الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: صلاۃ جنازہ کے احکام و مسائل
Chapters: Regarding Funerals
32. بَابُ : مَا جَاءَ فِي الصَّلاَةِ عَلَى الْقَبْرِ
32. باب: (مردہ دفن ہو جائے تو) قبر پر نماز جنازہ پڑھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1527
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا احمد بن عبدة ، انبانا حماد بن زيد ، حدثنا ثابت ، عن ابي رافع ، عن ابي هريرة ، ان امراة سوداء كانت تقم المسجد ففقدها رسول الله صلى الله عليه وسلم، فسال عنها بعد ايام، فقيل له: إنها ماتت، قال:" فهلا آذنتموني؟ فاتى قبرها فصلى عليها".
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ ، أَنْبَأَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّ امْرَأَةً سَوْدَاءَ كَانَتْ تَقُمُّ الْمَسْجِدَ فَفَقَدَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَ عَنْهَا بَعْدَ أَيَّامٍ، فَقِيلَ لَهُ: إِنَّهَا مَاتَتْ، قَالَ:" فَهَلَّا آذَنْتُمُونِي؟ فَأَتَى قَبْرَهَا فَصَلَّى عَلَيْهَا".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک کالی عورت مسجد میں جھاڑو دیا کرتی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نہیں دیکھا، کچھ روز کے بعد اس کے متعلق پوچھا تو آپ سے عرض کیا گیا کہ اس کا انتقال ہو گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر مجھے خبر کیوں نہ دی، اس کے بعد آپ اس کی قبر پہ آئے، اور اس پر نماز جنازہ پڑھی۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الصلاة 74 (458)، صحیح مسلم/الجنائز23 (956)، سنن ابی داود/الجنائز 61 (3203)، (تحفة الأشراف: 14650)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/353) (صحیح)» ‏‏‏‏

It was narrated from Abu Hurairah that a black woman used to sweep the mosque. The Messenger of Allah (ﷺ) noticed she was missing and he asked about her after a few days. He was told that she had died. He said: “Why did you not tell me?” Then he went to her grave and offered the funeral prayer for her.
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: بخاري ومسلم
   صحيح البخاري460عبد الرحمن بن صخرصلى على قبرها
   صحيح البخاري458عبد الرحمن بن صخرأفلا كنتم آذنتموني به دلوني على قبره أو قال قبرها أتى قبرها فصلى عليها
   صحيح البخاري1337عبد الرحمن بن صخرأفلا آذنتموني فقالوا إنه كان كذا وكذا قصته قال فحقروا شأنه قال فدلوني على قبره فأتى قبره فصلى عليه
   صحيح مسلم2215عبد الرحمن بن صخرالقبور مملوءة ظلمة على أهلها وإن الله ينورها لهم بصلاتي عليهم
   سنن أبي داود3203عبد الرحمن بن صخرألا آذنتموني به قال دلوني على قبره فدلوه فصلى عليه
   سنن ابن ماجه1527عبد الرحمن بن صخرهلا آذنتموني فأتى قبرها فصلى عليها
   بلوغ المرام447عبد الرحمن بن صخر‏‏‏‏افلا كنتم آذنتموني؟

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 447  
´دفن کرنے کے بعد میت کی قبر پر بھی نماز جنازہ پڑھنی جائز ہے`
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی قبر کا راستہ بتا دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں جا کر قبر پر نماز جنازہ پڑھی . . . [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 447]
لغوی تشریح:
«تَقُمُّ» قاف پر ضمہ اور میم پر تشدید ہے، یعنی جھاڑو دیا کرتی تھی۔ لکڑیاں، کپڑے کے چیتھڑے، کوڑا کرکٹ، غبار اور بھوسا وغیرہ باہر نکالا کرتی تھی۔ یہ خاتون سیام فام تھی اور اس کا نام محجن تھا۔
«آذَنْتُمونِي» اس کی وفات کی مجھے اطلاع دیتے تاکہ میں بھی اس کی نماز جنازہ پڑھتا۔
«صَغَّرُو» نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کے اعتبار سے انہوں نے اس کی وفات کو معمولی سمجھا۔
«دُلُّونِي» دال پر ضمہ ہے اور یہ «دلَالَهٌ» سے امر کا صیغہ ہے۔
«فَدَلُّوهُ» دال پر فتحہ اور لام پر ضمہ ہے اور یہ «دلَالةُ» سے ماضی کا صیغہ ہے۔
«ظُلُمَةٌ» تمییز واقع ہونے کی بنا پر منصوب ہے۔

فوائد و مسائل:
اس حدیث سے کئی مسائل ثابت ہوتے ہیں۔
➊ دفن کرنے کے بعد میت کی قبر پر بھی نماز جنازہ پڑھنی جائز ہے، گو تدفین سے پہلے بھی اس پر نماز جنازہ پڑھی جا چکی ہو۔ حضرت براء بن معرور رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ بھی آپ نے ایک ماہ بعد ان کی قبر پر پڑھی تھی کیونکہ ان کی وفات کے وقت آپ مکہ مکرمہ میں تھے۔ [الطبقات الكبري لابن سعد: 620، 618/3]
➋ مرنے والے کی قبر وہی ہے جہاں اسے دفن کیا ہو، انہی قبروں کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ان میں تاریکی ہی تاریکی ہے، روشنی نام کی کوئی چیز نہیں۔
➌ مسجد کی صفائی کرنے والے مرتبہ اور مقام بلند ہے۔
➍ مسجد کی صفائی مسلمان خاتون بھی کر سکتی ہے۔
➎ مسجد کو صاف ستھرا اور پاک رکھنا ضروری ہے، صفائی جھاڑو سے بھی کی جا سکتی ہے اور کپڑے سے بھی۔
➏ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی غریبوں سے محبت کا ثبوت بھی ملتا ہے کہ آپ کو اپنے کارکن مرد و عورت دونوں سے کس قدر تعلق اور لگاؤ تھا۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 447   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1527  
´(مردہ دفن ہو جائے تو) قبر پر نماز جنازہ پڑھنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک کالی عورت مسجد میں جھاڑو دیا کرتی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نہیں دیکھا، کچھ روز کے بعد اس کے متعلق پوچھا تو آپ سے عرض کیا گیا کہ اس کا انتقال ہو گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر مجھے خبر کیوں نہ دی، اس کے بعد آپ اس کی قبر پہ آئے، اور اس پر نماز جنازہ پڑھی۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1527]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
خدام کی خبر گیری اور ان کے حالات معلوم کرنا اخلاقی فرض ہے۔

(2)
چند دن بعد غالباً اس لئے دریافت فرمایا کہ اس سے پہلے یہ خیال ہوسکتا ہے کہ کسی کام سے یا کسی ر شتہ دار کو ملنے چلی گئی ہوگی یا معمولی بیماری یا مصروفیت کی وجہ سے مسجد کی صفائی کے لئے نہیں آ سکی۔

(3)
جو شخص کسی وجہ سے نماز جنازہ میں شریک نہ ہوسکا ہو وہ قبر پر جاکر نماز جنازہ ادا کرسکتا ہے۔
اس کی کیفیت وہی ہوگی جیسے میت چار پائی پر سامنے رکھ کر جنازہ پڑھا جاتا ہے۔

(4)
نماز جنازہ کی مذکورہ بالا صورت کے سوا کوئی بھی نماز ادا کرنا حرام ہے۔
ارشاد نبوی ہے۔
ساری زمین مسجد (عبادت کی جگہ)
ہے۔
سوائے قبرستان اور حمام کے (سنن ابی داؤد، الصلاۃ، باب فی المراضع لاتجوز فیھا الصلاۃ، حدیث: 493، وجامع الترمذي، الصلاۃ، باب ما جاء أن الأرض کلھا مسجد إلا المقبرۃ والحمام، حدیث: 317)
 نیز ارشاد نبوی ہے۔
قبروں کی طرف رخ کر کے نماز نہ پڑھو۔
نہ ان پر بیٹھو۔ (صحیح مسلم، الجنائز، باب النھی عن الجلوس علی القبر والصلاۃ علیه، حدیث: 974)

(5)
سنن بہیقی میں اس خاتون کا نام ام محجن رضی اللہ تعالیٰ عنہ مذکور ہے۔
دیکھئے: (سنن الکبریٰ للبہقي: 48/4)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1527   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3203  
´قبر پر جنازہ پڑھنا۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک کالی عورت یا ایک مرد مسجد میں جھاڑو دیا کرتا تھا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے موجود نہ پایا تو لوگوں سے اس کے متعلق پوچھا، لوگوں نے بتایا کہ وہ تو مر گیا ہے، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگوں نے مجھے اس کی خبر کیوں نہیں دی؟ آپ نے فرمایا: مجھے اس کی قبر بتاؤ، لوگوں نے بتائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھی۔ [سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3203]
فوائد ومسائل:

قبر پر جا کر نماز جنازہ پڑھنی جائز ہے۔

رسول اللہ ﷺ ضعیف مسلمانوں کا بھی خاص خیال رکھا کرتے تھے۔

مسجد کی صفائی ستھرائی بہت ہی بڑے اجر کا کام ہے۔
اور یہ اسی عمل کی برکت تھی کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کی قبر پر جاکر نماز جنازہ پڑھی۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3203   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.