الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
کتاب: طلاق کے فروعی احکام و مسائل
Divorce (Kitab Al-Talaq)
10. باب نَسْخِ الْمُرَاجَعَةِ بَعْدَ التَّطْلِيقَاتِ الثَّلاَثِ
10. باب: تین طلاق کے بعد رجعت کا اختیار باقی نہ رہنے کا بیان۔
Chapter: The Abrogation Of Taking Back A Wife After The Third Divorce.
حدیث نمبر: 2200
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
حدثنا احمد بن صالح، حدثنا عبد الرزاق، اخبرنا ابن جريج، اخبرني ابن طاوس، عن ابيه، ان ابا الصهباء، قال لابن عباس:" اتعلم انما كانت الثلاث تجعل واحدة على عهد النبي صلى الله عليه وسلم و ابي بكر وثلاثا من إمارة عمر؟" قال ابن عباس:" نعم".
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي ابْنُ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ أَبَا الصَّهْبَاءِ، قَالَ لِابْنِ عَبَّاسٍ:" أَتَعْلَمُ أَنَّمَا كَانَتْ الثَّلَاثُ تُجْعَلُ وَاحِدَةً عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَ أَبِي بَكْرٍ وَثَلَاثًا مِنْ إِمَارَةِ عُمَرَ؟" قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:" نَعَمْ".
طاؤس سے روایت ہے کہ ابوصہباء نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا: کیا آپ کو معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں نیز عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت کے ابتدائی تین سالوں میں تین طلاقوں کو ایک ہی مانا جاتا تھا؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جواب دیا: ہاں ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الطلاق 2 (1472)، سنن النسائی/الطلاق 8 (3435)، (تحفة الأشراف: 5715)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/314) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: ائمہ حدیث اور علما ظاہر کا اسی پر عمل ہے۔

Tawus said: Abu al-Sahba' said to Ibn Abbas: Do you know that a divorce by three pronouncements was made a single one during the time of the Prophet ﷺ, and of Abu Bakr and in the early days of the caliphate of Umar? He replied: Yes.
USC-MSA web (English) Reference: Book 12 , Number 2194


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم (1472)
   صحيح مسلم3675عبد الله بن عباسألم يكن الطلاق الثلاث على عهد رسول الله وأبي بكر واحدة فقال قد كان ذلك فلما كان في عهد عمر تتايع الناس في الطلاق فأجازه عليهم
   صحيح مسلم3673عبد الله بن عباسكان الطلاق على عهد رسول الله وأبي بكر وسنتين من خلافة عمر طلاق الثلاث واحدة فقال عمر بن الخطاب إن الناس قد استعجلوا في أمر قد كانت لهم فيه أناة فلو أمضيناه عليهم فأمضاه عليهم
   صحيح مسلم3674عبد الله بن عباسكانت الثلاث تجعل واحدة على عهد النبي و أبي بكر وثلاثا من إمارة عمر فقال ابن عباس نعم
   سنن أبي داود2199عبد الله بن عباسطلق امرأته ثلاثا قبل أن يدخل بها جعلوها واحدة على عهد رسول الله و أبي بكر وصدرا من إمارة عمر فلما رأى الناس قد تتابعوا فيها قال أجيزوهن عليهم
   سنن أبي داود2200عبد الله بن عباسالثلاث تجعل واحدة على عهد النبي و أبي بكر وثلاثا من إمارة عمر قال ابن عباس نعم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2200  
´تین طلاق کے بعد رجعت کا اختیار باقی نہ رہنے کا بیان۔`
طاؤس سے روایت ہے کہ ابوصہباء نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا: کیا آپ کو معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں نیز عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت کے ابتدائی تین سالوں میں تین طلاقوں کو ایک ہی مانا جاتا تھا؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جواب دیا: ہاں ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2200]
فوائد ومسائل:

امت کے لیے حجت شرعیہ صرف اور صرف نبی ﷺ کا دور ہے۔
جبکہ شریعت نازل ہوئی اور مکمل ہوگئی۔
اور امام مالک ؒ کا یہ قول قول فیصل ہے۔
(لن يصلح آخر هذه الامة الا ما صلح به اولها) اس امت کا آخری دور اسی سے اصلاح پذیر ہوگا جس ذریعے سے اس کے اول کی اصلاح ہوئی تھی۔


اس حدیث سے واضح ہے کہ عہد رسالت عہد ابی بکر اور عہد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دور میں ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق شمار کیا جاتا تھا۔
اس لیے یہ مسلک صحیح ہے۔
علاوہ ازیں عوام کی جہالت کا حل بھی یہی ہے؛ وہ طلاق کے صحیح طریقے سے بے خبر ہونے کی وجہ سے بیک وقت تین طلاقیں دے دیتے ہیں (حالانکہ ایسا کرنا سخت منع ہے) پھر پچھتاتے ہیں۔
اس کا حل یہی ہے کہ اسے ایک طلاق شمار کیا جائے اور اسے رجوع کا حق دیا جائے۔
آج کل کے متعدد علمائے احناف نے بھی اس موقف کی تائید کی ہے۔
جس کی تفصیل ایک مجلس کی تین طلاقیں نامی کتاب میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔
اسی طرح یہ مبحث عورتوں کے امتیازی مسائل وقوانین تالیف: حافظ صلاح الدین یوسف مطبوعہ دار السلام میں بھی ضروری حد تک موجود ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2200   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2199  
´تین طلاق کے بعد رجعت کا اختیار باقی نہ رہنے کا بیان۔`
طاؤس سے روایت ہے کہ ایک صاحب جنہیں ابوصہبا کہا جاتا تھا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کثرت سے سوال کرتے تھے انہوں نے پوچھا: کیا آپ کو معلوم ہے کہ جب آدمی اپنی بیوی کو دخول سے پہلے ہی تین طلاق دے دیتا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے نیز عمر رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دور خلافت میں اسے ایک طلاق مانا جاتا تھا؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جواب دیا: ہاں کیوں نہیں؟ جب آدمی اپنی بیوی کو دخول سے پہلے ہی تین طلاق دے دیتا تھا، تو اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں نیز عمر رضی الل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2199]
فوائد ومسائل:
اس روایت میں (قبل ان يدخل بها) قبل ازمباشرت کا اضافہ منکر ہے۔
تفصیلی بحث کے لیے دیکھیے (سلسلہ الاحادیث الضعیفۃ ج؛11343) صحیح مسلم کی روایت کے الفاظ انتہائی صریح اور صاف ہیں (كان الطلاق علي عهد رسول الله ﷺوابي بكر وسنتين من خلافة عمر طلاق الثلاث واحدة فقال عمر بن خطاب:ان الناس قداستعجلو في امر قد كانت لهم فيه اناة فلوا مضيناه عليهم فامضاه عليهم) (صحيح مسلم الطلاق حديث:١٤٧٤) رسول الله ﷺ کے زمانے میں عہد ابی بکر رضی اللہ عنہ اور خلافت عمر کے ابتدائی دو سالوں میں تین طلاقیںصایک ہی ہوا کرتی تھی تو عمر بن خطاب نے کہا:لوگ اس معاملہ (طلاق) میں جس میں انہیں مہلت حاصل تھی جلدی کرنے لگے ہیں۔
اگر ہم (ان کی تین طلاقوں کو تین طلاقیں ہی) نافذ کردیں (تو بہتر رہے) چنانچہ انہوں نے اس کو نافذ کردیا۔
علامہ البانی ؒ لکھتے ہیں: اس حدیث میں مدخولہ اور غیر مدخولہ کی کوئی قید نہیں۔
یہ نص ناقابل انکار ہے انتہائی محکم اور ثابت ہے منسوخ نہیں ہے کیونکہ رسول اللہﷺ کے بعد خلافت صدیق رضی اللہ عنہ کےبعد خلافت صدیق رضی اللہ عنہ اور اوائل دور عمر رضی اللہ عنہ میں اسی عمل ہوتا رہا ہے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کی مخالفت اس کے بالمقابل کسی نص سے نہیں بلکہ اپنے اجتہاد سے کی تھی اور یہی وجہ تھی کہ قبل از نفاذ انہیں تردد واضطراب رہا تھا۔
اور مصر اور شام وغیرہ میں جب اس حکم کو قانون کا حصہ بنایا گیا ہے تو اتباع سنت اور احیائے سنت کی غرض سے نہیں بلکہ بربنائے مصلحت اور ابن تیمیہ کی تقلید میں ایسا کیا گیا ہےتو اتباع سنت اور احیائے سنت کی غرض سے نہیں بلکہ بربنائے مصلحت اور ابن تیمیہ کی تقلید میں ایسا کیا گیاہے۔
کاش کہ یہ لوگ اپنی عبادات ومعاملات میں سنت کی اتباع کو پیش نظر رکھیں۔
(ملحوظہ) مترجم عرض کرتا ہے برصغیر میں بھی یہی صورت حال ہے کہ لوگ اپنی ذاتی مصالح کے پیش نظر ان احادیث کے مطابق فتوی حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہوتے ہیں نہ کہ اتباع سنت کی غرض سے۔
فإلی الله المشتكی
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2199   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.