مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3822
´عمل کی فضیلت۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں، جیسا وہ گمان مجھ سے رکھے، اور میں اس کے ساتھ ہوں جب وہ میرا ذکر کرتا ہے، اگر وہ میرا دل میں ذکر کرتا ہے تو میں بھی دل میں اس کا ذکر کرتا ہوں، اور اگر وہ میرا ذکر لوگوں میں کرتا ہے تو میں ان لوگوں سے بہتر لوگوں میں اس کا ذکر کرتا ہوں، اور اگر وہ مجھ سے ایک بالشت نزدیک ہوتا ہے تو میں ایک ہاتھ اس کے قریب ہوتا ہوں، اور اگر وہ چل کر میرے پاس آتا ہے تو میں اس کی جانب دوڑ کر آتا ہوں“ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأدب/حدیث: 3822]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اللہ تعالیٰ سے حسن ظن رکھنا چا ہیے۔
حسن ظن کا صحیح طریقہ یہ ہےکہ نیک اعمال کیے جائیں اور ان کی قبولیت کی امید رکھی جائے۔
گناہوں سے توبہ کی جائے اور بخشش کی امید رکھی جائے۔
گناہوں کے راستے پر بھاگتے چلے جانا اور اللہ کی رحمت کی امید رکھنا نادانی ہے۔
(3)
اس میں بالواسطہ عمل کی تلقین ہے کیونکہ عمل کے بغیر کی امید نہیں رکھی جا سکتی، لہٰذا اچھے عمل کرنے والا ہی اللہ سے اچھی امید رکھ سکتا ہے۔
برے عمل کرنے والا بری امید ہی رکھ سکتا ہے۔
(4)
جماعت میں ذکر کرنے سے مراد خود ساختہ اجتماعی ذکر نہیں بلکہ یا تو یہ مراد ہے کہ جیسے نماز کے بعد سب لوگ اپنے اپنے طور پر مسنون دعائیں اور اذکار پڑھتے ہیں یا اللہ کی رحمتوں، نعمتوں اور اس کے احکام وغیرہ کا ذکر ہے، یعنی ایک شخص بیان کرے اور دوسرے سنتے رہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3822