الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
کتاب: حدود اور تعزیرات کا بیان
Prescribed Punishments (Kitab Al-Hudud)
14. باب مَنْ سَرَقَ مِنْ حِرْزٍ
14. باب: جو شخص کسی چیز کو محفوظ مقام سے چرائے اس کے حکم کا بیان۔
Chapter: One who steals a thing from a place where it is protected.
حدیث نمبر: 4394
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا محمد بن يحيى بن فارس، حدثنا عمرو بن حماد بن طلحة، حدثنا اسباط، عن سماك بن حرب، عن حميد ابن اخت صفوان، عن صفوان بن امية، قال:" كنت نائما في المسجد على خميصة لي ثمن ثلاثين درهما فجاء رجل، فاختلسها مني فاخذ الرجل فاتي به رسول الله صلى الله عليه وسلم فامر به ليقطع قال: فاتيته، فقلت: اتقطعه من اجل ثلاثين درهما؟ انا ابيعه وانسئه ثمنها قال: فهلا كان هذا قبل ان تاتيني به"، قال ابو داود: ورواه زائدة، عن سماك، عن جعيد بن حجير، قال: نام صفوان، ورواه مجاهد، وطاوس انه كان نائما فجاء سارق، فسرق خميصة من تحت راسه ورواه ابو سلمة بن عبد الرحمن قال فاستله من تحت راسه فاستيقظ فصاح به فاخذ ورواه الزهري، عن صفوان بن عبد الله، قال: فنام في المسجد وتوسد رداءه فجاء سارق فاخذ رداءه فاخذ السارق فجيء به إلى النبي صلى الله عليه وسلم.
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ حَمَّادِ بْنِ طَلْحَةَ، حَدَّثَنَا أَسْبَاطٌ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ حُمَيْدِ ابْنِ أُخْتِ صَفْوَانَ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ أُمَيَّةَ، قَالَ:" كُنْتُ نَائِمًا فِي الْمَسْجِدِ عَلَى خَمِيصَةٍ لِي ثَمَنُ ثَلَاثِينَ دِرْهَمًا فَجَاءَ رَجُلٌ، فَاخْتَلَسَهَا مِنِّي فَأُخِذَ الرَّجُلُ فَأُتِيَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَرَ بِهِ لِيُقْطَعَ قَالَ: فَأَتَيْتُهُ، فَقُلْتُ: أَتَقْطَعُهُ مِنْ أَجْلِ ثَلَاثِينَ دِرْهَمًا؟ أَنَا أَبِيعُهُ وَأُنْسِئُهُ ثَمَنَهَا قَالَ: فَهَلَّا كَانَ هَذَا قَبْلَ أَنْ تَأْتِيَنِي بِهِ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَرَوَاهُ زَائِدَةُ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ جُعَيْدِ بْنِ حُجَيْرٍ، قَالَ: نَامَ صَفْوَانُ، وَرَوَاهُ مُجَاهِدٌ، وَطَاوُسٌ أَنَّهُ كَانَ نَائِمًا فَجَاءَ سَارِقٌ، فَسَرَقَ خَمِيصَةً مِنْ تَحْتِ رَأْسِهِ وَرَوَاهُ أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ فَاسْتَلَّهُ مِنْ تَحْتِ رَأْسِهِ فَاسْتَيْقَظَ فَصَاحَ بِهِ فَأُخِذَ وَرَوَاهُ الزُّهْرِيُّ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: فَنَامَ فِي الْمَسْجِدِ وَتَوَسَّدَ رِدَاءَهُ فَجَاءَ سَارِقٌ فَأَخَذَ رِدَاءَهُ فَأُخِذَ السَّارِقُ فَجِيءَ بِهِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں مسجد میں سویا ہوا تھا، میرے اوپر میری ایک اونی چادر پڑی تھی جس کی قیمت تیس درہم تھی، اتنے میں ایک شخص آیا اور اسے مجھ سے چھین کر لے کر بھاگا، لیکن وہ پکڑ لیا گیا، اور اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق حکم دیا کہ اس کا ہاتھ کاٹ لیا جائے، تو میں آپ کے پاس آیا اور عرض کیا: کیا تیس درہم کی وجہ سے آپ اس کا ہاتھ کاٹ ڈالیں گے؟ میں اسے اس کے ہاتھ بیچ دیتا ہوں، اور اس کی قیمت اس پر ادھار چھوڑ دیتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے پاس لانے سے پہلے ہی ایسے ایسے کیوں نہیں کر لیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے زائدہ نے سماک سے، سماک نے جعید بن حجیر سے روایت کیا ہے، اس میں ہے: صفوان سو گئے تھے اتنے میں چور آیا۔ اور طاؤس و مجاہد نے اس کو یوں روایت کیا ہے کہ وہ سوئے تھے اتنے میں ایک چور آیا، اور ان کے سر کے نیچے سے چادر چرا لی۔ اور ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے اسے یوں روایت کیا ہے کہ اس نے اسے ان کے سر کے نیچے سے کھینچا، تو وہ جاگ گئے، اور چلائے، اور وہ پکڑ لیا گیا۔ اور زہری نے صفوان بن عبداللہ سے اسے یوں روایت کیا ہے کہ وہ مسجد میں سوئے اور انہوں نے اپنی چادر کو تکیہ بنا لیا، اتنے میں ایک چور آیا، اور اس نے ان کی چادر چرا لی، تو اسے پکڑ لیا گیا، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لایا گیا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن النسائی/قطع السارق 4 (4882)، سنن ابن ماجہ/الحدود 28 (2595)، (تحفة الأشراف: 4943)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/401، 6/465، 466) (صحیح)» ‏‏‏‏

Narrated Safwan bin Umayyah: I was sleeping in the mosque on a cloak mine whose price was thirty dirhams. A man came and pinched it away from me. The man was seized and brought to the Messenger of Allah ﷺ. He ordered that his hand should be cut off. I came to him and said: Do you cut off only for thirty dirhams ? I sell it to him and make the payment of its price a loan ? He said: Why did you not do so before bringing him to me ? Abu Dawud said: Zaidah has also transmitted it from Simak from Ju'ayd ibn Hujayr. He said: Safwan slept. Mujahid and Tawus said: While he was sleeping a thief came and stole the cloak from beneath his head. The version of Abu Salamah ibn Abdur Rahman has: He snatched it away from beneath his head and he awoke. He cried and he (the thief) was seized. Az-Zuhri narrated from Safwan ibn Abdullah. His version has: He slept in the mosque and used his cloak as pillow. A thief came and took his cloak. The thief was seized and brought to the Prophet ﷺ.
USC-MSA web (English) Reference: Book 39 , Number 4380


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
مشكوة المصابيح (3598)
   سنن أبي داود4394صفوان بن أميةكنت نائما في المسجد على خميصة لي ثمن ثلاثين درهما فجاء رجل فاختلسها مني فأخذ الرجل فأتي به رسول الله فأمر به ليقطع قال فأتيته فقلت أتقطعه من أجل ثلاثين درهما أنا أبيعه وأنسئه ثمنها قال فهلا كان هذا قبل أن تأتيني به
   سنن ابن ماجه2595صفوان بن أميةهلا قبل أن تأتيني به
   سنن النسائى الصغرى4882صفوان بن أميةأفلا كان قبل أن تأتينا به فقطعه رسول الله
   سنن النسائى الصغرى4883صفوان بن أميةلولا كان هذا قبل أن تأتيني به يا أبا وهب فقطعه رسول الله
   سنن النسائى الصغرى4885صفوان بن أميةأسرقت رداء هذا قال نعم قال اذهبا به فاقطعا يده قال صفوان ما كنت أريد أن تقطع يده في ردائي فقال له فلو ما قبل هذا
   سنن النسائى الصغرى4888صفوان بن أميةهلا كان هذا قبل أن تأتيني به
   سنن النسائى الصغرى4888صفوان بن أميةهلا قبل أن تأتيني به تركته
   بلوغ المرام1062صفوان بن أمية هلا كان ذلك قبل أن تأتيني به

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2595  
´حرز (محفوظ جگہ) میں سے چرانے کا بیان۔`
صفوان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ مسجد میں سو گئے، اور اپنی چادر کو تکیہ بنا لیا، کسی نے ان کے سر کے نیچے سے اسے نکال لیا، وہ چور کو لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ کاٹے جانے کا حکم دیا، صفوان رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! میرا مقصد یہ نہ تھا، میری چادر اس کے لیے صدقہ ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے آخر میرے پاس اسے لانے سے پہلے ایسا کیوں نہیں کیا؟ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الحدود/حدیث: 2595]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
محفوظ جگہ سے مراد ایسی جگہ ہے جہاں عام طور پرانسان کسی چیز کو سنبھال کر رکھتا ہے۔
اور مختلف قسم کے اموال کےلیے محفوظ جگہ بھی مختلف ہوتی ہے مثلاً:
جانوروں کے لیے ان کا باڑ، کپڑوں کے لیے صندوق وغیرہ اور غلے کے لیے اس کے سکھانےکی جگہ حرز(محفوظ جگہ)
ہے۔

(2)
گھر سے باہر مالک کی موجوگی ہی اس کے استعمال کی چیز کے لیے حرزہے۔

(3)
مالک چور کومعاف کرسکتا ہے۔

(4)
حاکم کے سامنے معاملہ پیش ہونے کو بعد جرم معاف نہیں کیا جا سکتا البتہ قتل کے مجرم کو مقتول کے وارث سزائے موت نافذ ہونے سے تک معاف کر سکتے ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2595   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1062  
´چوری کی حد کا بیان`
سیدنا صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا، جب انہوں نے اس آدمی کے بارے میں سفارش کی جس نے چادر چرائی تھی اور اس کے قطع ید کا حکم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ میرے پاس لانے سے پہلے تمہیں اس پر رحم و ترس کیوں نہ آیا۔۔‏‏‏‏ اسے احمد اور چاروں نے روایت کیا ہے اور ابن جارود اور حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1062»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، الحدود، باب في من سرق من حرز، حديث:4394، والنسائي، قطع السارق، حديث:4882، وابن ماجه، الحدود، حديث:2595، والحاكم:4 /380، والترمذي: لم أجده.»
تشریح:
1. یہ چوری کا واقعہ یوں ہے کہ صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ بطحاء یا مسجد حرام میں لیٹے ہوئے تھے کہ ایک آدمی آیا اور ان کے سر کے نیچے سے چادر کھینچ لی۔
اسے گرفتار کر کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں پیش کیا گیااور آپ نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم صادر فرمایا تو صفوان رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے اسے معاف کیا اور درگزر کیا۔
آپ نے فرمایا: یہ تو نے میرے پاس لانے سے پہلے کیوں نہیں کیا؟ پھر آپ نے اس شخص کا ہاتھ کاٹ دیا۔
2.اس حدیث سے یہ مسئلہ ثابت ہوا کہ جب مقدمہ عدالت و حاکم کے پاس چلا جائے تو پھر معافی کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 1062   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4394  
´جو شخص کسی چیز کو محفوظ مقام سے چرائے اس کے حکم کا بیان۔`
صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں مسجد میں سویا ہوا تھا، میرے اوپر میری ایک اونی چادر پڑی تھی جس کی قیمت تیس درہم تھی، اتنے میں ایک شخص آیا اور اسے مجھ سے چھین کر لے کر بھاگا، لیکن وہ پکڑ لیا گیا، اور اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق حکم دیا کہ اس کا ہاتھ کاٹ لیا جائے، تو میں آپ کے پاس آیا اور عرض کیا: کیا تیس درہم کی وجہ سے آپ اس کا ہاتھ کاٹ ڈالیں گے؟ میں اسے اس کے ہاتھ بیچ دیتا ہوں، اور اس کی قیمت اس پر ادھار چھوڑ دیتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الحدود /حدیث: 4394]
فوائد ومسائل:
فائدہ ان احادیث سے معلوم ہوا کہ ہرچیز کے لئےاس کا (حرز) یعنی محفوظ مقام اس کی مناسبت سےہوتا ہے اور یہ چیز عرف سے جانی جاتی ہے۔
سوئے ہوئے آدمی کا کپڑا جو اس کے سر کے نیچے ہو اپنی محفوظ جگہ میں ہوتا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4394   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.