صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اس بیان میں کہ مخلوق کی پیدائش کیونکر شروع ہوئی
The Book of The Beginning of Creation
6. بَابُ ذِكْرِ الْمَلاَئِكَةِ:
6. باب: فرشتوں کا بیان۔
(6) Chapter. The reference to angels.
حدیث نمبر: 3207
Save to word مکررات اعراب English
حدثنا هدبة بن خالد، حدثنا همام، عن قتادة، وقال لي خليفة، حدثنا يزيد بن زريع، حدثنا سعيد وهشام، قالا: حدثنا قتادة، حدثنا انس بن مالك، عن مالك بن صعصعة رضي الله عنهما، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم:" بينا انا عند البيت بين النائم واليقظان، وذكر بين الرجلين فاتيت بطست من ذهب ملئ حكمة وإيمانا فشق من النحر إلى مراق البطن، ثم غسل البطن بماء زمزم، ثم ملئ حكمة وإيمانا واتيت بدابة ابيض دون البغل، وفوق الحمار البراق فانطلقت مع جبريل حتى اتينا السماء الدنيا، قيل: من هذا؟، قال: جبريل، قيل: من معك؟، قيل: محمد، قيل: وقد ارسل إليه، قال: نعم، قيل: مرحبا به ولنعم المجيء جاء، فاتيت على آدم فسلمت عليه، فقال: مرحبا بك من ابن ونبي، فاتينا السماء الثانية، قيل: من هذا؟، قال: جبريل، قيل: من معك؟، قال: محمد صلى الله عليه وسلم، قيل: ارسل إليه، قال: نعم، قيل: مرحبا به ولنعم المجيء جاء، فاتيت على عيسى ويحيى، فقالا: مرحبا بك من اخ ونبي، فاتينا السماء الثالثة، قيل: من هذا؟، قيل: جبريل، قيل: من معك؟، قيل: محمد، قيل: وقد ارسل إليه، قال: نعم، قيل مرحبا به ولنعم المجيء جاء، فاتيت يوسف فسلمت عليه، قال: مرحبا بك من اخ ونبي، فاتينا السماء الرابعة، قيل: من هذا؟، قال: جبريل، قيل: من معك؟، قيل: محمد صلى الله عليه وسلم، قيل: وقد ارسل إليه، قيل: نعم، قيل: مرحبا به ولنعم المجيء جاء، فاتيت على إدريس فسلمت عليه، فقال: مرحبا بك من اخ ونبي، فاتينا السماء الخامسة، قيل: من هذا؟، قال: جبريل، قيل: ومن معك؟، قيل: محمد صلى الله عليه وسلم، قيل: وقد ارسل إليه، قال: نعم، قيل: مرحبا به ولنعم المجيء جاء، فاتينا على هارون فسلمت عليه، فقال: مرحبا بك من اخ ونبي، فاتينا على السماء السادسة، قيل: من هذا؟، قيل: جبريل، قيل: من معك؟، قيل: محمد صلى الله عليه وسلم، قيل: وقد ارسل إليه مرحبا به ولنعم المجيء جاء، فاتيت على موسى فسلمت عليه، فقال: مرحبا بك من اخ ونبي فلما جاوزت بكى، فقيل: ما ابكاك؟، قال: يا رب هذا الغلام الذي بعث بعدي يدخل الجنة من امته افضل مما يدخل من امتي، فاتينا السماء السابعة، قيل: من هذا؟، قيل: جبريل، قيل: من معك؟، قيل: محمد، قيل: وقد ارسل إليه مرحبا به ولنعم المجيء جاء، فاتيت على إبراهيم فسلمت عليه، فقال: مرحبا بك من ابن ونبي فرفع لي البيت المعمور، فسالت جبريل، فقال: هذا البيت المعمور يصلي فيه كل يوم سبعون الف ملك إذا خرجوا لم يعودوا إليه آخر ما عليهم ورفعت لي سدرة المنتهى، فإذا نبقها كانه قلال هجر وورقها كانه آذان الفيول في اصلها اربعة انهار نهران باطنان ونهران ظاهران، فسالت جبريل، فقال: اما الباطنان ففي الجنة واما الظاهران النيل والفرات، ثم فرضت علي خمسون صلاة فاقبلت حتى جئت موسى، فقال: ما صنعت، قلت: فرضت علي خمسون صلاة، قال: انا اعلم بالناس منك عالجت بني إسرائيل اشد المعالجة، وإن امتك لا تطيق فارجع إلى ربك فسله فرجعت فسالته فجعلها اربعين، ثم مثله، ثم ثلاثين، ثم مثله فجعل عشرين، ثم مثله فجعل عشرا فاتيت موسى، فقال: مثله فجعلها خمسا فاتيت موسى، فقال: ما صنعت، قلت: جعلها خمسا، فقال: مثله، قلت: سلمت بخير فنودي إني قد امضيت فريضتي وخففت، عن عبادي واجزي الحسنة عشرا، وقال همام، عن قتادة، عن الحسن عن ابي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم في البيت المعمور.
حَدَّثَنَا هُدْبَةُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، وقَالَ لِي خَلِيفَةُ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ وَهِشَامٌ، قَالَا: حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ صَعْصَعَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" بَيْنَا أَنَا عِنْدَ الْبَيْتِ بَيْنَ النَّائِمِ وَالْيَقْظَانِ، وَذَكَرَ بَيْنَ الرَّجُلَيْنِ فَأُتِيتُ بِطَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ مُلِئَ حِكْمَةً وَإِيمَانًا فَشُقَّ مِنَ النَّحْرِ إِلَى مَرَاقِّ الْبَطْنِ، ثُمَّ غُسِلَ الْبَطْنُ بِمَاءِ زَمْزَمَ، ثُمَّ مُلِئَ حِكْمَةً وَإِيمَانًا وَأُتِيتُ بِدَابَّةٍ أَبْيَضَ دُونَ الْبَغْلِ، وَفَوْقَ الْحِمَارِ الْبُرَاقُ فَانْطَلَقْتُ مَعَ جِبْرِيلَ حَتَّى أَتَيْنَا السَّمَاءَ الدُّنْيَا، قِيلَ: مَنْ هَذَا؟، قَالَ: جِبْرِيلُ، قِيلَ: مَنْ مَعَكَ؟، قِيلَ: مُحَمَّدٌ، قِيلَ: وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ، قَالَ: نَعَمْ، قِيلَ: مَرْحَبًا بِهِ وَلَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ، فَأَتَيْتُ عَلَى آدَمَ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِكَ مِنَ ابْنٍ وَنَبِيٍّ، فَأَتَيْنَا السَّمَاءَ الثَّانِيَةَ، قِيلَ: مَنْ هَذَا؟، قَالَ: جِبْرِيلُ، قِيلَ: مَنْ مَعَكَ؟، قَالَ: مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قِيلَ: أُرْسِلَ إِلَيْهِ، قَالَ: نَعَمْ، قِيلَ: مَرْحَبًا بِهِ وَلَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ، فَأَتَيْتُ عَلَى عِيسَى وَيَحْيَى، فَقَالَا: مَرْحَبًا بِكَ مِنْ أَخٍ وَنَبِيٍّ، فَأَتَيْنَا السَّمَاءَ الثَّالِثَةَ، قِيلَ: مَنْ هَذَا؟، قِيلَ: جِبْرِيلُ، قِيلَ: مَنْ مَعَكَ؟، قِيلَ: مُحَمَّدٌ، قِيلَ: وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ، قَالَ: نَعَمْ، قِيلَ مَرْحَبًا بِهِ وَلَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ، فَأَتَيْتُ يُوسُفَ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، قَالَ: مَرْحَبًا بِكَ مِنْ أَخٍ وَنَبِيٍّ، فَأَتَيْنَا السَّمَاءَ الرَّابِعَةَ، قِيلَ: مَنْ هَذَا؟، قَالَ: جِبْرِيلُ، قِيلَ: مَنْ مَعَكَ؟، قِيلَ: مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قِيلَ: وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ، قِيلَ: نَعَمْ، قِيلَ: مَرْحَبًا بِهِ وَلَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ، فَأَتَيْتُ عَلَى إِدْرِيسَ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِكَ مِنْ أَخٍ وَنَبِيٍّ، فَأَتَيْنَا السَّمَاءَ الْخَامِسَةَ، قِيلَ: مَنْ هَذَا؟، قَالَ: جِبْرِيلُ، قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟، قِيلَ: مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قِيلَ: وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ، قَالَ: نَعَمْ، قِيلَ: مَرْحَبًا بِهِ وَلَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ، فَأَتَيْنَا عَلَى هَارُونَ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِكَ مِنْ أَخٍ وَنَبِيٍّ، فَأَتَيْنَا عَلَى السَّمَاءِ السَّادِسَةِ، قِيلَ: مَنْ هَذَا؟، قِيلَ: جِبْرِيلُ، قِيلَ: مَنْ مَعَكَ؟، قِيلَ: مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قِيلَ: وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ مَرْحَبًا بِهِ وَلَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ، فَأَتَيْتُ عَلَى مُوسَى فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِكَ مِنْ أَخٍ وَنَبِيٍّ فَلَمَّا جَاوَزْتُ بَكَى، فَقِيلَ: مَا أَبْكَاكَ؟، قَالَ: يَا رَبِّ هَذَا الْغُلَامُ الَّذِي بُعِثَ بَعْدِي يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِهِ أَفْضَلُ مِمَّا يَدْخُلُ مِنْ أُمَّتِي، فَأَتَيْنَا السَّمَاءَ السَّابِعَةَ، قِيلَ: مَنْ هَذَا؟، قِيلَ: جِبْرِيلُ، قِيلَ: مَنْ مَعَكَ؟، قِيلَ: مُحَمَّدٌ، قِيلَ: وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ مَرْحَبًا بِهِ وَلَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ، فَأَتَيْتُ عَلَى إِبْرَاهِيمَ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِكَ مِنَ ابْنٍ وَنَبِيٍّ فَرُفِعَ لِي الْبَيْتُ الْمَعْمُورُ، فَسَأَلْتُ جِبْرِيلَ، فَقَالَ: هَذَا الْبَيْتُ الْمَعْمُورُ يُصَلِّي فِيهِ كُلَّ يَوْمٍ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ إِذَا خَرَجُوا لَمْ يَعُودُوا إِلَيْهِ آخِرَ مَا عَلَيْهِمْ وَرُفِعَتْ لِي سِدْرَةُ الْمُنْتَهَى، فَإِذَا نَبِقُهَا كَأَنَّهُ قِلَالُ هَجَرَ وَوَرَقُهَا كَأَنَّهُ آذَانُ الْفُيُولِ فِي أَصْلِهَا أَرْبَعَةُ أَنْهَارٍ نَهْرَانِ بَاطِنَانِ وَنَهْرَانِ ظَاهِرَانِ، فَسَأَلْتُ جِبْرِيلَ، فَقَالَ: أَمَّا الْبَاطِنَانِ فَفِي الْجَنَّةِ وَأَمَّا الظَّاهِرَانِ النِّيلُ وَالْفُرَاتُ، ثُمَّ فُرِضَتْ عَلَيَّ خَمْسُونَ صَلَاةً فَأَقْبَلْتُ حَتَّى جِئْتُ مُوسَى، فَقَالَ: مَا صَنَعْتَ، قُلْتُ: فُرِضَتْ عَلَيَّ خَمْسُونَ صَلَاةً، قَالَ: أَنَا أَعْلَمُ بِالنَّاسِ مِنْكَ عَالَجْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَشَدَّ الْمُعَالَجَةِ، وَإِنَّ أُمَّتَكَ لَا تُطِيقُ فَارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَسَلْهُ فَرَجَعْتُ فَسَأَلْتُهُ فَجَعَلَهَا أَرْبَعِينَ، ثُمَّ مِثْلَهُ، ثُمَّ ثَلَاثِينَ، ثُمَّ مِثْلَهُ فَجَعَلَ عِشْرِينَ، ثُمَّ مِثْلَهُ فَجَعَلَ عَشْرًا فَأَتَيْتُ مُوسَى، فَقَالَ: مِثْلَهُ فَجَعَلَهَا خَمْسًا فَأَتَيْتُ مُوسَى، فَقَالَ: مَا صَنَعْتَ، قُلْتُ: جَعَلَهَا خَمْسًا، فَقَالَ: مِثْلَهُ، قُلْتُ: سَلَّمْتُ بِخَيْرٍ فَنُودِيَ إِنِّي قَدْ أَمْضَيْتُ فَرِيضَتِي وَخَفَّفْتُ، عَنْ عِبَادِي وَأَجْزِي الْحَسَنَةَ عَشْرًا، وَقَالَ هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ الْحَسَنِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْبَيْتِ الْمَعْمُورِ.
ہم سے ہدبۃ بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمام نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، کہا ہم سے سعید بن ابی عروبہ اور ہشام دستوائی نے بیان کیا، کہا ہم سے قتادہ نے بیان کیا، کہا ہم سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا اور ان سے مالک بن صعصعہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں ایک دفعہ بیت اللہ کے قریب نیند اور بیداری کی درمیانی حالت میں تھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو آدمیوں کے درمیان لیٹے ہوئے ایک تیسرے آدمی کا ذکر فرمایا۔ اس کے بعد میرے پاس سونے کا ایک طشت لایا گیا، جو حکمت اور ایمان سے بھرپور تھا۔ میرے سینے کو پیٹ کے آخری حصے تک چاک کیا گیا۔ پھر میرا پیٹ زمزم کے پانی سے دھویا گیا اور اسے حکمت اور ایمان سے بھر دیا گیا۔ اس کے بعد میرے پاس ایک سواری لائی گئی۔ سفید، خچر سے چھوٹی اور گدھے سے بڑی یعنی براق، میں اس پر سوار ہو کر جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ چلا۔ جب ہم آسمان دنیا پر پہنچے تو پوچھا گیا کہ یہ کون صاحب ہیں؟ انہوں نے کہا کہ جبرائیل۔ پوچھا گیا کہ آپ کے ساتھ اور کون صاحب آئے ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پوچھا گیا کہ کیا انہیں بلانے کے لیے آپ کو بھیجا گیا تھا؟ انہوں نے کہا کہ ہاں، اس پر جواب آیا کہ اچھی کشادہ جگہ آنے والے کیا ہی مبارک ہیں، پھر میں آدم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور انہیں سلام کیا۔ انہوں نے فرمایا، آؤ پیارے بیٹے اور اچھے نبی۔ اس کے بعد ہم دوسرے آسمان پر پہنچے یہاں بھی وہی سوال ہوا۔ کون صاحب ہیں؟ کہا جبرائیل، سوال ہوا، آپ کے ساتھ کوئی اور صاحب بھی آئے ہیں؟ کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، سوال ہوا انہیں بلانے کے لیے آپ کو بھیجا گیا تھا؟ کہا کہ ہاں۔ اب ادھر سے جواب آیا، اچھی کشادہ جگہ آئے ہیں، آنے والے کیا ہی مبارک ہیں۔ اس کے بعد میں عیسیٰ اور یحییٰ علیہ السلام سے ملا، ان حضرات نے بھی خوش آمدید، مرحبا کہا اپنے بھائی اور نبی کو۔ پھر ہم تیسرے آسمان پر آئے یہاں بھی سوال ہوا کون صاحب ہیں؟ جواب ملا جبرائیل، سوال ہوا، آپ کے ساتھ بھی کوئی ہے؟ کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، سوال ہوا، انہیں بلانے کے لیے آپ کو بھیجا گیا تھا؟ انہوں نے بتایا کہ ہاں، اب آواز آئی اچھی کشادہ جگہ آئے آنے والے کیا ہی صالح ہیں، یہاں یوسف علیہ السلام سے میں ملا اور انہیں سلام کیا، انہوں نے فرمایا، اچھی کشادہ جگہ آئے ہو میرے بھائی اور نبی، یہاں سے ہم چوتھے آسمان پر آئے اس پر بھی یہی سوال ہوا، کون صاحب، جواب دیا کہ جبرائیل، سوال ہوا، آپ کے ساتھ اور کون صاحب ہیں؟ کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ پوچھا کیا انہیں لانے کے لیے آپ کو بھیجا گیا تھا، جواب دیا کہ ہاں، پھر آواز آئی، اچھی کشادہ جگہ آئے کیا ہی اچھے آنے والے ہیں۔ یہاں میں ادریس علیہ السلام سے ملا اور سلام کیا، انہوں نے فرمایا، مرحبا، بھائی اور نبی۔ یہاں سے ہم پانچویں آسمان پر آئے۔ یہاں بھی سوال ہوا کہ کون صاحب؟ جواب دیا کہ جبرائیل، پوچھا گیا اور آپ کے ساتھ اور کون صاحب آئے ہیں؟ جواب دیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، پوچھا گیا، انہیں بلانے کے لیے بھیجا گیا تھا؟ کہا کہ ہاں، آواز آئی، اچھی کشادہ جگہ آئے ہیں۔ آنے والے کیا ہی اچھے ہیں۔ یہاں ہم ہارون علیہ السلام سے ملے اور میں نے انہیں سلام کیا۔ انہوں نے فرمایا، مبارک میرے بھائی اور نبی، تم اچھی کشادہ جگہ آئے، یہاں سے ہم چھٹے آسمان پر آئے، یہاں بھی سوال ہوا، کون صاحب؟ جواب دیا کہ جبرائیل، پوچھا گیا، آپ کے ساتھ اور بھی کوئی ہیں؟ کہا کہ ہاں محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ پوچھا گیا، کیا انہیں بلایا گیا تھا کہا ہاں، کہا اچھی کشادہ جگہ آئے ہیں، اچھے آنے والے ہیں۔ یہاں میں موسیٰ علیہ السلام سے ملا اور انہیں سلام کیا۔ انہوں نے فرمایا، میرے بھائی اور نبی اچھی کشادہ جگہ آئے، جب میں وہاں سے آگے بڑھنے لگا تو وہ رونے لگے کسی نے پوچھا بزرگوار آپ کیوں رو رہے ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ اے اللہ! یہ نوجوان جسے میرے بعد نبوت دی گئی، اس کی امت میں سے جنت میں داخل ہونے والے، میری امت کے جنت میں داخل ہونے والے لوگوں سے زیادہ ہوں گے۔ اس کے بعد ہم ساتویں آسمان پر آئے یہاں بھی سوال ہوا کہ کون صاحب ہیں؟ جواب دیا کہ جبرائیل، سوال ہوا کہ کوئی صاحب آپ کے ساتھ بھی ہیں؟ جواب دیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پوچھا، انہیں بلانے کے لیے آپ کو بھیجا گیا تھا؟ مرحبا، اچھے آنے والے۔ یہاں میں ابراہیم علیہ السلام سے ملا اور انہیں سلام کیا۔ انہوں نے فرمایا میرے بیٹے اور نبی، مبارک، اچھی کشادہ جگہ آئے ہو، اس کے بعد مجھے بیت المعمور دکھایا گیا۔ میں نے جبرائیل علیہ السلام سے اس کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے بتلایا کہ یہ بیت المعمور ہے۔ اس میں ستر ہزار فرشتے روزانہ نماز پڑھتے ہیں۔ اور ایک مرتبہ پڑھ کر جو اس سے نکل جاتا ہے تو پھر کبھی داخل نہیں ہوتا۔ اور مجھے سدرۃ المنتہیٰ بھی دکھایا گیا، اس کے پھل ایسے تھے جیسے مقام ہجر کے مٹکے ہوتے ہیں اور پتے ایسے تھے جیسے ہاتھی کے کان، اس کی جڑ سے چار نہریں نکلتی تھیں، دو نہریں تو باطنی تھیں اور دو ظاہری، میں نے جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ جو دو باطنی نہریں ہیں وہ تو جنت میں ہیں اور دو ظاہری نہریں دنیا میں نیل اور فرات ہیں، اس کے بعد مجھ پر پچاس وقت کی نمازیں فرض کی گئیں۔ میں جب واپس ہوا اور موسیٰ علیہ السلام سے ملا تو انہوں نے پوچھا کہ کیا کر کے آئے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ پچاس نمازیں مجھ پر فرض کی گئی ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ انسانوں کو میں تم سے زیادہ جانتا ہوں، بنی اسرائیل کا مجھے برا تجربہ ہو چکا ہے۔ تمہاری امت بھی اتنی نمازوں کی طاقت نہیں رکھتی، اس لیے اپنے رب کی بارگاہ میں دوبارہ حاضری دو، اور کچھ تخفیف کی درخواست کرو، میں واپس ہوا تو اللہ تعالیٰ نے نمازیں چالیس وقت کی کر دیں۔ پھر بھی موسیٰ علیہ السلام اپنی بات (یعنی تخفیف کرانے) پر مصر رہے۔ اس مرتبہ تیس وقت کی رہ گئیں۔ پھر انہوں نے وہی فرمایا اور اس مرتبہ بارگاہ رب العزت میں میری درخواست کی پیشی پر اللہ تعالیٰ نے انہیں دس کر دیا۔ میں جب موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تو اب بھی انہوں نے کم کرانے کے لیے اپنا اصرار جاری رکھا۔ اور اس مرتبہ اللہ تعالیٰ نے پانچ وقت کی کر دیں۔ اب موسیٰ علیہ السلام سے ملا، تو انہوں نے پھر دریافت فرمایا کہ کیا ہوا؟ میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے پانچ کر دی ہیں۔ اس مرتبہ بھی انہوں نے کم کرانے کا اصرار کیا۔ میں نے کہا کہ اب تو میں اللہ کے سپرد کر چکا۔ پھر آواز آئی۔ میں نے اپنا فریضہ (پانچ نمازوں کا) جاری کر دیا۔ اپنے بندوں پر تخفیف کر چکا اور میں ایک نیکی کا بدلہ دس گنا دیتا ہوں۔ اور ہمام نے کہا، ان سے قتادہ نے کہا، ان سے حسن نے، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیت المعمور کے بارے میں الگ روایت کی ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Malik bin Sasaa: The Prophet said, "While I was at the House in a state midway between sleep and wakefulness, (an angel recognized me) as the man lying between two men. A golden tray full of wisdom and belief was brought to me and my body was cut open from the throat to the lower part of the `Abdomen and then my `Abdomen was washed with Zamzam water and (my heart was) filled with wisdom and belief. Al- Buraq, a white animal, smaller than a mule and bigger than a donkey was brought to me and I set out with Gabriel. When I reached the nearest heaven. Gabriel said to the heaven gate-keeper, 'Open the gate.' The gatekeeper asked, 'Who is it?' He said, 'Gabriel.' The gate-keeper,' Who is accompanying you?' Gabriel said, 'Muhammad.' The gate-keeper said, 'Has he been called?' Gabriel said, 'Yes.' Then it was said, 'He is welcomed. What a wonderful visit his is!' Then I met Adam and greeted him and he said, 'You are welcomed O son and a Prophet.' Then we ascended to the second heaven. It was asked, 'Who is it?' Gabriel said, 'Gabriel.' It was said, 'Who is with you?' He said, 'Muhammad' It was asked, 'Has he been sent for?' He said, 'Yes.' It was said, 'He is welcomed. What a wonderful visit his is!" Then I met Jesus and Yahya (John) who said, 'You are welcomed, O brother and a Prophet.' Then we ascended to the third heaven. It was asked, 'Who is it?' Gabriel said, 'Gabriel.' It was asked, 'Who is with you? Gabriel said, 'Muhammad.' It was asked, 'Has he been sent for?' 'Yes,' said Gabriel. 'He is welcomed. What a wonderful visit his is!' (The Prophet added:). There I met Joseph and greeted him, and he replied, 'You are welcomed, O brother and a Prophet!' Then we ascended to the 4th heaven and again the same questions and answers were exchanged as in the previous heavens. There I met Idris and greeted him. He said, 'You are welcomed O brother and Prophet.' Then we ascended to the 5th heaven and again the same questions and answers were exchanged as in previous heavens. there I met and greeted Aaron who said, 'You are welcomed O brother and a Prophet". Then we ascended to the 6th heaven and again the same questions and answers were exchanged as in the previous heavens. There I met and greeted Moses who said, 'You are welcomed O brother and. a Prophet.' When I proceeded on, he started weeping and on being asked why he was weeping, he said, 'O Lord! Followers of this youth who was sent after me will enter Paradise in greater number than my followers.' Then we ascended to the seventh heaven and again the same questions and answers were exchanged as in the previous heavens. There I met and greeted Abraham who said, 'You are welcomed o son and a Prophet.' Then I was shown Al-Bait-al-Ma'mur (i.e. Allah's House). I asked Gabriel about it and he said, This is Al Bait-ul-Ma'mur where 70,000 angels perform prayers daily and when they leave they never return to it (but always a fresh batch comes into it daily).' Then I was shown Sidrat-ul-Muntaha (i.e. a tree in the seventh heaven) and I saw its Nabk fruits which resembled the clay jugs of Hajr (i.e. a town in Arabia), and its leaves were like the ears of elephants, and four rivers originated at its root, two of them were apparent and two were hidden. I asked Gabriel about those rivers and he said, 'The two hidden rivers are in Paradise, and the apparent ones are the Nile and the Euphrates.' Then fifty prayers were enjoined on me. I descended till I met Moses who asked me, 'What have you done?' I said, 'Fifty prayers have been enjoined on me.' He said, 'I know the people better than you, because I had the hardest experience to bring Bani Israel to obedience. Your followers cannot put up with such obligation. So, return to your Lord and request Him (to reduce the number of prayers.' I returned and requested Allah (for reduction) and He made it forty. I returned and (met Moses) and had a similar discussion, and then returned again to Allah for reduction and He made it thirty, then twenty, then ten, and then I came to Moses who repeated the same advice. Ultimately Allah reduced it to five. When I came to Moses again, he said, 'What have you done?' I said, 'Allah has made it five only.' He repeated the same advice but I said that I surrendered (to Allah's Final Order)'" Allah's Apostle was addressed by Allah, "I have decreed My Obligation and have reduced the burden on My slaves, and I shall reward a single good deed as if it were ten good deeds."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 54, Number 429


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
   صحيح البخاري3207بينا أنا عند البيت بين النائم واليقظان وذكر بين الرجلين فأتيت بطست من ذهب ملئ حكمة وإيمانا فشق من النحر إلى مراق البطن ثم غسل البطن بماء زمزم ثم ملئ حكمة وإيمانا وأتيت بدابة أبيض دون البغل وفوق الحمار البراق فانطلقت مع جبريل حتى أتينا السماء الدنيا

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3207 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3207  
حدیث حاشیہ:
یہ طویل حدیث واقعہ معراج سے متعلق ہے۔
امام بخاری ؒ اس کو یہاں اس لیے لائے کہ اس میں فرشتوں کا ذکر ہے اور یہ فرشتے بے شمار ہیں۔
دوسری حدیث میں ہے کہ میں آسمان میں بالشت بھر جگہ خالی نہیں جہاں ایک فرشتہ اللہ کے لیے سجدہ نہ کررہا ہو۔
واقعہ معراج کا آغاز حطیم سے ہوا۔
جہاں نبی اکرم ﷺ حضرت حمزہ ؓ اور حضرت جعفر ؓکے درمیان سوئے ہوے تھے۔
وہاں سے آپ کا یہ مبارک سفر براق کے ذریعہ شروع ہوا، جو برق بمعنی بجلی سے مشتق ہے۔
معراج برحق ہے اس کا منکر گمراہ اور خاطی ہے۔
تفصیل کے لیے کتب شروح ملاحظہ ہوں۔
وَقَالَ القَاضِي عِيَاض:
اخْتلفُوا فِي الْإِسْرَاء إِلَى السَّمَوَات، فَقيل:
إِنَّه فِي الْمَنَام، وَالْحق الَّذِي عَلَيْهِ الْجُمْهُور أَنه أسرِي بجسده. فإن قیل بین النائم والیقظان یدل علی أنه رؤیا نوم قلنا لاحجة فیه إذ قد یکون ذالك حال أول وصول الملك إلیه ولیس فیه مایدل علی کونه قائماجی القصة کلها۔
وقال الحافظ عبدالحق في الجمع بین الصححین وماروی شریك عن أنس أنه کان نائما فهو زیادة مجهولة وقد روی الحفاظ المتقون والأئمة المشهورون کابن شهاب وثابت البناني و قتادة عن أنس و لم یأت أحد منهم بها وشریك بالحافظ عنه أهل الحدیث۔
(فتح الباري)
اس طویل عبارت کا خلاصہ یہی ہے کہ معراج جسمانی ہی حق ہے۔
آپ ﷺ کی تشریف آوری پر حضرت موسیٰ ؑ کا رونا اس خوشی کی بنا پر تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس نوجوان کو مختصر عمر دینے کے باوجود اپنی نعمتوں سے کس قدر نوازا اور کیسے کیسے درجات عالیہ عطا فرمائے۔
یہ رونا فرحت سے تھا نہ کہ حسد اور بغض سے۔
فإن ذالك لایلیق بصفات الأنبیاء والأخلاق الأجلة من الأولیاء قاله الخطابي۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3207   

  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3207  
تخريج الحديث:
[103۔ البخاري فى: 59 كتاب بدء الخلق: 6 باب ذكر الملائكة 3207۔ مسلم 164، ترمذي 3346]

لغوی توضیح:
«الْبُرَاق» مشتق ہے «برق» (بجلی) سے، اس کا یہ نام اس وجہ سے ہے کہ یہ بجلی کی طرح تیز رفتار ہے۔
«بَيْتُ الْمَعْمُوْر» کعبہ کے بالمقابل آسمانوں میں فرشتوں کی عبادت گاہ۔
«قِلَالَ هَجَر» ہجر قبیلہ (جو مدینہ کے قریب واقع ہے) کے مٹکے، «قِلَال» کی واحد «قُلَّة» ہے۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 103   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3207  
حدیث حاشیہ:

یہ طویل حدیث واقعہ معراج سے متعلق ہے۔
امام بخاری ؒ نے اسے یہاں اس لیے بیان کیا ہے کہ اس میں فرشتوں کا ذکر ہے کہ وہ اس قدر کثرت سے ہیں جو حدود وشمار سے باہر ہیں۔
کثرت کا اندازہ اس امر سے لگایاجاسکتا ہے کہ بیعت المعمور میں ہرروز ستر ہزارفرشتے داخل ہوتے ہیں۔
ان میں جب کوئی فرشتہ عبادت کرکے باہر نکلتاہے تو قیامت تک اسے دوبارہ داخل ہونے کا موقع نہیں ملے گا۔
ایک دوسری حدیث میں ہے:
آسمان میں چار انگلیوں کے برابر جگہ ایسی نہیں جہاں اللہ کے حضور فرشتہ سجدہ ریز نہ ہو۔
(جامع الترمذي، الزھد، حدیث: 2312)

امام بخاری ؒ نے ملائکہ کا ذکر حضرات انبیاء ؑ سے پہلے کیا ہے، حالانکہ اس امر پر اجماع ہے کہ حضرت انبیائے کرام ؑ ملائکہ سے افضل ہیں؟ اس کی تین وجوہات بیان کی جاتی ہیں:
۔
ملائکہ کی خلقت پہلے ہے، یعنی انھیں انسانوں سے پہلے پیدا کیا گیا ہے۔
اس اعتبار سے ان کا ذکر پہلے کردیا۔
۔
قرآنی آیات اور متعدد احادیث میں ان کا ذکر انبیائے کرام ؑ سے پہلے جیسا کہ آیت کریمہ میں ہے:
ہم سب اللہ پر،اس کے فرشتوں پر،اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے۔
(جامع الترمذي، الزھد، حدیث: 2312)
۔
فرشتے، اللہ تعالیٰ اور انبیائے کرام ؑ کے درمیان ایک واسطے کی حیثیت رکھتے ہیں، بنابریں مناسب معلوم ہوا کہ ان کا ذکر انبیائے کرام ؑ سے پہلے کیا جائے۔
بہرحال ملائکہ کے حالات اور ان کی کثرت کے متعلق بہت سی احادیث کتب حدیث میں مروی ہیں۔
ان کی دوقسمیں ہیں:
ایک تو وہ ہیں جو ہروقت اللہ کی عبادت میں مصروف رہتے ہیں، گویا وہ ذات حق کی معرفت میں مستغرق ہیں۔
انھیں ملائکہ مقربین کہا جاتا ہے۔
اور دوسری وہ قسم ہے جو آسمان سے زمین تک قضا و قدر کے فیصلوں کے مطابق امورکو انجام دیتے ہیں۔
ان کی مختلف ڈیوٹیاں ہیں جن کا ذکرقرآن وحدیث میں موجود ہے۔
معراج سے متعلقہ دیگر مباحث آئندہ بیان ہوں گے۔
بہرحال معراج برحق ہے اور اس کا منکر گمراہ اور دین سے خارج ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3207   



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.