مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبدالرحمٰن بن مہدی نے اور ان کے غیر (ابوداؤد طیالسی) نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حرب بن شداد نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے جابر عبداللہ رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں غار حرا میں تنہائی اختیار کئے ہوئے تھا۔ یہ روایت بھی عثمان بن عمر کی حدیث کی طرح ہے جو انہوں نے علی بن مبارک سے بیان کی ہے۔
Narrated Jabir bin `Abdullah: The Prophet said, "I was in a seclusion in the cave of Hira........."(similar to the narration related by `Ali bin Al-Mubarak, 444 above).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 445
جاورت بحراء فلما قضيت جواري هبطت فنوديت فنظرت عن يميني فلم أر شيئا ونظرت عن شمالي فلم أر شيئا ونظرت أمامي فلم أر شيئا ونظرت خلفي فلم أر شيئا فرفعت رأسي فرأيت شيئا فأتيت خديجة فقلت دثروني وصبوا علي ماء باردا قال فدثروني وصبوا علي ماء باردا قال فنزلت يأي
جاورت في حراء فلما قضيت جواري هبطت فاستبطنت الوادي فنوديت فنظرت أمامي وخلفي وعن يميني وعن شمالي فإذا هو جالس على كرسي بين السماء والأرض فأتيت خديجة فقلت دثروني وصبوا علي ماء باردا وأنزل علي يأيها المدثر قم فأنذر وربك فكبر
بينا أنا أمشي إذ سمعت صوتا من السماء فرفعت رأسي فإذا الملك الذي جاءني بحراء جالس على كرسي بين السماء والأرض فجئثت منه رعبا فرجعت فقلت زملوني زملوني فدثروني فأنزل الله يأيها المدثر إلى والرجز فاهجر
بينا أنا أمشي سمعت صوتا من السماء فرفعت بصري قبل السماء فإذا الملك الذي جاءني بحراء قاعد على كرسي بين السماء والأرض فجئثت منه حتى هويت إلى الأرض فجئت أهلي فقلت زملوني زملوني فزملوني فأنزل الله يأيها المدثر قم فأنذر إلى قوله فاهجر
بينا أنا أمشي سمعت صوتا من السماء فرفعت بصري قبل السماء فإذا الملك الذي جاءني بحراء قاعد على كرسي بين السماء والأرض فجئثت منه حتى هويت إلى الأرض فجئت أهلي فقلت زملوني زملوني فأنزل الله يأيها المدثر قم فأنذر إلى قوله والرجز ف
بينا أنا أمشي سمعت صوتا من السماء فرفعت رأسي فإذا الملك الذي جاءني بحراء جالسا على كرسي بين السماء والأرض قال رسول الله فجئثت منه فرقا فرجعت فقلت زملوني زملوني فدثروني فأنزل الله تبارك و يأيها المدثر قم فأنذر وربك فكبر وثيابك
جاورت بحراء شهرا فلما قضيت جواري نزلت فاستبطنت بطن الوادي فنوديت فنظرت أمامي وخلفي وعن يميني وعن شمالي فلم أر أحدا ثم نوديت فنظرت فلم أر أحدا ثم نوديت فرفعت رأسي فإذا هو على العرش في الهواء يعني جبريل فأخذتني رجفة شديدة فأتيت خديجة فقلت دثرو
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 4922
´نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی پہلی وحی` «. . . عَنْ أَوَّلِ مَا نَزَلَ مِنَ الْقُرْآنِ، قَالَ: يَأَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ سورة المدثر آية 1، قُلْتُ: يَقُولُونَ: اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ . . .» ”. . . قرآن مجید کی کون سی آیت سب سے پہلے نازل ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ «يا أيها المدثر» میں نے عرض کیا کہ لوگ تو کہتے ہیں کہ «اقرأ باسم ربك الذي خلق» سب سے پہلے نازل ہوئی . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ: 4922]
تخريج الحديث: [101۔ البخاري فى: 65 كتاب التفسير: 74 سورة المدثر: باب حدثنا يحييٰ، حديث: 4922]
فھم الحدیث: ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی پہلی وحی سورہ علق کی یہ ابتدائی آیات تھیں: «اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ * خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ * اِقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ» پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شدید گھبراہٹ کی وجہ سے کچھ دیر وحی منقطع رہی۔ انقطاع وحی کی مدت کتنی تھی اس بارے میں شیخ صفی الرحمٰن مبارکپوری رحمہ اللہ نے جس بات کو صحیح کہا ہے وہ یہ ہے کہ یہ انقطاع چند دنوں کا تھا، اس سلسلے میں تین سال یا دو سال کے اقوال درست نہیں۔ [الرحيق المختوم، عربي ايڈيشن ص: 52] پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے گھبراہٹ دور ہوئی تو دوسری وحی سورہ مدثر کی ان ابتدائی آیات کی صورت میں نازل ہوئی: «يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ * قُمْ فَأَنذِرْ * وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ * وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ * وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ *»
جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث\صفحہ نمبر: 101
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4923
4923. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”میں غار حرا میں تنہائی اختیار کیے ہوئے تھا۔“ یہ روایت بھی عثمان بن عمر کی حدیث کی طرح ہے جو انہوں نے علی بن مبارک سے بیان کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4923]
حدیث حاشیہ: امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے عثمان بن عمر کی حدیث کو صحیح بخاری میں بیان نہیں کیا۔ البتہ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اس روایت کو ذکر کیا ہے۔ اس میں ہے کہ جب میں نے اوپر سر اٹھایا تو فرشتہ وحی کو دیکھا جو ایک تخت پر بیٹھا ہوا تھا اور تخت زمین و آسمان کے درمیان تھا میں نے اسے دیکھا تو مجھ پر کپکپی طاری ہو گئی۔ میں حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس آیا۔ آگے وہی قصہ بیان ہوا ہے جو پہلی حدیث میں ہے۔ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 410۔ (161) اس حدیث میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو پیغام دیا کہ اب سونے کا وقت گزر چکا ہے انھیں اور اہل مکہ کو ان کے برے انجام سے ڈرائیں جب وہ ایمان نہ لائیں۔ واللہ المستعان۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 4923