الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: تجارت کے احکام و مسائل
The Chapters on Business Transactions
62. بَابُ : السَّلَمِ فِي الْحَيَوَانِ
62. باب: حیوانات میں بیع سلم کا بیان۔
حدیث نمبر: 2285
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا هشام بن عمار ، حدثنا مسلم بن خالد ، حدثنا زيد بن اسلم ، عن عطاء بن يسار ، عن ابي رافع ، ان النبي صلى الله عليه وسلم استسلف من رجل بكرا، وقال:" إذا جاءت إبل الصدقة قضيناك" فلما قدمت، قال:" يا ابا رافع، اقض هذا الرجل بكره"، فلم اجد إلا رباعيا فصاعدا، فاخبرت النبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" اعطه، فإن خير الناس احسنهم قضاء".
(مرفوع) حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ خَالِدٍ ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَسْلَفَ مِنْ رَجُلٍ بَكْرًا، وَقَالَ:" إِذَا جَاءَتْ إِبِلُ الصَّدَقَةِ قَضَيْنَاكَ" فَلَمَّا قَدِمَتْ، قَالَ:" يَا أَبَا رَافِعٍ، اقْضِ هَذَا الرَّجُلَ بَكْرَهُ"، فَلَمْ أَجِدْ إِلَّا رَبَاعِيًا فَصَاعِدًا، فَأَخْبَرْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" أَعْطِهِ، فَإِنَّ خَيْرَ النَّاسِ أَحْسَنُهُمْ قَضَاءً".
ابورافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے ایک جوان اونٹ کی بیع سلم کی یعنی اسے قرض کے طور پر لیا، اور فرمایا: جب صدقہ کے اونٹ آئیں گے تو ہم تمہارا اونٹ کا قرض ادا کر دیں گے، چنانچہ جب صدقہ کے اونٹ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابورافع! اس کے اونٹ کا قرض ادا کر دو، ابورافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے ڈھونڈا تو مجھے ویسا اونٹ نہیں ملا، سوائے ایک ایسے اونٹ کے جس نے اپنے سامنے کے چاروں دانت گرا رکھے تھے، جو اس کے اونٹ سے بہتر تھا، میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسی کو دے دو کیونکہ لوگوں میں بہتر وہ ہے جو اپنے قرض کی ادائیگی میں بہتر ہو ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/البیوع 43 (1600)، سنن ابی داود/البیوع 11 (3346)، سنن الترمذی/البیوع 75 (1318)، سنن النسائی/البیوع 62 (4621)، (تحفة الأشراف: 12025)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/البیوع 43 (89)، مسند احمد (6/390)، سنن الدارمی/البیوع 31 (2607) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: مطلب یہ ہے کہ جو مال بغیر شرط کے قرض لیا تھا اس سے افضل دیتے ہیں،اگر قرض سے بہتر یا زیادہ مال دیا جائے تو مستحب اور اس کا لینا جائز ہے، لیکن شرط کے ساتھ جائز نہیں، کیونکہ وہ ربا (سود) ہے، اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ بیع سلم بلکہ قرض لینا بھی جانور کا درست ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم

   صحيح مسلم4108أسلماستسلف من رجل بكرا فقدمت عليه إبل من إبل الصدقة فأمر أبا رافع أن يقضي الرجل بكره فرجع إليه أبو رافع فقال لم أجد فيها إلا خيارا رباعيا فقال أعطه إياه خيار الناس أحسنهم قضاء
   جامع الترمذي1318أسلمخيار الناس أحسنهم قضاء
   سنن أبي داود3346أسلمخيار الناس أحسنهم قضاء
   سنن ابن ماجه2285أسلماستسلف من رجل بكرا وقال إذا جاءت إبل الصدقة قضيناك فلما قدمت قال يا أبا رافع اقض هذا الرجل بكره فلم أجد إلا رباعيا فصاعدا فأخبرت النبي فقال أعطه خير الناس أحسنهم قضاء
   سنن النسائى الصغرى4621أسلمخير المسلمين أحسنهم قضاء
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم524أسلماعطه إياه، فإن خيار الناس احسنهم قضاء

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 524  
´ کسی کوتاہی کے بغیر قرض ادا کرنے والے کی فضیلت`
«. . . عن عطاء بن يسار عن ابى رافع مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم انه قال: استسلف رسول الله صلى الله عليه وسلم بكرا، فجاءته إبل الصدقة قال ابو رافع: فامرني رسول الله صلى الله عليه وسلم ان اقضي الرجل بكره، فقلت: لم اجد فى الإبل إلا جملا خيارا رباعيا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اعطه إياه، فإن خيار الناس احسنهم قضاء . . .»
. . . سیدنا ابورافع رضی اللہ عنہ مولٰی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اونٹ قرض لیا، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس صدقے کے اونٹ آئے، تو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ میں اس شخص کا قرض ادا کر دوں جس سے چھوٹا اونٹ لیا تھا۔ میں نے کہا: میں تو اونٹوں میں چھ سال کے بہترین اونٹوں کے سوا کچھ بھی نہیں پاتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسی میں سے اسے دے دو، کیونکہ لوگوں میں بہتریں وہ انسان ہیں جو قرض ادا کرنے میں سب سے اچھے ہیں . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 524]

تخریج الحدیث: [وأخرجه مسلم 1600، من حديث ما لك به]
تفقه:
➊ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مساکین کو دینے کے لئے اونٹ قرض لئے تھے جن میں سے چھوٹا اونٹ بھی تھا پھر یہ قرضہ صدقے والے اونٹوں سے ادا کردیا۔ معلوم ہوا کہ خرید و فروخت علیحدہ چیز ہے اور قرض لینا علیحدہ ہے۔
➋ اکثر علماء کے نزدیک صدقہ زکٰوہ اپنے وقت سے پہلے ادا کر دینا جائز ہے۔ [التمهيد 59/4]
➌ حیوانوں کی خرید وفروخت نقد ہو یا قرض، دونوں طرح جائز ہے۔
➍ اگر کوئی شخص کسی آدمی سے بغیر کسی شرط کے قرض لے اور بعد میں قرض ادا کرے اور اس کے ساتھ اپنی خوشی سے کچھ زیادہ تحفتاً دے دے تو جائز ہے۔ اگر قرض لیتے وقت کوئی ایسی شرط لگائی جائے کہ ضرور اضافہ دینا ہے تو یہ سُود (ربا) ہے جو کہ حرام ہے۔ دیکھئے [التمهيد 68/4]
● سیدنا ابوعبدالرحمن عبدالله بن عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے ایک شخص سے کچھ دراہم قرض لئے۔ بعد میں انہوں نے یہ قرض اسے اچھے دراہم دے کر ادا کیا تو اس شخص نے کہا: اے ابوعبدالرحمن! میں نے آپ کو جو دراہم قرض دیئے تھے، یہ ان سے اچھے ہیں۔ تو عبداللہ بن عمر نے فرمایا: مجھے پتا ہے لیکن میرا دل اس پر خوش ہے۔ [الموطأ 681/2 ح 1423، وسنه صحيح]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 172   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2285  
´حیوانات میں بیع سلم کا بیان۔`
ابورافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے ایک جوان اونٹ کی بیع سلم کی یعنی اسے قرض کے طور پر لیا، اور فرمایا: جب صدقہ کے اونٹ آئیں گے تو ہم تمہارا اونٹ کا قرض ادا کر دیں گے، چنانچہ جب صدقہ کے اونٹ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابورافع! اس کے اونٹ کا قرض ادا کر دو، ابورافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے ڈھونڈا تو مجھے ویسا اونٹ نہیں ملا، سوائے ایک ایسے اونٹ کے جس نے اپنے سامنے کے چاروں دانت گرا رکھے تھے، جو اس کے اونٹ سے بہتر تھا، میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2285]
اردو حاشہ:
فوائد  و مسائل:

(1)
ادھار خرید وفروخت جائز ہے۔

(2)
رباعی سے مراد وہ اونٹ ہے جس کے دودھ کے چار وانت ٹوٹ چکے ہوں اس کی عمر سات سال ہوتی ہے۔

(3)
جانور جس قسم کا لیا ہو، اس سے بہتر واپس کرنا جائز ہے بشرطیکہ پہلے سے یہ شرط طے نہ ہوئی ہو بلکہ ادا کرنے والا اپنی خوشی سے ادا کرے، دوسرے کی طرف سے مطالبہ نہ ہو۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2285   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1318  
´اونٹ یا کوئی اور جانور قرض لینے کا بیان۔`
ابورافع رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جوان اونٹ قرض لیا، پھر آپ کے پاس صدقے کا اونٹ آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں اس آدمی کا اونٹ ادا کر دوں، میں نے آپ سے عرض کیا: مجھے چار دانتوں والے ایک عمدہ اونٹ کے علاوہ کوئی اور اونٹ نہیں مل رہا ہے، تو آپ نے فرمایا: اسے اسی کو دے دو، کیونکہ لوگوں میں سب سے اچھے وہ ہیں جو قرض کی ادائیگی میں سب سے اچھے ہوں ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1318]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مقروض اگرخود بخود اپنی رضامندی سے ادائیگی قرض کے وقت واجب الادا قرض سے مقدارمیں زیادہ یا بہتراورعمدہ ادا کرے تو یہ جائزہے،
اوراگرقرض خواہ قرض دیتے وقت یہ شرط کرلے تو یہ سود ہوگا جو بہرصورت حرام ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1318   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.