الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
امور حکومت کا بیان
The Book on Government
3. باب النَّهْيِ عَنْ طَلَبِ الإِمَارَةِ وَالْحِرْصِ عَلَيْهَا:
3. باب: امارت کی درخواست اور حرص کرنا منع ہے۔
حدیث نمبر: 4718
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عبيد الله بن سعيد ، ومحمد بن حاتم واللفظ لابن حاتم، قالا: حدثنا يحيي بن سعيد القطان ، حدثنا قرة بن خالد ، حدثنا حميد بن هلال ، حدثني ابو بردة ، قال: قال ابو موسى : اقبلت إلى النبي صلى الله عليه وسلم ومعي رجلان من الاشعريين احدهما، عن يميني والآخر عن يساري، فكلاهما سال العمل والنبي صلى الله عليه وسلم يستاك، فقال: " ما تقول يا ابا موسى او يا عبد الله بن قيس؟، قال: فقلت: والذي بعثك بالحق ما اطلعاني على ما في انفسهما وما شعرت انهما يطلبان العمل، قال وكاني انظر إلى سواكه تحت شفته وقد قلصت، فقال: لن او لا نستعمل على عملنا من اراده ولكن اذهب انت يا ابا موسى او يا عبد الله بن قيس، فبعثه على اليمن ثم اتبعه معاذ بن جبل، فلما قدم عليه، قال: انزل والقى له وسادة، وإذا رجل عنده موثق، قال: ما هذا؟، قال: هذا كان يهوديا، فاسلم ثم راجع دينه دين السوء، فتهود، قال: لا اجلس حتى يقتل قضاء الله ورسوله، فقال: اجلس نعم، قال: لا اجلس حتى يقتل قضاء الله ورسوله ثلاث مرات، فامر به فقتل، ثم تذاكرا القيام من الليل، فقال احدهما معاذ: اما انا فانام واقوم وارجو في نومتي ما ارجو في قومتي ".حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ وَاللَّفْظُ لِابْنِ حَاتِمٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ ، حَدَّثَنَا قُرَّةُ بْنُ خَالِدٍ ، حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ هِلَالٍ ، حَدَّثَنِي أَبُو بُرْدَةَ ، قَالَ: قَالَ أَبُو مُوسَى : أَقْبَلْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعِي رَجُلَانِ مِنْ الْأَشْعَرِيِّينَ أَحَدُهُمَا، عَنْ يَمِينِي وَالْآخَرُ عَنْ يَسَارِي، فَكِلَاهُمَا سَأَلَ الْعَمَلَ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَاكُ، فَقَالَ: " مَا تَقُولُ يَا أَبَا مُوسَى أَوْ يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ قَيْسٍ؟، قَالَ: فَقُلْتُ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا أَطْلَعَانِي عَلَى مَا فِي أَنْفُسِهِمَا وَمَا شَعَرْتُ أَنَّهُمَا يَطْلُبَانِ الْعَمَلَ، قَالَ وَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى سِوَاكِهِ تَحْتَ شَفَتِهِ وَقَدْ قَلَصَتْ، فَقَالَ: لَنْ أَوْ لَا نَسْتَعْمِلُ عَلَى عَمَلِنَا مَنْ أَرَادَهُ وَلَكِنْ اذْهَبْ أَنْتَ يَا أَبَا مُوسَى أَوْ يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ قَيْسٍ، فَبَعَثَهُ عَلَى الْيَمَنِ ثُمَّ أَتْبَعَهُ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ، فَلَمَّا قَدِمَ عَلَيْهِ، قَالَ: انْزِلْ وَأَلْقَى لَهُ وِسَادَةً، وَإِذَا رَجُلٌ عِنْدَهُ مُوثَقٌ، قَالَ: مَا هَذَا؟، قَالَ: هَذَا كَانَ يَهُودِيًّا، فَأَسْلَمَ ثُمَّ رَاجَعَ دِينَهُ دِينَ السَّوْءِ، فَتَهَوَّدَ، قَالَ: لَا أَجْلِسُ حَتَّى يُقْتَلَ قَضَاءُ اللَّهِ وَرَسُولِهِ، فَقَالَ: اجْلِسْ نَعَمْ، قَالَ: لَا أَجْلِسُ حَتَّى يُقْتَلَ قَضَاءُ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، فَأَمَرَ بِهِ فَقُتِلَ، ثُمَّ تَذَاكَرَا الْقِيَامَ مِنَ اللَّيْلِ، فَقَالَ أَحَدُهُمَا مُعَاذٌ: أَمَّا أَنَا فَأَنَامُ وَأَقُومُ وَأَرْجُو فِي نَوْمَتِي مَا أَرْجُو فِي قَوْمَتِي ".
حمید بن ہلال نے کہا: مجھے ابوبردہ نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے کہا: میں بنو اشعر میں سے دو آدمیوں کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، ایک میری دائیں جانب تھا اور دوسرا میری بائیں جانب۔ ان دونوں نے کسی منصب کا سوال کیا، اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسواک کر رہے تھے، آپ نے فرمایا: "ابوموسیٰ!" یا فرمایا: "عبداللہ بن قیس! تم کیا کہتے ہو؟" میں نے عرض کی: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے! ان دونوں نے مجھے یہ نہیں بتایا تھا کہ ان کے دل میں کیا ہے؟ اور نہ مجھے یہ پتہ تھا کہ یہ دونوں منصب کا سوال کریں گے۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے کہا: ایسا لگتا ہے کہ میں (آج بھی) آپ کے ہونٹ کے نیچے مسواک دیکھ رہا ہوں جبکہ آپ کا ہونٹ اوپر کو سمٹا ہوا تھا، آپ نے فرمایا: "جو شخص خواہش مند ہو گا ہم اسے اپنے کسی کام کی ذمہ داری نہیں یا (فرمایا:) ہرگز نہیں دیں گے لیکن ابو موسیٰ! یا فرمایا: عبداللہ بن قیس! تم (ذمہ داری سنبھالنے کے لیے) چلے جاؤ۔" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یمن بھیج دیا، پھر (ساتھ ہی) ان کے پیچھے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو بھیج دیا، جب حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ان کے پاس پہنچے تو حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا: تشریف لائیے اور ان کے بیٹھنے کے لیے ایک گدا بچھایا، تو وہاں اس وقت ایک شخص رسیوں سے بندھا ہوا تھا، انہوں (حضرت معاذ رضی اللہ عنہ) نے پوچھا: یہ کون ہے؟ (حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے) کہا: ایک یہودی تھا، پھر یہ مسلمان ہو گیا اور اب پھر اپنے دین، برائی کے کے دین پر لوٹ گیا ہے اور یہودی ہو گیا ہے۔ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اس وقت تک نہیں بیٹھوں گا جب تک اس کو قتل نہ کر دیا جائے، یہی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ ہے۔ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا: ہاں، (ہم اس کو قتل کرتے ہیں) آپ بیٹھیے، حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اس وقت تک نہیں بیٹھوں گا جب تک اس شخص کو قتل نہیں کر دیا جاتا جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ ہے، تین (مرتبہ یہی مکالمہ ہوا) حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے حکم دیا، اس شخص کو قتل کر دیا گیا، پھر ان دونوں نے آپس میں رات کے قیام کے بارے میں گفتگو کی۔ دونوں میں سے ایک (یعنی) حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا: جہاں تک میرا معاملہ ہے، میں سوتا بھی ہوں اور قیام بھی کرتا ہوں اور میں اپنے قیام میں جس اجر کی امید رکھتا ہوں اپنی نیند میں بھی اسی (اجر) کی توقع رکھتا ہوں
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف گیا اور میرے ساتھ دو اشعری آدمی تھے، ان میں سے ایک میری دائیں طرف اور دوسرا میری بائیں جانب تھا، دونوں نے عہدہ کا سوال کیا، جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسواک کر رہے تھے، تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابو موسیٰ! یا اے عبداللہ بن قیس! تم کیا کہتے ہو؟ میں نے کہا، اس ذات کی قسم، جس نے آپ کو حق دے کر مبعوث فرمایا، مجھے ان دونوں نے اپنے دل کی بات سے باخبر نہیں کیا تھا اور نہ میں نے جانا کہ یہ دونوں عہدہ کے طالب ہیں اور میں گویا کہ آپ کی مسواک آپ کے ہونٹ تلے دیکھ رہا ہوں اور وہ سکڑ چکا ہے، تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم ہرگز اپنا عمل (عہدہ و منصب) اس کے سپرد نہیں کریں گے، نہیں کرتے ہیں، جو اس کا خواہشمند ہو، لیکن، تو اے ابو موسیٰ یا اے عبداللہ بن قیس، جا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اسے یمن کا عامل مقرر فرمایا، پھر ان کے پیچھے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ کو بھیج دیا، تو جب حضرت معاذ رضی اللہ تعالی عنہ، ان کے پاس پہنچے، حضرت ابو موسیٰ نے کہا، اترئیے اور انہیں تکیہ پیش کیا اور ان کے پاس ایک آدمی جکڑا ہوا موجود تھا، حضرت معاذ رضی اللہ تعالی عنہ نے پوچھا، یہ کون ہے؟ ابو موسیٰ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، یہ یہودی تھا اور مسلمان ہو گیا، پھر اپنے برے دین کی طرف لوٹ گیا ہے اور یہودی بن گیا ہے۔ حضرت معاذ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، جب تک اسے قتل نہیں کیا جاتا، میں نہیں بیٹھوں گا، اللہ اور اس کے رسول کا یہی فیصلہ ہے، حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، آپ بیٹھیں، ہم آپ کی بات پر عمل کرتے ہیں، انہوں نے تین دفعہ کہا، جب تک اسے قتل نہیں کیا جاتا، میں نہیں بیٹھوں گا، اللہ اور اس کے رسول کا فیصلہ ہے، تو حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالی عنہ نے اسے قتل کرنے کا حکم دیا، پھر دونوں نے باہمی رات کے قیام کے بارے میں گفتگو کی، تو ان میں سے ایک حضرت معاذ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، رہا میں، تو میں سوتا بھی ہوں اور قیام بھی کرتا ہوں اور اپنی نیند میں بھی اس اجر کی امید رکھتا ہوں، جس کی امید اپنے قیام میں رکھتا ہوں۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1733

   صحيح البخاري2261عبد الله بن قيسلا نستعمل على عملنا من أراده
   صحيح البخاري6923عبد الله بن قيسلا نستعمل على عملنا من أراده
   صحيح مسلم4718عبد الله بن قيسلا نستعمل على عملنا من أراده ولكن اذهب أنت يا أبا موسى
   سنن أبي داود3579عبد الله بن قيسلن نستعمل أو لا نستعمل على عملنا من أراده
   سنن أبي داود4354عبد الله بن قيسلا نستعمل على عملنا من أراده ولكن اذهب أنت يا أبا موسى
   سنن النسائى الصغرى4عبد الله بن قيسلن نستعين على العمل من أراده ولكن اذهب أنت فبعثه على اليمن ثم أردفه معاذ بن جبل
   سنن النسائى الصغرى5384عبد الله بن قيسلا نستعين في عملنا بمن سألنا
   بلوغ المرام1031عبد الله بن قيسلا اجلس حتى يقتل قضاء الله ورسوله
   المعجم الصغير للطبراني647عبد الله بن قيس اذهبا فتطاوعا ولا تعاصيا ، وبشرا ولا تنفرا ، ويسرا ولا تعسرا ، فرجع أبو موسى ، فقال : إن بها شرابين يقال لأحدهما : المزر وهو من الحنطة والشعير ، ويقال للآخر : البتع وهو من العسل ، فقال : حرام كل مسكر يصد عن ذكر الله والصلاة
   مسندالحميدي1169عبد الله بن قيسإذا انقطع شسع أحدكم فلا يمش في نعل واحدة، ولا خف واحد حتى يصلح الآخر، وإذا انتعل فليبدأ باليمين، وإذا خلع فليبدأ باليسرى، ولتكن اليمنى أولهما تنعل وآخرهما تحفي

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 4  
´کیا حاکم اپنی رعیت کے سامنے مسواک کر سکتا ہے؟`
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، میرے ساتھ قبیلہ اشعر کے دو آدمی تھے، ان میں سے ایک میرے دائیں اور دوسرا میرے بائیں تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسواک کر رہے تھے، تو ان دونوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کام (نوکری) کی درخواست کی ۲؎، میں نے عرض کیا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو نبی برحق بنا کر بھیجا ہے، ان دونوں نے اپنے ارادے سے مجھے آگاہ نہیں کیا تھا، اور نہ ہی مجھے اس کا احساس تھا کہ وہ کام (نوکری) کے طلب گار ہیں، گویا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسواک کو (جو اس وقت آپ کر رہے تھے) آپ کے ہونٹ کے نیچے دیکھ رہا ہوں اور ہونٹ اوپر اٹھا ہوا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم کام پر اس شخص سے مدد نہیں لیتے جو اس کا طلب گار ہو ۳؎، لیکن (اے ابوموسیٰ!) تم جاؤ (یعنی ان دونوں کے بجائے میں تمہیں کام دیتا ہوں)، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو یمن کا ذمہ دار بنا کر بھیجا، پھر معاذ بن جبل رضی اللہ عنہم کو ان کے پیچھے بھیجا۔ [سنن نسائي/كتاب الطهارة/حدیث: 4]
4۔ اردو حاشیہ:
➊ مسئلۃ الباب (امام کا اپنی رعایا یا کسی عظیم الشان شخصیت کا اپنے عقیدت مند افراد کے سامنے مسواک کرنا اس کی شان کے خلاف نہیں اور نہ یہ خلاف شرع ہے) کے علاوہ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی عہدے کی طلب بذات خود جائز نہیں، بلکہ اسے حاکم کی رائے پر چھوڑ دینا چاہیے، البتہ اگر حاکم خود کسی منصب یا عہدے کے لیے درخواستیں طلب کرے تو اپنے آپ کو پیش کرنا جائز ہے، جیسے جنگ خندق کے موقع پر آپ نے پوچھا: قریش کی خبر کون لائے گا؟ تو حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنے آپ کو پیش کیا۔ [صحیح البخاری، الجھاد والسیر، حدیث: 2846]
گویا آج کل نوکریوں کے لیے درخواست دینے کا طریق کار درست ہے، البتہ حصول اقتدار کی خاطر اپنے آپ کو پیش کرنا درست نہیں۔ واللہ أعلم۔
➋ کسی عہدے کے طالب یا حریص کو عہدہ نہ دیا جائے کیونکہ اولاً تو حریص آدمی اپنے عہدے سے انصاف نہیں کر سکے گا بلکہ اسے شان و شوکت یا دولت کے حصول کا ذریعہ بنائے گا۔ ثانیاً: ایسے آدمی کواللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد اور توفیق نہیں ملے گی جیسا کہ صحیح احادیث میں وارد ہے۔ [صحیح البخاري، الأیمان والنذور، حدیث: 6622، و صحیح مسلم، الأیمان، حدیث: 1652]
لیکن اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ کوئی دوسرا آدمی اسے ذمے داری کو صحیح طرح نہیں نبھا سکے گا تو وہ اس ذمے داری کو کماحقہ نبھانے کی خاطر اس کا مطالبہ کر سکتا ہے، جیسے حضرت یوسف علیہ السلام سے نے کہا: تھا: «اِجَعَلْنِيْ عَلٰي خَزَآئِنِ الْاَرْضِ اِنِّيْ حَفِيْظٌ عَلِيْمٌ» [يوسف 55: 12]
مجھے اس زمین کے خزانوں پر مقرر کر دیجیے، بے شک میں پوری حفاظت کرنے والا، خوب جاننے والا ہوں۔ اسی طرح حضرت عثمان بن ابوالعاص رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی مجھے اپنی قوم کا امام بنا دیجیے۔ آپ نے فرمایا: تم ان کے امام ہو اور ان کے ضعیف ترین کا خیال رکھنا۔ [سنن أبي داود، الصلاۃ، حدیث: 531]
➌ مسواک دائیں بائیں کے علاوہ اوپر نیچے کے رخ پر بھی کی جائے تاکہ مسواک کے ریشوں سے دانتوں کے درمیان پھنسی ہوئی آلودگی بھی نکل سکے، حدیث میں لفظ «قَلَصَتْ» اس پر دلالت کرتا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 4   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1031  
´مجرم (بدنی نقصان پہنچانے والے) سے لڑنے اور مرتد کو قتل کرنے کا بیان`
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے ایسے شخص کے متعلق جو پہلے اسلام لایا پھر یہودی ہو گیا تھا مروی ہے کہ میں اس وقت تک نہیں بیٹھوں گا تاوقتیکہ اس کو قتل کر دیا جائے۔ یہ اللہ اور اس کے رسول کا فیصلہ ہے۔ چنانچہ اس کے قتل کا حکم دیا گیا اور اسے قتل کر دیا گیا۔ (بخاری ومسلم) ابوداؤد کی روایت میں ہے کہ اسے قتل سے پہلے توبہ کرنے کے لئے کہا گیا۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1031»
تخریج:
«أخرجه البخاري، استتابة المرتدين، باب حكم المرتد والمرتدة واستتابتهم، حديث:6923، ومسلم، الإمارة، باب النهي عن طلب الإمارة والحرص عليها، حديث:1733، وأبوداود، الحدود، حديث:4355.»
تشریح:
1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مرتد کو سزائے ارتداد سے پہلے توبہ کا موقع دیا جائے گا اور اسے توبہ کے لیے باقاعدہ کہا جائے گا۔
جمہور علماء کے نزدیک ایسا کرنا واجب ہے مگر بعض دوسرے علماء اور ظاہریہ اسے واجب تسلیم نہیں کرتے۔
2.حدیث: مَنْ بَدَّلَ… الخ میں لفظ مَنْ عام ہے‘ یعنی مرتد مرد ہو یا عورت دونوں کو اسلام کی طرف پلٹ آنے کی دعوت دینے کے بعد ان کے انکار پر مصر رہنے کی صورت میں قتل کر دیا جائے گا۔
3. حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہد میں بھی عورت کو اس کے ارتداد کی سزا میں قتل کیا گیا۔
اس وقت کثیر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم موجود تھے، کسی نے اعتراض نہیں کیا۔
یہ اس بات کی دلیل ہے کہ مرتد کے قتل پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع ہے۔
4. اس واقعہ سے درج ذیل مسائل بھی ثابت ہوتے ہیں: ٭ امیر ریاست کو عاملوں (گورنروں) کا تقرر کرنے کا حق حاصل ہے۔
٭ ایک وقت میں دو عاملوں کا تقرر بھی جائز ہے۔
٭ گورنر کا فرض ہے کہ مرتد کو سزائے ارتداد دے اور شرعی حدود نافذ کرے۔
٭ اپنی تقرری کی جگہ سواری پر جانا ثابت ہے۔
٭ حاکم کی طرف سے مقرر کردہ گورنر اور وزیر کا احترام بھی کرنا چاہیے۔
٭ شرعی سزا کے نفاذ میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے جبکہ تحقیق و تفتیش کی کارروائی مکمل ہو چکی ہو۔
٭ مجرم کو جکڑنا جائز ہے۔
٭ سزا کا اجرا و نفاذ لوگوں کی موجودگی میں کرنا چاہیے تاکہ عبرت حاصل ہو۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 1031   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4354  
´مرتد (دین اسلام سے پھر جانے والے) کے حکم کا بیان۔`
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، میرے ساتھ قبیلہ اشعر کے دو شخص تھے، ایک میرے دائیں طرف تھا دوسرا بائیں طرف، تو دونوں نے آپ سے عامل کا عہدہ طلب کیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے، پھر فرمایا: ابوموسیٰ! یا فرمایا: عبداللہ بن قیس! تم کیا کہتے ہو؟ میں نے عرض کیا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا، ان دونوں نے مجھے اس چیز سے آگاہ نہیں کیا تھا جو ان کے دل میں تھا، اور مجھے نہیں معلوم تھا کہ وہ آپ سے عامل بنائے جانے کا مطالبہ کریں گے، گویا میں اس وقت آپ کی مس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الحدود /حدیث: 4354]
فوائد ومسائل:
1) اس حدیث میں بظاہر یہی ہے کہ اس مرتد سے توبہ نہیں کرائی گئی۔
مگر درج ذیل روایات میں ہے کہ اس سے توبہ کرائی گئی تھی اور جمہور یہی کہتے ہیں۔

2) مہمان کا حق ہے کہ اس کی عزت افزائی کی جائے۔

3) منکرات پر انکار میں ٹال مٹول اور ڈھیل کا انداز اختیار نہیں کرنا چاہیے۔

4) حدود شرعیہ جاری کرنے میں بھی بلاوجہ تاخیر کرنا مناسب نہیں۔

5) مباح اور جائز اعمال پر بھی نیت صالح کی بنیاد پر انسانوں کو اجروثواب ملتا ہے، مثلا نیند بندے کے لئے راحت کا فطری عمل ہے، مگر جب یہ نیت ہو کہ نیند کے بعد فلاں نیک کام کروں گا تو یہ نیند بھی اجر و ثواب کا عمل بن جاتی ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4354   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4718  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے،
کہ مرتد کی سزا قتل ہے اور اس حد کو نافذ کرنا،
اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے اور اس پر تمام ائمہ کا اتفاق ہے،
تفصیل كتاب القسامة والمحاربين میں گزرچکی ہے۔
اور اس حدیث سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے،
اگر انسان رات کو اس نیت سے سوتا ہے،
تاکہ قیام اللیل کے لیے قوت اور چوکسی حاصل کرسکے اور اطمینان قلبی کے ساتھ کھڑا ہوسکے،
تو یہ سونا بھی اجرو ثواب کا باعث ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 4718   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.