حدثني حرملة بن يحيى ، اخبرنا ابن وهب ، اخبرني يونس ، عن ابن شهاب وهو يذكر الحجر مساكن ثمود، قال سالم بن عبد الله : إن عبد الله بن عمر ، قال: مررنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم على الحجر، فقال لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا تدخلوا مساكن الذين ظلموا انفسهم، إلا ان تكونوا باكين حذرا ان يصيبكم مثل ما اصابهم، ثم زجر فاسرع حتى خلفها ".حَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ وَهُوَ يَذْكُرُ الْحِجْرَ مَسَاكِنَ ثَمُودَ، قَالَ سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ : إِنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ، قَالَ: مَرَرْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْحِجْرِ، فَقَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تَدْخُلُوا مَسَاكِنَ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ، إِلَّا أَنْ تَكُونُوا بَاكِينَ حَذَرًا أَنْ يُصِيبَكُمْ مِثْلُ مَا أَصَابَهُمْ، ثُمَّ زَجَرَ فَأَسْرَعَ حَتَّى خَلَّفَهَا ".
سالم بن عبد اللہ نے کہا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ حجر (قوم ثمود کی اجڑی ہوئی بستی) کے پاس سے گزرے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا: " جن لوگوں نے اپنے آپ پر ظلم کیا ہے ان کی رہائش گا ہوں میں داخل نہ ہونا مگر اس طرح کہ تم رورہے ہو۔ڈرہے کہ تمھیں بھی وہی عذاب نہ آئےجس نے انھیں آلیا تھا "پھر آپ نے زور سے سواری کو ہانکا رفتار تیز کی یہاں تک کہ اس جگہ کو پیچھے چھوڑ دیا۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ حجر کے پاس سے گزرے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا:" جن لوگوں نے اپنے آپ پر ظلم کیا ہے ان کی رہائش گاہوں میں داخل نہ ہونا مگر اس طرح کہ تم رورہے ہو۔ڈرہے کہ تمھیں بھی وہی عذاب نہ آئےجس نے انھیں آلیا تھا "پھر آپ نے زور سے سواری کو ہانکا رفتار تیز کی یہاں تک کہ اس جگہ کو پیچھے چھوڑ دیا۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7465
1
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: حجر کا علاقہ جہاں قوم ثمود آباد تھی، وہاں سے غزوۂ تبوک کے موقع پر گزرے ہیں، کیونکہ یہ جگہ خیبر اور تبوک کے درمیان واقع ہے، جہاں آج بھی کھنڈرات موجود ہیں، عذاب شدہ قوموں کے علاقہ سے گزرتےہوئے رونا چاہیے، یا کم از کم رونی صورت ہی بنانی چاہیے کہ کہیں ہم بھی ا س عذاب کا شکار نہ ہوجائیں اور ان علاقوں سےصرف ضرورت کے تحت یا عبرت اور سبق آموزی کے لیے ہی جانا چاہیے۔