الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
Prayer (Kitab Al-Salat)
11. باب فِي مَنْ نَامَ عَنِ الصَّلاَةِ، أَوْ نَسِيَهَا
11. باب: جو نماز کے وقت سو جائے یا اسے بھول جائے تو کیا کرے؟
Chapter: Whoever Sleeps Through The Prayer (Time) Or Forgets (To Pray).
حدیث نمبر: 435
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا احمد بن صالح، حدثنا ابن وهب، اخبرني يونس، عن ابن شهاب، عن ابن المسيب، عن ابي هريرة،" ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، حين قفل من غزوة خيبر فسار ليلة حتى إذا ادركنا الكرى عرس، وقال لبلال: اكلا لنا الليل، قال: فغلبت بلالا عيناه وهو مستند إلى راحلته، فلم يستيقظ النبي صلى الله عليه وسلم ولا بلال ولا احد من اصحابه حتى إذا ضربتهم الشمس، فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم اولهم استيقاظا، ففزع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا بلال، فقال: اخذ بنفسي الذي اخذ بنفسك، بابي انت وامي يا رسول الله، فاقتادوا رواحلهم شيئا، ثم توضا النبي صلى الله عليه وسلم، وامر بلالا فاقام لهم الصلاة وصلى بهم الصبح، فلما قضى الصلاة، قال: من نسي صلاة فليصلها إذا ذكرها، فإن الله تعالى، قال: 0 اقم الصلاة للذكرى 0"، قال يونس: وكان ابن شهاب يقرؤها كذلك، قال احمد: قال عنبسة يعني عن يونس، في هذا الحديث: لذكري، قال احمد: الكرى النعاس.
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ ابْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،" أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حِينَ قَفَلَ مِنْ غَزْوَةِ خَيْبَرَ فَسَارَ لَيْلَةً حَتَّى إِذَا أَدْرَكَنَا الْكَرَى عَرَّسَ، وَقَالَ لِبِلَالٍ: اكْلَأْ لَنَا اللَّيْلَ، قَالَ: فَغَلَبَتْ بِلَالًا عَيْنَاهُ وَهُوَ مُسْتَنِدٌ إِلَى رَاحِلَتِهِ، فَلَمْ يَسْتَيْقِظْ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا بِلَالٌ وَلَا أَحَدٌ مِنْ أَصْحَابِهِ حَتَّى إِذَا ضَرَبَتْهُمُ الشَّمْسُ، فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوَّلَهُمُ اسْتِيقَاظًا، فَفَزِعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا بِلَالُ، فَقَالَ: أَخَذَ بِنَفْسِي الَّذِي أَخَذَ بِنَفْسِكَ، بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَاقْتَادُوا رَوَاحِلَهُمْ شَيْئًا، ثُمَّ تَوَضَّأَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَمَرَ بِلَالًا فَأَقَامَ لَهُمُ الصَّلَاةَ وَصَلَّى بِهِمُ الصُّبْحَ، فَلَمَّا قَضَى الصَّلَاةَ، قَالَ: مَنْ نَسِيَ صَلَاةً فَلْيُصَلِّهَا إِذَا ذَكَرَهَا، فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى، قَالَ: 0 أَقِمْ الصَّلَاةَ لِلذِّكْرَى 0"، قَالَ يُونُسُ: وَكَانَ ابْنُ شِهَابٍ يَقْرَؤُهَا كَذَلِكَ، قَالَ أَحْمَدُ: قَالَ عَنْبَسَةُ يَعْنِي عَنْ يُونُسَ، فِي هَذَا الْحَدِيثِ: لِذِكْرِي، قَالَ أَحْمَدُ: الْكَرَى النُّعَاسُ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس وقت غزوہ خیبر سے لوٹے تو رات میں چلتے رہے، یہاں تک کہ جب ہمیں نیند آنے لگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اخیر رات میں پڑاؤ ڈالا، اور بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا: (تم جاگتے رہنا) اور رات میں ہماری نگہبانی کرنا، ابوہریرہ کہتے ہیں کہ بلال بھی سو گئے، وہ اپنی سواری سے ٹیک لگائے ہوئے تھے، پھر نہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے نہ بلال رضی اللہ عنہ، اور نہ آپ کے اصحاب میں سے کوئی اور ہی، یہاں تک کہ جب ان پر دھوپ پڑی تو سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھبرا کر بیدار ہوئے اور فرمایا: اے بلال! انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، مجھے بھی اسی چیز نے گرفت میں لے لیا جس نے آپ کو لیا، پھر وہ لوگ اپنی سواریاں ہانک کر آگے کچھ دور لے گئے ۱؎، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور بلال کو حکم دیا تو انہوں نے اقامت کہی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر پڑھائی، جب نماز پڑھا چکے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کوئی نماز بھول جائے تو جب بھی یاد آئے اسے پڑھ لے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: نماز قائم کرو جب یاد آئے۔ یونس کہتے ہیں: ابن شہاب اس آیت کو اسی طرح پڑھتے تھے (یعنی «للذكرى» لیکن مشہور قرأت: «أقم الصلاة للذكرى» (سورۃ طہٰ: ۱۴) ہے)۔ احمد کہتے ہیں: عنبسہ نے یونس سے روایت کرتے ہوئے اس حدیث میں «للذكرى» کہا ہے۔ احمد کہتے ہیں: «الكرى» «نعاس» (اونگھ) کو کہتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/المساجد 55 (680)، سنن ابن ماجہ/الصلاة 10 (697)، (تحفة الأشراف: 13326)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/التفسیر 20 (3163)، سنن النسائی/المواقیت 53 (619،620)، موطا امام مالک/وقوت الصلاة 6(25 مرسلاً) (صحیح)» ‏‏‏‏

Abu Hurairah reported: When the Messenger of Allah ﷺ returned from the Battle of Khaibar, he travelled during the night. When we felt sleep, he halted for rest. Addressing Bilal he said: Keep vigilance at night for us. But Bilal who was leaning against the saddle of his mount was dominated by sleep. Neither the Prophet ﷺ nor Bilal nor any of his Companions could get up till the sunshine struck them. The Messenger of Allah ﷺ got up first of all. The Messenger of Allah ﷺ was embarrassed and said: O Bilal! He replied: He who detained your soul, detained my soul, Messenger of Allah, my parents be sacrificed for you. Then they drove their mounts to a little distance. The Prophet ﷺ perfumed ablution and commanded Bilal who made announcement for the prayer. He (the Prophet) led them in the Fajr prayer. When he finished prayer, he said: If anyone forget saying prayer, he should observe it when he recalls it, for Allah has said (in the Quran): "Establish prayer for my remembrance". Yunus said: Ibn Shihab used to recite this verse in a similar way (i. e. instead of reciting the word li-dhikri - for the sake of My remembrance - he would recite li-dhikra - when you remember). Ahmad (one of the narrator) said: 'Anbasah (a reporter) reported on the authority of Yunus the word li-dhikri (for the sake of my remembrance). Ahmad said: The word nu'as (occurring in this tradition) means "drowsiness".
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 435


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم (680)
   سنن النسائى الصغرى619عبد الرحمن بن صخرإذا نسيت الصلاة فصل إذا ذكرت فإن الله يقول أقم الصلاة لذكري
   سنن النسائى الصغرى620عبد الرحمن بن صخرمن نسي صلاة فليصلها إذا ذكرها فإن الله قال أقم الصلاة لذكري
   سنن النسائى الصغرى621عبد الرحمن بن صخرمن نسي صلاة فليصلها إذا ذكرها فإن الله يقول أقم الصلاة للذكرى
   صحيح مسلم1560عبد الرحمن بن صخرمن نسي الصلاة فليصلها إذا ذكرها فإن الله قال أقم الصلاة لذكري
   سنن أبي داود435عبد الرحمن بن صخرمن نسي صلاة فليصلها إذا ذكرها فإن الله قال أقم الصلاة للذكرى
   سنن ابن ماجه697عبد الرحمن بن صخرمن نسي صلاة فليصلها إذا ذكرها فإن الله قال وأقم الصلاة لذكري

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 619  
´جس نماز سے آدمی سو جائے تو اسے دوسرے روز اس کے وقت پر دوبارہ پڑھنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم نماز بھول جاؤ تو یاد آنے پر اسے پڑھ لو، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: «أقم الصلاة لذكري» ۱؎ نماز قائم کرو جب میری یاد آئے۔‏‏‏‏ عبدالاعلی کہتے ہیں: اس حدیث کو ہم سے یعلیٰ نے مختصراً بیان کیا ہے۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 619]
619 ۔ اردو حاشیہ: «وَأَقِمِ الصَّلاةَ لِذِكْرِي» [طه20: 14] اس کے ایک معنیٰ ہیں: مجھے یاد کرنے کے لیے نماز پڑھو۔ دوسرا ترجمہ حدیث میں بیان کیا گیا ہے۔ ایک قرأت میں «للذكري» بھی پڑھا گیا ہے۔ اس کے معنی ہیں: نماز یاد آنے پر، یا معنی ہیں: نصیحت حاصل کرنے کے لیے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 619   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث697  
´نماز کے وقت سو جائے یا اسے پڑھنا بھول جائے تو کیا کرے؟`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب غزوہ خیبر سے واپس لوٹے تو رات میں چلتے رہے، یہاں تک کہ جب نیند آنے لگی تو رات کے آخری حصہ میں آرام کے لیے اتر گئے، اور بلال رضی اللہ عنہ سے کہا: آج رات ہماری نگرانی کرو، چنانچہ بلال رضی اللہ عنہ کو جتنی توفیق ہوئی اتنی دیر نماز پڑھتے رہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سوتے رہے، جب فجر کا وقت قریب ہوا تو بلال رضی اللہ عنہ نے مشرق کی جانب منہ کر کے اپنی سواری پر ٹیک لگا لی، اسی ٹیک لگانے کی حالت میں ان کی آنکھ لگ گئی، نہ ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الصلاة/حدیث: 697]
اردو حاشہ:
(1)
نبی اکرم ﷺ کی نظر میں نماز کی اتنی اہمیت تھی کہ سفر میں تھکاوٹ کے موقع پر آرام کرتے ہوئے بھی یہی خیال تھا کہ نماز لیٹ نہ ہوجائے۔
اس لیے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی باقاعدہ ڈیوٹی لگا دی تاکہ فجر کی نماز بروقت پڑھی جائے۔

(2)
حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اپنے فرائض کی ادائیگی کے لیے پورا اہتمام کیا۔
ایک یہ کہ بقیہ رات نماز پڑھتے رہے تاکہ نیند نہ آجائے اور پھر اذان کا وقت قریب ہوا تو بھی پوری مستعدی سے مشرق کی طرف متوجہ ہو کر بیٹھ گئے تاکہ جونہی صبح صادق طلوع ہو اذان کہہ دیں۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس شخص کے ذمہ کوئی اجتماعی کام لگایا جائے اسے چاہیے کہ اس کی ادائیگی کے لیے بہتر سے بہتر انداز سے کوشش کرے۔

(3)
کسی قوم یا جماعت کے سربراہ کو چاہیے کہ اگر اجتماعی کام میں کوئی خلل واقع ہوتو اس کے ذمہ دار سے باز پرس کرے تاکہ دوسرے لوگ اپنے فرائض میں کوتاہی کرنے سے اجتناب کریں۔

(4)
اگر معلوم ہو کہ کام میں خلل کی وجہ ذمہ دار کی بے پرواہی یا عمداً کوتاہی نہیں تو اس کا عذر قبول کیا جائے اور اسے مزید توبیخ نہ کی جائے۔

(5)
قافلہ کو اس مقام سے چلا کر کچھ دور ٹھر جانے میں یہ حکمت ہو سکتی ہے کہ سستی ختم ہو کر تمام افراد ہوشیار اور چست ہو جائیں تاکہ نماز میں نیند اور سستی کا اثر باقی نہ رہے۔

(6)
قضاء شدہ نماز بھی باجماعت ادا کی جاسکتی ہے۔

(7)
حدیث میں مذکورہ آیت کی دو قراءتیں ہیں اور دونوں صحیح ہیں۔
پہلی قراءت جو ہمارے ہاں رائج ہے۔
﴿وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذکْري﴾ اس کا مطلب یہ ہے کہ نماز کا اصل مقصد اللہ کی یاد ہے لہٰذا نماز پوری توجہ کے ساتھ ادا کرنا ضروری ہے۔
دوسری قراءت ﴿وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ لِلذِّکْرٰي﴾ سے زیر بحث مسئلہ کی دلیل بنتی ہے۔
اس صورت میں اس کا مطلب نصیحت کے لیے بھی ہوسکتا ہے۔
اور یاد کے لیے یا یاد کے وقت بھی۔
حدیث میں یہی آخری مطلب مراد ہے۔
اس سے دلیل لیتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے یہ مسئلہ بیان فرمایا کہ اگر کسی وجہ کوئی شخص نماز پڑھنا بھول جائے تو یاد آتے ہی فوراً ادا کرلینی چاہیے، بلاوجہ مزید تاخیر کرنا مناسب نہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 697   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.