الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
نکاح کے احکام و مسائل
The Book of Marriage
1. باب اسْتِحْبَابِ النِّكَاحِ لِمَنْ تَاقَتْ نَفْسُهُ إِلَيْهِ وَوَجَدَ مُؤْنَةً وَاشْتِغَالِ مَنْ عَجَزَ عَنِ الْمُؤَنِ بِالصَّوْمِ:
1. باب: صاحب استطاعت کے لیے نکاح کرنے کا استحباب، اور جو اس کی طاقت نہیں رکھتا اس کو روزوں کے ساتھ مشغول رہنے کا استحباب۔
Chapter: Marriage is recommended for the one who desires it and can afford it, and the one who cannot afford it should distract himself by fasting
حدیث نمبر: 3398
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يحيى بن يحيى التميمي ، وابو بكر بن ابي شيبة ، ومحمد بن العلاء الهمداني ، جميعا عن ابي معاوية ، واللفظ ليحيى: اخبرنا ابو معاوية ، عن الاعمش ، عن إبراهيم ، عن علقمة ، قال: كنت امشي مع عبد الله بمنى، فلقيه عثمان، فقام معه يحدثه، فقال: له عثمان: يا ابا عبد الرحمن، الا نزوجك جارية شابة لعلها تذكرك بعض ما مضى من زمانك، قال: فقال عبد الله : لئن قلت ذاك، لقد قال لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يا معشر الشباب، من استطاع منكم الباءة، فليتزوج، فإنه اغض للبصر، واحصن للفرج، ومن لم يستطع، فعليه بالصوم، فإنه له وجاء "،حدثنا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى التَّمِيمِيُّ ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ الْهَمْدَانِيُّ ، جميعا عَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ ، وَاللَّفْظُ لِيَحْيَى: أَخْبَرَنا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، قَالَ: كُنْتُ أَمْشِي مَعَ عَبْدِ اللَّهِ بِمِنًى، فَلَقِيَهُ عُثْمَانُ، فَقَامَ مَعَهُ يُحَدِّثُهُ، فقَالَ: لَهُ عُثْمَانُ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَلَا نُزَوِّجُكَ جَارِيَةً شَابَّةً لَعَلَّهَا تُذَكِّرُكَ بَعْضَ مَا مَضَى مِنْ زَمَانِكَ، قَالَ: فقَالَ عَبْدُ اللَّهِ : لَئِنْ قُلْتَ ذَاكَ، لَقَدْ قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ، مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمُ الْبَاءَةَ، فَلْيَتَزَوَّجْ، فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ، وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ، وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ، فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ، فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ "،
ابو معاویہ نے ہمیں اعمش سے خبر دی، انہوں نے ابراہیم سے، انہوں نے علقمہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں منیٰ میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ پیدل چل رہا تا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ س ے ان کی ملاقات ہوئی، وہ کھڑے ہو کر ان سے باتیں کرنے لگے۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے اِن سے کہا: ابوعبدالرحمٰن! کیا ہم کسی نوجوان لڑکی سے آپ کی شادی نہ کرا دیں، شاید وہ آپ کو آپ کا وہی زمانہ یاد کرا دے جو گزر چکا ہے؟ کہا: تو حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر آپ نے یہ بات کہی ہے تو (اس سے پہلے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا تھا: "اے جوانوں کے گروہ! تم میں سے جو کوئی شادی کی استطاعت رکھتا ہو وہ شادی کر لے، یہ نگاہ کو زیادہ جھکانے والی اور شرمگاہ کی زیادہ حفاظت کرنے والی ہے اور جو استطاعت نہیں رکھتا تو وہ روزے کو لازم کر لے، یہ اس کے لیے خواہش کو قابو میں کرنے کا ذریعہ ہے
علقمہ رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ منیٰ میں جا رہا تھا کہ انہیں حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ملے، اور وہ ان کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے ٹھہر گئے، تو حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انہیں کہا، اے ابو عبدالرحمٰن! کیا ہم تمہاری شادی کسی نوجوان لڑکی سے نہ کر دیں، شاید وہ تمہیں گزشتہ دور کی یاد تازہ کر دے، تو حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا، اگر آپ یہ بات کہتے ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں یہ فرما چکے ہیں، اے جوانوں کی جماعت! تم میں سے جو نکاح کے اخراجات برداشت کر سکتا ہو، وہ شادی کر لے، کیونکہ نکاح سے نظریں خوب جھک جاتی ہیں اور شرم گاہ اچھی طرح محفوظ ہو جاتی ہے اور جو شخص (نان و نفقہ کی ادائیگی) کی استطاعت نہیں رکھتا، وہ روزوں کی پابندی کرے، کیونکہ اس سے شہوت کا زور ٹوٹ جاتا ہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1400
   صحيح البخاري5066عبد الله بن مسعودمن استطاع الباءة فليتزوج فإنه أغض للبصر وأحصن للفرج ومن لم يستطع فعليه بالصوم فإنه له وجاء
   صحيح البخاري5065عبد الله بن مسعودمن استطاع منكم الباءة فليتزوج ومن لم يستطع فعليه بالصوم فإنه له وجاء
   صحيح البخاري1905عبد الله بن مسعودمن استطاع الباءة فليتزوج فإنه أغض للبصر وأحصن للفرج ومن لم يستطع فعليه بالصوم فإنه له وجاء
   صحيح مسلم3400عبد الله بن مسعودمن استطاع منكم الباءة فليتزوج فإنه أغض للبصر وأحصن للفرج ومن لم يستطع فعليه بالصوم فإنه له وجاء
   صحيح مسلم3398عبد الله بن مسعودمن استطاع منكم الباءة فليتزوج فإنه أغض للبصر وأحصن للفرج ومن لم يستطع فعليه بالصوم فإنه له وجاء
   سنن أبي داود2046عبد الله بن مسعودمن استطاع منكم الباءة فليتزوج فإنه أغض للبصر وأحصن للفرج ومن لم يستطع منكم فعليه بالصوم فإنه له وجاء
   سنن النسائى الصغرى3211عبد الله بن مسعودمن استطاع منكم الباءة فلينكح فإنه أغض للبصر وأحصن للفرج ومن لا فليصم فإن الصوم له وجاء
   سنن النسائى الصغرى2241عبد الله بن مسعودعليكم بالباءة فإنه أغض للبصر وأحصن للفرج ومن لم يستطع فعليه بالصوم فإنه له وجاء
   سنن النسائى الصغرى3210عبد الله بن مسعودمن استطاع منكم الباءة فليتزوج ومن لم يستطع فعليه بالصوم فإنه له وجاء
   سنن النسائى الصغرى3213عبد الله بن مسعودمن استطاع منكم الباءة فليتزوج
   سنن النسائى الصغرى2242عبد الله بن مسعودمن استطاع منكم الباءة فليتزوج فإنه أغض للبصر وأحصن للفرج ومن لم يستطع فليصم فإن الصوم له وجاء
   سنن النسائى الصغرى3209عبد الله بن مسعودمن استطاع الباءة فليتزوج فإنه أغض للبصر وأحصن للفرج ومن لم يستطع فليصم فإنه له وجاء
   سنن النسائى الصغرى2243عبد الله بن مسعودمن استطاع منكم الباءة فليتزوج ومن لم يجد فعليه بالصوم فإنه له وجاء
   سنن النسائى الصغرى2244عبد الله بن مسعودمن استطاع منكم الباءة فليتزوج فإنه أغض للبصر وأحصن للفرج
   سنن ابن ماجه1845عبد الله بن مسعودمن استطاع منكم الباءة فليتزوج فإنه أغض للبصر وأحصن للفرج ومن لم يستطع فعليه بالصوم فإنه له وجاء
   المعجم الصغير للطبراني486عبد الله بن مسعودعليكم بالباءة فمن لم يجد فعليه بالصوم فإنه له وجاء
   بلوغ المرام824عبد الله بن مسعود يا معشر الشباب من استطاع منكم الباءة فليتزوج ،‏‏‏‏ فإنه أغض للبصر ،‏‏‏‏ وأحصن للفرج ومن لم يستطع فعليه بالصوم ،‏‏‏‏ فإنه له وجاء
   مسندالحميدي115عبد الله بن مسعوديا معشر الشباب من استطاع منكم الباءة فلينكح فإنه أغض للبصر، وأحصن للفرج، ومن لا فليصم فإن الصوم له وجاء

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1845  
´نکاح (شادی بیاہ) کی فضیلت کا بیان۔`
علقمہ بن قیس کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ منیٰ میں تھا، تو عثمان رضی اللہ عنہ انہیں لے کر تنہائی میں گئے، میں ان کے قریب بیٹھا تھا، عثمان رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: کیا آپ چاہتے ہیں آپ کی شادی کسی نوجوان لڑکی سے کرا دوں جو آپ کو ماضی کے حسین لمحات کی یاد دلا دے؟ جب عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ عثمان رضی اللہ عنہ ان سے اس کے علاوہ کوئی راز کی بات نہیں کہنا چاہتے، تو انہوں نے مجھ کو قریب آنے کا اشارہ کیا، میں قریب آ گیا، اس وقت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہہ رہے تھے کہ اگر آپ ایسا کہتے ہیں تو رسول اللہ صلی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1845]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
گزرے وقتوں کی یاد سے مراد یہ ہے کہ جس طرح آپ پہلے ازدواجی زندگی گزار رہے تھے اور اطمینان و مسرت کا وقت گزر رہا تھا، اب پھر آپ کو شادی کی ضرورت ہے تاکہ آپ کو دوبارہ وہی خوشی اور وہی اطمینان و سکون حاصل ہو جس کا حصول شادی کے بغیر ممکن نہیں۔

(2)
شادی شدہ زندگی میں میاں بیوی کی عمر میں تفاوت کو بہت زیادہ اہمیت حاصل نہیں۔
اگر ذہنی ہم آہنگی موجود ہو اور مرد اس قابل ہو کہ اپنی بیوی کی فطری ضروریات خوش اسلوبی سے پوری کر سکے تو ادھیڑ عمر مرد کم عمر عورت سے نکاح کر سکتا ہے۔

(3)
تین افراد میں سے دو افراد کا تیسرے کو الگ کر کے بات چیت کرنا منع ہے لیکن اگر تیسرے آدمی کی دل شکنی کا اندیشہ نہ ہو تو بعض حالات میں اس کی گنجائش ہے، ویسے بھی مذکورہ بالا واقعہ میں دونوں کے الگ ہو جانے کے باوجود حضرت علقمہ ؓ اتنے دور نہیں تھے کہ ان کی بات چیت نہ سن سکیں۔

(4)
حضرت عبداللہ کو اس وقت نکاح کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی اس لیے انہوں نے یہ نہیں فرمایا کہ لڑکی والوں سے رابطہ قائم کیا جائے، البتہ حضرت عثمان کی خیر خواہی کا شکر ادا کرنے کے لیے فرما دیا کہ نکاح واقعی ایک اہم اور مفید چیز ہے۔

(5)
نکاح کی طاقت رکھنے کا مطلب جسمانی طور پر نکاح کے قابل ہونا اور مالی طور پر بیوی کے لازمی اخراجات پورے کرنے کے قابل ہونا ہے۔
موجودہ معاشرے میں رائج رسم و رواج پر کیے جانے والے بے جا اخراجات کی طاقت مراد نہیں۔
معاشرے سے ان فضول رسموں کو ختم کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔

(6)
نکاح کا سب سے بڑا فائدہ گناہ کی زندگی سے حفاظت اور جنسی خواہشات کی جائز ذریعے سے تکمیل ہے۔
نکاح کرتے وقت یہ مقصد پیش نظر رکھنا چاہیے، دوسرے فوائد خود ہی حاصل ہو جائیں گے۔

(7)
فحاشی سے بچاؤ اسلامی معاشرے کی ایک اہم خوبی ہے، اس کے حصول کے لیے ہر جائز ذریعہ اختیار کرنا چاہیے، اور فحاشی کا ہر راستہ بند کرنا چاہیے۔

(8)
اسلامی شریعت کی یہ خوبی ہے کہ یہ انسان کی فطرت کے مطالبات کی نفی نہیں کرتی بلکہ ان کے حصول کے جائز ذرائع مہیا کرتی ہے۔

(9)
روزہ رکھ کر انسان نامناسب خیالات اور جذبات کو کنٹرول کرسکتا ہے۔
اس وجہ سے فطری خواہش بھی بے لگام نہیں ہوتی، اس لیے اگر کسی نوجوان لڑکے یا لڑکی کی شادی میں کسی وجہ سے تاخیر ہو جائے تو اسے چاہیے کہ نفلی روزے کثرت سے رکھے اور جذبات میں ہیجان پیدا کرنے والے ماحول، اس قسم کے لٹریچر کے مطالعے، جذبات انگیز نغمات سننے اور فلمیں وغیرہ دیکھنے سے پرہیز کرے تاکہ جوانی کا جوش، گناہ میں ملوث نہ کرسکے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1845   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2046  
´نکاح کی ترغیب کا بیان۔`
علقمہ کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ منیٰ میں چل رہا تھا کہ اچانک ان کی ملاقات عثمان رضی اللہ عنہ سے ہو گئی تو وہ ان کو لے کر خلوت میں گئے، جب عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے محسوس کیا کہ انہیں (شادی کی) ضرورت نہیں ہے تو مجھ سے کہا: علقمہ! آ جاؤ ۱؎ تو میں گیا تو عثمان رضی اللہ عنہ ۲؎ نے ان سے کہا: ابوعبدالرحمٰن! کیا ہم آپ کی شادی ایک کنواری لڑکی سے نہ کرا دیں، شاید آپ کی دیرینہ طاقت و نشاط واپس آ جائے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر آپ ایسی بات کہہ رہے ہیں تو میں تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سن چکا ہو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب النكاح /حدیث: 2046]
فوائد ومسائل:

اس حدیث سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے۔
کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پہلی بیوی فوت ہوگئی تھی۔
اور اب وہ بیوی کے بغیر زندگی گزار رہے تھے۔
حضرت عثمان کے علم میں یہ بات تھی۔
اس لئے انہوں نے ملاقات پر پہلے انہیں خلوت میں دوبارہ نکاح کی ترغیب دی وہ آمادہ نہ ہوئے تو پھر ان کے ساتھی کےسامنے دوبارہ یہ کوشش کی۔
بہرحال اس حدیث س کئی فوائد معلوم ہوئے مثلا جس شخص کے پاس اپنا گھر آباد کرنے کے لئے نان ونفقہ اور  سکنیٰ کے لازمی مصارف موجود ہوں۔
اس کیلئے متاھل زندگی گزارنا مستحب ہے۔
بالخصوص جوانوں کو تو اس کی بہت زیادہ ترغیب دی گئی ہے۔


نظر اور شرمگاہ کی پاکیزگی کو انسان کی دینی اور معاشرتی زندگی میں بنیادی اہمیت حاصل ہے۔
ان کی حفاظت معاشرے میں امن وامان بھائی چارے عمومی راحت خیر وبرکت اور اللہ فضل و انعامات کی ضامن ہے اور ان کا فساد معاشرتی بگاڑ فتنے عداوت اور دلوں کی بے سکونی کا باعث ہے۔
اور نتیجتاً اللہ کی ناراضگی حصے میں آتی ہے۔


مالی اعتبار سے کمزور شخص جو شادی نہ کرسکتا ہو اسے بمقابلہ دیگر علاجوں کے روزے رکھنے چاہیں امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ ایسے شخص کو قرض لے کر بھی یہ بار اُٹھانے کی ترغیب دیتے ہیں۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2046   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3398  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
اَلنِّكاَح:
دفعتاً ملاپ اور تداخل کو کہتے ہیں،
جیسا کہ کہتے ہیں،
(نَكَحَ الْمَطَرُ الْاَرْضَ)
بارش زمین میں جذب ہو گئی،
(نَكَحَ النُّعَاسُ الْعَيْنَ)
اونگھ آنکھ میں سرایت کر گئی،
(نكحت القمح في الارض)
میں نے زمین میں گندم بودی،
(نكحت الحصاة اخفاف الابل)
کنکر اونٹوں کے پاؤں میں چھپ گئے،
اس لیے امام زھری کہتے ہیں،
کلام عرب میں نکاح تعلقات قائم کرنے کو کہتے ہیں،
اور شادی کرنے کو بھی،
اس لیے نکاح کہتے ہیں،
کہ دو زن وشوہر کے تعلقات کا سبب ہے اور امام زجاجی کے نزدیک کلام عرب میں نکاح کا اطلاق،
عقد (نکاح پڑھانے)
اور تعلقات قائم کرنے پر ہوتا ہے،
ابو علی فارسی کا قول ہے،
اگر یوں کہیں،
(نَكَحَ فُلَانَةٌ،
اَوْبِنْتتُ فُلاَنٍ)

تو معنی ہو گا اس سے شادی کی،
اور اگر کہیں (نَكَحَ اِمْرَأَتُهُ اَوْ زَوْجَتُهُ)
تو معنی ہو گا،
تعلقات قائم کیے۔
لیکن قرآن مجید میں عام طور پر یہ شادی کرنے کے معنی میں آیا ہے،
شوافع کے نزدیک اس کا حقیقی معنی عقد (شادی کرنا)
ہے اور تعلقات قائم کرنا مجازی معنی ہے اور احناف کے نزدیک اس کے برعکس ہے اور صحیح یہ ہے کہ یہ دونوں معنی میں حقیقی استعمال ہوتا ہے،
مشترک لفظی ہے،
قرینہ سے ایک معنی کا تعین ہو جاتا ہے۔
(2)
اَلْبَاءَةُ:
یہ مُبَاوَة سے ماخوذ ہے،
جس کا معنی ہے،
(منزل،
ٹھکانہ)

اور اس کا لغوی معنی جماع ہے،
اور شادی کرنے پر اس کا اطلاق اس لیے ہوتا ہے کہ خاوند،
بیوی کو گھر مہیا کرتا ہے،
وِجَاءٌ:
اس کا اصل معنی دبانا ہے،
اس لیے خصی کرنے پر بھی اطلاق ہوتا ہے۔
فوائد ومسائل:
اگر ایک انسان قوت مردانہ رکھنے کی بنا پر نکاح کرنے کا شوق و رغبت رکھتا ہے۔
اور وہ اس کی بھی استطاعت رکھتا ہے کہ وہ نکاح کے اخراجات برداشت کر سکتا ہے یعنی بیوی کو گھر،
لباس،
طعام،
اور اس کے لوازمات مہیا کر سکتا ہے تو وہ شادی کر لے،
اگر بیوی کے اخراجات یا اس کی ضروریات پوری نہیں کر سکتا۔
ضبط نفس کے لیے روزے رکھے۔
اگر انسان نکاح کرنے کی استطاعت رکھتا ہے اور شادی نہ کرنے کی صورت میں زنا کا خطرہ ہے،
امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اس صورت میں نکاح کرنا فرض ہے۔
اور ظاہر یہ کا قول بھی یہی ہے اور اس صورت میں یہ عبادت ہے،
شوافع کے نزدیک اس صورت میں نکاح کرنا مستحب ہے اور انہوں نے جمہور کا یہ قول قرار دیا ہے،
اگرانسان کے اند رغلبہ شہوت نہ ہو اور نکاح کی طاقت ہو تو شوافع کے نزدیک عبادت کے لیے نکاح نہ کرنا بہتر ہے۔
لیکن امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ۔
بعض شوافع اور بعض مالکیہ کے نزدیک نکاح کرنا افضل ہے۔
اور صحیح بات یہی ہے کیونکہ:
(فمنْ رغِب عَنْ سُنَّتِي فَلَيسَ مِنِّى")
جو شخص میرے طریقہ سے یا عمل اور رویہ سے اعراض کرتا ہے وہ مجھ سے نہیں ہے،
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جوانوں سے خطاب اس لیے فرمایا کیونکہ عام طور پر شادی کا محرک اور داعیہ ان میں موجود ہوتا ہے اور عمرڈھلنے سے کمی آ جاتی ہے مطلب یہ نہیں ہے کہ بڑی عمر کو اس کی ضرورت لاحق نہیں ہوتی،
یا وہ شادی نہیں کر سکتا،
بلکہ اگر بڑی عمر والا با کرہ دوشیزہ سے شادی کر لے تو اس میں عہد شباب کا دور لوٹ آتا ہے،
اس لیے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا تھا،
کہ ہم تیری نوجوان لڑکی سے شادی کر دیں،
اور وہ تمھیں گذشتہ دور کے ایام یاد کرا دے،
لیکن وہ اپنے ظروف وحالات کی بنا پر اس کی ضرورت نہیں سمجھتے تھے اس لیے جواب دیا کہ اس کی اصل ضرورت تو نو جوانوں کو ہے،
مجھے اس عمر میں اس کی خواہش نہیں رہی۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 3398   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.