الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: طلاق اور لعان کے احکام و مسائل
The Book on Divorce and Li'an
8. باب مَا جَاءَ فِيمَنْ يُحَدِّثُ نَفْسَهُ بِطَلاَقِ امْرَأَتِهِ
8. باب: جو شخص دل میں اپنی بیوی کی طلاق کا خیال لائے تو کیسا ہے؟
حدیث نمبر: 1183
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا ابو عوانة، عن قتادة، عن زرارة بن اوفى، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " تجاوز الله لامتي ما حدثت به انفسها، ما لم تكلم به، او تعمل به ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند اهل العلم، ان الرجل إذا حدث نفسه بالطلاق لم يكن شيء حتى يتكلم به.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " تَجَاوَزَ اللَّهُ لِأُمَّتِي مَا حَدَّثَتْ بِهِ أَنْفُسَهَا، مَا لَمْ تَكَلَّمْ بِهِ، أَوْ تَعْمَلْ بِهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، أَنَّ الرَّجُلَ إِذَا حَدَّثَ نَفْسَهُ بِالطَّلَاقِ لَمْ يَكُنْ شَيْءٌ حَتَّى يَتَكَلَّمَ بِهِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے میری امت کے خیالات کو جو دل میں آتے ہیں معاف فرما دیا ہے جب تک کہ وہ انہیں زبان سے ادا نہ کرے، یا ان پر عمل نہ کرے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ آدمی جب اپنے دل میں طلاق کا خیال کر لے تو کچھ نہیں ہو گا، جب تک کہ وہ منہ سے نہ کہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/العتق 6 (2528)، والطلاق 11 (5265)، والأیمان والنذور 15 (6664)، صحیح مسلم/الإیمان 58 (201)، سنن ابی داود/ الطلاق 15 (2209)، سنن النسائی/الطلاق 22 (3464)، سنن ابن ماجہ/الطلاق 14 (2040)، مسند احمد (2/392، 425، 474، 481، 491) (تحفة الأشراف: 12896) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دل میں پیدا ہونے والے خیالات اور گزرنے والے وسوسے مواخذہ کے قابل گرفت نہیں، مثلاً کسی کے دل میں کسی لڑکی سے شادی یا اپنی بیوی کو طلاق دینے کا خیال آئے تو محض دل میں خیال آنے سے یہ باتیں واقع نہیں ہوں گی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2040)

   صحيح البخاري6664عبد الرحمن بن صخرالله تجاوز لأمتي عما وسوست أو حدثت به أنفسها ما لم تعمل به أو تكلم
   صحيح البخاري5269عبد الرحمن بن صخرتجاوز عن أمتي ما حدثت به أنفسها ما لم تعمل أو تتكلم
   صحيح البخاري2528عبد الرحمن بن صخرالله تجاوز لي عن أمتي ما وسوست به صدورها ما لم تعمل أو تكلم
   صحيح مسلم332عبد الرحمن بن صخرالله تجاوز لأمتي عما حدثت به أنفسها ما لم تعمل أو تكلم به
   صحيح مسلم331عبد الرحمن بن صخرالله تجاوز لأمتي ما حدثت به أنفسها ما لم يتكلموا أو يعملوا به
   جامع الترمذي1183عبد الرحمن بن صخرتجاوز الله لأمتي ما حدثت به أنفسها ما لم تكلم به أو تعمل به
   سنن أبي داود2209عبد الرحمن بن صخرتجاوز لأمتي عما لم تتكلم به أو تعمل به وبما حدثت به أنفسها
   سنن النسائى الصغرى3465عبد الرحمن بن صخرالله تجاوز لأمتي عما حدثت به أنفسها ما لم تكلم أو تعمل به
   سنن النسائى الصغرى3463عبد الرحمن بن صخرالله تجاوز عن أمتي كل شيء حدثت به أنفسها ما لم تكلم به أو تعمل
   سنن النسائى الصغرى3464عبد الرحمن بن صخرالله تجاوز لأمتي ما وسوست به وحدثت به أنفسها ما لم تعمل أو تتكلم به
   سنن ابن ماجه2040عبد الرحمن بن صخرالله تجاوز لأمتي عما حدثت به أنفسها ما لم تعمل به أو تكلم به
   سنن ابن ماجه2044عبد الرحمن بن صخرالله تجاوز لأمتي عما توسوس به صدورها ما لم تعمل به أو تتكلم به ما استكرهوا عليه
   مشكوة المصابيح63عبد الرحمن بن صخرإن الله تعالى تجاوز عن امتي ما وسوست به صدورها ما لم تعمل به او تتكلم
   مسند اسحاق بن راهويه20عبد الرحمن بن صخرالله تجاوز عن أمتي ما حدثت به أنفسها ما لم تعمله أو تكلم به
   مسند اسحاق بن راهويه21عبد الرحمن بن صخرالله تجاوز عن أمتي ما حدثت به أنفسها ما لم تعمله أو تكلم به
   مسند اسحاق بن راهويه22عبد الرحمن بن صخرالله عفا عن أمتي ما حدثت به أنفسها ما لم تعمله أو تكلم به
   بلوغ المرام921عبد الرحمن بن صخر إن الله تعالى تجاوز عن أمتي ما حدثت به أنفسها ما لم تعمل أو تكلم
   مسندالحميدي1207عبد الرحمن بن صخرإن الله عز وجل تجاوز عن أمتي ما وسوست في صدورها، ما لم تعمل، أو تكلم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 63  
´وسوسہ قابل مواخذہ نہیں`
«. . . ‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى تَجَاوَزَ عَنْ أُمَّتِي مَا وَسْوَسَتْ بِهِ صُدُورُهَا مَا لم تعْمل بِهِ أَو تَتَكَلَّم» . . .»
. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت کے سینے میں جو وسوسے پیدا ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف فرما دیا ہے اس کی پکڑ نہیں کرے گا۔ جب تک کہ ان وسوسوں کے موافق عمل نہ کرے یا زبان سے کلام نہ کرے۔ اس حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/0: 63]

تخریج:
[صحيح بخاري 2528]،
[صحيح مسلم 331، 332]

فقہ الحدیث:
➊ طیبی شارح مشکوٰۃ کے کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ وسوسے کی دو قسمیں ہیں:
اول:
جو بغیر اختیار کے خود بخود دل میں پیدا ہو جاتا ہے، جس میں آدمی کا ذاتی ارادہ شامل نہیں ہوتا۔ یہ وسوسہ تمام شریعتوں میں قابل معافی ہے۔
دوم:
اپنے اختیار اور ذاتی ارادے کے ساتھ دل میں برائی کا تصور پیدا کرنا۔ یہ وسوسہ شریعت محمدیہ میں اس وقت تک قابل معافی ہے، جب تک اس وسوسے والا زبانی اظہار یا جسمانی عمل نہ کر دے۔
➋ امت محمدیہ کو سابقہ امتوں پر فضیلت حاصل ہے۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث\صفحہ نمبر: 63   
  الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 22  
´دلوں میں آنے والے خیالات پر مواخذہ نہیں`
. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ نے میری امت کے دلوں میں پیدا ہونے والے خیالات سے، جب تک وہ انہیں عملی جامہ نہ پہنا لیں یا ان کے متعلق بات نہ کر لیں، درگزر فرمایا ہے۔ [مسند اسحاق بن راهويه/كتاب العلم/حدیث: 22]
فوائد:
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ دل میں جو مختلف خیالات آتے ہیں، ان خیالات پر مواخذہ نہیں ہو گا۔ کیونکہ اس میں انسان کا اختیار نہیں ہوتا جیسا کہ:
ارشاد باری تعالیٰ:
«لاَ يُكَلِّفُ اللهُ نَفسًا» [ البقرة: 286 ]
پھر یہ خیالات اچھے بھی ہوتے ہیں اور برے بھی اور اگر خیالات گندے کاموں کی طرف دعوت دیں تو ان خیالات کو وساوس کہتے ہیں۔ اور اگر نیکی کی طرف دعوت دیں تو الہامات ہیں۔
لیکن احادیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جب انسان گناہ کا عزم کرتا ہے اور مکمل کوشش کرتا ہے اور اس میں ناکام ہو جائے تو وہ عنداللہ مجرم ہو گا۔ جیسا کہ:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جب دو مسلمان تلواریں لے کر ایک دوسرے کے مقابل آ جائیں تو قاتل اور مقتول (دونوں) جہنم میں جائیں گے۔ عرض کیا گیا: یہ تو قاتل ہے (اس لیے مجرم ہے) مقتول (کو سزا ملنے) کی کیا وجہ ہے؟ فرمایا: وہ بھی اپنے ساتھی کے قتل کی خواہش رکھتا تھا۔ [صحيح بخاري، رقم: 8083]
بعض اوقات انسان مجبوراً اپنی زبان سے ایسے کلمات کہتا ہے لیکن دل سے انکا اقرار نہیں کرتا تو ایسے انسان پر بھی مواخذہ نہیں ہےجیسا کہ:
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
«مَن كَفَرَ بِاللهِ مِن بَعدِ اِيمانِه اِلامَن اُكرِهَ وَ قَلبُه’مُطمَىن بِالاِيمَانِ» [النحل: 106]
جو شخص اپنے ایمان کے بعد اللہ سے کفر کرے بجز اس کے جس پر جبر کیا جائے اور اس کا دل ایمان پر برقرار ہو۔
اسی طرح بعض چیزیں ایسی ہیں کہ اگر ان کا اظہار زبان سے نہ بھی کیا جائے تو اس کی جزا و سزا ملتی ہے۔ مثلاً:
اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اور مسلمانوں سے محبت کرنا، اللہ ذوالجلال کے شعار کا احترام کرنا ثواب ہے اور اسی طرح برے کام سے نفرت کرنا بھی ثواب ہے۔ ان کا تعلق دل سے ہی ہے۔ اگر انسان اظہار نہ بھی کرے تو عنداللہ مجور ہو گا۔
   مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث\صفحہ نمبر: 22   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2040  
´دل میں طلاق دینے اور زبان سے کچھ نہ کہنے کے حکم کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے میری امت سے معاف کر دیا ہے جو وہ دل میں سوچتے ہیں جب تک کہ اس پہ عمل نہ کریں، یا اسے زبان سے نہ کہیں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطلاق/حدیث: 2040]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  انسان کےدل میں مختلف خیالات آتے رہتے ہیں جن میں اچھے خیالات بھی ہوتے ہیں اوربرے بھی۔
یہ جب تک خیالات کی حدتک رہیں ان پر مؤاخذہ نہیں ہے۔

(2)
  جب خیال عزم کے درجے پر پہنچ جائے تو نیک عزم کا ثواب ہوتا ہے۔
اسی طرح ایک شخص برے کام کا پروگرام بناتا ہے لیکن کسی وجہ سے وہ پروگرام ناکام ہوجاتا ہے تو اس نے جس حد تک کوشش کی ہے اس کا گناہ ہوگا، مثلاً:
ایک شخص پر قاتلانہ حملہ کیا لیکن وہ بچ گیا تو حملہ آور کو گناہ بہر حال ہوگا اگرچہ وہ قتل نہیں کرسکا۔
ارشاد نبوی ہے:
جب دو مسلمان تلواریں لے کر ایک دوسرے کے مقابل آ جائیں تو قاتل اور مقتول (دونوں)
جہنم میں جائیں گے۔
عرض کیا گیا:
یہ تو قاتل ہے (اس لیے مجرم ہے)
مقتول(کو سزا ملنے)
کی کیا وجہ ہے؟ فرمایا:
وہ بھی اپنے ساتھی کے قتل کی شدید خواہش رکھتا تھا۔ (صحیح البخاري، الفتن، باب إذا التقی المسلمان بسیفیهما، حدیث: 7083)

(3)
  بعض اعمال کا تعلق صرف دل سے ہے، مثلاً محبت، نفرت، خوف وغیرہ، ان میں سے جو چیزدل میں بیٹھ جاتی ہے اور دوسرے اعمال پراثر انداز ہوتی ہے، اس پر ثواب و عذاب ملتا ہے، مثلاً:
اللہ سے محبت، رسول اللہﷺ سے محبت، قرآن کا احترام، یا کسی نیک کام سے نفرت یا کسی نیک آدمی سے بغض وغیرہ۔
ایمان، کفر، اخلاص اور نفاق کا تعلق اسی قسم سے ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2040   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 921  
´طلاق کا بیان`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے میری امت سے دل کے وسوسہ (پر گرفت و مؤاخذہ) سے درگزر فرما دیا ہے۔ اور یہ اس وقت تک نہیں ہو گا جب تک کوئی زبان سے نہ کہے اور عمل نہ کرے۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 921»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الطلاق، باب الطلاق في الإغلاق...، حديث:5269، ومسلم، الإيمان، باب تجاوز الله عن حديث النفس والخواطر بالقلب إذا لم تستقر، حديث:127.»
تشریح:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دل میں پیدا ہونے والے خیالات اور وسوسے قابل مؤاخذہ نہیں‘ مثلاً: کسی کے دل میں عورت کو طلاق دینے کا خیال آیا یا کسی لڑکی سے نکاح کا ارادہ کیا تو محض خیالات اور ارادے سے یہ باتیں واقع نہیں ہو جاتیں‘ البتہ اگر انسان دل میں پیدا ہونے والے وسوسوں کا عملاً اظہار کرے یا زبان سے اقرار کرے تو یہ قابلِ مؤاخذہ ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 921   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1183  
´جو شخص دل میں اپنی بیوی کی طلاق کا خیال لائے تو کیسا ہے؟`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے میری امت کے خیالات کو جو دل میں آتے ہیں معاف فرما دیا ہے جب تک کہ وہ انہیں زبان سے ادا نہ کرے، یا ان پر عمل نہ کرے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الطلاق واللعان/حدیث: 1183]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث سے معلوم ہواکہ دل میں پیداہونے والے خیالات اورگزرنے والے وسوسے مؤاخذہ کے قابل گرفت نہیں،
مثلاً کسی کے دل میں کسی لڑکی سے شادی یا اپنی بیوی کوطلاق دینے کاخیال آئے تومحض دل میں خیال آنے سے یہ باتیں واقع نہیں ہوں گی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1183   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2209  
´دل میں طلاق کے خیال آنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے میری امت سے ان چیزوں کو معاف کر دیا ہے جنہیں وہ زبان پر نہ لائے یا ان پر عمل نہ کرے، اور ان چیزوں کو بھی جو اس کے دل میں گزرے ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2209]
فوائد ومسائل:
محض خیال کرنے سے یا دل میں پیچ وتاب کھاتے ہوئے طلاق دینا جبکہ زبان سے کچھ نہ بولا ہو طلاق نہیں ہوتی۔
لیکن اپنے ان جذبات وخیالات کو کسی واضح تحریر میں نقل کریا ہو تو طلاق ہوجائے گی کیونکہ ہاتھ کا لکھنا عمل ہے۔
خواہ بیوی کو تحریر دے یا دیے بغیر ہی ضائع کردے تو طلاق ہوجائے گی۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2209   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.