الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: زکوۃ کے مسائل کا بیان
The Book of Zakat
53. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {لاَ يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا} وَكَمِ الْغِنَى:
53. باب: (سورۃ البقرہ میں) اللہ تعالیٰ کا ارشاد کہ ”جو لوگوں سے چمٹ کر نہیں مانگتے“ اور کتنے مال سے آدمی مالدار کہلاتا ہے۔
(53) Chapter. The Statement of Allah:
حدیث نمبر: 1478
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا محمد بن غرير الزهري، حدثنا يعقوب بن إبراهيم، عن ابيه، عن صالح بن كيسان، عن ابن شهاب، قال: اخبرني عامر بن سعد، عن ابيه، قال:" اعطى رسول الله صلى الله عليه وسلم رهطا وانا جالس فيهم، قال: فترك رسول الله صلى الله عليه وسلم منهم رجلا لم يعطه وهو اعجبهم إلي، فقمت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فساررته، فقلت: ما لك عن فلان، والله إني لاراه مؤمنا , قال او مسلما؟ , قال: فسكت قليلا، ثم غلبني ما اعلم فيه، فقلت: يا رسول الله ما لك عن فلان، والله إني لاراه مؤمنا , قال او مسلما؟ , قال: فسكت قليلا، ثم غلبني ما اعلم فيه، فقلت: يا رسول الله ما لك عن فلان، والله إني لاراه مؤمنا قال او مسلما يعني؟، فقال: إني لاعطي الرجل وغيره احب إلي منه خشية ان يكب في النار على وجهه"، وعن ابيه، عن صالح، عن إسماعيل بن محمد، انه قال: سمعت ابي يحدث بهذا، فقال في حديثه: فضرب رسول الله صلى الله عليه وسلم بيده فجمع بين عنقي وكتفي، ثم قال: اقبل اي سعد إني لاعطي الرجل، قال ابو عبد الله: فكبكبوا قلبوا فكبوا مكبا، اكب الرجل إذا كان فعله غير واقع على احد، فإذا وقع الفعل، قلت: كبه الله لوجهه وكببته انا.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ غُرَيْرٍ الزُّهْرِيُّ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَامِرُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:" أَعْطَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَهْطًا وَأَنَا جَالِسٌ فِيهِمْ، قَالَ: فَتَرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُمْ رَجُلًا لَمْ يُعْطِهِ وَهُوَ أَعْجَبُهُمْ إِلَيَّ، فَقُمْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَارَرْتُهُ، فَقُلْتُ: مَا لَكَ عَنْ فُلَانٍ، وَاللَّهِ إِنِّي لَأَرَاهُ مُؤْمِنًا , قَالَ أَوْ مُسْلِمًا؟ , قَالَ: فَسَكَتُّ قَلِيلًا، ثُمَّ غَلَبَنِي مَا أَعْلَمُ فِيهِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا لَكَ عَنْ فُلَانٍ، وَاللَّهِ إِنِّي لَأَرَاهُ مُؤْمِنًا , قَالَ أَوْ مُسْلِمًا؟ , قَالَ: فَسَكَتُّ قَلِيلًا، ثُمَّ غَلَبَنِي مَا أَعْلَمُ فِيهِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا لَكَ عَنْ فُلَانٍ، وَاللَّهِ إِنِّي لَأَرَاهُ مُؤْمِنًا قَالَ أَوْ مُسْلِمًا يَعْنِي؟، فَقَالَ: إِنِّي لَأُعْطِي الرَّجُلَ وَغَيْرُهُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْهُ خَشْيَةَ أَنْ يُكَبَّ فِي النَّارِ عَلَى وَجْهِهِ"، وَعَنْ أَبِيهِ، عَنْ صَالِحٍ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ مُحَمَّدٍ، أَنَّهُ قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي يُحَدِّثُ بِهَذَا، فَقَالَ فِي حَدِيثِهِ: فَضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ فَجَمَعَ بَيْنَ عُنُقِي وَكَتِفِي، ثُمَّ قَالَ: أَقْبِلْ أَيْ سَعْدُ إِنِّي لَأُعْطِي الرَّجُلَ، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: فَكُبْكِبُوا قُلِبُوا فَكُبُّوا مُكِبًّا، أَكَبَّ الرَّجُلُ إِذَا كَانَ فِعْلُهُ غَيْرَ وَاقِعٍ عَلَى أَحَدٍ، فَإِذَا وَقَعَ الْفِعْلُ، قُلْتَ: كَبَّهُ اللَّهُ لِوَجْهِهِ وَكَبَبْتُهُ أَنَا.
ہم سے محمد بن غریر زہری نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے اپنے باپ سے بیان کیا ‘ ان سے صالح بن کیسان نے ان سے ابن شہاب نے ‘ انہوں نے کہا کہ مجھے عامر بن سعد بن ابی وقاص نے اپنے باپ سعد بن ابی وقاص سے خبر دی۔ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند اشخاص کو کچھ مال دیا۔ اسی جگہ میں بھی بیٹھا ہوا تھا۔ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ ہی بیٹھے ہوئے شخص کو چھوڑ دیا اور انہیں کچھ نہیں دیا۔ حالانکہ ان لوگوں میں وہی مجھے زیادہ پسند تھا۔ آخر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب جا کر چپکے سے عرض کیا ‘ فلاں شخص کو آپ نے کچھ بھی نہیں دیا؟ واللہ میں اسے مومن خیال کرتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ یا مسلمان؟ انہوں نے بیان کیا کہ اس پر میں تھوڑی دیر تک خاموش رہا۔ لیکن میں ان کے متعلق جو کچھ جانتا تھا اس نے مجھے مجبور کیا ‘ اور میں نے عرض کیا ‘ یا رسول اللہ! آپ فلاں شخص سے کیوں خفا ہیں ‘ واللہ! میں اسے مومن سمجھتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ یا مسلمان؟ تین مرتبہ ایسا ہی ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک شخص کو دیتا ہوں (اور دوسرے کو نظر انداز کر جاتا ہوں) حالانکہ وہ دوسرا میری نظر میں پہلے سے زیادہ پیارا ہوتا ہے۔ کیونکہ (جس کو میں دیتا ہوں نہ دینے کی صورت میں) مجھے ڈر اس بات کا رہتا ہے کہ کہیں اسے چہرے کے بل گھسیٹ کر جہنم میں نہ ڈال دیا جائے۔ اور (یعقوب بن ابراہیم) اپنے والد سے ‘ وہ صالح سے ‘ وہ اسماعیل بن محمد سے ‘ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے اپنے والد سے سنا کہ وہ یہی حدیث بیان کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ میری گردن اور مونڈھے کے بیچ میں مارا۔ اور فرمایا۔ سعد! ادھر سنو۔ میں ایک شخص کو دیتا ہوں۔ آخر حدیث تک۔ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے کہا کہ (قرآن مجید میں لفظ) «كبكبوا‏» اوندھے لٹا دینے کے معنی میں ہے۔ اور سورۃ الملک میں جو «مكبا‏» کا لفظ ہے وہ «أكب» سے نکلا ہے۔ «أكب» لازم ہے یعنی اوندھا گرا۔ اور اس کا متعدی «كب» ہے۔ کہتے ہیں کہ «كبه الله لوجهه» یعنی اللہ نے اسے اوندھے منہ گرا دیا۔ اور «كببته» یعنی میں نے اس کو اوندھا گرایا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا صالح بن کیسان عمر میں زہری سے بڑے تھے وہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے ملے ہیں۔

Narrated Sa`d (bin Abi Waqqas): Allah's Apostle distributed something (from the resources of Zakat) amongst a group of people while I was sitting amongst them, but he left a man whom I considered the best of the lot. So, I went up to Allah's Apostle and asked him secretly, "Why have you left that person? By Allah! I consider him a believer." The Prophet said, "Or merely a Muslim (Who surrender to Allah)." I remained quiet for a while but could not help repeating my question because of what I knew about him. I said, "O Allah's Apostle! Why have you left that person? By Allah! I consider him a believer. " The Prophet said, "Or merely a Muslim." I remained quiet for a while but could not help repeating my question because of what I knew about him. I said, "O Allah's Apostle! Why have you left that person? By Allah! I consider him a believer." The Prophet said, "Or merely a Muslim." Then Allah's Apostle (p.b.u.h) said, "I give to a person while another is dearer to me, for fear that he may be thrown in the Hell-fire on his face (by reneging from Islam)."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 24, Number 556

   صحيح البخاري27سعد بن مالكأعطي الرجل وغيره أحب إلي منه خشية أن يكبه الله في النار
   صحيح البخاري1478سعد بن مالكأعطي الرجل وغيره أحب إلي منه خشية أن يكب في النار على وجهه
   صحيح مسلم379سعد بن مالكأعطي الرجل وغيره أحب إلي منه خشية أن يكب في النار على وجهه
   صحيح مسلم2433سعد بن مالكأعطي الرجل وغيره أحب إلي منه خشية أن يكب في النار على وجهه
   سنن أبي داود4683سعد بن مالكأعطي رجالا وأدع من هو أحب إلي منهم لا أعطيه شيئا مخافة أن يكبوا في النار على وجوههم
   سنن أبي داود4685سعد بن مالكأعطي الرجل العطاء وغيره أحب إلي منه مخافة أن يكب على وجهه
   سنن النسائى الصغرى4995سعد بن مالكأعطي رجالا وأدع من هو أحب إلي منهم لا أعطيه شيئا مخافة أن يكبوا في النار على وجوههم
   مسندالحميدي68سعد بن مالكقسم رسول الله صلى الله عليه وسلم قسما
   مسندالحميدي69سعد بن مالك

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 27  
´نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پر شفقت`
«. . . قَالَ: يَا سَعْدُ، إِنِّي لَأُعْطِي الرَّجُلَ وَغَيْرُهُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْهُ خَشْيَةَ أَنْ يَكُبَّهُ اللَّهُ فِي النَّارِ . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے سعد! باوجود یہ کہ ایک شخص مجھے زیادہ عزیز ہے (پھر بھی میں اسے نظر انداز کر کے) کسی اور دوسرے کو اس خوف کی وجہ سے یہ مال دے دیتا ہوں کہ (وہ اپنی کمزوری کی وجہ سے اسلام سے پھر جائے اور) اللہ اسے آگ میں اوندھا ڈال دے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 27]

لغوی توضیح:
«رَهْطًا» گروہ۔
«خَشْيَةَ أَنْ يَكُبَّهُ اللَّهُ» اس ڈر سے کہ کہیں اللہ اسے آگ میں نہ ڈال دے (اس وجہ سے کہ وہ اپنے ایمان کی کمزوری کی وجہ سے اسلام سے پھر جائے)۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث\صفحہ نمبر: 91   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 27  
´ایمان دل کا فعل ہے`
«. . . يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا لَكَ عَنْ فُلَانٍ، فَوَاللَّهِ إِنِّي لَأَرَاهُ مُؤْمِنًا؟ فَقَالَ: أَوْ مُسْلِمًا، فَسَكَتُّ قَلِيلًا . . .»
. . . یا رسول اللہ! آپ نے فلاں کو کچھ نہ دیا حالانکہ میں اسے مومن گمان کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مومن یا مسلمان؟ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 27]

تشریح:
آیت کریمہ میں بنو اسد کے کچھ بدویوں کا ذکر ہے جو مدینہ میں آ کر اپنے اسلام کا اظہار بطور احسان کر رہے تھے، اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ یہ ہمارا احسان ہے نہ کہ تمہارا۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے اس شخص کے بارے میں قسم کھا کر مومن ہونے کا بیان دیا تھا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تنبیہ فرمائی کہ ایمان دل کا فعل ہے کسی کو کسی کے باطن کی کیا خبر، ظاہری طور پر مسلمان ہونے کا حکم لگا سکتے ہو۔ اس باب اور اس کے ذیل میں یہ حدیث لا کر امام بخاری رحمہ اللہ یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ اسلام عنداللہ وہی قبول ہے جو دل سے ہو۔ ویسے دنیاوی امور میں ظاہری اسلام بھی مفید ہو سکتا ہے۔ اس مقصد کے پیش نظر حضرت امام بخاری رحمہ اللہ ایمان اور اسلام شرعی میں اتحاد ثابت کر رہے ہیں اور یہ اسی مجتہدانہ بصیرت کی بنا پر جو اللہ نے آپ کی فطرت میں ودیعت فرمائی تھی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 27   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1478  
1478. حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا:میں ایک جماعت میں بیٹھا ہواتھا کہ رسول اللہ ﷺ نے انھیں کچھ مال دیا اور ایک آدمی کو چھوڑ دیا، اسے کچھ نہ دیا، حالانکہ وہ شخص مجھے سب سے زیادہ پسند تھا۔ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس اٹھ کر گیا اور راز داری کے طور پر عرض کیا:اللہ کے رسول ﷺ! کیا بات ہے آپ ﷺ نے فلاں شخص کو نظر انداز کردیاہے؟ اللہ کی قسم!میں تو اسے مومن خیال کرتا ہوں، آپ نے فرمایا:مومن نہیں اسے مسلمان کہو۔ میں تھوڑی دیر خاموش رہا، پھر اس کا وہ حال جو مجھے معلوم تھا مجھ پر غالب آگیا تو میں نے عرض کیا:اللہ کے رسول ﷺ! کیابات ہے آپ نے فلاں شخص سے کیوں اعراض کیا ہے؟ اللہ کی قسم!میں تو اسے مومن خیال کرتا ہوں، آپ نے فرمایا:مومن کی بجائے مسلمان کہو۔ حضرت سعد ؓ کہتے ہیں کہ میں پھر کچھ دیر خاموش رہا، لیکن مجھ پر پھر وہ بات غالب آگئی جو میں اس کے متعلق جانتا تھا، میں نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1478]
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث کتاب الایمان میں گزرچکی ہے۔
ابن اسحاق نے مغازی میں نکالا‘ آنحضرت ﷺ سے عرض کیا گیا کہ آپ نے عیینہ بن حصن اور اقرع بن حابس کو سو سو روپے دے دیے۔
اور جعیل سراقہ کو کچھ نہیں دیا۔
آپ نے فرمایا‘ قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جعیل بن سراقہ عیینہ اور اقرع ایسے ساری زمین بھرلوگوں سے بہتر ہے۔
لیکن میں عیینہ اور اقرع کا روپیہ دے کر دل ملاتا ہوں اور جعیل کے ایمان پر تو مجھ کو بھروسہ ہے۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 1478   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4683  
´ایمان کی کمی اور زیادتی کے دلائل کا بیان۔`
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو دیا اور ان میں سے ایک شخص کو کچھ نہیں دیا تو سعد نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے فلاں اور فلاں کو دیا لیکن فلاں کو کچھ بھی نہیں دیا حالانکہ وہ مومن ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یا مسلم ہے سعد نے تین بار یہی عرض کیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کہتے رہے: یا مسلم ہے پھر آپ نے فرمایا: میں بعض لوگوں کو دیتا ہوں اور ان میں تجھے جو زیادہ محبوب ہے اسے چھوڑ دیتا ہوں، میں اسے کچھ بھی نہیں دیتا، ایسا اس اندیشے سے کہ کہیں وہ جہنم میں اوندھے م۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4683]
فوائد ومسائل:
1: ایمان اور اسلام اگرچہ آپس میں لازم وملزوم ہیں، مگر ایمان اعضائے باطن وظاہر کے اعمال (تصدیق عمل قلب ہے اور نماز، حج، زکوۃ وغیرہ تمام اعمال صالحہ اعضائے ظاہر کے عمل ہیں) کا نام ہے، جبکہ اسلام کا تعلق ظاہری افعال سے۔
اس لیے ہم ظاہری اعمال کی روشنی میں کسی کو صاحب اسلام تو کہہ سکتے ہیں، لیکن صاحب ایمان ہونے کا دعوی درست نہیں۔
یہ بات اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
اعضائے ظاہری کے ان اعمال کے ساتھ تصدیق بالقلب کی حالت ہے۔

2: اسلام قبول کرنے والے نو مسلم لوگوں کو اسلام میں راسخ اور مطئمن کرنے کے لئے ماوی تعاون دینا ضروری ہے تاکہ اسلامی معاشرے کے شرعی اعمال کی روح میں اتر جائیں۔
ایسے لوگوں کو اصطلاحًا (مولفةالقلوب) كہا جاتا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4683   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1478  
1478. حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا:میں ایک جماعت میں بیٹھا ہواتھا کہ رسول اللہ ﷺ نے انھیں کچھ مال دیا اور ایک آدمی کو چھوڑ دیا، اسے کچھ نہ دیا، حالانکہ وہ شخص مجھے سب سے زیادہ پسند تھا۔ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس اٹھ کر گیا اور راز داری کے طور پر عرض کیا:اللہ کے رسول ﷺ! کیا بات ہے آپ ﷺ نے فلاں شخص کو نظر انداز کردیاہے؟ اللہ کی قسم!میں تو اسے مومن خیال کرتا ہوں، آپ نے فرمایا:مومن نہیں اسے مسلمان کہو۔ میں تھوڑی دیر خاموش رہا، پھر اس کا وہ حال جو مجھے معلوم تھا مجھ پر غالب آگیا تو میں نے عرض کیا:اللہ کے رسول ﷺ! کیابات ہے آپ نے فلاں شخص سے کیوں اعراض کیا ہے؟ اللہ کی قسم!میں تو اسے مومن خیال کرتا ہوں، آپ نے فرمایا:مومن کی بجائے مسلمان کہو۔ حضرت سعد ؓ کہتے ہیں کہ میں پھر کچھ دیر خاموش رہا، لیکن مجھ پر پھر وہ بات غالب آگئی جو میں اس کے متعلق جانتا تھا، میں نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1478]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث کی عنوان سے اس طرح مطابقت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جس شخص کو کچھ نہ دیا تھا، اس نے حضرت سعد ؓ کے بار بار توجہ دلانے کے باوجود مال کے متعلق سوال نہیں کیا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تکثیرِ مال کے لیے سوال کرنا اچھی بات نہیں۔
اس کے علاوہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں کچھ لوگوں کو اس لیے دیتا ہوں تاکہ سوال حرام کا ارتکاب کر کے اوندھے منہ جہنم میں نہ گرا دیے جائیں، اس انداز سے بھی مذکورہ حدیث عنوان کے مطابق ہو جاتی ہے۔
(عمدةالقاري: 511/3)
حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کے بار بار اصرار کرنے سے جسے رسول اللہ ﷺ نے پسند نہیں فرمایا عنوان ثابت ہوتا ہے۔
(فتح الباري: 432/3)
لیکن آپ کا بار بار سوال کرنا تکثیر مال کے متعلق نہ تھا بلکہ ایک بظاہر حقدار کی سفارش کرنا مقصود تھا۔
واللہ أعلم۔
(3)
امام بخاری ؒ نے حدیث کے آخر میں بعض الفاظ کی مناسبت سے قرآن کریم میں آمدہ غریب الفاظ کی تشریح کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ عام قاعدے کے مطابق مجرد لازم اور مزید فیہ متعدی فعل کے لیے ہوتا ہے لیکن أكب اور كب اس قاعدے کے برعکس مزید فیہ، فعل لازم اور مجرد، فعل متعدی کے لیے ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1478   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.