ثلاثة متواليات ذو القعدة وذو الحجة والمحرم ورجب مضر لذي بين جمادى وشعبان
   صحيح البخاري5550نفيع بن الحارثالزمان قد استدار كهيئته يوم خلق الله السموات والأرض السنة اثنا عشر شهرا منها أربعة حرم ثلاث متواليات ذو القعدة وذو الحجة والمحرم ورجب مضر الذي بين جمادى وشعبان دماءكم وأموالكم وأعراضكم عليكم حرام كحرمة يومكم هذا في بلدكم هذا في شهركم هذا وستلقو
   صحيح البخاري7447نفيع بن الحارثالزمان قد استدار كهيئته يوم خلق الله السموات والأرض السنة اثنا عشر شهرا منها أربعة حرم ثلاث متواليات ذو القعدة وذو الحجة والمحرم ورجب مضر الذي بين جمادى وشعبان دماءكم وأموالكم وأعراضكم عليكم حرام كحرمة يومكم هذا في بلدكم هذا في شهركم هذا وستلقو
   صحيح مسلم4383نفيع بن الحارثالزمان قد استدار كهيئته يوم خلق الله السموات والأرض السنة اثنا عشر شهرا منها أربعة حرم ثلاثة متواليات ذو القعدة وذو الحجة والمحرم ورجب شهر مضر الذي بين جمادى وشعبان دماءكم وأموالكم وأعراضكم حرام عليكم كحرمة يومكم هذا في بلدكم هذا في شهركم هذا و
   سنن أبي داود1947نفيع بن الحارثالزمان قد استدار كهيئته يوم خلق الله السموات والأرض السنة اثنا عشر شهرا منها أربعة حرم ثلاث متواليات ذو القعدة وذو الحجة والمحرم ورجب مضر الذي بين جمادى وشعبان

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3197  
´سات زمینوں کا بیان`
«. . . وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَوَاتٍ وَمِنَ الأَرْضِ مِثْلَهُنَّ يَتَنَزَّلُ الأَمْرُ بَيْنَهُنَّ لِتَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ وَأَنَّ اللَّهَ قَدْ أَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا سورة الطلاق آية 12 وَالسَّقْفِ الْمَرْفُوعِ سورة الطور آية 5 السَّمَاءُ، سَمْكَهَا سورة النازعات آية 28 بِنَاءَهَا، الْحُبُكِ سورة الذاريات آية 7اسْتِوَاؤُهَا وَحُسْنُهَا، وَأَذِنَتْ سورة الانشقاق آية 2 سَمِعَتْ وَأَطَاعَتْ، وَأَلْقَتْ سورة الانشقاق آية 4 أَخْرَجَتْ مَا فِيهَا مِنَ الْمَوْتَى، وَتَخَلَّتْ سورة الانشقاق آية 4 عَنْهُمْ، طَحَاهَا سورة الشمس آية 6 دَحَاهَا سورة النازعات آية 30 بِالسَّاهِرَةِ سورة النازعات آية 14 وَجْهُ الْأَرْضِ كَانَ فِيهَا الْحَيَوَانُ نَوْمُهُمْ وَسَهَرُهُمْ. . . .»
. . . اور اللہ تعالیٰ نے (سورۃ الطلاق میں) فرمایا «الله الذي خلق سبع سموات ومن الأرض مثلهن يتنزل الأمر بينهن لتعلموا أن الله على كل شىء قدير وأن الله قد أحاط بكل شىء علما‏» اللہ تعالیٰ ہی وہ ذات ہے جس نے پیدا کئے سات آسمان اور آسمان ہی کی طرح سات زمینیں۔ اللہ تعالیٰ کے احکام ان کے درمیان اترتے ہیں۔ یہ اس لیے تاکہ تم کو معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو اپنے علم کے اعتبار سے گھیر رکھا ہے۔ اور سورۃ الطور میں «والسقف المرفوع‏» سے مراد آسمان ہے اور سورۃ والنازعات میں جو «رفع سمكها‏» ہے «سمك‏» کے معنی بناء عمارت کے ہیں۔ اور سورۃ والذاریات میں جو «حبك» کا لفظ آیا ہے اس کے معنی برابر ہونا یعنی ہموار اور خوبصورت ہونا۔ سورۃ اذا السماء انشقت میں جو لفظ «أذنت‏» ہے اس کا معنی سن لیا اور مان لیا، اور لفظ «ألقت‏» کا معنی جتنے مردے اس میں تھے ان کو نکال کر باہر ڈال دیا، خالی ہو گئی۔ اور سورۃ والیل میں جو لفظ «طحاها‏» ہے اس کے معنی بچھایا۔ اور سورۃ والنازعات میں جو «ساهرة» کا لفظ ہے اس کے معنی روئے زمین کے ہیں، وہیں جاندار رہتے سوتے اور جاتے ہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب بَدْءِ الْخَلْقِ: Q3195]

«. . . عَنْ أَبِي بَكْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" الزَّمَانُ قَدِ اسْتَدَارَ كَهَيْئَتِهِ يَوْمَ خَلَقَ اللَّهُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ السَّنَةُ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ، ثَلَاثَةٌ مُتَوَالِيَاتٌ ذُو الْقَعْدَةِ، وَذُو الْحِجَّةِ، وَالْمُحَرَّمُ، وَرَجَبُ مُضَرَ الَّذِي بَيْنَ جُمَادَى وَشَعْبَانَ . . . .»
. . . ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا زمانہ گھوم پھر کر اسی حالت پر آ گیا جیسے اس دن تھا جس دن اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین پیدا کی تھی۔ سال بارہ مہینوں کا ہوتا ہے، چار مہینے اس میں سے حرمت کے ہیں۔ تین تو پے در پے۔ ذی قعدہ، ذی الحجہ اور محرم اور (چوتھا) رجب مضر جو جمادی الاخریٰ اور شعبان کے بیچ میں پڑتا ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب بَدْءِ الْخَلْقِ: 3197]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 3197 باب: «بَابُ مَا جَاءَ فِي سَبْعِ أَرَضِينَ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
ترجمۃ الباب میں امام بخاری رحمہ اللہ نے سات زمینوں کا ذکر فرمایا ہے، دلیل کے طور پر قرآن مجید سے سورۃ طلاق کی آیت پیش کی ہے جو مکمل طور پر ترجمۃ الباب سے مطابقت رکھتی ہے، اس کے علاوہ سیدنا ابوسلمہ بن عبدالرحمن، سیدنا عبداللہ بن عمر، سیدنا زید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ عنہم سے احادیث نقل فرمائی ہیں جو کہ واضح ترجمۃ الباب سے مطابقت رکھتی ہیں۔ مگر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے جو حدیث نقل فرمائی ہے اس میں زمین کا ذکر ضرور ہے مگر سات زمینوں کا ذکر موجود نہیں ہے، جس سے ترجمۃ الباب سے مطابقت نہیں بنتی۔
دراصل سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ والی حدیث میں آسمان اور زمین کی پیدائش کا ذکر کیا گیا ہے مگر بعض احادیث کی نصوص قرآن مجید کی آیات سے واضح ہوتا ہے کہ آسمان تعداد کے اعتبار سے سات ہیں اور زمینیں بھی سات ہی ہیں کیوں کہ قرآن مجید میں کئی مقامات پر آسمان کا ذکر واحد کے صیغے کے ساتھ کیا گیا ہے جو کہ تقریبا قرآن مجید میں 13 مقامات بنتے ہیں۔ [المعجم المفهرس لالفاظ القرآن الكريم] مگر وہ تمام آیات اسی امر پر محمول ہیں کہ وہ سات کی تعداد میں ہیں اور سورۃ طلاق میں «مثلهن» فرما کر زمین کی گنتی کا بھی واضح تعین فرما دیا گیا ہے، بعین اسی طرح سے امام بخاری رحمہ اللہ نے جو حدیث سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی پیش کی ہے اس میں بھی واحد کے صیغے کے ساتھ «الأرض» کا ذکر ہے، مگر یہاں پر ایک ضروری قاعدہ یاد رکھنا چاہئے کہ:
ارض اور سماء اگرچہ واحد کے صیغے ہیں مگر یہاں پر مراد ہے جنس سماء اور جنس ارض عربیت کے قواعد کے اعتبار سے جس کا اطلاق ایک پر بھی ہوتا ہے ایک سے زائد بھی، لیکن قرآن مجید میں بتصریح آسمان کو سات آسمان قرار دیا ہے جس میں جنس کا تعین بھی ہوا اور تعداد کا بھی، زمین کیلئے «مثلهن» کہہ کر اس کو آسمان کے مثل قرار دیا گیا ہے کہ وہ بھی تہہ بہ تہہ سات ہیں۔ جس کی وضاحت حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بایں طور پر ثابت ہوتی ہیں۔
امام الطبرانی رحمہ اللہ نے کتاب الدعا اور معجم الکبیر میں مرفوع حدیث کا ذکر فرمایا ہے کہ:
«أن رسول الله لم ير قرية يريد دخولها إلا قال حين يراها: اللهم رب السماوات السبع وما اظللن ورب الأرضين السبع وما اقللن و رب الشياطين و ما اضللن و رب الرياح وما زرين انا نسئلك خير هذا القرية وخير أهلها ونعوذبك من شرها و شر أهلها و شر ما فيها.» [كتاب الدعا للطبراني، ج 2، ص: 119 - المعجم الكبير للطبراني، ج 8، ص: 39 - عمل اليوم و الليل لابن السني، ص: 472]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کبھی ایسی بستی کو دیکھتے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم داخل ہونا چاہتے تو اسے دیکھتے ہی یہ دعا مانگتے تھے کہ اللہ! اے سات آسمانوں کے مالک اور ان چیزوں کے مالک جن پر یہ آسمان سایہ فگن ہے، اے سات زمینوں کے مالک اور ان چیزوں کے مالک جن کو یہ زمینیں اٹھائی ہوئی ہیں، اے شیطانوں کے مالک اور ان لوگوں کے مالک جن کو انہوں نے گمراہ کیا ہے، اے ہواؤں کے مالک اور ان چیزوں کے مالک جن کو یہ ہوائیں اڑا رہی ہیں، ہم سوال کرتے ہیں کہ اس بستی اور اس کے باشندوں کے خیر سے ہمیں فائدہ پہنچا اور ان کے باشندوں کے شر سے ہمیں بچا۔
معجم الکبیر کی حدیث سے زمینوں کا واضح تعین ہو گیا کہ آسمانوں کی طرح زمین بھی سات ہی ہیں، لہذا اس صورت میں صحیح البخاری کی حدیث جو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اس پر غور فرمائیں کہ اس میں «سماوات» جمع کے ساتھ ہیں اور قرآن اور حدیث میں اس کا تعین سات کی تعداد میں موجود ہے، اور صحیح البخاری کی حدیث میں زمین واحد کے صیغہ کے ساتھ ذکر کی گئی ہے، اب قاعدہ یہ ہوا کہ جب آسمان سات ہیں تو زمین بھی سات ہی ہوں گی، لہذا یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔
فائدہ 2:
جدید سائنس کا دائرہ کتنا بھی وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جائے مگر وہ قرآن مجید اور احادیث صحیحہ کے بیانات کے مد مقابل کبھی نہیں آ سکتے، کیونکہ قرآن و حدیث کا تعلق وحی کے ساتھ ہے جس میں غلطی، لغزش اور خطا کا تصور بھی کفر ہے، کیوں کہ جدید سائنس انسانی کاوشوں اور تحقیق کا محور ہے جس میں اغلاط کے ہزارہا امکانات دامن گیر ہیں، ہم جانتے ہیں کہ سائنس کے بیانات میں کئی تعارضات پائے گئے ہیں، صدیوں قبل سائنسی بیانات کچھ اور تھے، جس طرح وقت بدلتا گیا تحقیق کے دریچے بڑھتے گئے اور جدید سائنس ترقی کرتی گئی لیکن 1400 سال قبل جو بیانات (Statement) قرآن و حدیث نے پیش کئے وہ اپنی جگہ آج بھی اٹل اور حرف آخر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ لہذا ہمیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات پر ایمان لانا چاہئے، اگر موجودہ تحقیقات بالفرض قرآن و حدیث کے مخالف ہوں گیں تو اس مقام پر یہی کہا جائے گا کہ ابھی سائنس کی تحقیقات میں کمی ہے جو کہ اصل حقیقت تک رسائی حاصل نہیں کر پائی، بلکہ میں یہاں تک کہوں گا کہ ماڈرن سائنس (Modern Science) اگر قرآن و حدیث کے مخالف ہو گی تو وہ مردود ہو گی، ہمارے لئے نص حدیث اور واضح دلیل صرف کتاب و سنت ہی ہیں۔
سات زمینوں کی حقیقت اور اس کے محل وقوع پر علامہ طنطاوی اور علامہ آلوسی بغدادی رحمہما اللہ کی رائے:
سورۃ طلاق کی آیت پر مفسرین کرام نے مختلف توجیہات پیش فرمائی ہیں اور مختلف قسم کی آراء کا بھی اظہار فرمایا ہے جسے ہم احتمالی اور امکانی تاویلات سے تعبیر کریں گے، بعض مفسرین کی رائے یہ ہے کہ سات زمینوں سے مراد «اقاليم سبعة» یعنی زمین کے مختلف براعظم مثلا ایشیا، افریقہ، امریکہ، یورپ وغیرہ، یہ ایک احتمالی ہے جس کا مفسرین نے ذکر فرمایا ہے، امام رازی رحمہ اللہ نے اس رائے کو احتمال کا درجہ دیا ہے، لیکن یہ احتمال واضح طور پر مرفوع حدیث کے مخالف ہے لہذا یہ قاعدہ بھی یاد رکھنا چاہے: مرفوع حدیث کے مقابلے میں کسی بڑے سے بڑے فقیہ اور محدث یا مفسر کی بات ہرگز مقبول نہ ہو گی بلکہ اس کی بات کو رد کر دیا جائے گا، چنانچہ مسند احمد و ترمذی کی مرفوع حدیث کے مطابق آسمانوں کی طرح زمینیں بھی تہہ بہ تہہ ہیں۔ اسی بناء پر حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ اور علامہ آلوسی رحمہ اللہ نے اس قول کا رد فرمایا ہے۔ دیکھئے: [البداية و النهاية، ج: 1، ص: 21 - روح المعاني، ج 28، ص: 144]
علامہ آلوسی رحمہ اللہ سات زمینوں کے بارے میں فرماتے ہیں:
«و قد غلب على ظن أكثر أهل الحكمة الجديدة أن القمر عالم كعالم أرضنا هذه و فيه جبال و بحار يزعمون أنهم يحسون بها بواسطه أرصادهم وهم مهتمون بالسعي فى تحقيق الأمر فيه فليكن ما نقول به من الأرضين على هذا النحو.» [روح المعاني، ج 14، ص: 339]
حکمت جدیدہ کے حکماء کی اکثریت کا گمان یہ ہے کہ چاند ہماری زمین کی طرح کا ایک ملک ہے جس پر پہاڑ بھی ہیں اور دریا بھی ہیں، ان کا دعوی ہے کہ ہم نے اپنی رصد گاہوں میں چاند پر ان چیزوں کو محسوس کیا ہے، یہ لوگ چاند کے بارے میں مزید تحقیق کا اہتمام کر رہے ہیں اور کوشش کر رہے ہیں کہ مزید معلومات کو حاصل کیا جائے اور ممکن ہے کہ ہم جن زمینوں کے قائل ہیں نہ اسی طرح کی ہوں جیسا کہ چاند ہے۔
نوٹ: یاد رہے علامہ آلوسی البغدادی رحمہ اللہ 1370ھ میں فوت ہوئے ہیں، اب کی تحقیقات میں کافی اضافہ ہو چکا ہے۔
علامہ آلوسی رحمہ اللہ کے دور کے حکماء کا خیال آپ نے پڑھا اور اس میں بعض باتیں صحیح بھی ثابت ہوئی ہیں، لیکن یہاں ایک اشکال وارد ہوتا ہے کہ علم جدید، اور حکمت جدیدہ کے مطابق ان کے نزدیک زمین سات نہیں ہیں بلکہ کروڑوں ہیں، مگر حدیث میں سات کے عدد کے ساتھ منقول ہیں۔ اسی بات کا جواب دیتے ہوئے علامہ آلوسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ممکن ہے کہ زمینیں اور آسمان سات سے زائد ہوں، سات کے عدد تام کا ذکر اس بات کا تقاضا کرتا کہ اس سے زائد نہ ہوں اس لئے کہ عربیت کے ماہرین نے تصریح کی ہے کہ عدد کا مفہوم مخالف معتبر نہیں ہوتا۔ [روح المعاني، ج 14، ص: 340]
لہذا لفظ سات کا عدد زائد کی نفی نہیں کرتا، قرآن و حدیث میں کوئی ایسی صراحت نہیں جہاں یہ کہا گیا ہو کہ زمینیں اور آسمان صرف سات ہی ہیں لہذا اگر یہ ثابت ہو جائے کہ زمینیں زیادہ ہیں تب بھی قرآن و حدیث کے مخالف نہیں ہیں۔ واللہ اعلم
یہاں ایک بہت بڑا دوسرا اشکال وارد ہوتا ہے کہ سنن ترمذی کی حدیث میں یہ الفاظ موجود ہیں کہ «ما تحت كم» کہ تمہارے لئے زمین کے نیچے یعنی باقی چھ زمینیں اس زمین کے نیچے ہیں، اب اگر چاند، مریخ، اور دوسرے کواکب کی طرف نگاہ دوڑاتے ہیں تو وہ ہمیں ہماری زمین سے اوپر دکھائی دیتے ہیں، اس کا جواب مولانا اشرف علی تھانوی صاحب کی زبانی سنیئے، آپ رقمطراز ہیں:
ممکن ہے کہ یہ زمینیں بعض حالات میں اس زمین کے تحت ہو جاتی ہوں اور بعض حالات میں اوپر ہو جاتی ہوں۔ [بيان القرآن، تفسير سورة طلاق، آيت 12]
علم الکونیات کے مشہور و معروف حکیم طنطاوی مصری زمینوں کے بارے میں لکھتے ہیں کہ زمینیں بھی آسمان کی طرح سات ہیں، مگر اس کے بعد وہ فرماتے ہیں:
یہ عدد حصر کا تقاضیٰ نہیں کرتا جب تم کسی سے کہو کہ میرے پاس اعلی نسل کے دو گھوڑے ہیں، ایک پر تم سوار ہو جاؤ اور دوسرے گھوڑے پر تمہارا بھائی، تو یہ بات اس کی نفی نہیں کرتی کہ تمہارے پاس ہزار گھوڑے ہیں۔ یہاں پر بھی اسی طرح ہے کہ کیوں کہ فلکیات کے ماہرین نے کہا ہے کہ کم سے کم ممکن زمینیں جو بڑے بڑے سورجوں کے گرد گھومتی ہیں اور جن کو ہم سیارے کہتے ہیں، تین سو ملین (3 کروڑ) زمینوں سے کم نہیں ہیں۔ [الجواهر فى تفسير القرآن الكريم، ج 12، ص: 195]
علامہ فرید واجدی بھی اسی بات کے قائل ہیں کہ زمینیں سات ہیں مگر ان سے مراد وہی کواکب ہیں جن کے بارے میں جدید ماہرین فلکیات کی رائے ہے کہ یہ ہماری زمین کی طرح ہے۔
دائرۃ المعارف القرن العشرین، ج 1، ص: 191، مادہ ارض، الموسوعۃ الکونیہ الکبری کے محقق ماہر احمد الصوفی فرماتے ہیں:
«بل أن الحقيقة ان فى الكون سبع سماوات وسبع أراضين أى سبع كواكب تشبه كوكبنا الأرض، ولاندري . . . ماذا سيكتشف العلم مستقبلا.» [الموسوعة الكونية الكبرى، آيات الله فى خلق الكون ونشأة الحياة فى السماء الدنيا والسموات السبع، ص: 75]
بلکہ یہ حقیقت ہے کہ سات آسمان اور سات زمین سے مراد کواکب ہیں جو کہ ہماری زمین سے مشابہت رکھتے ہیں اور ہم نہیں جانتے کہ عنقریب کیا انکشافات ہوں گے مستقبل میں۔
خلاصہ بحث یہ ہے کہ «و من الأرض مثلهن» کے ظاہر اور احادیث کے پیش نظر یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آسمانوں کی طرح زمینیں بھی اوپر نیچے سات ہیں جن کے درمیان بڑے بڑے طویل سفر اور فاصلے ہیں، ممکن ہے اس میں بھی اللہ تعالی کی مخلوقات رہتی ہوں۔
لہذا ہمیں قرآن و حدیث کے بیانات کے مطابق ہی اپنی گزارشات اور تحقیقات کو سامنے رکھنا چاہیے۔ جدید تحقیقات اور سائنس کا دائرہ چاہے کتنا ہی وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جائے مگر یہ تمام کاوش انسانی کاوشوں پر مبنی ہیں، جن میں صحت کے ساتھ اغلاط کثیر کے بھی کئی امکانات دامن گیر ہیں۔ لیکن اس کے بر عکس قرآن و حدیث سے نکلنے والے بیانات قطعی اور اٹل حقیقت ہیں، ان میں کسی قسم کی بھی کوئی تبدیلی واقع نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ یہ دونوں وحی ہیں اور وحی کو اللہ تعالی نے ہر قسم کی تبدیلی سے محفوظ رکھا ہے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث\صفحہ نمبر: 474   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1947  
´حرمت والے مہینوں کا بیان۔`
ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج میں خطبہ دیا تو فرمایا: زمانہ پلٹ کر ویسے ہی ہو گیا جیسے اس دن تھا جب اللہ نے آسمان اور زمین کی تخلیق فرمائی تھی، سال بارہ مہینے کا ہوتا ہے، ان میں سے چار مہینے حرام ہیں: تین لگاتار ہیں، ذی قعدہ، ذی الحجہ اور محرم اور ایک مضر کا رجب ہے ۱؎ جو جمادی الآخرہ اور شعبان کے بیچ میں ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1947]
1947. اردو حاشیہ:
➊ اہل عرب میں قدیم سے یہ روایت چلی آتی تھی کہ ذوالقعدہ ذوالحجہ محرم اور رجب کےمہینوں کو حرمت والے مہینے جانتے تھے اور ان میں قتل و غارت اور عام دنگا فساد سےپرہیز کرتے تھے۔چنانچہ اسلام نے بھی ان کی حرمت کو بحال رکھا ہے مگر اس کایہ مفہوم نہیں کہ باقی مہینوں میں جو چاہے کیاجائے نہیں بلکہ ہمیشہ ہی اللہ کی حرمت کا پاس رکھنا فرض اورواجب ہے مگر ان مہینوں میں اور زیادہ اہتمام کیا جانا چاہیے۔سورہ توبہ میں ہے: ﴿إِنَّ عِدَّةَ الشُّهورِ‌ عِندَ اللَّهِ اثنا عَشَرَ‌ شَهرً‌ا فى كِتـٰبِ اللَّهِ يَومَ خَلَقَ السَّمـٰو‌ٰتِ وَالأَر‌ضَ مِنها أَر‌بَعَةٌ حُرُ‌مٌ﴾ (التوبه:36) مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک کتاب اللہ میں باره کی ہے، اسی دن سے جب سے آسمان وزمین کو اس نے پیدا کیا ہے اس میں سے چار حرمت وادب کے ہیں۔
➋ زمانہ گھوم آیاہے اس میں اہل جاہلیت کی اس قبیح رسم کی طرف اشارہ ہے کہ وہ لوگ مہینوں کو آگے پیچھے کر دیتے تھے۔مثلاً محرم کوصفر کی جگہ مؤخر اور صفر کومقدم کر دیا اور اسے نسیء سےتعبیر کرتے تھے۔ اس طرح سال کی تاریخوں میں بہت خرابی پیدا ہوگئی تھی۔اورجس سال نبی ﷺنے حج کیا اس سال اور تاریخ اپنے بالکل صحیح وقت پرآئی تھی۔قرآن کریم نے عمل نسیء کو کفریہ اعمال میں سے شمار کیا ہے اورآیندہ صحیح تاریخ کی حفاظت کی ترغیب دی ہے۔ ﴿انما النسىءزيادة فى الكفر .... الخ ﴾ (التوبه:37)
➌ ماہ رجب کو قبیلہ مضر کی طرف اس لیے منسوب کیا گیاہے کہ وہ لوگ اس کابہت زیادہ احترام کرتے تھے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1947   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4383  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
عربوں میں قدیم دور سے یہ معمول چلا آ رہا تھا کہ وہ سال کے بارہ مہینوں میں سے چار ماہ،
ذوالقعدہ،
ذوالحجہ،
محرم اور رجب،
محترم مہینے تصور کرتے تھے،
ان مہینوں میں لوگ جنگ و جدال اور خون ریزی سے بالکل پرہیز کرتے تھے حتی کہ ان مہینوں میں ان کے باپ کا قاتل بھی سامنے آ جاتا تو اس سے تعرض نہ کرتے تھے،
ان مہینوں میں چونکہ ذوالحجہ کے مہینہ میں حج کا اجتماع ہوتا تھا،
جس کی تیاری اور اہتمام کے لیے ذوالقعدہ میں ہی جنگ و جدل سے بیٹھ رہتے تھے اور پھر اس اجتماع حج سے وہ لوگ تجارتی اور ثقافتی فائدے بھی اٹھاتے تھے،
بڑے پیمانے پر تجارتی معاملات ہوتے اور ادبی محفلیں جمتیں،
اس لیے حج سے واپسی کے بعد محرم کا مہینہ بھی امن و سکون سے گزارتے اور اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے فائدہ اور منافع کے لیے آسمان و زمین کی تخلیق کے وقت سے ہی سال کا آغاز و اختتام اشهر حرم سے کیا اور ایک محترم مہینہ سال کے درمیان میں بھی رکھا اور بقول علامہ عبدالقدوس ہاشمی،
عرب میں زمانہ یادگار سے قمری سال رائج تھا اور مہینوں کے نام بھی یہی تھے،
محرم،
صفر،
وغیرہ اور دنیا کی تقریبا ہر زبان میں مہینہ کے لیے جو لفظ ہے،
وہ اس زبان میں چاند کے لفظ سے مشتق ہے،
جیسے ماہ،
مہینہ،
ماس،
مون اور منتھ وغیرہ،
جو اس بات کی دلیل ہے کہ لوگ آغاز میں مہینوں کا شمار چاند ہی سے کرتے تھے اور یہی فطرتی اور الٰہی تقویم ہے،
کیونکہ سال میں بارہ مرتبہ چاند کا عروج و زوال ہوتا ہے کہ چاند،
انتیس دن یا تیس دنوں کے بعد باریک سا دکھائی دیتا ہے اور پھر اس کے بعد ہر روز بڑھتا رہتا ہے اور جب چاند پورا روشن ہو جاتا ہے تو پھر روز بروز گھٹنا شروع ہو جاتا ہے اور آخر میں ایک دو دن کے لیے گم ہو جاتا ہے اور پھر دو یا تین دن کے بعد باریک سا نمودار ہو جاتا ہے،
اس طرح نیا مہینہ معلوم کرنے کے لیے نہ کسی فلکیاتی حساب کی ضرورت پڑتی ہے اور نہ کسی رصدگاہ کی،
اس کے بعد جب انسانوں نے بڑے بڑے عبادت خانے بنائے،
وہاں پر وہت مقرر کیے اور ان پر وہتوں اور مجاوروں کو نذرانے پیش کیے جانے لگے،
سالانہ مذہبی میلے ہونے لگے اور پروہتوں نے لوگوں پر یہ پابندی عائد کر دی کہ وہ اپنی زرعی پیداوار کا ایک حصہ ان کی نذر کریں اور صومعات،
کلیساؤں اور بت خانوں پر چڑھاوے چڑھائیں تو آہستہ آہستہ محسوس ہوا،
جن قمری مہینوں میں فصل تیار ہوتی تھی،
اب تین چار سال کے بعد ان ہی قمری تاریخوں میں فصل تیار نہیں ہو رہی،
بلکہ ان کی تیاری میں ایک ماہ کی تاخیر ہو گئی ہے،
اس لیے حاجیوں نے قمری تاریخوں میں سوندا اور کبسہ کا طریقہ رائج کیا اور شمسی سال اور قمری سال کو برابر کر دیا،
اس کے لیے وہ ہر سال گیارہ دن کا اضافہ کرتے یا تین سال بعد ایک ماہ بڑھا دیتے،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے تقریبا سوا تین سو سال پہلے عرب لوگ بت پرستی سے آشنا ہوئے اور یہ مرض تمام دیگر خرابیوں کے ساتھ عرب کے گھر گھر میں پھیل گیا تو اب حج ایک بت پرستی کا میلہ بن گیا،
بیت اللہ میں تمام قبائل کے بت رکھ دئیے گئے اور اس میں طرح طرح کی رسومات کا رواج پڑ گیا،
قمری مہینے موسموں کا ساتھ نہیں دیتے تھے،
جب انہوں نے دیکھا،
حج کا وقت سال کے تمام موسموں میں گردش کرتا ہے،
کبھی گرمی میں آتا ہے اور کبھی سردی میں،
کبھی موسم خریف میں اور کبھی موسم بہار میں اور ان تمام موسموں میں ان کی فصلیں تیار ہوتی ہیں اور نہ جانوروں کے بچے خریدوفروخت کے لیے تیار ہوتے ہیں،
اس لیے انہوں نے یہودیوں سے کبیسہ یا لوند کا طریقہ سیکھ کر رائج کر لیا،
تاکہ ان کا تجارتی کاروبار متاثر نہ ہو،
ظاہر ہے اس سے حج متاثر ہوا اور وہ سال کے مختلف مہینوں میں گردش کرنے لگا،
کبھی ذوالحجہ میں آتا،
پھر محرم میں،
پھر صفر میں،
اس طرح تینتیس (33)
سال بعد پھر وہ ذوالحجہ میں آ جاتا،
یہ طریقہ حجۃ الوداع تک جاری رہا،
اس سال گردش یا دورہ کے بعد دوبارہ حج حقیقہ ذوالحجہ کی 9 تاریخ کو جمعہ کے دن ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا،
اب زمانہ پھر صحیح وقت پر آ گیا ہے،
آئندہ سے کبیسہ نہیں ہو گا،
عرب چار مہینوں کو حرمت والے قرار دیتے تھے،
جب حج کے مہینے بدل دئیے گئے تو لازما حرمت کے مہینوں میں ہو سکے،
بعض مفسرین نے قرآن مجید کے لفظ ﴿إِنَّمَا النَّسِيءُ زِيَادَةٌ فِي الْكُفْرِ﴾ کا مفہوم یہی لیا ہے اور یہ صحیح معلوم ہوتا ہے،
کیونکہ اس صورت میں حج کے مہینے متاثر ہوتے تھے،
لیکن بعض حضرات نے ایک دوسرا معنی مراد لیا ہے کہ عرب لوگوں کا پیشہ چونکہ جنگ و جدال اور قتل و غارت تھا اور ان کے لیے تین ماہ مسلسل قتل و غارت سے باز رہنا بڑا مشکل تھا،
اس لیے بنو کنانہ کا سردار ہر سال منیٰ کے دنوں میں یہ اعلان کر دیتا،
اس سال ہم نے محرم کی بجائے صفر کو محترم قرار دیا ہے اور محرم،
حلال ماہ شمار ہو گا،
جس میں قتل و غارت کی پابندی نہیں،
اگلے سال پھر محرم کو محترم ماہ قرار دیتا،
اس طرح یہ تقدیم و تاخیر محرم اور صفر کے مہینوں میں ہوتی،
ظاہر اس سے حج متاثر نہیں ہوتا تھا،
اس لیے اس حدیث کو اس پر محمول کرنا ممکن نہیں ہے،
علامہ تقی نے دو اور صورتیں بھی بیان کی ہیں،
جو دل کو لگتی نہیں ہیں۔
(تفصیل کے لیے دیکھئے،
تقویم تاریخی،
عبدالقدوس ہاشمی کا مقدمہ ماہ و سال کی داستان اور تکملۃ از تقی عثمانی ج 2 ص 361 تا 364)
(2)
رجب کی نسبت مضر کی طرف اس لیے کی گئی ہے کیونکہ وہ اس کی بہت زیادہ تعظیم کرتے تھے نیز جمادی و شعبان کے درمیان ہونے کی قید اس لیے لگائی تاکہ پتہ چل سکے کہ محترم مہینہ مضر والا رجب ہے،
ربیعہ والا رمضان نہیں ہے،
کیونکہ قبیلہ ربیعہ کے لوگ مضر کے مقابلہ میں رمضان کو حرمت والا مہینہ قرار دیتے تھے۔
(3)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین سوال کیے تھے اور بعد میں جواب بیان کرنے کے بعد کچھ توقف اور سکوت اختیار فرمایا تھا،
تاکہ لوگ پوری طرح متوجہ ہو کر اہتمام سے جواب سنیں،
پھر بعض لوگوں نے ان سوالوں کا جواب بھی دیا،
لیکن اکثریت نے ادب و احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے اور یہ سمجھ کر ان تینوں باتوں کا جواب تو معروف و مشہور ہے،
ہر کوئی جانتا ہے،
کوئی خاص سبب یا وجہ نہیں ہے کہ آپ ان معروف چیزوں کے بارے میں سوال کر رہے ہیں،
یہ جواب دیا اللہ اور اس کے رسول کو ہی بہتر علم ہے۔
(4)
اس ماہ،
شہر مکہ اور اس دن کی حرمت و تعظیم ان کے ہاں ایک مسلمہ حقیقت تھی،
جو ان کے دلوں میں جاگزیں تھی لیکن انسانی جان،
مال اور عزت و ناموس کی حرمت اور احترام ان کے دلوں میں پختہ نہیں تھا،
اس لیے مسلمہ حقیقت سے تشبیہ دے کر ان کی حرمت و احترام کو ان پر واضح فرمایا اور کافر و گمراہ نہ ہونا کا مفہوم و معنی کتاب الایمان میں گزر چکا ہے۔
(5)
يكون اوعی له:
وعی کا معنی حفظ و فہم اور قبول کرنا ہے،
اس سے ثابت ہوتا ہے،
دین کی تبلیغ اور نشرواشاعت ضروری ہے اور بسا اوقات تلامذہ،
حفظ و فہم اور قبولیت و عمل میں اساتذہ سے بڑھ جاتے ہیں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 4383   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.