الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
حیض کے احکام و مسائل
The Book of Menstruation
18. باب جَوَازِ الاِغْتِسَالِ عُرْيَانًا فِي الْخَلْوَةِ:
18. باب: تنہائی میں ننگا نہانے کاجواز۔
حدیث نمبر: 770
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا محمد بن رافع ، حدثنا عبد الرزاق ، حدثنا معمر ، عن همام بن منبه ، قال: هذا ما حدثنا ابو هريرة ، عن محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فذكر احاديث منها، وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " كانت بنو إسرائيل، يغتسلون عراة، ينظر بعضهم إلى سواة بعض، وكان موسى عليه السلام، يغتسل وحده، فقالوا: والله ما يمنع موسى ان يغتسل معنا، إلا انه آدر قال: فذهب مرة يغتسل، فوضع ثوبه على حجر، ففر الحجر بثوبه، قال: فجمح موسى بإثره، يقول: ثوبي حجر، ثوبي حجر، حتى نظرت بنو إسرائيل إلى سواة موسى، قالوا: والله ما بموسى من باس، فقام الحجر حتى نظر إليه، قال: فاخذ ثوبه فطفق بالحجر ضربا، قال ابو هريرة: والله إنه بالحجر ندب ستة، او سبعة " ضرب موسى بالحجر.وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ ، قَالَ: هَذَا مَا حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ ، عَنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ أَحَادِيثَ مِنْهَا، وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كَانَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ، يَغْتَسِلُونَ عُرَاةً، يَنْظُرُ بَعْضُهُمْ إِلَى سَوْأَةِ بَعْضٍ، وَكَانَ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام، يَغْتَسِلُ وَحْدَهُ، فَقَالُوا: وَاللَّهِ مَا يَمْنَعُ مُوسَى أَنْ يَغْتَسِلَ مَعَنَا، إِلَّا أَنَّهُ آدَرُ قَالَ: فَذَهَبَ مَرَّةً يَغْتَسِلُ، فَوَضَعَ ثَوْبَهُ عَلَى حَجَرٍ، فَفَرَّ الْحَجَرُ بِثَوْبِه، قَالَ: فَجَمَحَ مُوسَى بِإِثْرِهِ، يَقُولُ: ثَوْبِي حَجَرُ، ثَوْبِي حَجَرُ، حَتَّى نَظَرَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ إِلَى سَوْأَةِ مُوسَى، قَالُوا: وَاللَّهِ مَا بِمُوسَى مِنْ بَأْسٍ، فَقَامَ الْحَجَرُ حَتَّى نُظِرَ إِلَيْهِ، قَالَ: فَأَخَذَ ثَوْبَهُ فَطَفِقَ بِالْحَجَرِ ضَرْبًا، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: وَاللَّهِ إِنَّهُ بِالْحَجَرِ نَدَبٌ سِتَّةٌ، أَوْ سَبْعَةٌ " ضَرْبُ مُوسَى بِالْحَجَرِ.
ہمام بن منبہ سے روایت ہے: کہا: یہ احادیث ہیں جو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (نقل کرتے ہوئے سنائیں، انہوں نےمتعدد احادیث بیان کیں ان میں سے ایک یہ ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نبی اسرائیل بے لباس ہوکر، اس طرح نہاتے تھے کہ ایک دوسرے کا ستر دیکھ رہے ہوتے اورموسیٰ رضی اللہ عنہ اکیلے نہایا کرتے تھے۔ بنواسرائیل کہنے لگے: اللہ کی قسم!موسیٰ رضی اللہ عنہ ہمارے محض اس لیے نہیں نہاتے کہ ان کے خصیتیں پھولے ہوئےہیں۔ آپ نے فرمایا: موسیٰ رضی اللہ عنہ ایک دفعہ نہانے کے لیے گئے تو اپنے کپڑے ایک پتھر پر رکھ دیے، پتھر آپ کے کپڑے لے کر بھاگ کھڑا ہوا، موسیٰ رضی اللہ عنہ اس کے پیچھے یہ کہتے ہوئے سر پٹ دوڑ پڑے: او پتھر!میرے کپڑے، اوپتھر! میرے کپڑے، یہاں تک کہ بنی اسرائیل نے موسیٰ رضی اللہ عنہ کے ستر کو دیکھ لیا اورکہنے لگے: اللہ کی قسم! موسیٰ رضی اللہ عنہ کو تو کوئی بیماری نہیں ہے، جب موسیٰ رضی اللہ عنہ کو دیکھ لیا گیا تو پتھر ٹھہر گیا، موسیٰ رضی اللہ عنہ نے اپنے کپڑے پہنے اور پتھر کو مارنے لگے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! پتھر پر چھ یا سات نشان تھے، یہ پتھر کو موسیٰ رضی اللہ عنہ کی مار تھی۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بنو اسرائیل برہنہ نہاتے تھے، ایک دوسرے کی شرم گاہ کو دیکھ رہے ہوتے، اور موسیٰ عَلیہِ السَّلام اکیلے نہاتے، اسرائیلی کنے لگے، اللہ کی قسم! موسیٰ عَلیہِ السَّلام ہمارے ساتھ محض اس بنا پر نہیں نہاتے کہ ان کو ہرنیا کی بیماری ہے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: موسیٰ عَلیہِ السَّلام ایک دفعہ نہانے لگے تو اپنے کپڑے ایک پتھر پر رکھ دیئے پتھر آپصلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے لے کر بھاگ کھڑا ہوا، اور موسیٰ عَلیہِ السَّلام اس کے پیچھے (سرپٹ) زور سے دوڑ پڑے، اور فرمانے لگے، اے پتھر میرے کپڑے، اے پتھر میرے کپڑے دو، یہاں تک کہ بنو اسرائیل نے موسیٰ عَلیہِ السَّلام کے قابل ستر حصہ کو دیکھ لیا، اور کہنے لگے، اللہ کی قسم! موسیٰ عَلیہِ السَّلام کو تو کوئی بیماری لاحق نہیں ہے، جب موسیٰ عَلیہِ السَّلام کا سراپا دیکھ لیا تو پتھر ٹھر گیا، موسیٰ عَلیہِ السَّلام نے اپنے کپڑے پہنے اور پتھر کو مارنا شروع کردیا۔ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، اللہ کی قسم! موسیٰ عَلیہِ السَّلام کے پتھر کو مارنے سے اس پر چھ یا سات نشان پڑھ گئے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 339

   صحيح البخاري278عبد الرحمن بن صخركانت بنو إسرائيل يغتسلون عراة ينظر بعضهم إلى بعض وكان موسى يغتسل وحده قالوا والله ما يمنع موسى أن يغتسل معنا إلا أنه آدر فذهب مرة يغتسل فوضع ثوبه على حجر ففر الحجر بثوبه فخرج موسى في إثره يقول ثوبي يا حجر حتى نظرت بنو إسرائيل إلى موسى فقالوا والله ما بموس
   صحيح البخاري4799عبد الرحمن بن صخرموسى كان رجلا حييا وذلك قوله يأيها الذين آمنوا لا تكونوا كالذين آذوا موسى فبرأه الله مما قالوا وكان عند الله وجيها
   صحيح البخاري3404عبد الرحمن بن صخرموسى كان رجلا حييا ستيرا لا يرى من جلده شيء استحياء منه فآذاه من آذاه من بني إسرائيل فقالوا ما يستتر هذا التستر إلا من عيب بجلده إما برص وإما أدرة وإما آفة وإن الله أراد أن يبرئه مما قالوا لموسى فخلا يوما وحده فوضع ثيابه على الحجر ثم اغتسل فلما فرغ أقبل إ
   صحيح مسلم770عبد الرحمن بن صخركانت بنو إسرائيل يغتسلون عراة ينظر بعضهم إلى سوأة بعض وكان موسى يغتسل وحده قالوا والله ما يمنع موسى أن يغتسل معنا إلا أنه آدر فذهب مرة يغتسل فوضع ثوبه على حجر ففر الحجر بثوبه فجمح موسى بإثره يقول ثوبي حجر ثوبي حجر حتى نظرت بنو إسرائيل إلى سوأة موسى قالوا
   صحيح مسلم6146عبد الرحمن بن صخركانت بنو إسرائيل يغتسلون عراة ينظر بعضهم إلى سوأة بعض وكان موسى يغتسل وحده قالوا والله ما يمنع موسى أن يغتسل معنا إلا أنه آدر فذهب مرة يغتسل فوضع ثوبه على حجر ففر الحجر بثوبه فجمح موسى بأثره يقول ثوبي حجر ثوبي حجر حتى نظرت بنو إسرائيل إلى سوأة موسى فقالوا
   جامع الترمذي3221عبد الرحمن بن صخرموسى كان رجلا حييا ستيرا ما يرى من جلده شيء استحياء منه فآذاه من آذاه من بني إسرائيل فقالوا ما يستتر هذا الستر إلا من عيب بجلده إما برص وإما أدرة وإما آفة وإن الله أراد أن يبرئه مما قالوا وإن موسى خلا يوما وحده فوضع ثيابه على حجر ثم اغتسل فلما فرغ أقبل إل

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 278  
´پتھر کا موسیٰ علیہ السلام کے کپڑے لے کر بھاگنا `
«. . . عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" كَانَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ يَغْتَسِلُونَ عُرَاةً يَنْظُرُ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ، وَكَانَ مُوسَى يَغْتَسِلُ وَحْدَهُ، فَقَالُوا: وَاللَّهِ مَا يَمْنَعُ مُوسَى أَنْ يَغْتَسِلَ مَعَنَا إِلَّا أَنَّهُ آدَرُ، فَذَهَبَ مَرَّةً يَغْتَسِلُ فَوَضَعَ ثَوْبَهُ عَلَى حَجَرٍ فَفَرَّ الْحَجَرُ بِثَوْبِهِ، فَخَرَجَ مُوسَى فِي إِثْرِهِ، يَقُولُ: ثَوْبِي يَا حَجَرُ، حَتَّى نَظَرَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ إِلَى مُوسَى، فَقَالُوا: وَاللَّهِ مَا بِمُوسَى مِنْ بَأْسٍ وَأَخَذَ ثَوْبَهُ فَطَفِقَ بِالْحَجَرِ ضَرْبًا"، فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: وَاللَّهِ إِنَّهُ لَنَدَبٌ بِالْحَجَرِ سِتَّةٌ أَوْ سَبْعَةٌ ضَرْبًا بِالْحَجَرِ.»
۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بنی اسرائیل ننگے ہو کر اس طرح نہاتے تھے کہ ایک شخص دوسرے کو دیکھتا لیکن موسیٰ علیہ السلام تنہا پردہ سے غسل فرماتے۔ اس پر انہوں نے کہا کہ بخدا موسیٰ کو ہمارے ساتھ غسل کرنے میں صرف یہ چیز مانع ہے کہ آپ کے خصیے بڑھے ہوئے ہیں۔ ایک مرتبہ موسیٰ علیہ السلام غسل کرنے لگے اور آپ نے کپڑوں کو ایک پتھر پر رکھ دیا۔ اتنے میں پتھر کپڑوں کو لے کر بھاگا اور موسیٰ علیہ السلام بھی اس کے پیچھے بڑی تیزی سے دوڑے۔ آپ کہتے جاتے تھے۔ اے پتھر! میرا کپڑا دے۔ اے پتھر! میرا کپڑا دے۔ اس عرصہ میں بنی اسرائیل نے موسیٰ علیہ السلام کو ننگا دیکھ لیا اور کہنے لگے کہ بخدا موسیٰ کو کوئی بیماری نہیں اور موسیٰ علیہ السلام نے کپڑا لیا اور پتھر کو مارنے لگے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ بخدا اس پتھر پر چھ یا سات مار کے نشان باقی ہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْغُسْل: 278]

تخریج الحدیث:
یہ روایت صحیح بخاری میں تین مقامات پر ہے۔ [ح 278، 3404، 4799]
امام بخاری رحمہ اللہ کے علاوہ درج ذیل محدثین نے بھی اسے روایت کیا ہے:
مسلم النیسابوری [صحيح مسلم ح339 وترقيم دارالسلام: 770 وبعد ح 2371 ترقيم دارالسلام: 6146، 6147]
ترمذي [السنن: 3221 وقال: هذا حديث حسن صحيح إلخ]
النسائي فى التفسير [444، 445]
الطحاوي فى مشكل الآثار [1؍11]
والطبري فى تفسيره [تفسير ابن جرير 22؍37]
یہ روایت درج ذیل کتابوں میں بھی موجود ہے:
مسند ابي عوانه [281/1]
صحيح ابن حبان [الاحسان 94/14 ح 6178، دوسرا نسخه: 6211]
الاوسط لابن المنذر [120/2 ح649]
السنن الكبريٰ للبيهقي [198/1]
معالم التنزيل للبغوي [545/3]
یہ روایت امام بخاری رحمہ اللہ سے پہلے درج ذیل محدثین نے بھی بیان کی ہے:
أحمد بن حنبل [المسند 2؍315، 392، 514، 535]
عبدالرزاق [المصنف: 20531]
همام بن منبہ [الصحيفة: 61]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ روایت درج ذیل جلیل القدر تابعین کی سند سے مروی ہے:
① ہمام بن منبہ [الصحيفة: 61 وصحيح البخاري: 278 وصحيح مسلم: 339]
② محمد بن سیرین [صحيح البخاري: 3404، 4799]
③ خلاس بن عمرو [صحيح البخاري: 3404، 4799]
④ الحسن البصری [صحيح البخاري: 3404، 4799]
⑤ عبداللہ بن شقیق [صحيح مسلم: 339 بعد ح2371 ترقيم دارالسلام: 6147]
اس روایت کی دوسری سندیں، آثارِ صحابہ اور آثارِ تابعین بھی مروی ہیں دیکھئیے:
مصنف ابن ابی شیبہ [11؍533، 535]
وتفسیر الطبری [22؍36، 37]
وكشف الاستار [مسند البزار: 2252]
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ صحیح بخاری کی یہ روایت بالکل صحیح ہے۔

اس حدیث کی تشریح میں حافظ ابن حزم اندلسی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«انه ليس فى الحديث انهم رأوا من موسي الذكر - الذى هو عورة - و ان رأوا منه هيئة تبينوا بها أنه مبرأ مما قالوا من الادرة وهذا يتبين لكل ناظر بلا شك، بغير أن يرى شيئًا من الذكر لكن بأن يرى مابين الفخذين خاليًا»
حدیث میں یہ نہیں ہے کہ انہوں (بنی اسرائیل) نے موسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر یعنی شرمگاہ دیکھی تھی۔ انہوں نے ایسی حالت دیکھی جس سے واضح ہو گیا کہ موسیٰ علیہ السلام ان لوگوں کے الزمات کہ وہ آدر ہیں (یعنی ان کے خصیے بہت موٹے ہیں) سے بری ہیں۔ ہر دیکھنے والے کو (ایسی حالت میں) بغیر کسی شک کے ذَکر (شرمگاہ) دیکھے بغیر ہی یہ معلوم ہو جاتا ہے جب وہ دیکھتا ہے کہ رانوں کے درمیان جگہ خالی ہے۔ [المحليٰ 3؍213 مسئله: 349]
اس تشریح سے معلوم ہوا کہ بنی اسرائیل سیدنا موسیٰ علیہ السلام پر جو جسمانی نقص والے الزامات لگاتے تھے، ان تمام الزامات سے آپ بری تھے۔ دوسرے یہ کہ اس روایت میں یہ بھی نہیں ہے کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام بالکل ننگے نہا رہے تھے۔ امام ابن حزم کے کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ نے لنگوٹی وغیرہ سے اپنی شرمگاہ کو چھپا رکھا تھا اور باقی جسم ننگا تھا۔
بنی اسرائیل نے آپ کی شرمگاہ کو دیکھا ہی نہیں لہٰذا منکرین حدیث کا اس حدیث کا مذاق اڑانا مردود ہے۔
بعض الناس نے کہا کہ تو تین یا چار نشان کہنے کا کیا مطلب؟
عرض ہے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: «وَأَرْسَلْنَاهُ إِلَىٰ مِائَةِ أَلْفٍ أَوْ يَزِيدُونَ» اور بھیجا اس کو لاکھ آدمیوں پر یا زیادہ۔ [الصّٰفّٰت: 147 ترجمه شاه عبدالقادر ص543]
اس آیت کریمہ کا ترجمہ شاہ ولی اللہ الدہلوی کی تحریر سے پڑھ لیں:
«وفرستاديم اُو را بسوئے صد هزار يا بيشتر ازان باشند» [ص543]
منکرین حدیث اس آیت کریمہ میں لفظ او کی جو تشریح کریں گے وہی تشریح سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے قول «ستة أو سبعة» میں «او» کی ہے۔ «والحمدلله»
   ماہنامہ الحدیث حضرو ، شمارہ 24، حدیث\صفحہ نمبر: 11   
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 278  
´جس نے تنہائی میں ننگے ہو کر غسل کیا`
«. . . عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " كَانَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ يَغْتَسِلُونَ عُرَاةً يَنْظُرُ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ، وَكَانَ مُوسَى يَغْتَسِلُ وَحْدَهُ، فَقَالُوا: وَاللَّهِ مَا يَمْنَعُ مُوسَى أَنْ يَغْتَسِلَ مَعَنَا إِلَّا أَنَّهُ آدَرُ . . .»
. . . انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ` آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بنی اسرائیل ننگے ہو کر اس طرح نہاتے تھے کہ ایک شخص دوسرے کو دیکھتا لیکن موسیٰ علیہ السلام تنہا پردہ سے غسل فرماتے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْغُسْل/بَابُ مَنِ اغْتَسَلَ عُرْيَانًا وَحْدَهُ فِي الْخَلْوَةِ، وَمَنْ تَسَتَّرَ فَالتَّسَتُّرُ أَفْضَلُ:: 278]

تخريج الحديث:
[194۔ البخاري فى: 5 كتاب الغسل: 20 باب من اغتسل عريانًا وحده فى الخلوة 278، مسلم 339]
لغوی توضیح:
«آدَرُ» بڑے بڑے خصیتین والا۔
«فِيْ اِثْرِهِ» اس کے پیچھے۔
«نَدَبٌ» نشان۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث\صفحہ نمبر: 194   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3221  
´سورۃ الاحزاب سے بعض آیات کی تفسیر۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: موسیٰ علیہ السلام باحیاء، پردہ پوش انسان تھے، ان کے بدن کا کوئی حصہ ان کے شرما جانے کے ڈر سے دیکھا نہ جا سکتا تھا، مگر انہیں تکلیف پہنچائی جس کسی بھی اسرائیلی نے تکلیف پہنچائی، ان لوگوں نے کہا: یہ شخص (اتنی زبردست) ستر پوشی محض اس وجہ سے کر رہا ہے کہ اسے کوئی جلدی بیماری ہے: یا تو اسے برص ہے، یا اس کے خصیے بڑھ گئے ہیں، یا اسے کوئی اور بیماری لاحق ہے۔ اللہ نے چاہا کہ ان پر جو تہمت اور جو الزامات لگائے جا رہے ہیں ان سے انہیں بری کر دے۔ (تو ہوا یوں کہ) موسیٰ علیہ السل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3221]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اے ایمان لانے والو! تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے موسیٰ علیہ السلام کو اپنے جھوٹے الزامات سے تکلیف پہنچائی،
تو اللہ نے انہیں اس تہمت سے بری قرار دیا،
وہ اللہ کے نزدیک بڑی عزت ومرتبت والا تھاؔ (الأحزاب: 69)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3221   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 770  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
سَوءَة:
شرم گاہ۔
آدر:
جس کے خصیتین پھولے ہوں۔
(2)
جَمَحَ:
سرپٹ دوڑا۔
(3)
ندب:
نشان۔
فوائد ومسائل:
(1)
انسان تنہائی میں برہنہ ہو کر غسل کر سکتا ہے اگرچہ بہتر یہی ہے کپڑا باندھ کر نہائے کیونکہ کوئی اچانک آ سکتا ہے اگر غسل خانہ وغیرہ ہو جہاں کسی کے آنے کا خطرہ نہ ہو تو بھی کوئی حرج نہیں۔
(2)
انبیا علیہ السلام اپنی سیرت اور صورت دونوں اعتبار سے کامل ترین فرد ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کو عیوب و نقائص سے پاک رکھتا ہے انبیاء علیہ السلام بشر ہونے کی بنا پر انسانی جذبات سے متصف ہوتے ہیں اس لیے موسیٰ علیہ السلام نے غصہ میں آ کر پتھر پر ضربیں لگائیں اور اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی عزت و آبرو کی براءت کی خاطر پتھر میں خود بخود دوڑنے کی اہلیت پیدا کر دی جیسا کہ اس کے حکم سے زمین،
اپنے محور پر حرکت کر رہی ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 770   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.