صالح اور معمر دونوں نے زہری سے اسی سند کے ساتھ حدیث بیان کی، دونوں کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا: " میں نے علیکم کہہ دیا تھا۔"اور انھوں نے اس کے ساتھ واؤ (اور) نہیں لگا یا۔
امام صاحب کو یہی روایت اور اساتذہ نے بھی اپنی اپنی سند سے سنائی، اس میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں کہہ چکا ہوں، عليكم،
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5657
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: ان حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے، عليك اور عليكم سے پہلے واؤ لانا ضروری نہیں ہے اور جہاں تک ممکن ہو، بلند اخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے، صبر و تحمل، حلم و بردباری اور نرمی و ملائمت کا رویہ اختیار کرنا چاہیے اور اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے، امام ابو حنیفہ، امام ثوری اور دوسرے کوفی فقہاء کا یہ نظریہ ہے کہ اگر ذمی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو برا بھلا کہے تو اس کو قتل نہیں کیا جائے گا اور اس کا معاہدہ بھی ختم نہیں ہو گا، کیونکہ آپ نے اہل کتاب کو السام عليكم کہنے کے باوجود قتل نہیں کیا، لیکن اگر مسلمان یہ حرکت کرے تو اسے قتل کر دیا جائے گا، امام شافعی کا ایک قول یہی ہے، لیکن موالک اور حنابلہ اور بعض شوافع کے نزدیک اس سے معاہدہ ختم ہو جائے گا اور ذمی کو قتل کر دیا جائے گا، جیسا کہ آپ نے کعب بن اشرف، ابو رافع اور ابن خطل وغیرھم کو قتل کروا دیا تھا، حافظ ابن تیمیہ نے اس موضوع پر ایک انتہائی عمدہ تفصیلی کتاب ”الصارم المسلول علی شاتم الرسول صلی الله عليه وسلم“ کے نام سے لکھی ہے اور اس میں لکھا ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے طور پر معافی اور قتل دونوں کا اختیار رکھتے تھے اور آپ نے احوال و ظروف کا لحاظ رکھتے ہوئے، دونوں کام کیے ہیں، لیکن امت مسلمہ کا کام، ایسے فرد کو قتل کرنا ہے، وہ ذمی ہو یا مسلمان۔