الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: سنت کی اہمیت و فضیلت
The Book of the Sunnah
9. بَابٌ في الإِيمَانِ
9. باب: ایمان کا بیان۔
حدیث نمبر: 63
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا علي بن محمد ، حدثنا وكيع ، عن كهمس بن الحسن ، عن عبد الله بن بريدة ، عن يحيى بن يعمر ، عن ابن عمر ، عن عمر ، قال: كنا جلوسا عند النبي صلى الله عليه وسلم، فجاء رجل شديد بياض الثياب، شديد سواد شعر الراس، لا يرى عليه اثر السفر، ولا يعرفه منا احد، قال: فجلس إلى النبي صلى الله عليه وسلم فاسند ركبته إلى ركبته، ووضع يديه على فخذيه، ثم قال: يا محمد ما الإسلام؟ قال:" شهادة ان لا إله إلا الله، واني رسول الله، وإقام الصلاة، وإيتاء الزكاة، وصوم رمضان، وحج البيت"، فقال: صدقت، فعجبنا منه يساله، ويصدقه , ثم قال: يا محمد ما الإيمان؟ قال:" ان تؤمن بالله، وملائكته، ورسله، وكتبه، واليوم الآخر، والقدر خيره، وشره"، قال: صدقت، فعجبنا منه يساله، ويصدقه , ثم قال: يا محمد ما الإحسان؟ قال:" ان تعبد الله كانك تراه، فإنك إن لا تراه، فإنه يراك، قال: فمتى الساعة؟ قال:" ما المسئول عنها باعلم من السائل، قال: فما امارتها؟ قال:" ان تلد الامة ربتها"، قال وكيع: يعني: تلد العجم العرب، وان ترى الحفاة العراة العالة رعاء الشاء يتطاولون في البناء، قال: ثم قال: فلقيني النبي صلى الله عليه وسلم بعد ثلاث فقال:" اتدري من الرجل" قلت: الله ورسوله اعلم، قال:" ذاك جبريل اتاكم يعلمكم معالم دينكم".
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ كَهْمَسِ بْنِ الْحَسَنِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنْ عُمَرَ ، قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَ رَجُلٌ شَدِيدُ بَيَاضِ الثِّيَابِ، شَدِيدُ سَوَادِ شَعَرِ الرَّأْسِ، لَا يُرَى عَلَيْهِ أَثَرُ السَّفَرِ، وَلَا يَعْرِفُهُ مِنَّا أَحَدٌ، قَالَ: فَجَلَسَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَسْنَدَ رُكْبَتَهُ إِلَى رُكْبَتِهِ، وَوَضَعَ يَدَيْهِ عَلَى فَخِذَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: يَا مُحَمَّدُ مَا الْإِسْلَامُ؟ قَالَ:" شَهَادَةُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ، وَإِقَامُ الصَّلَاةِ، وَإِيتَاءُ الزَّكَاةِ، وَصَوْمُ رَمَضَانَ، وَحَجُّ الْبَيْتِ"، فَقَالَ: صَدَقْتَ، فَعَجِبْنَا مِنْهُ يَسْأَلُهُ، وَيُصَدِّقُهُ , ثُمَّ قَالَ: يَا مُحَمَّدُ مَا الْإِيمَانُ؟ قَالَ:" أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ، وَمَلَائِكَتِهِ، وَرُسُلِهِ، وَكُتُبِهِ، وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، وَالْقَدَرِ خَيْرِهِ، وَشَرِّهِ"، قَالَ: صَدَقْتَ، فَعَجِبْنَا مِنْهُ يَسْأَلُهُ، وَيُصَدِّقُهُ , ثُمَّ قَالَ: يَا مُحَمَّدُ مَا الْإِحْسَانُ؟ قَالَ:" أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنَّكَ إِنْ لَا تَرَاهُ، فَإِنَّهُ يَرَاكَ، قَالَ: فَمَتَى السَّاعَةُ؟ قَالَ:" مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ، قَالَ: فَمَا أَمَارَتُهَا؟ قَالَ:" أَنْ تَلِدَ الْأَمَةُ رَبَّتَهَا"، قَالَ وَكِيعٌ: يَعْنِي: تَلِدُ الْعَجَمُ الْعَرَبَ، وَأَنْ تَرَى الْحُفَاةَ الْعُرَاةَ الْعَالَةَ رِعَاءَ الشَّاءِ يَتَطَاوَلُونَ فِي الْبِنَاءِ، قَالَ: ثُمَّ قَالَ: فَلَقِيَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ ثَلَاثٍ فَقَالَ:" أَتَدْرِي مَنِ الرَّجُلُ" قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ:" ذَاكَ جِبْرِيلُ أَتَاكُمْ يُعَلِّمُكُمْ مَعَالِمَ دِينِكُمْ".
عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک شخص آیا، جس کے کپڑے انتہائی سفید اور سر کے بال نہایت کالے تھے، اس پہ سفر کے آثار ظاہر نہیں تھے، اور ہم میں سے کوئی اسے پہچانتا بھی نہ تھا، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھ گیا، اور اپنا گھٹنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنے سے ملا لیا، اور اپنے دونوں ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں ران پر رکھا، پھر بولا: اے محمد! اسلام کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور میں اللہ کا رسول ہوں، نماز قائم کرنا، زکاۃ ادا کرنا، رمضان کے روزے رکھنا، اور خانہ کعبہ کا حج کرنا، اس نے کہا: آپ نے سچ فرمایا، تو ہمیں تعجب ہوا کہ خود ہی سوال کر رہا ہے، اور خود ہی جواب کی تصدیق بھی۔ پھر اس نے کہا: اے محمد! ایمان کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایمان یہ ہے کہ تم اللہ اور اس کے فرشتوں، اس کے رسولوں، اس کی کتابوں، یوم آخرت، اور بھلی بری تقدیر پر ایمان رکھو، اس نے کہا: آپ نے سچ فرمایا، تو ہمیں تعجب ہوا کہ خود ہی سوال کر رہا ہے، اور خود ہی جواب کی تصدیق بھی۔ پھر اس نے کہا: اے محمد! احسان کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا کہ تم اس کو دیکھ رہے ہو، اگر تم اس کو نہیں دیکھتے ہو تو یقین رکھو کہ وہ تم کو ضرور دیکھ رہا ہے۔ پھر اس نے پوچھا: قیامت کب آئے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس سے پوچھ رہے ہو، وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا ۱؎۔ پھر اس نے پوچھا: اس کی نشانیاں کیا ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لونڈی اپنے مالکن کو جنے گی (وکیع راوی حدیث نے کہا: یعنی عجمی عورتیں عرب کو جنیں گی) ۲؎ اور تم ننگے پاؤں، ننگے بدن، فقیر و محتاج بکریوں کے چرواہوں کو دیکھو گے کہ وہ بڑی بڑی کوٹھیوں اور محلات کے بنانے میں فخر و مسابقت سے کام لیں گے۔ راوی کہتے ہیں: پھر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے تین دن کے بعد ملے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو وہ شخص کون تھا؟، میں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ جبرائیل تھے جو تمہیں تمہارے دین کی اہم اور بنیادی باتیں سکھانے آئے تھے ۳؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الإیمان 1 (8)، سنن ابی داود/السنة 17 (4695، 4696، 4697)، سنن الترمذی/الإیمان 4 (2610)، سنن النسائی/الإیمان 5 (4993)، (تحفة الأشراف: 10572)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الإیمان 37 (50)، تفسیر سورة لقمان 2 (4777)، مسند احمد (1 / 27، 28، 51، 52) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ: ۱ مفتی سے اگر ایسی بات پوچھی جائے جو اسے معلوم نہیں تو  «لا أدري» کہہ دے یعنی میں نہیں جانتا، اور یہ اس کی کسر شان کا سبب نہیں کیونکہ نبی کریم ﷺ نے قیامت کے سلسلہ کے سوال کے جواب میں یہی فرمایا۔ 2 اور یہ بھی معلوم ہوا کہ جو شخص عالم کی مجلس میں حاضر ہو اور لوگوں کو کسی مسئلے کے بارے میں پوچھنے کی حاجت ہو تو وہ عالم سے پوچھ لے تاکہ اس کا جواب سب لوگ سن لیں۔ 3 اور یہ بھی معلوم ہوا کہ مفتی کو چاہئے کہ سائل کو نرمی سے سمجھا دے، اور محبت سے بتلا دے تاکہ علمی اور دینی فوائد کا دروازہ بند نہ ہو جائے، اور سائل کے لئے ضروری ہے کہ وہ عالم دین اور مفتی کے ساتھ کمال ادب کا مظاہرہ کرے، اور اس کی مجلس میں وقار اور ادب سے بیٹھے۔ ۲؎: لونڈی اپنی مالکن کو جنے گی: یعنی ملک فتح ہوں گے، اور لونڈیاں مال غنیمت میں کثرت سے حاصل ہوں گی، اور کثرت سے لوگ ان لونڈیوں کے مالک ہوں گے، اور ان لونڈیوں کی ان کے آقا سے اولاد ہوگی اور وہ آزاد ہوں گے، اور وہ اپنی ماؤں کو لونڈیاں جانیں گے، اور بعض روایتوں میں  «ربتها» کی جگہ  «ربها» وارد ہوا ہے۔ ۳؎: اس حدیث کو حدیث جبرئیل کہتے ہیں اور یہ ظاہری اور باطنی ساری عبادات اور اخلاص و عمل کی ساری صورتوں کو شامل ہے، اور ہر طرح کے واجبات اور سنن اور معروف و منکر کو محیط ہے۔

It was narrated that 'Umar said: "We were sitting with the Prophet (ﷺ) when a man came to him whose clothes were intensely white and whose hair was intensely black; no signs of travel could be seen upon him, and none of us recognized him. He sat down facing the Prophet (ﷺ), with his knees touching his, and he put his hands on his thighs, and said: 'O Muhammad, what is Islam?' He said: 'To testify that none has the right to be worshipped but Allah, and that I am the Messenger of Allah, to establish regular prayer, to pay Zakat, to fast in Ramadan, and to perform Hajj to the House (the Ka'bah).' He said: 'You have spoken the truth.' We were amazed by him: He asked a question, then told him that he had spoken the truth. Then he said: 'O Muhammad, what is Iman faith? He said: 'To believe in Allah, His angels, His Messengers, His books, the Last day, and the Divine Decree (Qadar), both the good of it and the bad of it.' He said' You have spoken the truth.' We were amazed by him. He asked a question, then told him that he had spoken the truth. Then he said: 'O Muhammad, what is Ihsan (right action, goodness, sincerity)? He said: 'To worship Allah as if you see Him, for even though you do not see Him, He sees you.' He asked: "When will the Hour be?' He said: 'The one who is being asked about it does not know more than the one who is asking.' He asked: 'Then what are its signs?' he said: 'When the slave woman gives birth to her mistress' (Waki' said: This means when non-Arabs will give birth to Arabs") 'and when you see barefoot, naked, destitute shepherds competing in constructing tall buildings.' The Prophet (ﷺ) met me three days later and asked me: 'Do you know who that man was? I said" 'Allah and his Messenger know best.' He said: 'That was Jibril, who came to you to teach you your religion.'"
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم
   صحيح مسلم93عبد الله بن عمرالإسلام أن تشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله وتقيم الصلاة وتؤتي الزكاة وتصوم رمضان وتحج البيت إن استطعت إليه سبيلا قال صدقت قال فعجبنا له يسأله ويصدقه قال فأخبرني عن الإيمان قال أن تؤمن بالله وملائكته وكتبه ورسله واليوم ال
   جامع الترمذي2610عبد الله بن عمرما الإيمان قال أن تؤمن بالله وملائكته وكتبه ورسله واليوم الآخر والقدر خيره وشره قال فما الإسلام قال شهادة أن لا إله إلا الله وأن محمدا عبده ورسوله وإقام الصلاة وإيتاء الزكاة وحج البيت وصوم رمضان قال فما الإحسان قال أن تعبد الله كأنك تراه ف
   سنن أبي داود4695عبد الله بن عمرالإسلام أن تشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله وتقيم الصلاة وتؤتي الزكاة وتصوم رمضان وتحج البيت إن استطعت إليه سبيلا قال صدقت قال فعجبنا له يسأله ويصدقه قال فأخبرني عن الإيمان قال أن تؤمن بالله وملائكته وكتبه ورسله واليوم الآخر وتؤمن بالقدر خي
   سنن ابن ماجه63عبد الله بن عمرما الإسلام قال شهادة أن لا إله إلا الله وأني رسول الله وإقام الصلاة وإيتاء الزكاة وصوم رمضان وحج البيت فقال صدقت فعجبنا منه يسأله ويصدقه ثم قال يا محمد ما الإيمان قال أن تؤمن بالله وملائكته ورسله وكتبه واليوم الآخر والقدر خيره وشره قال صدقت فعجبن
   سنن النسائى الصغرى4994عبد الله بن عمرأخبرني عن الإسلام قال أن تشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله وتقيم الصلاة وتؤتي الزكاة وتصوم رمضان وتحج البيت إن استطعت إليه سبيلا قال صدقت فعجبنا إليه يسأله ويصدقه ثم قال أخبرني عن الإيمان قال أن تؤمن بالله وملائكته وكتبه ورسله واليوم الآ
   مشكوة المصابيح2عبد الله بن عمرالإسلام: ان تشهد ان لا إله إلا الله وان محمدا رسول الله وتقيم الصلاة وتؤتي الزكاة وتصوم رمضان وتحج البيت إن استطعت إليه سبيلا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ نديم ظهير حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح مسلم 93  
´فرشتے کا انسانی شکل میں آنا `
«. . . فَإِنَّهُ جِبْرِيلُ، أَتَاكُمْ يُعَلِّمُكُمْ دِينَكُمْ . . .»
۔۔۔ وہ جبرئیل علیہ السلام تھے تم کو تمھارا دین سکھانے آئے تھے۔۔۔ [صحيح مسلم/كِتَاب الْإِيمَانِ: 93]

فوائد:
نماز کے بعد ذکر کے سلسلے میں حدیث زيد بن ثابت [سنن نسائي: 1351]، اذان کے سلسلے میں حدیث عبداللہ بن زید بن عبدربہ [سنن ابي داؤد: 499 و اسناده حسن] اور مذکورہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ تعلیم کی غرض سے فرشتے انسانی شکل میں آیا کرتے تھے اور بعد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم (بذریعہ وحی) اس کی تصدیق فرما دیتے تھے۔ واضح رہے کہ شریعت میں غیر نبی کے خواب قطعاً حجت نہیں ہیں، اِلاَّ یہ کہ دور نبوی میں جن خوابوں کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود تصدیق فرمائی ہو، علاوہ ازیں کسی خواب سے کوئی شرعی مسئلہ اخذ نہیں کیا جا سکتا جبکہ بعض الناس کے مسالک و مذاہب کی بنیاد ہی خوابوں پر ہے جو صریحاً باطل ہے۔
   ماہنامہ الحدیث حضرو ، شمارہ 24، حدیث\صفحہ نمبر: 6   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 2  
´ایمان قول و عمل کا نام ہے`
«عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: بَيْنَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ إِذْ طَلَعَ عَلَيْنَا رَجُلٌ شَدِيدُ بَيَاضِ الثِّيَابِ شَدِيدُ سَوَادِ الشَّعْرِ لَا يُرَى عَلَيْهِ أَثَرُ السَّفَرِ وَلَا يَعْرِفُهُ مِنَّا أَحَدٌ حَتَّى جَلَسَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم فأسند رُكْبَتَيْهِ إِلَى رُكْبَتَيْهِ وَوَضَعَ كَفَّيْهِ عَلَى فَخْذَيْهِ وَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ أَخْبِرْنِي عَنِ الْإِسْلَامِ . . .»
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک روز ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ اچانک ایک شخص آ موجود ہوا جس کے کپڑے بہت صاف و شفاف اور اس کے بال نہایت ہی سیاہ تھے اس پر کوئی سفر کی نشانی نہیں دیکھی، پائی جاتی تھی اور نہ ہم لوگوں میں سے کوئی انہیں پہچانتا ہی تھا، یہاں تک کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب بیٹھ گیاکہ آپ کے گھٹنے سے اپنے گھٹنے ملا دیے اور اپنے دونوں ہاتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں زانوئے مبارک پر رکھ کر یوں کہنا شروع کیا کہ اے محمد! آپ مجھے یہ خبر دیجئے کہ اسلام کیا ہے؟ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 2]

تخریج الحدیث:
[صحيح مسلم 93]

فقہ الحدیث:
➊ یہ ایک عظیم الشان حدیث ہے، محذوفہ حصہ کا خلاصہ یہ ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ان لوگوں سے برأت کا اعلان کیا جو تقدیر کے منکر تھے اور فرمایا: اگر ان (منکرین تقدیر) میں سے کوئی شخص احد پہاڑ جتنا سونا بھی (اللہ کی راہ) میں خرچ کر دے تو اللہ اسے قبول نہیں کرے گا۔ معلوم ہوا کہ (بدعت کبرٰی کے) مبتدعین کے اعمال باطل ہوتے ہیں۔
➋ ایمان قول و عمل کا نام ہے، نماز رمضان کے روزے اور حج، چاروں اعمال اور ایمان اور ارکان ایمان میں سے ہیں۔
➌ قیامت آنے کی صحیح تاریخ اور وقت صرف اللہ تعالیٰ کو ہی معلوم ہے، اللہ کے سوا کوئی بھی عالم الغیب نہیں ہے۔ انبیاء کرام علیہم السلام نے غیب کی جو خبریں بیان فرمائیں، وہ سب وحی الہٰی کے ذریعے سے بتائیں تھیں۔ صحابہ کرام بھی غیب نہیں جانتے تھے، ورنہ جبرائیل علیہ السلام کو پہلے ہی پہچان لیتے۔
➍ فرشتے انسانی شکل میں تمثل کر کے دنیا میں آتے رہے ہیں، اگرچہ ان کی اصل شکل و صورت اس کے علاوہ ہے اور فرشتوں کے پر بھی ہوتے ہیں۔
➎ یہ حدیث بہت زیادہ فوائد پر مشتمل ہے۔ سعودی عرب کے کبار علماء میں سے شیخ عبدالمحسن بن حمد العباد البدر حفظہ اللہ نے اس حدیث مبارکہ کہ شرح میں (79 صفحات کی) ایک زبردست مفید کتاب «شرح حديث جبريل فى تعليم الدين» لکھی ہے جس میں انہوں نے بہت سے فوائد جمع کر لیے ہیں، جزاہ اللہ خیرا۔

تنبیہ:
یہ کتاب میرے اردو ترجمے اور تحقیق و فوائد کے ساتھ مطبوع ہے۔
امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ حدیث اس لائق ہے کہ اسے ام السنۃ (سنت کی ماں) کہا جائے، کیونکہ اس میں (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی) سنت کے (بہت سے) جملوں کا علم ہے۔ [فتح الباری125/1]
➏ نصوص شرعیہ سے ثابت ہے کہ ہر مکلف مسلمان پر دن رات میں پانچ نمازیں، ہر سال رمضان کے روزے ہر سال میں ایک دفعہ زکوٰۃ اور عمر بھر میں صرف ایک دفعہ حج فرض ہے۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث\صفحہ نمبر: 2   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث63  
´ایمان کا بیان۔`
عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک شخص آیا، جس کے کپڑے انتہائی سفید اور سر کے بال نہایت کالے تھے، اس پہ سفر کے آثار ظاہر نہیں تھے، اور ہم میں سے کوئی اسے پہچانتا بھی نہ تھا، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھ گیا، اور اپنا گھٹنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنے سے ملا لیا، اور اپنے دونوں ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں ران پر رکھا، پھر بولا: اے محمد! اسلام کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور میں اللہ کا رسول ہوں،۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 63]
اردو حاشہ:
(1)
یہ حدیث حدیث جبرئیل ؑ کے نام سے مشہور ہے، اس میں دین کے اہم مسائل مذکور ہیں۔
اس میں عبادات بھی ہیں، دل اور باقی جسم کے اعمال بھی، واجبات، سنن اور مستحبات بھی اور ممنوع اور مکروہ امور بھی۔

(2)
اسلام سے ظاہری اعمال مراد ہیں جن کو دیکھ کر کسی کے مسلم یا غیر مسلم ہونے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔
اور ایمان سے قلبی تصدیق و یقین مراد ہے جس پر آخرت مین نجات کا دارومدار ہے۔
احسان بھی ایمان ہی کا اعلیٰ درجہ ہے جس کےسبب عبادت میں حسن پیدا ہوتا ہے۔

(3)
اکثر اوقات جب ایمان کا لفظ بولا جاتا ہے تو اس سے باطنی تصدیق کے ساتھ ساتھ ظاہری اعمال بھی مراد ہوتے ہیں۔
اسی طرح اسلام سے وہ اسلام مراد ہوتا ہے جس سے آخرت میں نجات حاصل ہو گی، یعنی دلی تصدیق کی بنیاد پر نیک اعمال کی انجام دہی، اس لحاظ سے ایمان اور اسلام ہم معنی ہو جاتے ہیں جب کہ الگ الگ ذکر ہوں، البتہ جب کسی مقام پر ایمان اور اسلام دونوں اکھٹے مذکور ہوں تو ایمان سے قلبی تصدیق مراد ہوتی ہے اور اسلام سے ظاہری اطاعت کے اعمال جیسے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿قالَتِ الأَعر‌ابُ ءامَنّا قُل لَم تُؤمِنوا وَلـكِن قولوا أَسلَمنا﴾  (الحجرات: 14)
 بدو کہتے ہیں ہم ایمان لائے، آپ کہہ دیجئے (حقیقت میں)
تم ایمان نہیں لائے لیکن تم یوں کہو کہ ہم اسلام لائے (مخالفت چھوڑ کر مطیع ہو گئے۔)

(4)
اللہ کی عبادت اس طرح کرنا جیسے کہ اللہ کی ذات رو برو ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ قلبی توجہ، نابت، خشوع، خوف و رجا وغیرہ کی کیفیات اپنے کمال پر ہوں، ورنہ اللہ کی زیارت دنیا میں رہتے ہوئے ممکن نہیں، کوئی مخلوق اسے برداشت نہیں کر سکتی، البتہ جنت میں مومنوں کو اللہ کا دیدار نصیب ہو گا، اس میں کوئی شک نہیں، قرآن و حدیث کی واضح نصوص میں اس کی صراحت موجود ہے، البتہ اس کی کیفیت اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ دیکھیے (صحيح البخاري، حديث: 7437 اور صحيح مسلم، حديث: 182)

(5)
قیامت قائم ہونے کا وقت بالتعيين کوئی نہیں جانتا، پیغمبر نہ فرشتے، صرف اللہ تعالیٰ جانتا ہے کیونکہ وہی علام الغیوب ہے۔

(6)
قیامت کی بہت سی علامات حدیثوں میں وارد ہیں، ان میں سے کچھ قیامت سے کافی پہلے واقع ہو چکی ہیں، مثلا:
بعثت نبوی، ارض حجاز سے ظاہر ہونے والی آگ، جس سے شام کے شہر بصری میں بھی روشنی ہو گئی، یہ واقعہ 654 ھ میں پیش آیا۔
تفصیل کے لیے دیکھیے (فتح الباري شرح صحيح البخاري، كتاب الفتن، باب خروج النار)
اور بعض ابھی ظاہر ہونے والی ہیں، مثلا:
ظہور دجال اور امام مہدی کا ظہور، نزول مسیح علیہ السلام اور یاجوج ماجوج کا خروج۔
یہ بڑی بڑی علامات ہیں، زیر نظر حدیث میں چھوٹی علامات ذکر کی گئی ہیں۔

(7) (أَنْ تَلِدَ الْأَمَةُ رَبَّتَهَا)
لونڈی اپنی مالکہ کو جنے گی اس جملے کی وضاحت کئی طرح سے کی گئی ہے:

(ا)
ایک مطلب یہ ہے کہ لونڈیوں کی کثرت ہو جائے گی اور لونڈیوں سے جو اولاد ہو گی، وہ آقا کی اولاد ہونے کی وجہ سے آقا کے حکم میں ہو گی جبکہ ان کی ماں لونڈی ہی کہلائے گی اور بیٹی اپنی ماں کی مالک قرار دی جائے گی۔
حضرت وکیع رحمۃ اللہ علیہ کا قول اسی طرف اشارہ کرتا ہے۔

(ب)
ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اولاد اپنے والدین کا ادب و احترام کرنے کے بجائے ان سے گستاخی اور سرکشی کا رویہ رکھے گی اور ان پر اس طرح حکم چلائے گی جس طرح آقا اپنے غلاموں اور لونڈیوں سے درشت سلوک روا رکھتے ہیں۔

(ج)
ایک رائے یہ بھی سامنے آئی ہے کہ اس حدیث میں جدید دور میں پیدا ہونے والے بعض مسائل کی طرف اشارہ ہے، مثلا:
ایسے تجربات کیے گئے ہیں جن میں مذکر اور مونث کے مادہ تولید کو مونث کے جسم سے باہر ملا کر تجربہ گاہ میں جنین وجود میں لایا گیا جسے بعد میں کسی اور مونث کے جسم میں رکھ کر تخلیقی مراحل کی تکمیل ہوئی۔
اس طرح مولود جس کے جسم میں پیدا ہوا، اس کے مادہ تولید سے پیدا نہیں ہوا۔
ان تجربات کے نتیجے میں یہ عین ممکن ہے کہ کوئی دولت مند میاں بیوی اپنا جنین کسی غریب عورت کے جسم میں پروان چڑھائیں جو تھوڑی اجرت کے بدلے مشقت برداشت کرنے پر تیار ہو سکتی ہے، جب بچہ پیدا ہو گا تو دولت مند میاں بیوی ہی اس کے ماں باپ مانے جائیں گے، اور جس عورت نے اس کی پیدائش کی تکلیف اٹھائی ہو گی، وہ اجیر یا مملوک ہی رہے گی اور پیدا ہونے والا بچہ اسے اپنی ماں نہیں بلکہ نوکرانی ہی تصور کرے گا اور خود وہ عورت بھی اپنی یہی حیثیت سمجھے گی۔
موجودہ دور میں اخلاقی اقدار جس تیزی سے روبہ زوال ہیں، اس کے مدنظر یہ کچھ بعید نہیں کہ عملا یہ صورت رواج پا جائے۔
واللہ أعلم. یورپ میں، جہاں عفت و پاک دامنی کا تصور ختم ہو گیا ہے، اب اس قسم کی صورتیں اختیار کی جانے لگی ہیں۔
اللہ تعالیٰ اسلامی معاشروں کو اس اخلاقی پستی سے محفوظ رکھے۔

(8)
جب غربت کے بعد دولت نصیب ہو تو صحیح طرز عمل یہ ہے کہ اللہ کی اس نعمت کا شکر کرتے ہوئے ناداروں کی ضروریات بھی پوری کی جائیں تاکہ اخروی فوائد بھی حاصل ہو سکیں، جیسے قارون کو اس کی قوم کے افراد نے کہا تھا:
﴿وَابْتَغِ فِيمَا آتَاكَ اللَّـهُ الدَّارَ الْآخِرَةَ ۖ وَلَا تَنسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا ۖ وَأَحْسِن كَمَا أَحْسَنَ اللَّـهُ إِلَيْكَ﴾ (القصص: 77)
 اور جو کچھ اللہ نے تجھے دے رکھا ہے اس میں سے آخرت کے گھر کی تلاش بھی رکھ اور اپنے دنیوی حصے کو بھی نہ بھول اور جیسے اللہ نے تجھ پر احسان کیا ہے تو بھی (دوسروں پر)
احسان کر۔ (9)
محض اپنے فائدے اور راحت کے لیے اور فخرومباہات کے لیے لمبی چوڑی عمارتیں بنانا درست نہیں۔

(10)
عقائد اور اعمال یہ سب دین ہے، لہذا اخروی نجات کے لیے صحیح عقیدہ اور صحیح عمل دونوں ضروری ہیں۔

(11)
تقدیر کا مطلب یہ ہے کہ ابد تک جو کچھ ہو گا اللہ کو وہ سب کچھ پہلے سے معلوم ہے۔
اب جو کچھ ہوتا ہے وہ اس کے اس علم کے مطابق ہوتا ہے جو اس نے لکھ رکھا ہے۔
تقدیر کے اچھے برے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ ہمارے لیے بظاہر خیر ہے، مثلا:
تندرستی، خوشحالی، پیداوار کی کثرت اور فراوانی یا جسے ہم شر قرار دیتے ہیں، مثلا:
قحط سالی، آلام و مصائب، یہ سب کچھ اس کی مرضی اور حکمت کے مطابق ہو رہا ہے۔
اسے خیر و شر مخلوق کے لحاظ سے فرمایا گیا ہے ورنہ اللہ کے ہر کام میں کوئی نہ کوئی حکمت و مصلحت ہوتی ہے، اس کے لحاظ سے وہ خیر ہی ہوتا ہے۔

(12)
جبریل امین علیہ السلام کا قرآنی وحی لے كر آنا تو مشہور و معروف ہے، علاوہ ازیں دین اسلام کے مسائل کی توضیح و تعلیم کے لیے جبریل علیہ السلام کا آنا بھی اس روایت سے معلوم ہوتا ہے۔

(13)
دینی و اسلامی مسائل سیکھنے کے متعدد طریقے ہیں، ان میں سے ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ سوالات و جوابات کی مجلس و نشست قائم کی جائے، اس انداز سے مسائل خوب ذہن نشین ہو جاتے ہیں۔

(14)
سائل کو مسئول کے سامنے گھٹنے ٹیک کر ادب و احترام سے بیٹھنا چاہیے اور انداز گفتگو نہایت نرم اور مؤدبانہ ہونا چاہیے۔

(15)
جبریل امین علیہ السلام نے سفید لباس اختیار کیا تھا، نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفید لباس پر رغبت دلائی اور خود بھی پسند کیا حتی کہ مُردوں کے لیے بھی سفید کفن کو منتخب کیا۔ (جَامِعُ التِّرْمَذِي، الأدبُ، بَابَ مَا جَاءَ فِي لبسِ الْبيَاضِ، حَدِيْث: 2810)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 63   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2610  
´جبرائیل علیہ السلام کا نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے ایمان و اسلام کے اوصاف بیان کرنا۔`
یحییٰ بن یعمر کہتے ہیں کہ سب سے پہلے جس شخص نے تقدیر کے انکار کی بات کی وہ معبد جہنی ہے، میں اور حمید بن عبدالرحمٰن حمیری دونوں (سفر پر) نکلے یہاں تک کہ مدینہ پہنچے، ہم نے (آپس میں بات کرتے ہوئے) کہا: کاش ہماری نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے کسی شخص سے ملاقات ہو جائے تو ہم ان سے اس نئے فتنے کے متعلق پوچھیں جو ان لوگوں نے پیدا کیا ہے، چنانچہ (خوش قسمتی سے) ہماری ان سے یعنی عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے کہ جب وہ مسجد سے نکل رہے تھے، ملاقات ہو گئی، پھر میں نے اور میرے ساتھی نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الإيمان/حدیث: 2610]
اردو حاشہ:
وضاحت: 1؎:
ایک ان کے داہنے ہو گیا اور دوسرا ان کے بائیں۔ 2؎:
یعنی جب کوئی چیز واقع ہوجاتی ہے تب اللہ کو اس کی خبر ہوتی ہے،
پہلے سے ہی کوئی چیزلکھی ہوئی اورمتعین شدہ نہیں ہے۔
3؎:
یعنی لونڈی زادی مالکہ بن جائے گی اور جسے مالکہ کے مقام پر ہونا چاہئے وہ لونڈی کے مقام ودرجہ پرپہنچا دی جائے گی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2610   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4695  
´تقدیر (قضاء و قدر) کا بیان۔`
یحییٰ بن یعمر کہتے ہیں کہ بصرہ میں سب سے پہلے معبد جہنی نے تقدیر کا انکار کیا، ہم اور حمید بن عبدالرحمٰن حمیری حج یا عمرے کے لیے چلے، تو ہم نے دل میں کہا: اگر ہماری ملاقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی صحابی سے ہوئی تو ہم ان سے تقدیر کے متعلق لوگ جو باتیں کہتے ہیں اس کے بارے میں دریافت کریں گے، تو اللہ نے ہماری ملاقات عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کرا دی، وہ ہمیں مسجد میں داخل ہوتے ہوئے مل گئے، چنانچہ میں نے اور میرے ساتھی نے انہیں گھیر لیا، میرا خیال تھا کہ میرے ساتھی گفتگو کا موقع مجھے ہی دیں گے اس لیے میں نے کہا: ابوعبدالرحمٰن! ہماری طرف کچ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4695]
فوائد ومسائل:
1: بالخصوص فتنوں کے دنوں میں ضروری ہے کہ انسان علمائے راسخین سے رابطے میں رہے ان سے استفادہ کرکے ہی وہ اپنے ایمان وعمل کو محفوظ رکھ سکتا ہے صحابہ کرام رضی اللہ اس سلسلے کی اولین کڑی ہیں۔
2: الولا ء والبراء ایک اہم ترین مسئلہ ہے،ہر مومن کے لئے اس سے آگاہی اور اس پر عمل ضروری ہے،یعنی اہل ایمان سے محبت اور اہل کفراور ملحدین سے بغض اور اعراض۔
3: ایمانیات کی تمامتر جزئیات تسلیم اور قبول کیے بغیر کوئی نیکی درجہ قبول نہیں پاسکتی،ان میں سے ایک اہم مسئلہ تقدیر بھی ہے۔
4:لازمی ہے کہ علم شریعت قوت اور شباب (جوانی) کے دنوں میں حاصل کیا جائے۔
طالب علم کا لباس انتہائی صاف ستھراہو اور وہ اپنے مشائخ سے از حد تواضع کا معاملہ رکھے۔
5:ایمان اعضائے باطنی اور اعضائے ظاہری دونوں عمل یعنی تصدیق بالقلب اور اقرار باللسان و اعمال صالحہ کا نام ہے جبکہ اسلام اعضائے ظاہری کے اعمال یعنی اقرارباللسان واعمال صالحہ کا نا م ہے۔
ایمان میں اسلام بھی شامل ہے مگر جہاں ان کی الگ الگ پہچان کرنا مقصود ہو وہاں اسلام کا اطلاق ظاہری اعمال پر اور ایمان کا اطلاق باطنی امور پر ہوتا ہے جن کو ظاہری اعمال خود بخود مستلزم ہوتے ہیں۔
6: صفت احسان یعنی بندے کایہ تصور ہوکہ وہ اللہ کو دیکھ رہا ہے یا کم از کم یہ کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے،ایمان اور اسلام کے کمال کی نشانی ہے۔
7: قیامت کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں 8: اولادوں کا نافرمان ہونا اور بلند سے بلند عمارتوں کی تعمیر میں مقابلہ بالخصوص قرب قیامت کی علامات میں سے ہے۔
9: فرامین رسول ؐ یعنی حدیث وسنت شرعی حجت ہیں۔
رسول اللہ ؐ کے علاوہ کوئی انسان خواہ کتنا ہی صاحب عظمت ہو،شریعت میں اس کے قول وفعل کی کوئی حیثیت نہیں جب تک الصادق والمصدوقؐ کی توثیق نہ ہو۔
جس طرح کہ جبریل امین ؑنے دین کی سب سے تفصیلات رسول اللہ ؐ کی زبان سے اداکروائیں۔
براہ راست کچھ نہیں کہا۔
۔
۔
۔
اور اگر بالفرض وہ کہہ بھی دیتے تو امت کے لئے یہ حجت نہ ہوتا۔
10:صحابہ کرام رضی اللہ کو آنے والے کا پتہ نہ تھا اس کا مطلب ہے کہ اولیا اللہ غیب نہیں جانتے۔
11: لفظ دین شریعت کے تمام ظاہری اور باطنی امور کو محیط ہے
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4695   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.