الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں («صفة الصلوة»)
The Book of Adhan (Sufa-tus-Salat)
161. بَابُ وُضُوءِ الصِّبْيَانِ:
161. باب: بچوں کے وضو کرنے کا بیان۔
(161) Chapter. The ablution for boys (youngsters). When they should perform Ghusl (take a bath) and Tuhur (purification). Their attendance at congregational prayers, Eid prayers and funeral prayers and their rows in the prayers.
حدیث نمبر: 863
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا عمرو بن علي، قال: حدثنا يحيى، قال: حدثنا سفيان، حدثني عبد الرحمن بن عابس، سمعت ابن عباس رضي الله عنهما قال له رجل:" شهدت الخروج مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: نعم، ولولا مكاني منه ما شهدته يعني من صغره اتى العلم الذي عند دار كثير بن الصلت، ثم خطب، ثم اتى النساء فوعظهن وذكرهن وامرهن ان يتصدقن، فجعلت المراة تهوي بيدها إلى حلقها تلقي في ثوب بلال، ثم اتى هووبلال البيت".حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَابِسٍ، سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ لَهُ رَجُلٌ:" شَهِدْتَ الْخُرُوجَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: نَعَمْ، وَلَوْلَا مَكَانِي مِنْهُ مَا شَهِدْتُهُ يَعْنِي مِنْ صِغَرِهِ أَتَى الْعَلَمَ الَّذِي عِنْدَ دَارِ كَثِيرِ بْنِ الصَّلْتِ، ثُمَّ خَطَبَ، ثُمَّ أَتَى النِّسَاءَ فَوَعَظَهُنَّ وَذَكَّرَهُنَّ وَأَمَرَهُنَّ أَنْ يَتَصَدَّقْنَ، فَجَعَلَتِ الْمَرْأَةُ تُهْوِي بِيَدِهَا إِلَى حَلْقِهَا تُلْقِي فِي ثَوْبِ بِلَالٍ، ثُمَّ أَتَى هُوَوَبِلَالٌ الْبَيْتَ".
ہم سے عمرو بن علی فلاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبدالرحمٰن بن عابس نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا اور ان سے ایک شخص نے یہ پوچھا تھا کہ کیا تم نے (عورتوں کا) نکلنا عید کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دیکھا ہے؟ انہوں نے کہا ہاں دیکھا ہے اگر میں آپ کا رشتہ دار عزیز نہ ہوتا تو کبھی نہ دیکھتا (یعنی میری کم سنی اور قرابت کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجھ کو اپنے ساتھ رکھتے تھے) کثیر بن صلت کے مکان کے پاس جو نشان ہے پہلے وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ سنایا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کے پاس تشریف لائے اور انہیں بھی وعظ و نصیحت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے خیرات کرنے کے لیے کہا، چنانچہ عورتوں نے اپنے چھلے اور انگوٹھیاں اتار اتار کر بلال رضی اللہ عنہ کے کپڑے میں ڈالنی شروع کر دیے۔ آخر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بلال رضی اللہ عنہ کے ساتھ گھر تشریف لائے۔

Narrated `Abdur Rahman bin `Abis: A person asked Ibn `Abbas, "Have you ever presented yourself at the (`Id) prayer with Allah's Apostle?" He replied, "Yes." And had it not been for my kinship (position) with the Prophet it would not have been possible for me to do so (for he was too young). The Prophet went to the mark near the house of Kathir bin As-Salt and delivered a sermon. He then went towards the women. He advised and reminded them and asked them to give alms. So the woman would bring her hand near her neck and take off her necklace and put it in the garment of Bilal. Then the Prophet and Bilal came to the house."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 12, Number 822

   صحيح البخاري29عبد الله بن عباسأريت النار فإذا أكثر أهلها النساء يكفرن العشير
   صحيح البخاري5880عبد الله بن عباسأتى النساء فجعلن يلقين الفتخ والخواتيم في ثوب بلال
   صحيح البخاري5881عبد الله بن عباسخرج النبي يوم عيد فصلى ركعتين لم يصل قبل ولا بعد ثم أتى النساء فأمرهن بالصدقة فجعلت المرأة تصدق بخرصها وسخابها
   صحيح البخاري98عبد الله بن عباسوعظهن وأمرهن بالصدقة فجعلت المرأة تلقي القرط والخاتم وبلال يأخذ في طرف ثوبه
   صحيح البخاري863عبد الله بن عباسأتى النساء فوعظهن وذكرهن وأمرهن أن يتصدقن فجعلت المرأة تهوي بيدها إلى حلقها تلقي في ثوب بلال ثم أتى هو وبلال البيت
   صحيح مسلم2044عبد الله بن عباسأنتن على ذلك فقالت امرأة واحدة لم يجبه غيرها منهن نعم يا نبي الله لا يدرى حينئذ من هي قال فتصدقن فبسط بلال ثوبه ثم قال هلم فدى لكن أبي وأمي فجعلن يلقين الفتخ والخواتم في ثوب بلال
   سنن النسائى الصغرى1494عبد الله بن عباسلم أر كاليوم منظرا قط رأيت أكثر أهلها النساء قالوا لم يا رسول الله

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 29  
´دوسرے بعض گناہوں کے ارتکاب پر بھی کفر کا لفظ بولا گیا ہے`
«. . . قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أُرِيتُ النَّارَ فَإِذَا أَكْثَرُ أَهْلِهَا النِّسَاءُ يَكْفُرْنَ، قِيلَ: أَيَكْفُرْنَ بِاللَّهِ، قَالَ: يَكْفُرْنَ الْعَشِيرَ، وَيَكْفُرْنَ الْإِحْسَانَ لَوْ أَحْسَنْتَ إِلَى إِحْدَاهُنَّ الدَّهْرَ، ثُمَّ رَأَتْ مِنْكَ شَيْئًا، قَالَتْ: مَا رَأَيْتُ مِنْكَ خَيْرًا قَطُّ . . .»
. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے دوزخ دکھلائی گئی تو اس میں زیادہ تر عورتیں تھیں جو کفر کرتی ہیں۔ کہا گیا یا رسول اللہ! کیا وہ اللہ کے ساتھ کفر کرتی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خاوند کی ناشکری کرتی ہیں۔ اور احسان کی ناشکری کرتی ہیں۔ اگر تم عمر بھر ان میں سے کسی کے ساتھ احسان کرتے رہو۔ پھر تمہاری طرف سے کبھی کوئی ان کے خیال میں ناگواری کی بات ہو جائے تو فوراً کہہ اٹھے گی کہ میں نے کبھی بھی تجھ سے کوئی بھلائی نہیں دیکھی . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 29]

تشریح:
حضرت امام المحدثین قدس سرہ یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ کفر دو طرح کا ہوتا ہے ایک تو کفر حقیقی ہے جس کی وجہ سے آدمی اسلام سے نکل جاتا ہے۔ دوسرے بعض گناہوں کے ارتکاب پر بھی کفر کا لفظ بولا گیا ہے۔ مگر یہ کفر حقیقی سے کم ہے۔ ابوسعید والی حدیث کتاب الحیض میں ہے۔ اس میں یہ ہے کہ آپ نے عورتوں کو صدقے کا حکم دیا اور فرمایا کہ میں نے دوزخ میں زیادہ تر تم کو دیکھا ہے۔ انہوں نے پوچھا کیوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لعنت بہت کرتی ہو اور خاوند کا کفر یعنی ناشکری کرتی ہو۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی یہ حدیث بڑی لمبی ہے۔ جو بخاری کی کتاب الکسوف میں ہے، یہاں استدلال کے لیے حضرت امام نے اس کا ایک ٹکڑا ذکر کر دیا ہے۔

امام قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وفي هذاالحديث وعظ الرئيس المروس وتحريضه على الطاعة ومراجعة المتعلم العالم والتابع المتبوع فيماقاله اذا لم يظهر له معناه الخ»
یعنی اس حدیث کے تحت ضروری ہوا کہ سردار اپنے ماتحوں کو وعظ ونصیحت کرے اور نیکی کے لیے ان کو رغبت دلائے اور اس سے یہ بھی نکلا کہ شاگرد اگر استاد کی بات پورے طور پر نہ سمجھ پائے تو استاد سے دوبارہ دریافت کر لے اور اس حدیث سے ناشکری پر بھی کفر کا اطلاق ثابت ہوا اور یہ بھی معلوم ہوا کہ معاصی سے ایمان گھٹ جاتا ہے۔ اس لیے کہ معاصی کو بھی کفر قرار دیا گیا ہے مگر وہ کفر نہیں ہے جس کے ارتکاب سے دوزخ میں ہمیشہ رہنا لازم آتا ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ عورتوں کا ایمان جیسے خاوند کی ناشکری سے گھٹ جاتا ہے، ویسے ہی ان کی شکر گزاری سے بڑھ بھی جاتا ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ اعمال ایمان میں داخل ہیں۔

حضرت امام نے «كفر دون كفر» کا ٹکڑا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے اس قول سے لیا ہے جو آپ نے آیت کریمہ «وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّـهُ فَأُولَـئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ» [المائدۃ: 44] کی تفسیر میں فرمایا ہے۔ اور جو شخص اللہ کے اتارے ہوئے قانون کے مطابق فیصلہ نہ کرے سو ایسے لوگ کافر ہیں۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ آیت کریمہ میں وہ کفر مراد نہیں ہے جس کی سزا «خلود فى النار» ہے۔ اس لیے علماء محققین نے کفر کو چار قسمو ں پر تقسیم کیا ہے۔
➊ کفر بانکل انکار کے معنی میں ہے، یعنی اللہ پاک کا بالکل انکار کرنا اس کا وجود ہی نہ تسلیم کرنا، قرآن مجید میں زیادہ تر ایسے ہی کافروں سے خطاب کیا گیا ہے۔
➋ کفر جحود ہے یعنی اللہ کو دل سے حق جاننا مگر اپنے دنیاوی مفاد کے لیے زبان سے اقرار بھی نہ کرنا، مشرکین مکہ میں سے بعض کا ایسا ہی کفر تھا، آج بھی ایسے بہت لوگ ملتے ہیں۔
➌ کفر عناد یعنی دل میں تصدیق کرنا زبان سے اقرار بھی کرنا مگر احکام الٰہی کو تسلیم نہ کرنا اور توحید و رسالت کے اسلامی عقیدہ کو ماننے کے لیے تیار نہ ہونا، ماضی و حال میں ایسے بہت سے لوگ موجود ہیں۔
➍ کفر نفاق یعنی زبان سے اقرار کرنا مگر دل میں یقین نہ کرنا جیسا کہ آیت شریف «وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا كَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُوا أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ وَلَـكِنْ لَا يَعْلَمُونَ» [البقرۃ: 13] میں مذکو رہے۔ (یعنی کچھ لوگ ایسے ہیں کہ) جب ان سے کہا جائے کہ تم ایسا پختہ ایمان لاؤ جیسا کہ دوسرے لوگ (انصار و مہاجرین) لائے ہوئے ہیں تو جواب میں کہنے لگ جاتے ہیں کہ کیا ہم بھی بے وقوفوں جیسا ایمان لے آئیں۔ یاد رکھو یہی (منافق) بے قوف ہیں۔ لیکن ان کو علم نہیں ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 29   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 98  
´عورتوں کا عیدگاہ میں جانا`
«. . . أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ وَمَعَهُ بِلَالٌ، فَظَنَّ أَنَّهُ لَمْ يُسْمِعِ النِّسَاءَ، فَوَعَظَهُنَّ وَأَمَرَهُنَّ بِالصَّدَقَةِ . . .»
. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (ایک مرتبہ عید کے موقع پر مردوں کی صفوں میں سے) نکلے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بلال رضی اللہ عنہ تھے۔ آپ کو خیال ہوا کہ عورتوں کو (خطبہ اچھی طرح) نہیں سنائی دیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں علیحدہ نصیحت فرمائی اور صدقے کا حکم دیا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ: 98]

تشریح:
اس حدیث سے مسئلہ باب کے ساتھ عورتوں کا عیدگاہ میں جانا بھی ثابت ہوا۔ جو لوگ اس کے مخالف ہیں ان کو معلوم ہونا چاہئیے کہ وہ ایسی چیز کا انکار کر رہے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مروج تھی۔ یہ امر ٹھیک ہے کہ عورتیں پردہ اور ادب و شرم و حیا کے ساتھ جائیں۔ کیونکہ بے پردگی بہرحال بری ہے۔ مگر سنت نبوی کی مخالفت کرنا کسی طرح بھی زیبا نہیں ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 98   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 863  
863. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ ان سے کسی آدمی نے دریافت کیا: آیا رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ آپ کو کبھی باہر حاضر ہونے کا اتفاق ہوا ہے؟ انہوں نے فرمایا: ہاں، اور اگر میرا مرتبہ اور مقام رسول اللہ ﷺ کے ہاں اتنا نہ ہوتا تو میں چھوٹے ہونے کی وجہ سے آپ کے ساتھ حاضر نہیں ہو سکتا تھا۔ آپ پہلے اس نشان کے پاس آئے جو کثیر بن صلت کے مکان کے قریب ہے، وہاں آپ نے خطبہ دیا، پھر عورتوں کے پاس تشریف لائے، انہیں وعظ و نصیحت کی اور صدقہ و خیرات کرنے کا حکم دیا، چنانچہ کوئی عورت (اپنی بالی کوئی انگوٹھی اور کوئی) اپنے زیور کی طرف ہاتھ بڑھا کر اسے اتار کر حضرت بلال ؓ کی چادر میں ڈالنے لگی۔ اس کے بعد آپ حضرت بلال ؓ کے ہمراہ اپنے گھر لوٹ آئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:863]
حدیث حاشیہ:
حضرت ابن عباس ؓ کمسن تھے، باوجود اس کے عید میں شریک ہوئے، یہیں سے ترجمہ باب نکلتا ہے اور اس سے عورتوں کا عید گاہ میں جانا بھی ثابت ہوا۔
چونکہ احناف کے ہاں عید گاہ میں عورتوں کا جاناجائز نہیں ہے، اس لیے ایک دیوبندی ترجمہ بخاری میں یہاں ترجمہ ہی بدل دیا گیا ہے چنانچہ وہ ترجمہ یوں کرتے ہیںان سے ایک شخص نے یہ پوچھا کہ کیا نبی کریم ﷺ کے ساتھ آپ عیدگاہ گئے تھے۔
حالانکہ پوچھا یہ جارہا تھا کہ کیا تم نے عید کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عورتوں کا نکلنا دیکھا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہاں ضرور دیکھا ہے۔
یہ بدلا ہوا ترجمہ دیوبندی تفہیم البخاری پارہ: 4 ص: 32 پر دیکھا جا سکتا ہے۔
غالباً ایسے ہی حضرات کے لیے کہا گیا ہے خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں وفقنا اللہ لما یحب ویرضی۔
آمین!
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 863   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:863  
863. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ ان سے کسی آدمی نے دریافت کیا: آیا رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ آپ کو کبھی باہر حاضر ہونے کا اتفاق ہوا ہے؟ انہوں نے فرمایا: ہاں، اور اگر میرا مرتبہ اور مقام رسول اللہ ﷺ کے ہاں اتنا نہ ہوتا تو میں چھوٹے ہونے کی وجہ سے آپ کے ساتھ حاضر نہیں ہو سکتا تھا۔ آپ پہلے اس نشان کے پاس آئے جو کثیر بن صلت کے مکان کے قریب ہے، وہاں آپ نے خطبہ دیا، پھر عورتوں کے پاس تشریف لائے، انہیں وعظ و نصیحت کی اور صدقہ و خیرات کرنے کا حکم دیا، چنانچہ کوئی عورت (اپنی بالی کوئی انگوٹھی اور کوئی) اپنے زیور کی طرف ہاتھ بڑھا کر اسے اتار کر حضرت بلال ؓ کی چادر میں ڈالنے لگی۔ اس کے بعد آپ حضرت بلال ؓ کے ہمراہ اپنے گھر لوٹ آئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:863]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ عنوان بندی کے سلسلے میں بہت محتاط رویہ اختیار کرتے ہیں، چنانچہ آپ نے بچوں کے وضو کے متعلق وثوق اور جزم کے ساتھ کوئی فیصلہ نہیں کیا، صرف اس کی مشروعیت بیان کی ہے کیونکہ اگر اسے استحباب کا درجہ دیتے تو اس کا تقاضا تھا کہ بچوں کی وضو کے بغیر بھی نماز صحیح ہو جائے اور اگر اس کے واجب ہونے کا فیصلہ کرتے تو ضروری تھا کہ بچے کو اس کے ترک پر سزا دی جاتی کیونکہ واجب کا تارک سزا کا حق دار ہوتا ہے، اس لیے امام بخاری نے ایک ایسا عنوان تجویز کیا جو اس قسم کے اعتراضات سے محفوظ ہے۔
پھر آپ نے بچوں کے متعلق غسل وغیرہ کا ذکر نہیں کیا کیونکہ ان کے لیے کوئی موجب غسل نہیں۔
(فتح الباري: 446/2) (2)
مذکورہ عنوان کئی ایک اجزاء پر مشتمل ہے:
پہلا جز بچوں کے لیے وضو کی مشروعیت ہے۔
دوسرا جز یہ ہے کہ ان پر غسل اور وضو کب واجب ہوتا ہے۔
تیسرا جز بچوں کے لیے نماز باجماعت، عیدین اور جنازوں میں شرکت کرنے سے متعلق ہے اور چوتھا جز ان کی صف بندی سے متعلق ہے۔
اس سلسلے میں امام بخاری ؒ نے سات احادیث ذکر کی ہیں:
پہلی حدیث ابن عباس ؓ کی ہے جس میں قبر پر نماز پڑھنے کا ذکر ہے۔
یہ حدیث لانے کا مقصد یہ ہے کہ بچوں کی نماز میں شرکت کو ثابت کیا جائے اور صف بندی کو بیان کیا جائے، چنانچہ اس حدیث میں صراحت کے ساتھ ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے نابالغ ہونے کے باوجود نماز میں شرکت کی اور صف بندی میں حصہ لیا۔
دوسری حدیث حضرت ابو سعید خدری ؓ سے مروی ہے جس سے ثابت کیا ہے کہ غسل جمعہ بچوں پر واجب نہیں کیونکہ اس کے وجوب کے لیے بالغ ہونا شرط ہے۔
جمہور علماء کا یہی موقف ہے کہ غسل کے وجوب کے لیے بلوغت شرط ہے۔
تیسری حدیث بھی حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے جس میں وضاحت ہے کہ انہوں نے وضو کیا اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مل کر نماز ادا کی۔
اس سے ان کا وضو اور نماز ادا کرنا صحیح ثابت ہوا۔
چوتھی حدیث حضرت انس ؓ کی ہے جس میں حضرت انس ؓ کے ساتھ ایک بچے کا صف بنانا اور نماز پڑھنا مذکور ہے۔
حدیث میں لفظ یتیم آیا ہے جس کا اطلاق قبل از بلوغ پر ہوتا ہے۔
پانچویں حدیث حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے جس میں نماز عشاء دیر سے پڑھنے کا ذکر ہے تاآنکہ حضرت عمر ؓ نے بآواز بلند کہا کہ اب تو بچے اور عورتیں ہو چکے ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ عورتوں کے ساتھ بچے بھی نماز میں شرکت کے لیے موجود تھے۔
چھٹی حدیث حضرت ابن عباس ؓ کی ہے جس میں ان کے صف میں شامل ہونے اور رسول اللہ ﷺ کے پیچھے نماز ادا کرنے کا ذکر ہے۔
اس میں صراحت ہے کہ آپ اس وقت قریب البلوغ تھے۔
آخر میں امام بخاری ؒ نے حضرت ابن عباس ؓ ہی سے مروی ایک حدیث کا حوالہ دیا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نماز عید میں شرکت کی۔
اس طرح امام بخاری ؒ نے اپنے عنوان کے تمام اجزاء کو احادیث سے ثابت کیا ہے۔
واضح رہے کہ ان کی صف بندی سے مراد ان کا لوگوں کے ساتھ صف میں کھڑا ہونا ہے، اس سے بچوں کی خاص صف مراد نہیں ہے۔
(فتح الباري: 447/2) (3)
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ بچے جب سن شعور کو پہنچ جائیں تو وہ عیدین اور جنازوں میں شرکت کر سکتے ہیں اور انہیں وضو بھی کرنا ہو گا اگرچہ وہ ان احکام کے مکلف نہیں، تاہم انہیں عادت ڈالنے کے لیے ان باتوں پر صغر سنی ہی میں عمل کرانا چاہیے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 863   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.