الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: زکوۃ کے مسائل کا بیان
The Book of Zakat
66. بَابٌ في الرِّكَازِ الْخُمُسُ:
66. باب: رکاز میں پانچواں حصہ واجب ہے۔
(66) Chapter. There is Khumus on Rikaz.
حدیث نمبر: Q1499
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
وقال مالك وابن إدريس الركاز دفن الجاهلية في قليله وكثيره الخمس وليس المعدن بركاز , وقد قال النبي صلى الله عليه وسلم: في المعدن جبار وفي الركاز الخمس واخذ عمر بن عبد العزيز من المعادن من كل مائتين خمسة , وقال الحسن ما كان من ركاز في ارض الحرب ففيه الخمس وما كان من ارض السلم ففيه الزكاة , وإن وجدت اللقطة في ارض العدو فعرفها وإن كانت من العدو ففيها الخمس وقال بعض الناس المعدن ركاز مثل دفن الجاهلية لانه يقال اركز المعدن إذا خرج منه شيء , قيل له قد يقال لمن وهب له شيء او ربح ربحا كثيرا او كثر ثمره: اركزت ثم ناقض , وقال: لا باس ان يكتمه فلا يؤدي الخمس.وَقَالَ مَالِكٌ وَابْنُ إِدْرِيسَ الرِّكَازُ دِفْنُ الْجَاهِلِيَّةِ فِي قَلِيلِهِ وَكَثِيرِهِ الْخُمُسُ وَلَيْسَ الْمَعْدِنُ بِرِكَازٍ , وَقَدْ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فِي الْمَعْدِنِ جُبَارٌ وَفِي الرِّكَازِ الْخُمُسُ وَأَخَذَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ مِنَ الْمَعَادِنِ مِنْ كُلِّ مِائَتَيْنِ خَمْسَةً , وَقَالَ الْحَسَنُ مَا كَانَ مِنْ رِكَازٍ فِي أَرْضِ الْحَرْبِ فَفِيهِ الْخُمُسُ وَمَا كَانَ مِنْ أَرْضِ السِّلْمِ فَفِيهِ الزَّكَاةُ , وَإِنْ وَجَدْتَ اللُّقَطَةَ فِي أَرْضِ الْعَدُوِّ فَعَرِّفْهَا وَإِنْ كَانَتْ مِنَ الْعَدُوِّ فَفِيهَا الْخُمُسُ وَقَالَ بَعْضُ النَّاسِ الْمَعْدِنُ رِكَازٌ مِثْلُ دِفْنِ الْجَاهِلِيَّةِ لِأَنَّهُ يُقَالُ أَرْكَزَ الْمَعْدِنُ إِذَا خَرَجَ مِنْهُ شَيْءٌ , قِيلَ لَهُ قَدْ يُقَالُ لِمَنْ وُهِبَ لَهُ شَيْءٌ أَوْ رَبِحَ رِبْحًا كَثِيرًا أَوْ كَثُرَ ثَمَرُهُ: أَرْكَزْتَ ثُمَّ نَاقَضَ , وَقَالَ: لَا بَأْسَ أَنْ يَكْتُمَهُ فَلَا يُؤَدِّيَ الْخُمُسَ.
‏‏‏‏ اور امام مالک رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہ اللہ نے کہا رکاز جاہلیت کے زمانے کا خزانہ ہے۔ اس میں تھوڑا مال نکلے یا بہت پانچواں حصہ لیا جائے گا۔ اور کان رکاز نہیں ہے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کان کے بارے میں فرمایا اس میں اگر کوئی گر کر یا کام کرتا ہوا مر جائے تو اس کی جان مفت گئی۔ اور رکاز میں پانچواں حصہ ہے۔ اور عمر بن عبدالعزیز خلیفہ کانوں میں سے چالیسواں حصہ لیا کرتے تھے۔ دو سو روپوں میں سے پانچ روپیہ۔ اور امام حسن بصری رحمہ اللہ نے کہا جو رکاز دارالحرب میں پائے تو اس میں سے پانچواں حصہ لیا جائے اور جو امن اور صلح کے ملک میں ملے تو اس میں سے زکوٰۃ چالیسواں حصہ لی جائے۔ اور اگر دشمن کے ملک میں پڑی ہوئی چیز ملے تو اس کو پہنچوا دے (شاید مسلمان کا مال ہو) اگر دشمن کا مال ہو تو اس میں سے پانچواں حصہ ادا کرے۔ اور بعض لوگوں نے کہا معدن بھی رکاز ہے جاہلیت کے دفینہ کی طرح کیونکہ عرب لوگ کہتے ہیں «أركز المعدن» جب اس میں سے کوئی چیز نکلے۔ ان کا جواب یہ ہے اگر کسی شخص کو کوئی چیز ہبہ کی جائے یا وہ نفع کمائے یا اس کے باغ میں میوہ بہت نکلے۔ تو کہتے ہیں «أركزت» (حالانکہ یہ چیزیں بالاتفاق رکاز نہیں ہیں) پھر ان لوگوں نے اپنے قول کے آپ خلاف کیا۔ کہتے ہیں رکاز کا چھپا لینا کچھ برا نہیں پانچواں حصہ نہ دے۔

حدیث نمبر: 1499
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن يوسف، اخبرنا مالك، عن ابن شهاب، عن سعيد بن المسيب، وعن ابي سلمة بن عبد الرحمن، عن ابي هريرةرضي الله عنه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال:" العجماء جبار , والبئر جبار والمعدن جبار وفي الركاز الخمس".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، وَعَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" الْعَجْمَاءُ جُبَارٌ , وَالْبِئْرُ جُبَارٌ وَالْمَعْدِنُ جُبَارٌ وَفِي الرِّكَازِ الْخُمُسُ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے خبر دی ‘ انہیں ابن شہاب نے ‘ ان سے سعید بن مسیب اور ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا ‘ اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جانور سے جو نقصان پہنچے اس کا کچھ بدلہ نہیں اور کنویں کا بھی یہی حال ہے اور کان کا بھی یہی حکم ہے اور رکاز میں سے پانچواں حصہ لیا جائے۔

Narrated Abu Huraira: Allah's Apostle said, "There is no compensation for one killed or wounded by an animal or by falling in a well, or because of working in mines; but Khumus is compulsory on Rikaz."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 24, Number 575


   صحيح البخاري2355عبد الرحمن بن صخرالمعدن جبار البئر جبار العجماء جبار في الركاز الخمس
   صحيح البخاري6913عبد الرحمن بن صخرالعجماء عقلها جبار البئر جبار المعدن جبار في الركاز الخمس
   صحيح البخاري6912عبد الرحمن بن صخرالعجماء جرحها جبار البئر جبار المعدن جبار في الركاز الخمس
   صحيح البخاري1499عبد الرحمن بن صخرالعجماء جبار البئر جبار المعدن جبار في الركاز الخمس
   صحيح مسلم4465عبد الرحمن بن صخرالعجماء جرحها جبار البئر جبار المعدن جبار في الركاز الخمس
   صحيح مسلم4468عبد الرحمن بن صخرالبئر جرحها جبار المعدن جرحه جبار العجماء جرحها جبار في الركاز الخمس
   جامع الترمذي1377عبد الرحمن بن صخرالعجماء جرحها جبار البئر جبار المعدن جبار في الركاز الخمس
   جامع الترمذي642عبد الرحمن بن صخرالعجماء جرحها جبار المعدن جبار البئر جبار في الركاز الخمس
   سنن أبي داود4594عبد الرحمن بن صخرالنار جبار
   سنن أبي داود4593عبد الرحمن بن صخرالعجماء جرحها جبار المعدن جبار البئر جبار في الركاز الخمس
   سنن أبي داود4592عبد الرحمن بن صخرالرجل جبار
   سنن النسائى الصغرى2499عبد الرحمن بن صخرجرح العجماء جبار البئر جبار المعدن جبار في الركاز الخمس
   سنن النسائى الصغرى2500عبد الرحمن بن صخرالبئر جبار العجماء جبار المعدن جبار في الركاز الخمس
   سنن النسائى الصغرى2497عبد الرحمن بن صخرالعجماء جرحها جبار البئر جبار المعدن جبار في الركاز الخمس
   سنن ابن ماجه2673عبد الرحمن بن صخرالعجماء جرحها جبار المعدن جبار البئر جبار
   سنن ابن ماجه2676عبد الرحمن بن صخرالنار جبار البئر جبار
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم290عبد الرحمن بن صخرجرح العجماء جبار والبئر جبار والمعدن جبار. وفي الركاز الخمس
   بلوغ المرام502عبد الرحمن بن صخر‏‏‏‏وفي الركاز الخمس
   المعجم الصغير للطبراني929عبد الرحمن بن صخر الرجل جبار

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 290  
´چوپایہ کسی آدمی کا نقصان کر دے تو مالک سے بدلہ نہیں لیا جائے گا`
«. . . ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: جرح العجماء جبار والبئر جبار والمعدن جبار. وفي الركاز الخمس.»
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چوپایہ جانور (اگر نقصان کرے تو) رائیگاں ہے (اس کا کوئی بدلہ نہیں) کنویں اور معدنیات کا بھی یہی حکم ہے اور مدفون خزانے میں پانچواں حصہ (اللہ کے لئے نکالنا) ہے۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/0: 290]

تخریج الحدیث:
[الموطأ رواية يحييٰ بن يحييٰ868/2، 869، ح 1687، ك 43 ب 18 ح 12، التمهيد 19/7، الاستذكار: 1616 ● و أخرجه البخاري 1499، ومسلم1710، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ اگر چوپایہ جانور کسی آدمی کا نقصان کر دے تو اس کے مالک سے بدلہ نہیں لیا جائے گا بشرطیکہ اس نقصان میں جانور کے مالک کی کوتاہی اور شرارت کا دخل نہ ہو۔
ابن محیصہ الانصاری رحمہ اللہ (ثقہ تابعی) سے باسند صحیح مروی ہے کہ سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی اونٹنی نے کسی کے باغ کو نقصان پہنچایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ فرمایا کہ دن کو حفاظت کرنا، مال (اور زمین) کے مالکوں کا کام ہے اور رات کو حفاظت کرنا جانوروں کے مالکوں کا کام ہے۔ [سنن ابن ماجه: 2332]
● اگر حرام بن سعد بن محیصہ نے یہ روایت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے سنی ہے تو سند صحیح ہے ورنہ مرسل (ضعیف) ہے۔ اس وجہ سے اس روایت سے استدلال صحیح نہیں ہے۔
➋ اگر کوئی آدمی کسی شخص کے کنویں میں گر جائے تو کنویں کے مالک پر کوئی جرمانہ اور تاوان نہیں ہے بشرطیکہ کنویں کے مالک کا اس کے گرنے یا گرانے میں کوئی ہاتھ نہ ہو۔
➌ اگر کسی شخص کو پرانے زمانے کا کوئی دفن شدہ خزانہ مل جائے تو وہ اس سے زکوٰۃ کے بجائے پانچواں حصہ (خُمُس) نکال کر اللہ کے راستے میں (خلیفہ کے بیت المال یا نصاب زکوٰاۃ کی آٹھ قسموں میں) صرف کرے گا۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 19   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2676  
´جن چیزوں میں نہ دیت ہے نہ قصاص ان کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آگ بیکار ہے، اور کنواں بیکار ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الديات/حدیث: 2676]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
ہدر کے معنی رائیگاں ہونا، بیکار، لغو، بے فائدہ اور بے مقصد ہوجانا، اسی طرح رائیگاں کرنا، بے کار اور بے مقصد بنانا ہیں، یعنی یہ لازم اور متعدی دونوں معنوں میں مستعمل ہے۔
مویشی کے ہدر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کسی کا جانور چھوٹ کر بھاگ جائے اور اسی اثنامیں کسی کو زخمی کردے یا ہلاک کردے تو جانور کےمالک پر اس کی ذمے داری نہیں ہوگی۔
اس سے قصاص یا دیت کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا۔

(2)
معدنی چیزیں نکالنے کے لیے جو کان کھودی جاتی ہے، بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ مزدور کان میں کام کررہا ہے کہ اوپر سے پتھرگرا ہی پیچھے سے پتھر گر کر راستہ بے ہو گیا جس کی وجہ سے وہ مزدور فوت ہو گیا اس صوورت میں کام کا مالک قاتل شمار نہیں ہوگا۔
اس پر قتل خطا والی دیت بھی لازم نہیں ہوگی۔

(3)
کنویں کے ہدر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص کنویں سے پانی نکالنے کی کوشش میں کنویں میں گرپڑے یا کوئی اور ایسا حادثہ پیش آ جائے تو کنویں کا مالک ذمے دار نہیں ہوگا۔

(4)
آگ ہدر ہونے کی یہ صورت ہے کہ ایک شخص نے اپنی کسی ضرورت سے آگ جلائی، ہوا سے اس کی چنگاریاں اڑکر کسی کی چیز پر پڑگئیں جن کو روکنا آگ جلانے والے کے بس میں نہ تھا۔
اس صورت میں آگ سے پہنچنے والے نقصان کی ذمے داری آگ جلانے والے پر نہیں ہوگی، اور اس سے تاوان نہیں لیا جائے گا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2676   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 502  
´(زکوٰۃ کے متعلق احادیث)`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا معدنیات میں خمس یعنی پانچواں حصہ ہے۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/حدیث: 502]
لغوی تشریح:
«وَفِي الرِّكَازِ» اس میں واؤ پہلے جملے پر عطف کے لیے ہے اور وہ جملہ ہے: «اَلْعَجُمَاءُ جُبَارٌ وَالْبِئْرُ جُبَارٌ وَالْمَعُدِنٌ جُبَارٌ» مصنف نے اختصار کے پیش نظر اتنا حصہ چھوڑدیا ہے۔ اور «اَلرِّكَاز» کے را کے نیچے کسرہ ہے۔ اس سے مراد جاہلیت کے زمانے کا زمین میں مدفون خزانہ جو بغیر کسی کثیر عمل و مشقت کے حاصل ہو۔ ٘
«‏‏‏‏اَلْخُمُسُ» خا اور میم دونوں پر ضمہ ہے۔ کسی چیز کے پانچ برابر حصے کئے جائیں تو ان میں سے ایک پانچواں حصہ (خمس) کہلاتا ہے۔ اور یہ مبتدا مؤخر ہے اور اس کی خبر پہلا جملہ «فَي الرِّكَازِ» ہے۔ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ رکاز کے مال میں زکاۃ نہیں بلکہ اس کی حیثیت اموال غنیمت کی سی ہے اور اس میں «خُمُس» واجب ہے جو بیت المال میں جمع کیا جائے گا اور باقی تمام مال کا مالک وہ شخص ہو گا جسے یہ خزانہ ملے۔

فائدہ:
مدفون خزانہ اگر کسی انسان کو مل جائے تو جس وقت ملے اسی وقت اس میں سے خمس، یعنی کل مال کا پانچواں حصہ فی سبیل اللہ تقسیم کر دے۔ اس میں زکاۃ نہیں بلکہ زکاۃ سے کئی گنا زیادہ، یعنی کل مال میں سے بیس فیصد اللہ کی راہ میں بانٹنا ہے۔ رکاز ملنے کی صورت میں، اس میں سے صدقہ خیرات کرنے کی مقدار اس لیے زیادہ ہے کہ یہ مال بغیر کسی محنت کے حاصل ہوتا ہے۔ «والله اعلم»
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 502   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 642  
´جانوروں کا زخم رائیگاں ہے یعنی اس میں تاوان نہیں اور مدفون مال میں سے خمس (پانچواں حصہ) نکالا جائے گا​۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جانور کا زخم رائیگاں ہے ۱؎ یعنی معاف ہے، کان رائیگاں ہے اور کنواں رائیگاں ہے ۲؎ اور رکاز (دفینے) میں سے پانچواں حصہ دیا جائے گا ۳؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الزكاة/حدیث: 642]
اردو حاشہ:
1؎:
یعنی جانور کسی کو زخمی کر دے تو جانور کے مالک پر اس زخم کی دیت نہ ہو گی۔

2؎:
یعنی کان یا کنویں میں گر کر کوئی ہلاک ہو جائے تو ان کے مالکوں پر اس کی دیت نہ ہو گی۔

3؎:
یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ رکاز (دفینہ) میں زکاۃ نہیں بلکہ خمس ہے،
اس کی حیثیت مال غنیمت کی سی ہے،
اس میں خمس واجب ہے جو بیت المال میں جمع کیا جائے گا اور باقی کا مالک وہ ہو گا جسے یہ دفینہ ملا ہے،
رہا معدن (کان) تووہ رکاز نہیں ہے اس لیے اس میں خمس نہیں ہو گا بلکہ اگر وہ نصاب کو پہنچ رہا ہے تو اس میں زکاۃ واجب ہو گی،
جمہور کی یہی رائے ہے،
حنفیہ کہتے ہیں رکاز معدن اور کنز دونوں کو عام ہے اس لیے وہ معدن میں بھی خمس کے قائل ہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 642   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4593  
´اگر بے زبان جانور کسی کو زخمی کر دے اور آدمی کان یا کنواں اپنی زمین میں کھدوائے اور اس میں کوئی مر جائے تو ان چیزوں میں تاوان لازم نہ ہو گا۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جانور کسی کو زخمی کر دے تو اس میں ہرجانہ نہیں ہے، کان میں ہلاک ہونے والے کا ہرجانہ نہیں ہے اور کنواں میں ہلاک ہو جانے والے کا ہرجانہ نہیں ہے ۱؎ اور رکاز میں پانچواں حصہ دینا ہو گا۔‏‏‏‏ ابوداؤد کہتے ہیں: جانور سے مراد وہ جانور ہے جو چھڑا کر بھاگ گیا ہو اور اس کے ساتھ کوئی نہ ہو اور دن ہو، رات نہ ہو۔ [سنن ابي داود/كتاب الديات /حدیث: 4593]
فوائد ومسائل:
1: جانور بے شعور اور ناسمجھ مخلوق ہے، اس کے کاٹ کھانے یا لات مار دینے میں اس مالک کا قصور نہیں، الا جب وہ اس کے قریب ہو اور اس کو ضبط رکھنے پر قادر ہو، یا یقین ہو کہ لوگوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے اور پھر بھی وہ اسے کھلا چھوڑ دے۔
امام ابو داودؒ کے قوم کا یہی مفہوم ہے۔

2: مزدور کو جب معلوم ہو کہ اس نے معدنی کان میں کام کرنا ہے۔
۔
۔
۔
۔
یا اسی طرح کسی اور جگہ پت چڑھنا ہے اور وہ اپنی رضا مندی سے کام کرے تو اتفاقی حادثہ کی وجہ سے مالک قصوروارنہیں ہو گا۔

3: اپنی زمین میں کسی نے کنواں کھودا اور کوئی اس میں جا گرے تو مالک کا کوئی قصور نہیں سمجھا جائے گا، بخلاف اس کے کہ کسی عام گزرگاہ پر کھودے یا پھر اس پر باڑا وغیرہ نہ لگائے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4593   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1499  
1499. حضرت ابوہریرۃ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جانور کا زخم معاف ہے، کنویں میں گر کر مرجانے میں کوئی معاوضہ نہیں اور کان کابھی یہی حکم ہے، یعنی اس میں گر کر مرنے والے کا خون معاف ہے، البتہ دفینہ ملنے پر پانچواں حصہ واجب ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1499]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے یہ ثابت کیا ہے کہ دفینہ جاہلیت میں پانچواں حصہ بیت المال کا ہے، کیونکہ اسے کافر کا مال قرار دیا گیا ہے جسے کوئی مجاہد حاصل کر لے، اس لیے غنیمت کے مال کے چار حصے مجاہدین میں تقسیم ہوتے ہیں اور ایک حصہ سرکاری طور پر رکھ لیا جاتا ہے، اسی طرح دفینہ جاہلیت کے چار حصے پانے والے کے ہیں اور پانچواں حصہ بیت المال میں جمع کرانا ہو گا۔
رکاز کے متعلق اور بھی تفصیلات ہیں، مثلا:
اس کا نصاب کیا ہے؟ قلیل یا کثیر میں کچھ فرق ہے یا نہیں؟ اس پر سال گزرنے کی شرط ہے یا نہیں؟ وہ سونے چاندی کے علاوہ دیگر اموال کو شامل ہے یا نہیں؟ اس کی شناخت کیا ہے؟ کیا اس کے لیے ضروری ہے کہ اس کے سکوں پر کسی بادشاہ کا نام یا اور کسی شناختی علامت کا ہونا ضروری ہے یا نہیں؟ اس کی شناخت کیا ہے؟ کیا اس کے لیے ضروری ہے کہ اس کے سکوں پر کسی بادشاہ کا نام یا اور کسی شناختی علامت کا ہونا ضروری ہے یا نہیں؟ یہ تمام تفصیلات دیگر کتب فقہ میں دیکھی جا سکتی ہیں۔
(2)
جب کوئی جانور منہ زور ہو کر کسی کو ہلاک کر دے یا نقصان پہنچائے تو مالک پر اس کا کوئی تاوان نہیں۔
اگر کسی نے کنواں جاری کیا، اس میں کوئی آدمی گر کر مر گیا تو جاری کرنے والا اس کا ضامن نہیں۔
کان میں اگر کوئی مزدور مر جائے تو کان کا مالک یا مزدوری پر لے جانے والا اس سے بری الذمہ ہے۔
(3)
امام بخاری نے اپنی صحیح میں متعدد مقامات پر "بعض الناس" کے عنوان سے کلام کیا ہے، اکثر مقامات پر ان حضرات پر تنقید مقصود ہے جنہوں نے حدیث نبوی کی کھلے بندوں مخالفت کی ہے، ایسے مقامات کی تعداد پچیس ہے جسے ہم ذیل میں درج کر رہے ہیں:
نمبر شمار اسم الكتاب رقم الباب رقم الحديث 1 الزكاة باب: 66 2 الهبة باب: 36 3 = باب: 37 4 الشهادات باب: 8 5 الوصايا باب: 8 6 الطلاق باب: 25 7 الأيمان والنذور باب: 21 8 الإكراه باب: 4 9 = باب: 7 10 الحيل باب: 3 6956 11 = = 6958 12 = = 6959 13 = باب: 4 6960 14 = = 6961 15 = باب: 9 16 = باب: 11 6968 17 = = 6970 18 = = 6971 19 = باب: 14 20 = = 6976 21 = = 6977 22 = = 6978 23 = باب: 15 6980 24 الأحكام = 25 = باب: 40 7195 یہ پہلا مقام ہے جہاں پر امام بخاری نے ایسے حضرات کا نوٹس لیا ہے جو ڈھٹائی کے ساتھ حدیث کی مخالفت کرتے ہیں، ہم اس کی تفصیل بیان کرتے ہیں۔
والله المستعان (4)
امام بخاری ؒ کے نزدیک رکاز دور جاہلیت کے وہ مدفون خزانے ہیں جو پہلے لوگوں نے زمین میں چھپائے تھے اور رکاز کے مفہوم میں کان شامل نہیں، کیونکہ اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے معدن اور رکاز کا واؤ عطف کے ساتھ الگ الگ ذکر فرمایا ہے۔
اگر دونوں کا مصداق ایک ہوتا تو حدیث کی عبارت بایں الفاظ ہوتی:
''المعدن جبار و فيه الخمس" معدن میں گر کر مرنے والے کا خون معاف ہے اور اس میں پانچواں حصہ ادا کرنا ہے جبکہ ایسا نہیں بلکہ رکاز کا معدن پر عطف ڈالا ہے جو مغایرت کا تقاضا کرتا ہے۔
علامہ عینی ؒ نے احناف کے موقف کا دفاع کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وفيه الخمس اس لیے نہیں کہا کہ اس میں یہ شبہ پڑ سکتا تھا کہ ضمیر کا مرجع بئر ہے یا معدن۔
علامہ عینی کا یہ جواب بیت عنکبوت سے بھی زیادہ کمزور ہے کیونکہ بئر کا لفظ دور ہے اور معدن کا لفظ قریب ہے، قریب مرجع کو چھوڑ کر مرجع بعید کی طرف ضمیر کیسے لوٹ سکتی ہے؟ اس کے علاوہ لفظ بئر مونث سماعی ہے مذکر ضمیر مونث مرجع کی طرف کیسے لوٹ سکتی ہے؟ (رفع الالتباس عن بعض الناس، ص: 17)
احناف نے لغت کے بل بوتے پر یہ مفروضہ قائم کیا ہے کہ معدن اور رکاز ایک ہیں اور دونوں میں خمس ہے، حالانکہ اہل حجاز کے نزدیک رکاز مدفون خزانے کو کہا جاتا ہے جیسا کہ ابن اثیر لکھتے ہیں:
اہل حجاز کی لغت میں رکاز اس خزانے کو کہتے ہیں جو دور جاہلیت کے وقت سے زمین میں مدفون ہو، البتہ اہل عراق کی لغت میں معدن پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے لیکن حدیث میں اہل حجاز کی تائید ہے۔
(النھایة: 100/2)
امت کا تعامل بھی اسی موقف کا مؤید ہے جیسا کہ عمر بن عبدالعزیز ؒ کے متعلق امام بخاری ؒ نے بیان کیا ہے۔
امام بخاری نے لغوی اعتبار سے جو اعتراض ان حضرات پر کیا ہے وہ اپنی جگہ لاجواب ہے، اس سلسلے میں امام بخاری نے دوسرا اعتراض یہ کیا ہے کہ امام ابو حنیفہ ایک طرف تو معدن میں خمس دینے کو ضروری قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف خمس معدن کے چھپانے کو بھی جائز کہتے ہیں جس سے وجوب کی نفی ہوتی ہے۔
یہ صریح تناقض ہے۔
اس کا دفاع علامہ عینی نے اس طرح کیا ہے کہ اگر معدن پانے والا محتاج اور فقیر ہو اور بیت المال سے اسے حصہ نہ ملنے کا ظن غالب ہو تو وہ بیت المال سے خمس چھپا کر اپنے آپ پر صرف کر سکتا ہے، جیسا کہ امام طحاوی نے نقل کیا ہے۔
(عمدةالقاري: 563/6)
یہ جواب کس قدر مضحکہ خیز ہے کہ معدن کے چار حصوں سے اس کا فقر زائل نہیں ہو گا بلکہ پانچواں حصہ جو بیت المال کا حق ہے اس سے ہی محتاجی دور ہو گی، اس کے علاوہ امام طحاوی ؒ نے یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ اگر اپنے گھر میں کوئی کان پا لیتا ہے تو اس میں خمس وغیرہ ادا کرنا ضروری نہیں۔
حافظ ابن حجر ؒ امام طحاوی کی اس روایت کو نقل کر کے لکھتے ہیں کہ امام بخاری کا اعتراض اپنی جگہ پر قائم ہے کہ احناف کے ہاں تناقض پایا جاتا ہے۔
(فتح الباري: 460/3)
ربیعہ بن عبدالرحمٰن کئی لوگوں سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بلال بن حارث ؓ کو معادن قبلیہ الاٹ کی تھیں، ان معادن سے آج تک زکاۃ کے علاوہ اور کچھ نہیں وصول کیا جاتا۔
(سنن أبي داود، الخراج، حدیث: 3061)
اس روایت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ معادن کی برآمدات پر خمس نہیں بلکہ زکاۃ ہے۔
اگرچہ اس روایت میں انقطاع ہے، تاہم تائید کے لیے اس قسم کی روایت کو پیش کیا جا سکتا ہے۔
الغرض رکاز سے مراد زمانہ جاہلیت کا زمین میں مدفون خزانہ ہے جو کسی محنت و مشقت کے بغیر حاصل ہوا ہو اور اس میں سے پانچواں حصہ بیت المال کے لیے وصول کیا جاتا ہے جبکہ معدنیات میں زکاۃ ہے اور ان دونوں میں نمایاں فرق ہے جیسا کہ حدیث مذکور اس کی واضح دلیل ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1499   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.