الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: جنازے کے احکام و مسائل
The Book of Al-Janaiz (Funerals)
66. بَابُ الصَّلاَةِ عَلَى الْقَبْرِ بَعْدَ مَا يُدْفَنُ:
66. باب: مردہ کو دفن کرنے کے بعد قبر پر نماز جنازہ پڑھنا۔
(66) Chapter. To offer the (funeral) Salat (prayer) on the grave after the burial of the deceased.
حدیث نمبر: 1337
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا محمد بن الفضل، حدثنا حماد بن زيد، عن ثابت، عن ابي رافع، عن ابي هريرة رضي الله عنه،" ان اسود رجلا , او امراة , كان يقم المسجد فمات , ولم يعلم النبي صلى الله عليه وسلم بموته، فذكره ذات يوم , فقال: ما فعل ذلك الإنسان؟ , قالوا: مات يا رسول الله، قال: افلا آذنتموني، فقالوا: إنه كان كذا , وكذا قصته، قال: فحقروا شانه، قال فدلوني على قبره فاتى قبره فصلى عليه".حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفَضْلِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،" أَنَّ أَسْوَدَ رَجُلًا , أَوِ امْرَأَةً , كَانَ يَقُمُّ الْمَسْجِدَ فَمَاتَ , وَلَمْ يَعْلَمْ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَوْتِهِ، فَذَكَرَهُ ذَاتَ يَوْمٍ , فَقَالَ: مَا فَعَلَ ذَلِكَ الْإِنْسَانُ؟ , قَالُوا: مَاتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: أَفَلَا آذَنْتُمُونِي، فَقَالُوا: إِنَّهُ كَانَ كَذَا , وَكَذَا قِصَّتُهُ، قَالَ: فَحَقَرُوا شَأْنَهُ، قَالَ فَدُلُّونِي عَلَى قَبْرِهِ فَأَتَى قَبْرَهُ فَصَلَّى عَلَيْهِ".
ہم سے محمد بن فضل نے کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا ‘ ان سے ثابت نے بیان کیا ‘ ان سے ابورافع نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ کالے رنگ کا ایک مرد یا ایک کالی عورت مسجد کی خدمت کیا کرتی تھیں ‘ ان کی وفات ہو گئی لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی وفات کی خبر کسی نے نہیں دی۔ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود یاد فرمایا کہ وہ شخص دکھائی نہیں دیتا۔ صحابہ نے کہا کہ یا رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم )! ان کا تو انتقال ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تم نے مجھے خبر کیوں نہیں دی؟ صحابہ نے عرض کی کہ یہ وجوہ تھیں (اس لیے آپ کو تکلیف نہیں دی گئی) گویا لوگوں نے ان کو حقیر جان کر قابل توجہ نہیں سمجھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چلو مجھے ان کی قبر بتا دو۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی قبر پر تشریف لائے اور اس پر نماز جنازہ پڑھی۔

Narrated Abu Huraira: A black person, a male or a female used to clean the Mosque and then died. The Prophet (p.b.u.h) did not know about it . One day the Prophet remembered him and said, "What happened to that person?" The people replied, "O Allah's Apostle! He died." He said, "Why did you not inform me?" They said, "His story was so and so (i.e. regarded him as insignificant)." He said, "Show me his grave." He then went to his grave and offered the funeral prayer.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 23, Number 421

   صحيح البخاري460عبد الرحمن بن صخرصلى على قبرها
   صحيح البخاري458عبد الرحمن بن صخرأفلا كنتم آذنتموني به دلوني على قبره أو قال قبرها أتى قبرها فصلى عليها
   صحيح البخاري1337عبد الرحمن بن صخرأفلا آذنتموني فقالوا إنه كان كذا وكذا قصته قال فحقروا شأنه قال فدلوني على قبره فأتى قبره فصلى عليه
   صحيح مسلم2215عبد الرحمن بن صخرالقبور مملوءة ظلمة على أهلها وإن الله ينورها لهم بصلاتي عليهم
   سنن أبي داود3203عبد الرحمن بن صخرألا آذنتموني به قال دلوني على قبره فدلوه فصلى عليه
   سنن ابن ماجه1527عبد الرحمن بن صخرهلا آذنتموني فأتى قبرها فصلى عليها
   بلوغ المرام447عبد الرحمن بن صخر‏‏‏‏افلا كنتم آذنتموني؟

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 447  
´دفن کرنے کے بعد میت کی قبر پر بھی نماز جنازہ پڑھنی جائز ہے`
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی قبر کا راستہ بتا دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں جا کر قبر پر نماز جنازہ پڑھی . . . [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 447]
لغوی تشریح:
«تَقُمُّ» قاف پر ضمہ اور میم پر تشدید ہے، یعنی جھاڑو دیا کرتی تھی۔ لکڑیاں، کپڑے کے چیتھڑے، کوڑا کرکٹ، غبار اور بھوسا وغیرہ باہر نکالا کرتی تھی۔ یہ خاتون سیام فام تھی اور اس کا نام محجن تھا۔
«آذَنْتُمونِي» اس کی وفات کی مجھے اطلاع دیتے تاکہ میں بھی اس کی نماز جنازہ پڑھتا۔
«صَغَّرُو» نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کے اعتبار سے انہوں نے اس کی وفات کو معمولی سمجھا۔
«دُلُّونِي» دال پر ضمہ ہے اور یہ «دلَالَهٌ» سے امر کا صیغہ ہے۔
«فَدَلُّوهُ» دال پر فتحہ اور لام پر ضمہ ہے اور یہ «دلَالةُ» سے ماضی کا صیغہ ہے۔
«ظُلُمَةٌ» تمییز واقع ہونے کی بنا پر منصوب ہے۔

فوائد و مسائل:
اس حدیث سے کئی مسائل ثابت ہوتے ہیں۔
➊ دفن کرنے کے بعد میت کی قبر پر بھی نماز جنازہ پڑھنی جائز ہے، گو تدفین سے پہلے بھی اس پر نماز جنازہ پڑھی جا چکی ہو۔ حضرت براء بن معرور رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ بھی آپ نے ایک ماہ بعد ان کی قبر پر پڑھی تھی کیونکہ ان کی وفات کے وقت آپ مکہ مکرمہ میں تھے۔ [الطبقات الكبري لابن سعد: 620، 618/3]
➋ مرنے والے کی قبر وہی ہے جہاں اسے دفن کیا ہو، انہی قبروں کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ان میں تاریکی ہی تاریکی ہے، روشنی نام کی کوئی چیز نہیں۔
➌ مسجد کی صفائی کرنے والے مرتبہ اور مقام بلند ہے۔
➍ مسجد کی صفائی مسلمان خاتون بھی کر سکتی ہے۔
➎ مسجد کو صاف ستھرا اور پاک رکھنا ضروری ہے، صفائی جھاڑو سے بھی کی جا سکتی ہے اور کپڑے سے بھی۔
➏ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی غریبوں سے محبت کا ثبوت بھی ملتا ہے کہ آپ کو اپنے کارکن مرد و عورت دونوں سے کس قدر تعلق اور لگاؤ تھا۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 447   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1527  
´(مردہ دفن ہو جائے تو) قبر پر نماز جنازہ پڑھنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک کالی عورت مسجد میں جھاڑو دیا کرتی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نہیں دیکھا، کچھ روز کے بعد اس کے متعلق پوچھا تو آپ سے عرض کیا گیا کہ اس کا انتقال ہو گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر مجھے خبر کیوں نہ دی، اس کے بعد آپ اس کی قبر پہ آئے، اور اس پر نماز جنازہ پڑھی۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1527]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
خدام کی خبر گیری اور ان کے حالات معلوم کرنا اخلاقی فرض ہے۔

(2)
چند دن بعد غالباً اس لئے دریافت فرمایا کہ اس سے پہلے یہ خیال ہوسکتا ہے کہ کسی کام سے یا کسی ر شتہ دار کو ملنے چلی گئی ہوگی یا معمولی بیماری یا مصروفیت کی وجہ سے مسجد کی صفائی کے لئے نہیں آ سکی۔

(3)
جو شخص کسی وجہ سے نماز جنازہ میں شریک نہ ہوسکا ہو وہ قبر پر جاکر نماز جنازہ ادا کرسکتا ہے۔
اس کی کیفیت وہی ہوگی جیسے میت چار پائی پر سامنے رکھ کر جنازہ پڑھا جاتا ہے۔

(4)
نماز جنازہ کی مذکورہ بالا صورت کے سوا کوئی بھی نماز ادا کرنا حرام ہے۔
ارشاد نبوی ہے۔
ساری زمین مسجد (عبادت کی جگہ)
ہے۔
سوائے قبرستان اور حمام کے (سنن ابی داؤد، الصلاۃ، باب فی المراضع لاتجوز فیھا الصلاۃ، حدیث: 493، وجامع الترمذي، الصلاۃ، باب ما جاء أن الأرض کلھا مسجد إلا المقبرۃ والحمام، حدیث: 317)
 نیز ارشاد نبوی ہے۔
قبروں کی طرف رخ کر کے نماز نہ پڑھو۔
نہ ان پر بیٹھو۔ (صحیح مسلم، الجنائز، باب النھی عن الجلوس علی القبر والصلاۃ علیه، حدیث: 974)

(5)
سنن بہیقی میں اس خاتون کا نام ام محجن رضی اللہ تعالیٰ عنہ مذکور ہے۔
دیکھئے: (سنن الکبریٰ للبہقي: 48/4)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1527   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3203  
´قبر پر جنازہ پڑھنا۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک کالی عورت یا ایک مرد مسجد میں جھاڑو دیا کرتا تھا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے موجود نہ پایا تو لوگوں سے اس کے متعلق پوچھا، لوگوں نے بتایا کہ وہ تو مر گیا ہے، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگوں نے مجھے اس کی خبر کیوں نہیں دی؟ آپ نے فرمایا: مجھے اس کی قبر بتاؤ، لوگوں نے بتائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھی۔ [سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3203]
فوائد ومسائل:

قبر پر جا کر نماز جنازہ پڑھنی جائز ہے۔

رسول اللہ ﷺ ضعیف مسلمانوں کا بھی خاص خیال رکھا کرتے تھے۔

مسجد کی صفائی ستھرائی بہت ہی بڑے اجر کا کام ہے۔
اور یہ اسی عمل کی برکت تھی کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کی قبر پر جاکر نماز جنازہ پڑھی۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3203   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1337  
1337. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک سیاہ فام (مردیا عورت) مسجد میں رہتا اور جھاڑودیا کرتا تھا۔ اس کا انتقال ہوگیا اور نبی ﷺ کو اس کی موت کا علم نہ ہوسکا۔ ایک دن رسول اللہ ﷺ نے اس کا ذکر فرمایا اور دریافت کیا:وہ شخص کہاں ہے؟ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا:اللہ کے رسول اللہ ﷺ!اس کی وفات ہوگئی ہے۔ آپ نے فرمایا:تم لوگوں نے مجھے مطلع کیوں نہ کیا؟ انھوں نے عرض کیا:حضرت اس کاقصہ تو اس طرح ہے گویا انھوں نے اس کا معاملہ اتنا اہم نہ سمجھا۔آپ نے فرمایا:مجھے اس کی قبر سے آگاہ کرو۔ چنانچہ آپ اس کی قبر پر تشریف لائے اور نماز جنازہ پڑھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1337]
حدیث حاشیہ:
یہ کالا مرد یا کالی عورت مسجد نبوی کی جاروب کش بڑے بڑے بادشاہان ہفت اقلیم سے اللہ کے نزدیک مرتبہ اور درجہ میں زائد تھی۔
حبیب خدا ﷺ نے ڈھونڈ کر اس کی قبر پر نماز پڑھی۔
واہ رے قسمت! آپ کی کفش برداری اگر ہم کو بہشت میں نصیب ہوجائے تو ایسی دنیا کی لاکھوں سلطنتیں اس پر تصدق کردیں۔
(وحیدي)
حضرت امام بخاری ؒ نے اس سے ثابت فرمایا کہ اگر کسی مسلمان مرد یا عورت کا جنازہ نہ پڑھا گیا ہو تو قبر پر دفن کرنے کے بعد بھی پڑھا جاسکتا ہے۔
بعض نے اسے نبی کریم ﷺ کے ساتھ خاص بتلایا ہے مگر یہ دعویٰ بے دلیل ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 1337   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1337  
1337. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک سیاہ فام (مردیا عورت) مسجد میں رہتا اور جھاڑودیا کرتا تھا۔ اس کا انتقال ہوگیا اور نبی ﷺ کو اس کی موت کا علم نہ ہوسکا۔ ایک دن رسول اللہ ﷺ نے اس کا ذکر فرمایا اور دریافت کیا:وہ شخص کہاں ہے؟ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا:اللہ کے رسول اللہ ﷺ!اس کی وفات ہوگئی ہے۔ آپ نے فرمایا:تم لوگوں نے مجھے مطلع کیوں نہ کیا؟ انھوں نے عرض کیا:حضرت اس کاقصہ تو اس طرح ہے گویا انھوں نے اس کا معاملہ اتنا اہم نہ سمجھا۔آپ نے فرمایا:مجھے اس کی قبر سے آگاہ کرو۔ چنانچہ آپ اس کی قبر پر تشریف لائے اور نماز جنازہ پڑھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1337]
حدیث حاشیہ:
حضرت یزید بن ثابت ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک عورت کی قبر پر جا کر اس کی نماز جنازہ پڑھی۔
(السنن الکبریٰ للبیھقي: 48/4)
ایک روایت میں ہے کہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ چلے حتی کہ اس عورت کی قبر کے پاس کھڑے ہو گئے اور رسول اللہ ﷺ کے پیچھے اس طرح صفیں درست کیں، جیسا کہ نماز جنازہ کے لیے صفیں درست کی جاتی ہیں، پھر آپ نے اس کی نماز جنازہ پڑھی۔
(السنن الکبریٰ للبیھقي: 48/4)
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ دفن کیے جانے کے بعد قبر پر نماز جنازہ پڑھی جا سکتی ہے، لیکن بعض حضرات کا خیال ہے کہ ایسا کرنا غیر مشروع ہے اور رسول اللہ ﷺ کا قبر پر نماز جنازہ پڑھنا آپ کی خصوصیت ہے، کیونکہ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ یہ قبریں اہل قبور کے لیے اندھیروں سے بھری ہوئی ہیں اور میری دعا سے ان کی قبروں میں روشنی ہو جاتی ہے۔
(السنن الکبریٰ للبیھقي: 46/4)
امام ابن حبان نے اس کا جواب دیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے ساتھ نماز پڑھنے والوں پر کوئی انکار نہیں کیا۔
اس کا صاف مطلب ہے کہ قبر پر نماز جنازہ پڑھنا رسول اللہ ﷺ کی خصوصیت نہیں بلکہ امت کے لیے بھی جائز ہے۔
(صحیح ابن حبان: 36/6)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1337   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.