وقالت ام الدرداء: كان ابو الدرداء، يقول: عندكم طعام؟ فإن قلنا: لا، قال: فإني صائم يومي هذا، وفعله ابو طلحة، وابو هريرة، وابن عباس، وحذيفة رضي الله عنهم.وَقَالَتْ أُمَّ الدَّرْدَاءِ: كَانَ أَبُو الدَّرْدَاءِ، يَقُولُ: عِنْدَكُمْ طَعَامٌ؟ فَإِنْ قُلْنَا: لَا، قَالَ: فَإِنِّي صَائِمٌ يَوْمِي هَذَا، وَفَعَلَهُ أَبُو طَلْحَةَ، وَأَبُو هُرَيْرَةَ، وَابْنُ عَبَّاسٍ، وَحُذَيْفَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ.
اور ام الدرداء رضی اللہ عنہا نے کہا کہ ابودرداء رضی اللہ عنہ ان سے پوچھتے کیا کچھ کھانا تمہارے پاس ہے؟ اگر ہم جواب دیتے کہ کچھ نہیں تو کہتے پھر آج میرا روزہ رہے گا۔ اسی طرح ابوطلحہ، ابوہریرہ، ابن عباس اور حذیفہ رضی اللہ عنہم نے بھی کیا۔
حدثنا ابو عاصم، عن يزيد بن ابي عبيد، عن سلمة بن الاكوع رضي الله عنه،" ان النبي صلى الله عليه وسلم بعث رجلا ينادي في الناس يوم عاشوراء: إن من اكل فليتم، او فليصم، ومن لم ياكل فلا ياكل".حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،" أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ رَجُلًا يُنَادِي فِي النَّاسِ يَوْمَ عَاشُورَاءَ: إِنَّ مَنْ أَكَلَ فَلْيُتِمَّ، أَوْ فَلْيَصُمْ، وَمَنْ لَمْ يَأْكُلْ فَلَا يَأْكُلْ".
ہم سے ابوعاصم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یزید بن ابی عبید نے بیان کیا، ان سے سلمہ بن اکوع نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورہ کے دن ایک شخص کو یہ اعلان کرنے کے لیے بھیجا کہ جس نے کھانا کھا لیا وہ اب (دن ڈوبنے تک روزہ کی حالت میں) پورا کرے یا (یہ فرمایا کہ) روزہ رکھے اور جس نے نہ کھایا ہو (تو وہ روزہ رکھے) کھانا نہ کھائے۔
Narrated Salama bin Al-Akwa`: Once the Prophet ordered a person on 'Ashura' (the tenth of Muharram) to announce, "Whoever has eaten, should not eat any more, but fast, and who has not eaten should not eat, but complete his fast (till the end of the day).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 31, Number 147
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1924
1924. حضرت سلمہ بن اکوع ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک شخص کو عاشوراء کے دن یہ منادی کرن کے لیے بھیجا: ” آج جس شخص نے کچھ کھالیاہے وہ شام تک مزید نہ کھائے، یعنی وہ روزہ مکمل کرے، یا فرمایا: وہ روزہ رکھے اور جس نے نہیں کھایا وہ(شام تک کچھ) نہ کھائے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:1924]
حدیث حاشیہ: مقصد باب یہ ہے کہ کسی شخص نے فجر کے بعد کچھ نہ کھایا پیا ہو اور اسی حالت میں روزہ کی نیت دن میں بھی کرلے تو روزہ ہو جائے گا مگر یہ اجازت نفل روزہ کے لیے ہے، فرض روزہ کی نیت رات ہی میں سحری کے وقت ہونی چاہئے۔ حدیث میں عاشورہ کے روزہ کا ذکر ہے جو رمضان کی فرضیت سے قبل فرض تھا۔ بعد میں محض نفل کی حیثیت میں رہ گیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 1924
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1924
1924. حضرت سلمہ بن اکوع ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک شخص کو عاشوراء کے دن یہ منادی کرن کے لیے بھیجا: ” آج جس شخص نے کچھ کھالیاہے وہ شام تک مزید نہ کھائے، یعنی وہ روزہ مکمل کرے، یا فرمایا: وہ روزہ رکھے اور جس نے نہیں کھایا وہ(شام تک کچھ) نہ کھائے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:1924]
حدیث حاشیہ: (1) امام بخاری ؒ نے فیصلہ کن عنوان قائم نہیں کیا، البتہ پیش کردہ معلق اور متصل روایات سے ان کے رجحان کا پتہ چلتا ہے کہ وہ روزے کے لیے رات کو نیت کرنا ضروری خیال نہیں کرتے بلکہ ان حضرات کی تردید کرنا چاہتے ہیں جو فرض روزے کے لیے رات کے وقت نیت کرنے کو ضروری قرار دیتے ہیں۔ وہ اس طرح کہ مذکورہ روایات میں مطلق نیت کا ذکر ہے۔ اس میں فرض یا نفل روزوں کی کوئی تخصیص نہیں۔ لیکن جمہور علماء نے امام بخاری کے اس موقف سے اتفاق نہیں کیا بلکہ انہوں نے کہا ہے کہ فرض روزے کے لیے رات ہی سے نیت کرنا ضروری ہے، رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ”جس نے فجر، یعنی صبح صادق سے پہلے روزے کی پختہ نیت نہ کی اس کا روزہ نہیں ہے۔ “(سنن أبي داود، الصوم، حدیث: 2454) پھر حدیث میں ہے کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ (صحیح البخاري، بدءالوحي، حدیث: 1)(2) البتہ نفل روزے کی زوال سے پہلے بھی نیت کی جا سکتی ہے جیسا کہ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ”کیا تمہارے پاس کوئی چیز ہے؟“ ہم نے کہا: نہیں۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا: ”تب میں روزہ دار ہوں۔ “ پھر آپ دوسرے دن ہمارے پاس آئے تو ہم نے کہا: اللہ کے رسول! ہمیں کچھ حلوہ بطور ہدیہ بھیجا گیا ہے۔ آپ نے فرمایا: ”وہ مجھے دکھاؤ، بےشک میں نے روزے کی حالت میں صبح کی ہے، پھر آپ نے وہ حلوہ کھا لیا۔ “(صحیح مسلم، الصیام، حدیث: 2714(1154)(2) امام بخاری ؒ کی پیش کردہ حدیث عاشوراء سے متعلق ہے جو فرض نہیں، نیز اس میں دوپہر سے پہلے کھانے والوں کو بھی روزہ پورا کرنے کا حکم ہے جو عاشوراء کے لیے خصوصیت کا باعث ہے کیونکہ عام روزے کی دوپہر کے وقت نیت کی جا سکتی ہے بشرطیکہ صبح کے بعد آدمی نے کچھ کھایا پیا نہ ہو۔ (3) واضح رہے کہ نیت محض دل کے ارادے کا نام ہے، اسے زبان سے ادا کرنے کی ضرورت نہیں، لہذا وبصوم غد نويت من شهر رمضان کے الفاظ کسی حدیث سے ثابت نہیں ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1924