الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: وضو کے بیان میں
The Book of Wudu (Ablution)
14. بَابُ التَّبَرُّزِ فِي الْبُيُوتِ:
14. باب: گھروں میں قضائے حاجت کرنا ثابت ہے۔
(14) Chapter. To defecate in houses.
حدیث نمبر: 148
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا إبراهيم بن المنذر، قال: حدثنا انس بن عياض، عن عبيد الله، عن محمد بن يحيى بن حبان، عن واسع بن حبان، عن عبد الله بن عمر، قال،:" ارتقيت فوق ظهر بيت حفصة لبعض حاجتي، فرايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقضي حاجته مستدبر القبلة مستقبل الشام".حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ عِيَاضٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ، عَنْ وَاسِعِ بْنِ حَبَّانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ،:" ارْتَقَيْتُ فَوْقَ ظَهْرِ بَيْتِ حَفْصَةَ لِبَعْضِ حَاجَتِي، فَرَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْضِي حَاجَتَهُ مُسْتَدْبِرَ الْقِبْلَةِ مُسْتَقْبِلَ الشَّأْمِ".
ہم سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے انس بن عیاض نے عبیداللہ بن عمر کے واسطے سے بیان کیا، وہ محمد بن یحییٰ بن حبان سے نقل کرتے ہیں، وہ واسع بن حبان سے، وہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ (ایک دن میں اپنی بہن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ محترمہ) حفصہ رضی اللہ عنہا کے مکان کی چھت پر اپنی کسی ضرورت سے چڑھا، تو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قضاء حاجت کرتے وقت قبلہ کی طرف پشت اور شام کی طرف منہ کئے ہوئے نظر آئے۔

Narrated `Abdullah bin `Umar: I went up to the roof of Hafsa's house for some job and I saw Allah's Apostle answering the call of nature facing Sham (Syria, Jordan, Palestine and Lebanon regarded as one country) with his back towards the Qibla. (See Hadith No. 147).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 4, Number 150

   صحيح البخاري3102عبد الله بن عمريقضي حاجته مستدبر القبلة مستقبل الشأم
   صحيح البخاري145عبد الله بن عمررأيت رسول الله على لبنتين مستقبلا بيت المقدس لحاجته لعلك من الذين يصلون على أوراكهم فقلت لا أدري والله
   صحيح البخاري149عبد الله بن عمررأيت رسول الله قاعدا على لبنتين مستقبل بيت المقدس
   صحيح البخاري148عبد الله بن عمررأيت رسول الله يقضي حاجته مستدبر القبلة مستقبل الشأم
   صحيح مسلم612عبد الله بن عمرقاعدا لحاجته مستقبل الشام مستدبر القبلة
   جامع الترمذي11عبد الله بن عمرعلى حاجته مستقبل الشام مستدبر الكعبة
   سنن أبي داود12عبد الله بن عمررأيت رسول الله على لبنتين مستقبل بيت المقدس لحاجته
   سنن النسائى الصغرى23عبد الله بن عمرمستقبل بيت المقدس لحاجته
   سنن ابن ماجه322عبد الله بن عمررأيت رسول الله قاعدا على لبنتين مستقبل بيت المقدس

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 148  
´گھروں میں قضائے حاجت کرنا`
«. . . عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ،: ارْتَقَيْتُ فَوْقَ ظَهْرِ بَيْتِ حَفْصَةَ لِبَعْضِ حَاجَتِي، فَرَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْضِي حَاجَتَهُ مُسْتَدْبِرَ الْقِبْلَةِ مُسْتَقْبِلَ الشَّأْمِ . . .»
. . . وہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ (ایک دن میں اپنی بہن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ محترمہ) حفصہ رضی اللہ عنہا کے مکان کی چھت پر اپنی کسی ضرورت سے چڑھا، تو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قضاء حاجت کرتے وقت قبلہ کی طرف پشت اور شام کی طرف منہ کئے ہوئے نظر آئے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ التَّبَرُّزِ فِي الْبُيُوتِ:: 148]

تشریح:
آپ اس وقت فضا میں نہ تھے، بلکہ وہاں پاخانہ بنا ہوا تھا، اس میں آپ بیٹھے ہوئے تھے۔ [فتح الباري]
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 148   
  مولانا محمد ابوالقاسم سيف بنارسي حفظ الله، دفاع بخاري، تحت الحديث صحيح بخاري 148  
´گھروں میں قضائے حاجت کرنا ثابت ہے`
«. . . عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ،:" ارْتَقَيْتُ فَوْقَ ظَهْرِ بَيْتِ حَفْصَةَ لِبَعْضِ حَاجَتِي، فَرَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْضِي حَاجَتَهُ مُسْتَدْبِرَ الْقِبْلَةِ مُسْتَقْبِلَ الشَّأْمِ".»
. . . عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ (ایک دن میں اپنی بہن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ محترمہ) حفصہ رضی اللہ عنہا کے مکان کی چھت پر اپنی کسی ضرورت سے چڑھا، تو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قضاء حاجت کرتے وقت قبلہ کی طرف پشت اور شام کی طرف منہ کئے ہوئے نظر آئے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ: 148]

فقہ الحدیث
منکرین حدیث اس حدیث پر اعتراض کرتے ہیں:
اس حدیث کا مطلب ہے کہ آپ نے قبلہ کی طرف پشت کر کے قضائے حاجت کی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان سے یہ امر نہایت مستبعد ہے کہ آپ قضائے حاجت کے وقت قبلہ کی طرف پشت کریں، خصوصا ایسی حالت میں کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسروں کو قبلہ کی طرف پشت یا منہ کر کے قضائے حاجت کرنے سے منع کیا ہو، جیسا کہ اسی بخاری میں حدیث ہے یعنی جب تم قضائے حاجت کو آؤ، پس قبلہ کی طرف مت منہ کرو اور نہ اس کی طرف پیٹھ کرو۔
{أقول:} اس کی وجہ خود اسی حدیث سے نہایت ظاہر طور پر ثابت ہے، جس کا معترض نے اپنی کتاب کے صفحہ ۱۲ پر اقرار بھی کیا ہے کہ حدیث اول مکان کے واسطے ہے، کیونکہ مکان میں دیوار ہوتی ہے، جس سے پردہ اور آڑ ہو جاتا ہے، اور حدیث دوم میدان کے لیے ہے، کیونکہ وہاں کسی چیز کی آڑ نہیں ہوتی، آپ خواہ مخواہ اس کو غلط قرار دیتے ہیں، بحالیکہ امام بخاری رحمہ اللہ خود باب میں یہ استدلال کرتے ہیں: «إلا عند البناء جدار أو نحوه» یعنی جس حدیث میں ممانعت آئی ہے، اس سے مکان اور آڑ والی چیزیں مثلاً دیوار وغیرہ مستثنٰی ہیں، کیونکہ دوسری حدیث میں کوئی شئے «جدار» وغیرہ کی مخصص نہیں ہے، پس وہ میدان کے لیے ہو گی۔ ہاں آپ کا یہ قول عجیب ہے کہ میدان اور کعبہ کے بیچ میں بھی ہزاروں مکانات و پہاڑ وغیرہ حائل ہیں۔‏‏‏‏ یہ حائل ہونا کوئی مفید امر نہیں ہے، اس لیے کہ وہ ہزاروں مکانات اور پہاڑ اس شخص کے لئے آڑ نہیں ہو سکتے، بخلاف متصل دیوار کے کہ وہ آڑ اور سترہ ہے، لہٰذا مکان کے اندر جائز ہے اور یہی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ و عروہ و ربیعہ و داود وغیرہ کا مذہب ہے اور مطلب بھی دونوں حدیثوں کا صاف اور اپنے محل میں بحال ہے۔
نیز اس حدیث پر مندرجہ ذیل ائمہ محدثین کی تبویبات سے بھی یہی قول راجح معلوم ہوتا ہے۔
➊ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «باب لا تستقبل القبلة بغائط أو بول إلا عند البناء جدار أو نحوه .»
➋ امام ابوداود، امام ترمذی اور امام نسائی رحمہ اللہ علیہم نے بھی گھروں میں رخصت کے ابواب قائم کیے ہیں۔
➌ امام الائمہ ابن خزیمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «باب ذكر الخبر المفسر للخبرين اللذين ذكرتهما فى البابين المتقدمين والدليل على ذلك أن النبى صلى الله عليه وسلم إنما نهى عن استقبال القبلة واستدبارها عند الغائط والبول فى الصحارى والمواضع التى لا سترة فيها، وأن الرخصة فى ذلك فى الكنف والمواضع التى فيها بين المتغوط والبائل وبين القبلة حائط أو سترة.»
➍ امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «ذكر الخبر الدال على أن الزجر عن استقبال القبلة واستدبارها بالغائط والبول إنما زجر عن ذلك فى الصحارى دون الكنف والمواضع المستورة.»
   دفاع صحیح بخاری، حدیث\صفحہ نمبر: 125   
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 145  
´اس بارے میں کہ کوئی شخص دو اینٹوں پر بیٹھ کر قضائے حاجت کرے (تو کیا حکم ہے؟) `
«. . . عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: إِنَّ نَاسًا، يَقُولُونَ: إِذَا قَعَدْتَ عَلَى حَاجَتِكَ فَلَا تَسْتَقْبِلِ الْقِبْلَةَ . . .»
. . . عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں، وہ فرماتے تھے کہ لوگ کہتے تھے کہ جب قضاء حاجت کے لیے بیٹھو تو نہ قبلہ کی طرف منہ کرو نہ بیت المقدس کی طرف . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ مَنْ تَبَرَّزَ عَلَى لَبِنَتَيْنِ: 145]

تخريج الحديث:
[150۔ البخاري فى: 4 كتاب الوضو: 12 باب من تبرز على لبنتين 145، مسلم 266، ترمذي 11]
لغوی توضیح:
«ارْتَقَيْتُ» میں چڑھا۔
«لَبِنَتَيْن» کی واحد «لَبِنَة» ہے، معنی ہے اینٹ۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث\صفحہ نمبر: 150   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 23  
´قضائے حاجت کے وقت گھروں میں قبلہ کی جانب منہ یا پیٹھ کرنے کی رخصت۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ میں اپنے گھر کی چھت پر چڑھا، تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو کچی اینٹوں پر قضائے حاجت کے لیے بیت المقدس کی طرف منہ کئے ہوئے بیٹھے دیکھا ۱؎۔ [سنن نسائي/ذكر الفطرة/حدیث: 23]
23۔ اردو حاشیہ:
گھر سے مراد حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی ہمشیرہ ام المؤمنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کا حجرۂ مبارکہ ہے۔
➋ بیت المقدس مدینہ منورہ سے شمال کی جانب ہے، یعنی مکہ مکرمہ سے بالکل الٹ جانب، لہٰذا آپ کی پیٹھ قبلے کی جانب تھی۔
➌ اس روایت سے امام شافعی رحمہ اللہ اور دوسرے محدثین نے استدلال کیا ہے کہ عمارت کے اندر قبلے کی طرف منہ یا پیٹھ کرنا جائز ہے ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح نہ بیٹھتے اور یہ بہترین تطبیق ہے جس سے تمام روایات قابل عمل ٹھہرتی ہیں، بجائے اس کے کہ کسی روایت کو منسوخ کہا جائے یا آپ کا خاصہ قرار دیا جائے، نیز خود حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے یہی مطلب منقول ہے۔ دیکھیے: [سنن أبي داود، الطھارۃ، حدیث: 11]
البتہ احتیاط، یعنی چاردیواری کے اندر بھی بچنا بہتر ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 23   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث322  
´صحراء و میدان کے علاوہ پاخانہ میں قبلہ کی طرف منہ یا پیٹھ کرنے کی رخصت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ لوگ کہتے ہیں کہ جب تم قضائے حاجت کے لیے بیٹھو تو قبلہ رو ہو کر نہ بیٹھو، حالانکہ ایک دن میں اپنے گھر کی چھت پر چڑھا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ دو کچی اینٹوں پر قضائے حاجت کے لیے بیت المقدس کی طرف منہ کر کے بیٹھے ہیں۔ ابن ماجہ کہتے ہیں: یہ یزید بن ہارون کی حدیث ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 322]
اردو حاشہ:
(1)
یہ گھر ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کی رہائش گاہ تھا جو راوی حدیث حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کی ہمشیرہ تھیں۔ دیکھیے: (صحیح البخاری، الوضوء، باب التبرز فی البیوت، حدیث: 148)
بہن کا گھر ہونے کی وجہ سے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنا گھر کہہ دیا۔

(2)
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے رسول اللہ ﷺ کو دیکھنے کا یہ مطلب نہیں کہ انھوں نے نبی ﷺ کو بے پردہ دیکھا۔
بات یہ ہے کہ بیت الخلاء کی دیوار چھوٹی ہونے کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ کا سر مبارک نظر آیا جس سے معلوم ہوا کہ آپ کی پشت کعبہ شریف کی طرف اور چہرہ مبارک بیت المقدس کی طرف ہے۔
کچی اینٹوں کا آپ کو پہلے سے علم تھا کہ یہاں بیٹھنے کے لیے کچی اینٹیں رکھی ہوئی ہیں۔ دیکھیے: (فتح الباری: 325/1)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 322   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 11  
´قبلہ کی طرف منہ کر کے پیشاب یا پاخانہ کرنے کی رخصت​۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک روز میں (اپنی بہن) حفصہ رضی الله عنہا کے گھر کی چھت پر چڑھا تو نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ شام کی طرف منہ اور کعبہ کی طرف پیٹھ کر کے قضائے حاجت فرما رہے ہیں ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 11]
اردو حاشہ:
1؎:
احتمال یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ کا یہ فعل خاص آپ کے لیے کسی عذر کی بنا پر تھا اور اُمّت کے لیے خاص حکم کے ساتھ آپ ﷺ کا یہ فعل قطعاً معارض ہے،
اور پھر یہ کہ آپ اوٹ تھے۔
(تحفۃ الأحوذی: 22/1،
ونیل الأوطارللشوکانی)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 11   
  0  
´بیٹھ کر پیشاب کرنا`
. . . عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے خبر دی، وہ کہتے ہیں کہ ایک دن میں اپنے گھر کی چھت پر چڑھا، تو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو اینٹوں پر (قضاء حاجت کے وقت) بیت المقدس کی طرف منہ کئے ہوئے نظر آئے۔ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/ بَابُ التَّبَرُّزِ فِي الْبُيُوتِ:/ ح: 149]
فوائد و مسائل
تبصرہ:
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: «فرأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم قاعدًا عليٰ لبنتين، مستقبل بيت المقدس» پھر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، آپ دو اینٹوں پر (قضائے حاجت فرماتے ہوئے) بیت المقدس کی طرف رخ کئے ہوئے بیٹھے تھے۔
[صحيح بخاري ج ۱ص ۲۷ ح ۱۴۹، ارشاد القاري للقسطلاني ج ۱ص ۲۳۸]
تنبیہ (۱):
اگر کوئی یہ کہے کہقضائے حاجت میں صرف بڑا پیشاب ہی ہوتا ہے چھوٹا پیشاب نہیں ہوتا تو یہ قول بلا دلیل اور مردود ہے۔
تنبیہ (۲):
اہل حدیث کے نزدیک صحیح و حسن لذاتہ حدیث حجت اور معیارِ حق ہے، چاہے صحیح بخاری میں ہو یا صحیح مسلم میں یا حدیث کی کسی بھی معتبر و مستند کتاب میں۔ اہل حدیث کا قطعاً یہ دعویٰ نہیں ہے کہ صرف صحیح بخاری و صحیح مسلم کی احادیث ہی حجت ہیں۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی بیان کردہ ایک حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر پیشاب نہیں کرتے تھے۔
[السنن الكبريٰ للبيهقي ۱/۱۰۲ و سنده حسن]
ایک روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر پیشاب کرنے سے اشارتاً منع فرمایا۔ ديكهئے:
[كشف الاستار ۱/۲۶۶ ح ۵۴۷ و سنده حسن]
معلوم ہوا کہ پیشاب بیٹھ کر ہی کرنا چاہئے اور کھڑے ہو کر پیشاب کرنا منسوخ ہے یا حالتِ عذر میں جواز پر محمول ہے۔
   مذید تشریحات، حدیث\صفحہ نمبر: 0   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:148  
148. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں ایک دن حضرت حفصہ‬ ؓ ک‬ے گھر کی چھت پر اپنی کسی حاجت کے پیش نظر چڑھا تو میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ قبلے کی طرف پشت اور شام (بیت المقدس) کی طرف منہ کیے ہوئے قضائے حاجت کر رہے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:148]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے باب میں ثابت کیا تھا کہ بوقت ضرورت عورتوں کا گھر سے باہرنکلنا جائز ہے بالخصوص قضائے حاجت کے لیے رات کے وقت میدانی علاقے میں جانے میں چنداں حرج نہیں۔
اس باب میں بیان فرمایا ہے کہ قضائے حاجت کے لیے عورتوں کا باہر جانا ایک ہنگامی ضرورت کے پیش نظر تھا جس کو بدل دیا گیا اور گھروں میں اس کے انتظامات کردیئے گئے۔
(فتح الباري: 329/1)
نیز شیاطین کو گندگی سے طبعی مناسبت ہوتی ہے، اس لیے جو مقام انسانی حاجت کے لیے ہوتے ہیں وہاں شیاطین کا ہجوم رہتا ہے تو گویا گھروں میں بیت الخلاء تعمیرکرنا، وہاں شیاطین کے جمع ہونے کا مرکز قائم کرنا ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کے تحت احادیث لا کر اس کا جواز ثابت کیا ہے کہ مکان میں ایک جانب بیت الخلاء تعمیر کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
شیطاطین تو اس گوشے میں جمع رہیں گے،البتہ ان کے بُرے اثرات سے محفوظ رہنے کے لیے اس دعا کی تلقین فرمادی جس کا پہلے ذکر ہوچکا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق احادیث میں ہے کہ قضائے حاجت کے لیے بہت دور جانا پسند کرتے تھے تاکہ آپ کو کوئی دیکھ نہ سکے۔
دور جانا بجائے خود کوئی مقصد نہیں بلکہ مقصد پردہ ہے۔
اگر قریب ہی میں پردے کا اہتمام ہوجائے تو دور جانے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔
گھر میں قضائے حاجت کے لیے بنائے گئے بیت الخلاء سے یہ ضرورت بدرجہ اتم پوری ہوجاتی ہے۔

اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے دو احادیث پیش فرمائی ہیں:
پہلی حدیث میں شام کی طرف منہ کرنے کا ذکر ہے اور دوسری روایت میں بیت المقدس کے الفاظ ہیں۔
چونکہ یہ دونوں ایک ہی جہت میں واقع ہیں اس لیے ان میں کوئی تضاد نہیں ہے نیز پہلی روایت میں استقبال شام کے ساتھ استدبار کعبہ کی بھی تصریح ہے۔
(فتح الباري: 325/1)

مذکورہ دونوں روایات میں واقعہ تو ایک ہی بیان ہوا ہے۔
لیکن حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ا س گھر کو ایک روایت میں اپنی ہمیشرہ حضرت حفصہ (زوجہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم)
رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا گھر بتایا ہے اور دوسری روایت میں اسے اپنا گھر کہا ہے۔
اس کی توجیہ یہ بیان کی گئی ہے کہ گھر تو حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا تھا، لیکن ان کی وفات کے بعد ورثے میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس آ گیا تھا، اس لیے دونوں ہی باتیں درست ہیں۔
ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ گھروں کے اندر قبلے کی طرف منہ یا پیٹھ کا رخ کرنا جائز ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 148   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.