الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: باغیوں اور مرتدوں سے توبہ کرانے کا بیان
The Book of Obliging The Apostates and The Repentance of Those Who Refuse The Truth Obstinately, and To Fight Against Such People
2. بَابُ حُكْمِ الْمُرْتَدِّ وَالْمُرْتَدَّةِ:
2. باب: مرتد مرد اور مرتد عورت کا حکم۔
(2) Chapter. The legal regulation concerning AI-Murtad and Al-Murtaddah [male and female who reverts from Islam (apostates)].
حدیث نمبر: 6923
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا يحيى، عن قرة بن خالد، حدثني حميد بن هلال، حدثنا ابو بردة، عن ابي موسى، قال:" اقبلت إلى النبي صلى الله عليه وسلم ومعي رجلان من الاشعريين، احدهما عن يميني والآخر عن يساري، ورسول الله صلى الله عليه وسلم يستاك، فكلاهما سال العمل، فقال: يا ابا موسى، او يا عبد الله بن قيس، قال: قلت: والذي بعثك بالحق ما اطلعاني على ما في انفسهما، وما شعرت انهما يطلبان العمل، فكاني انظر إلى سواكه تحت شفته قلصت، فقال:" لن او لا نستعمل على عملنا من اراده، ولكن اذهب انت يا ابا موسى، او يا عبد الله بن قيس إلى اليمن، ثم اتبعه معاذ بن جبل، فلما قدم عليه القى له وسادة، قال: انزل، وإذا رجل عنده موثق، قال: ما هذا؟، قال: كان يهوديا فاسلم، ثم تهود، قال: اجلس، قال: لا اجلس حتى يقتل قضاء الله ورسوله، ثلاث مرات، فامر به، فقتل، ثم تذاكرا قيام الليل، فقال احدهما: اما انا فاقوم وانام وارجو في نومتي ما ارجو في قومتي".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ قُرَّةَ بْنِ خَالِدٍ، حَدَّثَنِي حُمَيْدُ بْنُ هِلَالٍ، حَدَّثَنَا أَبُو بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ:" أَقْبَلْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعِي رَجُلَانِ مِنَ الْأَشْعَرِيِّينَ، أَحَدُهُمَا عَنْ يَمِينِي وَالْآخَرُ عَنْ يَسَارِي، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَاكُ، فَكِلَاهُمَا سَأَلَ الْعَمَلَ، فَقَالَ: يَا أَبَا مُوسَى، أَوْ يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ قَيْسٍ، قَالَ: قُلْتُ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا أَطْلَعَانِي عَلَى مَا فِي أَنْفُسِهِمَا، وَمَا شَعَرْتُ أَنَّهُمَا يَطْلُبَانِ الْعَمَلَ، فَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى سِوَاكِهِ تَحْتَ شَفَتِهِ قَلَصَتْ، فَقَالَ:" لَنْ أَوْ لَا نَسْتَعْمِلُ عَلَى عَمَلِنَا مَنْ أَرَادَهُ، وَلَكِنِ اذْهَبْ أَنْتَ يَا أَبَا مُوسَى، أَوْ يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ قَيْسٍ إِلَى الْيَمَنِ، ثُمَّ اتَّبَعَهُ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ، فَلَمَّا قَدِمَ عَلَيْهِ أَلْقَى لَهُ وِسَادَةً، قَالَ: انْزِلْ، وَإِذَا رَجُلٌ عِنْدَهُ مُوثَقٌ، قَالَ: مَا هَذَا؟، قَالَ: كَانَ يَهُودِيًّا فَأَسْلَمَ، ثُمَّ تَهَوَّدَ، قَالَ: اجْلِسْ، قَالَ: لَا أَجْلِسُ حَتَّى يُقْتَلَ قَضَاءُ اللَّهِ وَرَسُولِهِ، ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، فَأَمَرَ بِهِ، فَقُتِلَ، ثُمَّ تَذَاكَرَا قِيَامَ اللَّيْلِ، فَقَالَ أَحَدُهُمَا: أَمَّا أَنَا فَأَقُومُ وَأَنَامُ وَأَرْجُو فِي نَوْمَتِي مَا أَرْجُو فِي قَوْمَتِي".
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے، انہوں نے قرۃ بن خالد سے، کہا مجھ سے حمید بن ہلال نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوبردہ رضی اللہ عنہ نے، انہوں نے ابوموسیٰ اشعری سے، انہوں نے کہا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا میرے ساتھ اشعر قبیلے کے دو شخص تھے (نام نامعلوم) ایک میرے داہنے طرف تھا، دوسرا بائیں طرف۔ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسواک کر رہے تھے۔ دونوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عہدہ کی درخواست کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ابوموسیٰ یا عبداللہ بن قیس! (راوی کو شک ہے) میں نے اسی وقت عرض کیا: یا رسول اللہ! اس پروردگار کی قسم جس نے آپ کو سچا پیغمبر بنا کر بھیجا۔ انہوں نے اپنے دل کی بات مجھ سے نہیں کہی تھی اور مجھ کو معلوم نہیں تھا کہ یہ دونوں شخص عہدہ چاہتے ہیں۔ ابوموسیٰ کہتے ہیں جیسے میں اس وقت آپ کی مسواک کو دیکھ رہا ہوں وہ آپ کے ہونٹ کے نیچے اٹھی ہوئی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو کوئی ہم سے عہدہ کی درخواست کرتا ہے ہم اس کو عہدہ نہیں دیتے۔ لیکن ابوموسیٰ یا عبداللہ بن قیس! تو یمن کی حکومت پر جا (خیر ابوموسیٰ روانہ ہوئے) اس کے بعد آپ نے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو بھی ان کے پیچھے روانہ کیا۔ جب معاذ رضی اللہ عنہ یمن میں ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے تو ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے ان کے بیٹھنے کے لیے گدا بچھوایا اور کہنے لگے سواری سے اترو گدے پر بیٹھو۔ اس وقت ان کے پاس ایک شخص تھا (نام نامعلوم) جس کی مشکیں کسی ہوئی تھیں۔ معاذ رضی اللہ عنہ نے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے پوچھا یہ کون شخص ہے؟ انہوں نے کہا یہ یہودی تھا پھر مسلمان ہوا اب پھر یہودی ہو گیا ہے اور ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے معاذ رضی اللہ عنہ سے کہا اجی تم سواری پر سے اتر کر بیٹھو۔ انہوں نے کہا میں نہیں بیٹھتا جب تک اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے موافق یہ قتل نہ کیا جائے گا تین بار یہی کہا۔ آخر ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے حکم دیا وہ قتل کیا گیا۔ پھر معاذ رضی اللہ عنہ بیٹھے۔ اب دونوں نے رات کی عبادت (تہجد گزاری) کا ذکر چھیڑا۔ معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا میں تو رات کو عبادت بھی کرتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور مجھے امید ہے کہ سونے میں بھی مجھ کو وہی ثواب ملے گا جو نماز پڑھنے اور عبادت کرنے میں۔

Narrated Abu Burda: Abu Musa said, "I came to the Prophet along with two men (from the tribe) of Ash`ariyin, one on my right and the other on my left, while Allah's Apostle was brushing his teeth (with a Siwak), and both men asked him for some employment. The Prophet said, 'O Abu Musa (O `Abdullah bin Qais!).' I said, 'By Him Who sent you with the Truth, these two men did not tell me what was in their hearts and I did not feel (realize) that they were seeking employment.' As if I were looking now at his Siwak being drawn to a corner under his lips, and he said, 'We never (or, we do not) appoint for our affairs anyone who seeks to be employed. But O Abu Musa! (or `Abdullah bin Qais!) Go to Yemen.'" The Prophet then sent Mu`adh bin Jabal after him and when Mu`adh reached him, he spread out a cushion for him and requested him to get down (and sit on the cushion). Behold: There was a fettered man beside Abu Muisa. Mu`adh asked, "Who is this (man)?" Abu Muisa said, "He was a Jew and became a Muslim and then reverted back to Judaism." Then Abu Muisa requested Mu`adh to sit down but Mu`adh said, "I will not sit down till he has been killed. This is the judgment of Allah and His Apostle (for such cases) and repeated it thrice. Then Abu Musa ordered that the man be killed, and he was killed. Abu Musa added, "Then we discussed the night prayers and one of us said, 'I pray and sleep, and I hope that Allah will reward me for my sleep as well as for my prayers.'"
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 84, Number 58


   صحيح البخاري2261عبد الله بن قيسلا نستعمل على عملنا من أراده
   صحيح البخاري6923عبد الله بن قيسلا نستعمل على عملنا من أراده
   صحيح مسلم4718عبد الله بن قيسلا نستعمل على عملنا من أراده ولكن اذهب أنت يا أبا موسى
   سنن أبي داود3579عبد الله بن قيسلن نستعمل أو لا نستعمل على عملنا من أراده
   سنن أبي داود4354عبد الله بن قيسلا نستعمل على عملنا من أراده ولكن اذهب أنت يا أبا موسى
   سنن النسائى الصغرى4عبد الله بن قيسلن نستعين على العمل من أراده ولكن اذهب أنت فبعثه على اليمن ثم أردفه معاذ بن جبل
   سنن النسائى الصغرى5384عبد الله بن قيسلا نستعين في عملنا بمن سألنا
   بلوغ المرام1031عبد الله بن قيسلا اجلس حتى يقتل قضاء الله ورسوله
   المعجم الصغير للطبراني647عبد الله بن قيس اذهبا فتطاوعا ولا تعاصيا ، وبشرا ولا تنفرا ، ويسرا ولا تعسرا ، فرجع أبو موسى ، فقال : إن بها شرابين يقال لأحدهما : المزر وهو من الحنطة والشعير ، ويقال للآخر : البتع وهو من العسل ، فقال : حرام كل مسكر يصد عن ذكر الله والصلاة
   مسندالحميدي1169عبد الله بن قيسإذا انقطع شسع أحدكم فلا يمش في نعل واحدة، ولا خف واحد حتى يصلح الآخر، وإذا انتعل فليبدأ باليمين، وإذا خلع فليبدأ باليسرى، ولتكن اليمنى أولهما تنعل وآخرهما تحفي

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 4  
´کیا حاکم اپنی رعیت کے سامنے مسواک کر سکتا ہے؟`
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، میرے ساتھ قبیلہ اشعر کے دو آدمی تھے، ان میں سے ایک میرے دائیں اور دوسرا میرے بائیں تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسواک کر رہے تھے، تو ان دونوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کام (نوکری) کی درخواست کی ۲؎، میں نے عرض کیا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو نبی برحق بنا کر بھیجا ہے، ان دونوں نے اپنے ارادے سے مجھے آگاہ نہیں کیا تھا، اور نہ ہی مجھے اس کا احساس تھا کہ وہ کام (نوکری) کے طلب گار ہیں، گویا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسواک کو (جو اس وقت آپ کر رہے تھے) آپ کے ہونٹ کے نیچے دیکھ رہا ہوں اور ہونٹ اوپر اٹھا ہوا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم کام پر اس شخص سے مدد نہیں لیتے جو اس کا طلب گار ہو ۳؎، لیکن (اے ابوموسیٰ!) تم جاؤ (یعنی ان دونوں کے بجائے میں تمہیں کام دیتا ہوں)، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو یمن کا ذمہ دار بنا کر بھیجا، پھر معاذ بن جبل رضی اللہ عنہم کو ان کے پیچھے بھیجا۔ [سنن نسائي/كتاب الطهارة/حدیث: 4]
4۔ اردو حاشیہ:
➊ مسئلۃ الباب (امام کا اپنی رعایا یا کسی عظیم الشان شخصیت کا اپنے عقیدت مند افراد کے سامنے مسواک کرنا اس کی شان کے خلاف نہیں اور نہ یہ خلاف شرع ہے) کے علاوہ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی عہدے کی طلب بذات خود جائز نہیں، بلکہ اسے حاکم کی رائے پر چھوڑ دینا چاہیے، البتہ اگر حاکم خود کسی منصب یا عہدے کے لیے درخواستیں طلب کرے تو اپنے آپ کو پیش کرنا جائز ہے، جیسے جنگ خندق کے موقع پر آپ نے پوچھا: قریش کی خبر کون لائے گا؟ تو حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنے آپ کو پیش کیا۔ [صحیح البخاری، الجھاد والسیر، حدیث: 2846]
گویا آج کل نوکریوں کے لیے درخواست دینے کا طریق کار درست ہے، البتہ حصول اقتدار کی خاطر اپنے آپ کو پیش کرنا درست نہیں۔ واللہ أعلم۔
➋ کسی عہدے کے طالب یا حریص کو عہدہ نہ دیا جائے کیونکہ اولاً تو حریص آدمی اپنے عہدے سے انصاف نہیں کر سکے گا بلکہ اسے شان و شوکت یا دولت کے حصول کا ذریعہ بنائے گا۔ ثانیاً: ایسے آدمی کواللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد اور توفیق نہیں ملے گی جیسا کہ صحیح احادیث میں وارد ہے۔ [صحیح البخاري، الأیمان والنذور، حدیث: 6622، و صحیح مسلم، الأیمان، حدیث: 1652]
لیکن اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ کوئی دوسرا آدمی اسے ذمے داری کو صحیح طرح نہیں نبھا سکے گا تو وہ اس ذمے داری کو کماحقہ نبھانے کی خاطر اس کا مطالبہ کر سکتا ہے، جیسے حضرت یوسف علیہ السلام سے نے کہا: تھا: «اِجَعَلْنِيْ عَلٰي خَزَآئِنِ الْاَرْضِ اِنِّيْ حَفِيْظٌ عَلِيْمٌ» [يوسف 55: 12]
مجھے اس زمین کے خزانوں پر مقرر کر دیجیے، بے شک میں پوری حفاظت کرنے والا، خوب جاننے والا ہوں۔ اسی طرح حضرت عثمان بن ابوالعاص رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی مجھے اپنی قوم کا امام بنا دیجیے۔ آپ نے فرمایا: تم ان کے امام ہو اور ان کے ضعیف ترین کا خیال رکھنا۔ [سنن أبي داود، الصلاۃ، حدیث: 531]
➌ مسواک دائیں بائیں کے علاوہ اوپر نیچے کے رخ پر بھی کی جائے تاکہ مسواک کے ریشوں سے دانتوں کے درمیان پھنسی ہوئی آلودگی بھی نکل سکے، حدیث میں لفظ «قَلَصَتْ» اس پر دلالت کرتا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 4   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1031  
´مجرم (بدنی نقصان پہنچانے والے) سے لڑنے اور مرتد کو قتل کرنے کا بیان`
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے ایسے شخص کے متعلق جو پہلے اسلام لایا پھر یہودی ہو گیا تھا مروی ہے کہ میں اس وقت تک نہیں بیٹھوں گا تاوقتیکہ اس کو قتل کر دیا جائے۔ یہ اللہ اور اس کے رسول کا فیصلہ ہے۔ چنانچہ اس کے قتل کا حکم دیا گیا اور اسے قتل کر دیا گیا۔ (بخاری ومسلم) ابوداؤد کی روایت میں ہے کہ اسے قتل سے پہلے توبہ کرنے کے لئے کہا گیا۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1031»
تخریج:
«أخرجه البخاري، استتابة المرتدين، باب حكم المرتد والمرتدة واستتابتهم، حديث:6923، ومسلم، الإمارة، باب النهي عن طلب الإمارة والحرص عليها، حديث:1733، وأبوداود، الحدود، حديث:4355.»
تشریح:
1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مرتد کو سزائے ارتداد سے پہلے توبہ کا موقع دیا جائے گا اور اسے توبہ کے لیے باقاعدہ کہا جائے گا۔
جمہور علماء کے نزدیک ایسا کرنا واجب ہے مگر بعض دوسرے علماء اور ظاہریہ اسے واجب تسلیم نہیں کرتے۔
2.حدیث: مَنْ بَدَّلَ… الخ میں لفظ مَنْ عام ہے‘ یعنی مرتد مرد ہو یا عورت دونوں کو اسلام کی طرف پلٹ آنے کی دعوت دینے کے بعد ان کے انکار پر مصر رہنے کی صورت میں قتل کر دیا جائے گا۔
3. حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہد میں بھی عورت کو اس کے ارتداد کی سزا میں قتل کیا گیا۔
اس وقت کثیر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم موجود تھے، کسی نے اعتراض نہیں کیا۔
یہ اس بات کی دلیل ہے کہ مرتد کے قتل پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع ہے۔
4. اس واقعہ سے درج ذیل مسائل بھی ثابت ہوتے ہیں: ٭ امیر ریاست کو عاملوں (گورنروں) کا تقرر کرنے کا حق حاصل ہے۔
٭ ایک وقت میں دو عاملوں کا تقرر بھی جائز ہے۔
٭ گورنر کا فرض ہے کہ مرتد کو سزائے ارتداد دے اور شرعی حدود نافذ کرے۔
٭ اپنی تقرری کی جگہ سواری پر جانا ثابت ہے۔
٭ حاکم کی طرف سے مقرر کردہ گورنر اور وزیر کا احترام بھی کرنا چاہیے۔
٭ شرعی سزا کے نفاذ میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے جبکہ تحقیق و تفتیش کی کارروائی مکمل ہو چکی ہو۔
٭ مجرم کو جکڑنا جائز ہے۔
٭ سزا کا اجرا و نفاذ لوگوں کی موجودگی میں کرنا چاہیے تاکہ عبرت حاصل ہو۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 1031   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4354  
´مرتد (دین اسلام سے پھر جانے والے) کے حکم کا بیان۔`
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، میرے ساتھ قبیلہ اشعر کے دو شخص تھے، ایک میرے دائیں طرف تھا دوسرا بائیں طرف، تو دونوں نے آپ سے عامل کا عہدہ طلب کیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے، پھر فرمایا: ابوموسیٰ! یا فرمایا: عبداللہ بن قیس! تم کیا کہتے ہو؟ میں نے عرض کیا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا، ان دونوں نے مجھے اس چیز سے آگاہ نہیں کیا تھا جو ان کے دل میں تھا، اور مجھے نہیں معلوم تھا کہ وہ آپ سے عامل بنائے جانے کا مطالبہ کریں گے، گویا میں اس وقت آپ کی مس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الحدود /حدیث: 4354]
فوائد ومسائل:
1) اس حدیث میں بظاہر یہی ہے کہ اس مرتد سے توبہ نہیں کرائی گئی۔
مگر درج ذیل روایات میں ہے کہ اس سے توبہ کرائی گئی تھی اور جمہور یہی کہتے ہیں۔

2) مہمان کا حق ہے کہ اس کی عزت افزائی کی جائے۔

3) منکرات پر انکار میں ٹال مٹول اور ڈھیل کا انداز اختیار نہیں کرنا چاہیے۔

4) حدود شرعیہ جاری کرنے میں بھی بلاوجہ تاخیر کرنا مناسب نہیں۔

5) مباح اور جائز اعمال پر بھی نیت صالح کی بنیاد پر انسانوں کو اجروثواب ملتا ہے، مثلا نیند بندے کے لئے راحت کا فطری عمل ہے، مگر جب یہ نیت ہو کہ نیند کے بعد فلاں نیک کام کروں گا تو یہ نیند بھی اجر و ثواب کا عمل بن جاتی ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4354   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6923  
6923. حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور میرے ساتھ قبیلہ اشعر کے دو آدمی تھے۔ ان میں سے ایک میری دائیں جانب اور دوسرا بائیں طرف تھا۔ رسول اللہ ﷺ اس وقت مسواک کر رہے تھے۔ انہوں نے آپ ﷺ سے عہدے کی درخواست کی تو آپ ﷺ نے فرمایا: اے ابو موسیٰ یا اے عبداللہ بن قیس! میں نے کہا: اللہ کے رسول! اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے، انہوں نے اپنے دل کی بات سے مجھے مطلع نہیں کیا تھا اور نہ مجھے ہی معلوم ہو سکا کہ یہ دونوں عہدہ طلبی کے لیے آئے ہیں، گویا میں اب بھی رسول اللہ ﷺ کی مسواک آپ کے ہونٹوں تلے دیکھ رہا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جو کوئی ہم سے عہدہ طلب کرتا ہے ہم اسے وہ عہدہ نہیں دیتے لیکن اے ابو موسیٰ یا اے عبداللہ بن قیس! تم (خدمت کی بجا آوری کے لیے) یمن جاؤ اس کے بعد آپ نے حضرت معاذ بن۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6923]
حدیث حاشیہ:
کیوں کہ درخواست کرنے سے معلوم ہوتا ہے چکھنے کی نیت ہے ورنہ سرکاری خدمت ایک بلا ہے پرہیز گار اور عقل مند آدمی ہمیشہ اس سے بھاگتا رہتا ہے۔
خصوصاً تحصیل یا عدالت کی خدمات ان میں اکثر ظلم و جبر اور خلاف شرع کام کرنا ہوتا ہے ان دونوں کو تو میں کوئی خدمت نہیں دینے کا۔
آپ نے ولایت یمن کے دو حصے کر کے ایک حصہ کی حکومت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ اور دوسری معاذ رضی اللہ عنہ کو دی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 6923   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6923  
6923. حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور میرے ساتھ قبیلہ اشعر کے دو آدمی تھے۔ ان میں سے ایک میری دائیں جانب اور دوسرا بائیں طرف تھا۔ رسول اللہ ﷺ اس وقت مسواک کر رہے تھے۔ انہوں نے آپ ﷺ سے عہدے کی درخواست کی تو آپ ﷺ نے فرمایا: اے ابو موسیٰ یا اے عبداللہ بن قیس! میں نے کہا: اللہ کے رسول! اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے، انہوں نے اپنے دل کی بات سے مجھے مطلع نہیں کیا تھا اور نہ مجھے ہی معلوم ہو سکا کہ یہ دونوں عہدہ طلبی کے لیے آئے ہیں، گویا میں اب بھی رسول اللہ ﷺ کی مسواک آپ کے ہونٹوں تلے دیکھ رہا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جو کوئی ہم سے عہدہ طلب کرتا ہے ہم اسے وہ عہدہ نہیں دیتے لیکن اے ابو موسیٰ یا اے عبداللہ بن قیس! تم (خدمت کی بجا آوری کے لیے) یمن جاؤ اس کے بعد آپ نے حضرت معاذ بن۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6923]
حدیث حاشیہ:
(1)
یہ حدیث چار شرعی احکام پر مشتمل ہے:
٭مسواک کی اہمیت وافادیت۔
٭عہدہ طلب کرنے کی مذمت۔
٭حضرت ابو موسیٰ اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو حکومتی خدمت کے لیے یمن روانہ کرنا۔
٭یہودی کا ذکر جس نے مسلمان ہونے کے بعد دوبارہ یہودیت کو اختیار کر لیا۔
اس مقام پر یہ آخری واقعہ بیان کرنا مقصود ہے۔
ایک روایت میں اس کی تفصیل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو موسیٰ اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن میں تعلیم وتربیت کے لیے روانہ کیا تھا۔
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ، حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے ملنے گئے تو وہاں ایک آدمی کو زنجیروں میں جکڑا ہوا پایا۔
انھوں نے حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے کہا:
اے بھائی! کیا تم لوگوں کو ایذا رسانی کے لیے بھیجے گئے ہو؟ ہمیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لیے بھیجا تھا کہ ہم لوگوں کو دین کی تعلیم دیں اور ایسی باتوں کی رہنمائی کریں جو ان کے لیے نفع بخش ہوں۔
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ یہ مسلمان ہو کر دین سے پھر (مرتد ہو)
گیا ہے۔
چنانچہ یہ وضاحت سن کر حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے کہا:
مجھے اس ذات کی قسم جس نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق دے کر بھیجا ہے! میں اس وقت تک نہیں بیٹھوں گا جب تک اسے آگ میں جلانہ دوں، چنانچہ وہاں لکڑیاں جلا کر آگ کا الاؤ تیار کیا گیا اور اس کی مشکیں باندھ کر اس میں ڈال دیا گیا۔
(مجمع الذوائد للهیثمي: 261/6) (2)
ممکن ہے کہ اسے قتل کر کے مزید رسوا کرنے کے لیے اس کی لاش کو آگ میں ڈال دیا گیا ہو اور حضرت معاذ اور ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ ایسے حالات میں جلانا جائز سمجھتے ہوں۔
بہرحال حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے اسے بیس دن تک سمجھایا۔
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے بھی اسے دین اسلام کی دعوت دی لیکن اس نے انکار کیا تو اسے کیفر کردار تک پہنچا دیا گیا۔
(3)
اس سے معلوم ہوا کہ مرتد مرد اور عورت کو دعوت اسلام دینے کے بعد قتل کرنا چاہیے، اگر دین اسلام میں واپس آجائے تو اسے مزید موقع دیا جائے۔
(فتح الباري: 343/12، 344)
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 6923   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.