الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
حدود کا بیان
The Book of Legal Punishments
11. باب جَرْحُ الْعَجْمَاءِ وَالْمَعْدِنِ وَالْبِئْرِ جُبَارٌ:
11. باب: جانور کسی کو مارے یا کان یا کنوئیں میں کوئی گر پڑے تو اس کی دیت لازم نہ آئے گی۔
حدیث نمبر: 4465
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يحيي بن يحيي ، ومحمد بن رمح ، قالا: اخبرنا الليث . ح وحدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا ليث ، عن ابن شهاب ، عن سعيد بن المسيب ، وابي سلمة ، عن ابي هريرة ، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، انه قال: " العجماء جرحها جبار، والبئر جبار، والمعدن جبار، وفي الركاز الخمس "،حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي ، وَمُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ ، قَالَا: أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ . ح وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ ، وَأَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " الْعَجْمَاءُ جَرْحُهَا جُبَارٌ، وَالْبِئْرُ جُبَارٌ، وَالْمَعْدِنُ جُبَارٌ، وَفِي الرِّكَازِ الْخُمْسُ "،
4465. لیث نے ابن شہاب سے حدیث بیان کی، انہوں نے سعید بن مسیب اور ابوسلمہ سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چوپائے کے (لگائے ہوئے) زخم پر تاوان نہیں، کنویں (کے زخم) کا تاوان نہیں، (معدنیات کی) کان (کے زخم) کا تاوان نہیں اور جاہلیت کے دفینے میں (بیت المال کا) پانچواں حصہ ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حیوان کا زخمی کرنا رائیگاں ہے اور کنویں سے نقصان کا تاوان نہیں ہے اور کان سے پہنچنے والے نقصان کا ڈنڈ نہیں ہے اور جاہلیت کے دفینہ پر پانچواں حصہ ادا کرنا ہو گا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1710

   صحيح البخاري2355عبد الرحمن بن صخرالمعدن جبار البئر جبار العجماء جبار في الركاز الخمس
   صحيح البخاري6913عبد الرحمن بن صخرالعجماء عقلها جبار البئر جبار المعدن جبار في الركاز الخمس
   صحيح البخاري6912عبد الرحمن بن صخرالعجماء جرحها جبار البئر جبار المعدن جبار في الركاز الخمس
   صحيح البخاري1499عبد الرحمن بن صخرالعجماء جبار البئر جبار المعدن جبار في الركاز الخمس
   صحيح مسلم4465عبد الرحمن بن صخرالعجماء جرحها جبار البئر جبار المعدن جبار في الركاز الخمس
   صحيح مسلم4468عبد الرحمن بن صخرالبئر جرحها جبار المعدن جرحه جبار العجماء جرحها جبار في الركاز الخمس
   جامع الترمذي1377عبد الرحمن بن صخرالعجماء جرحها جبار البئر جبار المعدن جبار في الركاز الخمس
   جامع الترمذي642عبد الرحمن بن صخرالعجماء جرحها جبار المعدن جبار البئر جبار في الركاز الخمس
   سنن أبي داود4594عبد الرحمن بن صخرالنار جبار
   سنن أبي داود4593عبد الرحمن بن صخرالعجماء جرحها جبار المعدن جبار البئر جبار في الركاز الخمس
   سنن أبي داود4592عبد الرحمن بن صخرالرجل جبار
   سنن النسائى الصغرى2499عبد الرحمن بن صخرجرح العجماء جبار البئر جبار المعدن جبار في الركاز الخمس
   سنن النسائى الصغرى2500عبد الرحمن بن صخرالبئر جبار العجماء جبار المعدن جبار في الركاز الخمس
   سنن النسائى الصغرى2497عبد الرحمن بن صخرالعجماء جرحها جبار البئر جبار المعدن جبار في الركاز الخمس
   سنن ابن ماجه2673عبد الرحمن بن صخرالعجماء جرحها جبار المعدن جبار البئر جبار
   سنن ابن ماجه2676عبد الرحمن بن صخرالنار جبار البئر جبار
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم290عبد الرحمن بن صخرجرح العجماء جبار والبئر جبار والمعدن جبار. وفي الركاز الخمس
   بلوغ المرام502عبد الرحمن بن صخر‏‏‏‏وفي الركاز الخمس
   المعجم الصغير للطبراني929عبد الرحمن بن صخر الرجل جبار

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 290  
´چوپایہ کسی آدمی کا نقصان کر دے تو مالک سے بدلہ نہیں لیا جائے گا`
«. . . ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: جرح العجماء جبار والبئر جبار والمعدن جبار. وفي الركاز الخمس.»
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چوپایہ جانور (اگر نقصان کرے تو) رائیگاں ہے (اس کا کوئی بدلہ نہیں) کنویں اور معدنیات کا بھی یہی حکم ہے اور مدفون خزانے میں پانچواں حصہ (اللہ کے لئے نکالنا) ہے۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/0: 290]

تخریج الحدیث:
[الموطأ رواية يحييٰ بن يحييٰ868/2، 869، ح 1687، ك 43 ب 18 ح 12، التمهيد 19/7، الاستذكار: 1616 ● و أخرجه البخاري 1499، ومسلم1710، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ اگر چوپایہ جانور کسی آدمی کا نقصان کر دے تو اس کے مالک سے بدلہ نہیں لیا جائے گا بشرطیکہ اس نقصان میں جانور کے مالک کی کوتاہی اور شرارت کا دخل نہ ہو۔
ابن محیصہ الانصاری رحمہ اللہ (ثقہ تابعی) سے باسند صحیح مروی ہے کہ سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی اونٹنی نے کسی کے باغ کو نقصان پہنچایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ فرمایا کہ دن کو حفاظت کرنا، مال (اور زمین) کے مالکوں کا کام ہے اور رات کو حفاظت کرنا جانوروں کے مالکوں کا کام ہے۔ [سنن ابن ماجه: 2332]
● اگر حرام بن سعد بن محیصہ نے یہ روایت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے سنی ہے تو سند صحیح ہے ورنہ مرسل (ضعیف) ہے۔ اس وجہ سے اس روایت سے استدلال صحیح نہیں ہے۔
➋ اگر کوئی آدمی کسی شخص کے کنویں میں گر جائے تو کنویں کے مالک پر کوئی جرمانہ اور تاوان نہیں ہے بشرطیکہ کنویں کے مالک کا اس کے گرنے یا گرانے میں کوئی ہاتھ نہ ہو۔
➌ اگر کسی شخص کو پرانے زمانے کا کوئی دفن شدہ خزانہ مل جائے تو وہ اس سے زکوٰۃ کے بجائے پانچواں حصہ (خُمُس) نکال کر اللہ کے راستے میں (خلیفہ کے بیت المال یا نصاب زکوٰاۃ کی آٹھ قسموں میں) صرف کرے گا۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 19   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2676  
´جن چیزوں میں نہ دیت ہے نہ قصاص ان کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آگ بیکار ہے، اور کنواں بیکار ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الديات/حدیث: 2676]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
ہدر کے معنی رائیگاں ہونا، بیکار، لغو، بے فائدہ اور بے مقصد ہوجانا، اسی طرح رائیگاں کرنا، بے کار اور بے مقصد بنانا ہیں، یعنی یہ لازم اور متعدی دونوں معنوں میں مستعمل ہے۔
مویشی کے ہدر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کسی کا جانور چھوٹ کر بھاگ جائے اور اسی اثنامیں کسی کو زخمی کردے یا ہلاک کردے تو جانور کےمالک پر اس کی ذمے داری نہیں ہوگی۔
اس سے قصاص یا دیت کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا۔

(2)
معدنی چیزیں نکالنے کے لیے جو کان کھودی جاتی ہے، بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ مزدور کان میں کام کررہا ہے کہ اوپر سے پتھرگرا ہی پیچھے سے پتھر گر کر راستہ بے ہو گیا جس کی وجہ سے وہ مزدور فوت ہو گیا اس صوورت میں کام کا مالک قاتل شمار نہیں ہوگا۔
اس پر قتل خطا والی دیت بھی لازم نہیں ہوگی۔

(3)
کنویں کے ہدر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص کنویں سے پانی نکالنے کی کوشش میں کنویں میں گرپڑے یا کوئی اور ایسا حادثہ پیش آ جائے تو کنویں کا مالک ذمے دار نہیں ہوگا۔

(4)
آگ ہدر ہونے کی یہ صورت ہے کہ ایک شخص نے اپنی کسی ضرورت سے آگ جلائی، ہوا سے اس کی چنگاریاں اڑکر کسی کی چیز پر پڑگئیں جن کو روکنا آگ جلانے والے کے بس میں نہ تھا۔
اس صورت میں آگ سے پہنچنے والے نقصان کی ذمے داری آگ جلانے والے پر نہیں ہوگی، اور اس سے تاوان نہیں لیا جائے گا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2676   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 502  
´(زکوٰۃ کے متعلق احادیث)`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا معدنیات میں خمس یعنی پانچواں حصہ ہے۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/حدیث: 502]
لغوی تشریح:
«وَفِي الرِّكَازِ» اس میں واؤ پہلے جملے پر عطف کے لیے ہے اور وہ جملہ ہے: «اَلْعَجُمَاءُ جُبَارٌ وَالْبِئْرُ جُبَارٌ وَالْمَعُدِنٌ جُبَارٌ» مصنف نے اختصار کے پیش نظر اتنا حصہ چھوڑدیا ہے۔ اور «اَلرِّكَاز» کے را کے نیچے کسرہ ہے۔ اس سے مراد جاہلیت کے زمانے کا زمین میں مدفون خزانہ جو بغیر کسی کثیر عمل و مشقت کے حاصل ہو۔ ٘
«‏‏‏‏اَلْخُمُسُ» خا اور میم دونوں پر ضمہ ہے۔ کسی چیز کے پانچ برابر حصے کئے جائیں تو ان میں سے ایک پانچواں حصہ (خمس) کہلاتا ہے۔ اور یہ مبتدا مؤخر ہے اور اس کی خبر پہلا جملہ «فَي الرِّكَازِ» ہے۔ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ رکاز کے مال میں زکاۃ نہیں بلکہ اس کی حیثیت اموال غنیمت کی سی ہے اور اس میں «خُمُس» واجب ہے جو بیت المال میں جمع کیا جائے گا اور باقی تمام مال کا مالک وہ شخص ہو گا جسے یہ خزانہ ملے۔

فائدہ:
مدفون خزانہ اگر کسی انسان کو مل جائے تو جس وقت ملے اسی وقت اس میں سے خمس، یعنی کل مال کا پانچواں حصہ فی سبیل اللہ تقسیم کر دے۔ اس میں زکاۃ نہیں بلکہ زکاۃ سے کئی گنا زیادہ، یعنی کل مال میں سے بیس فیصد اللہ کی راہ میں بانٹنا ہے۔ رکاز ملنے کی صورت میں، اس میں سے صدقہ خیرات کرنے کی مقدار اس لیے زیادہ ہے کہ یہ مال بغیر کسی محنت کے حاصل ہوتا ہے۔ «والله اعلم»
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 502   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 642  
´جانوروں کا زخم رائیگاں ہے یعنی اس میں تاوان نہیں اور مدفون مال میں سے خمس (پانچواں حصہ) نکالا جائے گا​۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جانور کا زخم رائیگاں ہے ۱؎ یعنی معاف ہے، کان رائیگاں ہے اور کنواں رائیگاں ہے ۲؎ اور رکاز (دفینے) میں سے پانچواں حصہ دیا جائے گا ۳؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الزكاة/حدیث: 642]
اردو حاشہ:
1؎:
یعنی جانور کسی کو زخمی کر دے تو جانور کے مالک پر اس زخم کی دیت نہ ہو گی۔

2؎:
یعنی کان یا کنویں میں گر کر کوئی ہلاک ہو جائے تو ان کے مالکوں پر اس کی دیت نہ ہو گی۔

3؎:
یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ رکاز (دفینہ) میں زکاۃ نہیں بلکہ خمس ہے،
اس کی حیثیت مال غنیمت کی سی ہے،
اس میں خمس واجب ہے جو بیت المال میں جمع کیا جائے گا اور باقی کا مالک وہ ہو گا جسے یہ دفینہ ملا ہے،
رہا معدن (کان) تووہ رکاز نہیں ہے اس لیے اس میں خمس نہیں ہو گا بلکہ اگر وہ نصاب کو پہنچ رہا ہے تو اس میں زکاۃ واجب ہو گی،
جمہور کی یہی رائے ہے،
حنفیہ کہتے ہیں رکاز معدن اور کنز دونوں کو عام ہے اس لیے وہ معدن میں بھی خمس کے قائل ہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 642   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4593  
´اگر بے زبان جانور کسی کو زخمی کر دے اور آدمی کان یا کنواں اپنی زمین میں کھدوائے اور اس میں کوئی مر جائے تو ان چیزوں میں تاوان لازم نہ ہو گا۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جانور کسی کو زخمی کر دے تو اس میں ہرجانہ نہیں ہے، کان میں ہلاک ہونے والے کا ہرجانہ نہیں ہے اور کنواں میں ہلاک ہو جانے والے کا ہرجانہ نہیں ہے ۱؎ اور رکاز میں پانچواں حصہ دینا ہو گا۔‏‏‏‏ ابوداؤد کہتے ہیں: جانور سے مراد وہ جانور ہے جو چھڑا کر بھاگ گیا ہو اور اس کے ساتھ کوئی نہ ہو اور دن ہو، رات نہ ہو۔ [سنن ابي داود/كتاب الديات /حدیث: 4593]
فوائد ومسائل:
1: جانور بے شعور اور ناسمجھ مخلوق ہے، اس کے کاٹ کھانے یا لات مار دینے میں اس مالک کا قصور نہیں، الا جب وہ اس کے قریب ہو اور اس کو ضبط رکھنے پر قادر ہو، یا یقین ہو کہ لوگوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے اور پھر بھی وہ اسے کھلا چھوڑ دے۔
امام ابو داودؒ کے قوم کا یہی مفہوم ہے۔

2: مزدور کو جب معلوم ہو کہ اس نے معدنی کان میں کام کرنا ہے۔
۔
۔
۔
۔
یا اسی طرح کسی اور جگہ پت چڑھنا ہے اور وہ اپنی رضا مندی سے کام کرے تو اتفاقی حادثہ کی وجہ سے مالک قصوروارنہیں ہو گا۔

3: اپنی زمین میں کسی نے کنواں کھودا اور کوئی اس میں جا گرے تو مالک کا کوئی قصور نہیں سمجھا جائے گا، بخلاف اس کے کہ کسی عام گزرگاہ پر کھودے یا پھر اس پر باڑا وغیرہ نہ لگائے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4593   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4465  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
العَجمَاءُ:
أَعجَم کا مونث ہے،
چوپایہ،
حیوان۔
(2)
جَراحٌ:
زخمی کرنا۔
(3)
جَرحٌ،
جُرحٌ:
زخم،
مقصد حیوان کا نقصان پہنچانا وہ زخم کی صورت میں ہو یا کسی اور طرح۔
(4)
جُبَارٌ:
رائیگاں ہے،
اس پر معاوضہ یا تاوان نہیں ہے،
الركاز:
جاہلیت کا دفینہ۔
فوائد ومسائل:
(1)
حیوان سے پہنچنے والا نقصان رائیگاں ہے،
حیوان اگر کسی کا نقصان کرتا ہے،
شخصی طور پر اس کو زخمی کرتا ہے یا اس کا مالی نقصان کرتا ہے،
اس کی دو صورتیں ہیں (1)
وہ حیوان گھر سے یا مالک سے بھاگ آیا ہے،
اس کے ساتھ کوئی نہیں ہے،
اس صورت میں اگر وہ کسی قسم کا نقصان کرتا ہے تو احناف کے نزدیک اس پر کسی قسم کا تاوان نہیں ہے،
دن کا وقت ہو یا رات کا لیکن فقہائے حجاز امام مالک،
امام شافعی اور امام احمد کے نزدیک،
اگر وہ کسی کی کھیتی کا نقصان کرتا ہے تو اگر رات کا وقت ہے تو مالک پر تاوان پڑے گا،
اگر دن کا وقت ہے تو پھر تاوان نہیں ہے اور امام لیث کے نزدیک مالک کے ذمہ ہر حالت میں تاوان ہے۔
(المغني،
ج 12،
ص 541)

۔
صحیح بات یہ ہے،
اگر اس میں مالک کی کوتاہی کا دخل ہے تو تاوان ہے،
وگرنہ کسی حالت میں تاوان نہیں ہے۔
(2)
اگر مالک حیوان کے ساتھ ہے یا کوئی اس کے ساتھ ہے تو پھر اگر وہ کسی چیز کو روندتا ہے،
وہ مال ہو،
شخص ہو یا کھیتی تو سوار اس کا ذمہ دار ہے،
امام ابو حنیفہ،
امام شافعی اور امام احمد کا یہی نظریہ ہے،
لیکن امام مالک کے نزدیک اس پر تاوان نہیں ہے،
اگر حیوان،
عام راستہ پر جا رہا ہے اور اس کے ساتھ انسان موجود ہے اور جانور اپنے کسی عضو مثلا ٹانگ،
ہاتھ،
سر،
منہ سے کسی کو نقصان پہنچاتا ہے تو امام ابو حنیفہ کے نزدیک وہ ضامن ہے،
اگر حیوان دولتی (ٹانگ)
مارتا ہے یا دم مارتا ہے تو ضامن نہیں ہے،
لیکن امام شافعی کے نزدیک ہر حالت میں،
حیوان کے ساتھ والا ضامن ہے،
حیوان کسی عضو سے بھی نقصان پہنچائے اور آج کل کی گاڑیوں کا ڈرائیور،
ہر حالت میں ضامن ہے،
اگر وہ غفلت اور بے پرواہی سے کام لیتا ہے،
لیکن اگر اس کی کوتاہی یا غفلت و بے پرواہی کا دخل نہیں ہے،
اچانک کوئی انسان یا حیوان آگے آ گیا ہے،
وہ اس کی کوشش کے باوجود،
نیچے آ گیا ہے تو وہ ذمہ دار نہیں ہے۔
البئر جُبار:
کنویں کا نقصان رائیگاں ہے،
اگر کنویں کے مالک کا اس نقصان میں دخل نہیں ہے کہ اس نے کنواں اپنی زمین میں کھودا ہے یا بے آباد جگہ میں کھودا ہے اور اس میں کوئی انسان یا حیوان گر جاتا ہے تو مالک اس کا ذمہ دار نہیں ہے،
لیکن اگر وہ راستہ میں کنواں کھودتا ہے یا کسی دوسرے کی جگہ میں کنواں کھودتا ہے،
یعنی اس کی زیادتی کا دخل ہے تو پھر وہ ذمہ دار ہے،
جمہور کا یہی موقف ہے،
احناف کا بھی یہی موقف ہے،
اس طرح اگر کسی نے کنواں کھودنے کا کسی کو ٹھیکہ دیا یا اس کے لیے مزدور رکھا اور اس سے کھودنے والے کو نقصان پہنچا تو مالک ذمہ دار نہیں ہے۔
المعدن جبار:
کوئی انسان اپنی زمین میں یا بے آباد جگہ میں کان کھودتا ہے اور کوئی شخص اس میں گر کر مر جاتا ہے یا زخمی ہو جاتا ہے تو اس کا مالک ذمہ دار نہیں ہے یا مالک،
کان کھودنے کے لیے مزدور رکھتا ہے اور ان کو تمام ضروری سازوسامان مہیا کر دیتا ہے یا یہ مزدور کی اپنی ذمہ داری ہے پھر کان سے مزدور کو کوئی نقصان پہنچتا ہے یا اس پر گر جاتی ہے تو مالک پر تاوان نہیں ہے،
ہاں تبرعا اس کو مزدور کا علاج معالجہ کروانا چاہیے۔
في الركاز الخمس:
جاہلیت کا دفینہ مل جانے کی صورت میں اس کا پانچواں حصہ بیت المال کو دیا جائے گا اور کان (معدن)
سے حاصل ہونے والی چیز پر چونکہ،
مالک کو محنت و مشقت اٹھانی پڑتی ہے اور مزدوری ادا کرنی ہوتی ہے،
اس لیے وہ رکاز کے حکم میں نہیں ہے،
ائمہ حجاز،
مالک،
شافعی اور احمد کا یہی موقف ہے،
لیکن احناف کے نزدیک رکاز کا اطلاق معدن (کان)
پر بھی ہوتا ہے،
اس لیے اس کا حکم بھی جاہلیت کے دفینہ والا ہے،
امام ثوری،
اوزاعی اور ابو عبید بن سلام کا بھی یہی موقف ہے اور لغتکی رو سے اس کی گنجائش موجود ہے،
لیکن شرعی طور پر یہ رکاز نہیں ہے،
لغوی معنی پر شرعی معنی کو ترجیح حاصل ہے۔
ہاں اس پر امام بخاری والا اعتراض صحیح ہے کہ ایک طرف تو معدن کو عام ائمہ کے برخلاف رکاز میں داخل کیا ہے اور دوسری طرف خمس کو ادائیگی سے بچنے کے لیے حیلے نکالے جاتے ہیں اور اس کو پورے مال پر قبضہ کرنے کا موقعہ دیا جاتا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 4465   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.