الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
The Book of Financial Transactions
28. بَابُ : بَيْعِ الثَّمَرِ قَبْلَ أَنْ يَبْدُوَ صَلاَحُهُ
28. باب: پھلوں کو پختگی ظاہر ہونے سے پہلے نہ بیچنے کا بیان۔
Chapter: Selling Fruits Before Their Condition Is Known
حدیث نمبر: 4523
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا قتيبة , قال: حدثنا الليث , عن نافع , عن ابن عمر , عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" لا تبيعوا الثمر حتى يبدو صلاحه , نهى البائع والمشتري".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ , قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ , عَنْ نَافِعٍ , عَنْ ابْنِ عُمَرَ , عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَا تَبِيعُوا الثَّمَرَ حَتَّى يَبْدُوَ صَلَاحُهُ , نَهَى الْبَائِعَ وَالْمُشْتَرِيَ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تک پختگی ظاہر نہ ہو جائے پھلوں کی بیع نہ کرو، آپ نے بیچنے اور خریدنے والے دونوں کو (اس سے) منع فرمایا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/التجارات 32 (2214)، (تحفة الأشراف: 8302)، مسند احمد (2/ 123) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: پھلوں کی پختگی ظاہر ہونے سے پہلے اگر ان کو درخت پر بیچ دیا گیا تو بہت ممکن ہے کہ پختگی ظاہر ہونے سے پہلے آندھی طوفان آئے اور سارے یا اکثر پھل برباد ہو جائیں اور خریدار کا نقصان ہو جائے، اور پختگی ظاہر ہونے کے بعد اگر آندھی طوفان آئے بھی تو کم پھل برباد ہوں گے، نیز پختہ پھل اگر گر بھی گئے تو خریدار کی قیمت بھر پیسہ نکل آئے گا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح

   صحيح البخاري2248عبد الله بن عمربيع النخل حتى يؤكل منه أو يأكل منه وحتى يوزن
   صحيح البخاري2194عبد الله بن عمربيع الثمار حتى يبدو صلاحها نهى البائع والمبتاع
   صحيح البخاري1486عبد الله بن عمرعن بيع الثمرة حتى يبدو صلاحها
   صحيح مسلم3864عبد الله بن عمرنهى عن بيع النخل حتى يزهو وعن السنبل حتى يبيض ويأمن العاهة نهى البائع والمشتري
   صحيح مسلم3865عبد الله بن عمرلا تبتاعوا الثمر حتى يبدو صلاحه
   صحيح مسلم3869عبد الله بن عمرلا تبيعوا الثمر حتى يبدو صلاحه
   صحيح مسلم3862عبد الله بن عمرنهى عن بيع الثمر حتى يبدو صلاحه
   جامع الترمذي1226عبد الله بن عمرنهى عن بيع النخل حتى يزهو
   جامع الترمذي1227عبد الله بن عمرنهى عن بيع السنبل حتى يبيض ويأمن العاهة نهى البائع والمشتري
   سنن أبي داود3368عبد الله بن عمرنهى عن بيع النخل حتى يزهو وعن السنبل حتى يبيض ويأمن العاهة نهى البائع والمشتري
   سنن أبي داود3367عبد الله بن عمرنهى عن بيع الثمار حتى يبدو صلاحها نهى البائع والمشتري
   سنن النسائى الصغرى4555عبد الله بن عمرنهى عن بيع النخلة حتى تزهو وعن السنبل حتى يبيض ويأمن العاهة نهى البائع والمشتري
   سنن النسائى الصغرى4523عبد الله بن عمرلا تبيعوا الثمر حتى يبدو صلاحه نهى البائع والمشتري
   سنن النسائى الصغرى4526عبد الله بن عمرلا تبيعوا الثمر حتى يبدو صلاحه
   سنن النسائى الصغرى4524عبد الله بن عمرنهى عن بيع الثمر حتى يبدو صلاحه
   سنن ابن ماجه2214عبد الله بن عمرلا تبيعوا الثمرة حتى يبدو صلاحها نهى البائع والمشتري
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم497عبد الله بن عمر نهى عن بيع الثمار حتى يبدو صلاحها، نهى البائع والمشتري
   بلوغ المرام714عبد الله بن عمرنهى رسول الله عن بيع الثمار حتى يبدو صلاحها نهى البائع والمبتاع

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 497  
´کچا پھل بیچنے کی ممانعت`
«. . . 235- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن بيع الثمار حتى يبدو صلاحها، نهى البائع والمشتري. . . .»
. . . اور اسی سند کی ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دکاندار اور گاہک دونوں کو پھلوں کے پکنے سے پہلے بیچنے اور خریدنے سے منع کیا ہے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 497]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 2194، ومسلم 49/1534، من حديث مالك به]
تفقہ:
➊ دیکھئے حدیث سابق: 151
➋ شریعت اسلامیہ میں ہر انسان کے حقوق کا خاص خیال رکھا گیا ہے تاکہ لوگ ایک دوسرے کے ضرر سے محفوظ رہیں۔
➌ ایک چیز جو بعد میں نقصان دیتی ہے، سد ذرائع کے طور پر اس کے واقع ہونے سے پہلے منع کیا جا سکتا ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 235   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4523  
´پھلوں کو پختگی ظاہر ہونے سے پہلے نہ بیچنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تک پختگی ظاہر نہ ہو جائے پھلوں کی بیع نہ کرو، آپ نے بیچنے اور خریدنے والے دونوں کو (اس سے) منع فرمایا ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4523]
اردو حاشہ:
(1) پھل سے مقصود تو اسے پکنے کے بعد کھانا ہے نہ کہ کچے کو۔ اگر کچا پھل خریدا جائے گا تو پکنے تک اس پر کئی آفتیں آ سکتی ہیں۔ وہ سوکھ سکتا ہے، اسے کیڑا لگ سکتا ہے وغیرہ وغیرہ، لہٰذا کل کلاں کو تنازع پیدا ہو سکتا ہے کہ جناب پھل تو ضائع ہو گیا۔ رقم کس چیز کی دوں؟ اس قسم کے سودے میں رقم عموماً پھل کی کٹائی کے وقت ہی دی جاتی ہے، لہٰذا ان تنازعات کے پیش نظر اس قسم کی بیع سے منع فرما دیا گیا جیسا کہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے یہ بات صراحتاً فرمائی ہے، البتہ تنازع کا خطرہ نہ ہو، مثلاً: کچا پھل ہی توڑ کر استعمال کرنا ہو، جیسے کچے آم اچار کے لیے تو کوئی حرج نہیں کیونکہ یہ کچا بھی پکے کے قائم مقام ہے۔ اس کے نقصان کا بھی کوئی خطرہ نہیں۔ اسی طرح غلے والی فصل کو پکنے سے پہلے نہیں بیچا جا سکتا مگر چارے والی فصل کو کچا ہی بیچا جا سکتا ہے کیونکہ اسے کچا ہی کاٹنا ہوتا ہے۔
(2) یہاں پھل پکنے سے مراد اس کی وہ کیفیت ہے جس کے بعد اس پر آفت کا احتمال نہیں رہتا، نہ یہ کہ وہ بالکل کھانے والی حالت میں ہو، مثلاً: آم جب جسامت میں پورا ہو جاتا ہے تو اسے توڑ کر کچھ مسالا لگایا جاتا ہے جس سے وہ پک جاتا ہے اور کھانے کے قابل ہو جاتا ہے۔ تو ایسی کیفیت میں آموں کی خرید و فروخت درست ہے اگرچہ وہ کھانے کے قابل تو مسالا لگانے سے ہوں گے۔ یہی مطلب ہے ان کی صلاحیت ظاہر ہونے کا۔ گویا پھل آفت سے محفوظ ہو تو پکنے سے پہلے بھی فروخت ہو سکتا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 4523   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2214  
´استعمال کے لائق ہونے سے پہلے درخت کے کچے پھل کو بیچنا منع ہے۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پختگی ظاہر ہونے سے پہلے پھلوں کو نہ بیچو، آپ نے اس سے بیچنے والے اور خریدنے والے دونوں کو منع کیا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2214]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
درختوں پر لگا ہوا پھل خریدنا اور بیچنا درست ہے۔

(2)
  جب درختوں پر پھول آتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ پھل بہت زیادہ لگے گا لیکن ان میں سے بہت سے پھول جھڑ جاتے ہیں، اس کے بعد بسا اوقات بارش سے بھی خراب ہو جاتے ہیں۔
جو پھل ان سب آفتوں سے بچ جاتے ہیں، خریدنے والے کو اصل میں وہی ملتے ہیں، اس لیے باغ کا پھل اس وقت بیچنا چاہیے جب یہ مراحل گزر جائیں اور واضح اندازہ ہو سکے کہ اس قدر پھل حاصل ہونے کی توقع ہے۔
اسی بات کو حدیث میں پھل کی صلاحیت ظاہرنے سے تعبیر کیا گیا ہے۔

(3)
جو پھل کچے بھی استعمال ہوتے ہیں انہیں بھی اس وقت بیچنا اور خریدنا چاہیے جب وہ قابل استعمال ہو جائیں یا اس کے قریب ہو جائیں۔

(4)
اگر پھل اس وقت بیچا گیا جب عام طور پر وہ خطرات کی زد سے باہر ہو جاتا ہے لیکن خلاف توقع بارش، آندھی یا زلزلے وغیرہ سے نقصان ہوگیا تو بیچنے والے کو چاہیے کہ خریدار کو قیمت میں مناسب حد تک رعایت دے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2214   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.