الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: ذبیحہ کے احکام و مسائل
Chapters on Slaughtering
5. بَابُ : مَا يُذَكَّى بِهِ
5. باب: کس چیز سے ذبح کرنا جائز ہے؟
حدیث نمبر: 3178
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير ، حدثنا عمر بن عبيد الطنافسي ، عن سعيد بن مسروق ، عن عباية بن رفاعة ، عن جده رافع بن خديج ، قال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في سفر، فقلت: يا رسول الله، إنا نكون في المغازي فلا يكون معنا مدى، فقال:" ما انهر الدم وذكر اسم الله عليه، فكل غير السن والظفر، فإن السن عظم، والظفر مدى الحبشة".
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عُبَيْدٍ الطَّنَافِسِيُّ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَبَايَةَ بْنِ رِفَاعَةَ ، عَنْ جَدِّهِ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا نَكُونُ فِي الْمَغَازِي فَلَا يَكُونُ مَعَنَا مُدًى، فَقَالَ:" مَا أَنْهَرَ الدَّمَ وَذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ، فَكُلْ غَيْرَ السِّنِّ وَالظُّفْرِ، فَإِنَّ السِّنَّ عَظْمٌ، وَالظُّفْرَ مُدَى الْحَبَشَةِ".
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم لوگ غزوات میں ہوتے ہیں اور ہمارے پاس چھری نہیں ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو خون بہا دے اور جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو تو اسے کھاؤ بجز دانت اور ناخن سے ذبح کیے گئے جانور کے، کیونکہ دانت ہڈی ہے اور ناخن حبشیوں کی چھری ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الشرکة 3 (2488)، 16 (2507)، الجہاد 191 (3075)، الذبائح 15 (5498)، 18 (5503)، 20 (5506)، 23 (5509)، 36 (5543)، 37 (5544)، صحیح مسلم/الاضاحی 4 (1968)، سنن ابی داود/الأضاحي 15 (2821)، سنن الترمذی/الصید 19 (1492)، سنن النسائی/الذبائح 17 (4302)، الضحایا 15 (4396)، 26 (4414)، (تحفة الأشراف: 3561)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/463، 464، 4/140، 142) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: دانت اور ناخن کے سوا ہر دھار دار اور تیز چیز سے ذبح کرنا جائز ہے، اور تلوار، چھری، نیزے، تیر کے پھل، دھاردار پتھر اور لکڑی، کانچ، تانبے اور ٹین وغیرہ سے غرض جو چیز تیز ہو کر خون بہا دے اس سے ذبح کرنا جائز، اور ذبیحہ حلال ہے،اور شافعی کہتے ہیں کہ ذبح میں حلقوم (گلے کی وہ نالی جس سے کھانا پانی نیچے اترتا ہے)، اور مری (مڑکنی ہڈی گلے سے معدہ تک کی نلی) کا کٹ جانا شرط ہے اور دونوں رگوں کا بھی کاٹ ڈالنا مستحب ہے، امام احمد سے بھی اصح روایت یہی ہے، اور لیث بن سعد، ابو ثور، داود ظاہری اور ابن منذر نے کہا ہے کہ ان سب کا کٹنا شرط ہے، اور ابوحنیفہ نے کہا:اگر ان چاروں میں تین بھی کٹ جائیں تو درست ہے، اور مالک نے کہا کہ حلقوم اور دونوں (ودج) رگوں کا کٹنا ضروری ہے، مری کا کٹنا شرط نہیں،ابن منذر نے کہا: علماء کا اجماع ہے اس پر کہ جب حلقوم اور مری، اور مری اور دونوں رگیں کٹ جائیں، اور خون بہہ جائے،تو ذبح ہو گیا،امام نووی نے اہلحدیث کے مذہب میں اوداج کا کٹنا ضروری قرار دیا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
   صحيح البخاري5506رافع بن خديجكل ما أنهر الدم إلا السن والظفر
   صحيح البخاري5543رافع بن خديجما أنهر الدم وذكر اسم الله فكلوه ما لم يكن سن ولا ظفر وسأحدثكم عن ذلك أما السن فعظم وأما الظفر فمدى الحبشة أصابوا من الغنائم والنبي في آخر الناس فنصبوا قدورا فأمر بها فأكفئت قسم بينهم وعدل بعيرا بعشر شياه لهذه البهائم أوابد كأوابد الوحش فما فعل منها هذا ف
   صحيح البخاري5509رافع بن خديجأعجل ما أنهر الدم وذكر اسم الله فكل ليس السن والظفر وسأحدثك أما السن فعظم وأما الظفر فمدى الحبشة لهذه الإبل أوابد كأوابد الوحش فإذا غلبكم منها شيء فافعلوا
   صحيح البخاري5503رافع بن خديجما أنهر الدم وذكر اسم الله فكل ليس الظفر والسن أما الظفر فمدى الحبشة وأما السن فعظم لهذه الإبل أوابد كأوابد الوحش فما غلبكم منها فاصنعوا به هكذا
   صحيح البخاري2507رافع بن خديجأنهر الدم وذكر اسم الله عليه فكلوا ليس السن والظفر وسأحدثكم عن ذلك أما السن فعظم وأما الظفر فمدى الحبشة
   صحيح البخاري5498رافع بن خديجما أنهر الدم وذكر اسم الله عليه فكل ليس السن والظفر وسأخبركم عنه أما السن فعظم وأما الظفر فمدى الحبشة
   صحيح مسلم5092رافع بن خديجأعجل ما أنهر الدم وذكر اسم الله فكل ليس السن والظفر وسأحدثك أما السن فعظم وأما الظفر فمدى الحبشة لهذه الإبل أوابد كأوابد الوحش فإذا غلبكم منها شيء فاصنعوا به هكذا
   جامع الترمذي1491رافع بن خديجما أنهر الدم وذكر اسم الله عليه فكلوه ما لم يكن سنا أو ظفرا وسأحدثكم عن ذلك أما السن فعظم وأما الظفر فمدى الحبشة
   سنن أبي داود2821رافع بن خديجأرن ما أنهر الدم وذكر اسم الله عليه فكلوا ما لم يكن سنا أو ظفرا وسأحدثكم عن ذلك أما السن فعظم وأما الظفر فمدى الحبشة تعجلوا فأصابوا من الغنائم ورسول الله في آخر الناس فنصبوا قدورا فمر رسول الله بالقدور فأمر بها فأكفئت قسم بينهم فعدل بعيرا بعشر شياه لهذه ا
   سنن النسائى الصغرى4409رافع بن خديجما أنهر الدم وذكر اسم الله فكلوا ما لم يكن سنا أو ظفرا وسأحدثكم عن ذلك أما السن فعظم وأما الظفر فمدى الحبشة
   سنن النسائى الصغرى4408رافع بن خديجما أنهر الدم وذكر اسم الله فكل إلا بسن أو ظفر
   سنن ابن ماجه3178رافع بن خديجما أنهر الدم وذكر اسم الله عليه فكل غير السن والظفر فإن السن عظم والظفر مدى الحبشة
   بلوغ المرام1155رافع بن خديج ما أنهر الدم وذكر اسم الله عليه فكل ليس السن والظفر أما السن فعظم وأما الظفر فمدى الحبشة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5506  
´جانور کو دانت، ہڈی اور ناخن سے ذبح نہ کیا جائے`
«. . . عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كُلْ يَعْنِي مَا أَنْهَرَ الدَّمَ إِلَّا السِّنَّ وَالظُّفُرَ . . .»
. . . رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کھاؤ یعنی (ایسے جانور کو جسے ایسی دھاردار چیز سے ذبح کیا گیا ہو) جو خون بہا دے۔ سوا دانت اور ناخن کے (یعنی ان سے ذبح کرنا درست نہیں ہے)۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَطْعِمَةِ: 5506]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 5506 کا باب: «بَابُ لاَ يُذَكَّى بِالسِّنِّ وَالْعَظْمِ وَالظُّفُرِ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
ترجمۃ الباب میں امام بخاری رحمہ اللہ نے دانت، ہڈی اور ناخن سے ذبح نہ کرنے کا ذکر فرمایا ہے، جبکہ تحت الباب حدیث میں دانت اور ناخن کا ذکر ہے مگر ہڈی کا ذکر نہیں ہے، لہٰذا باب سے حدیث کا مکمل طور پر مناسبت ہونا ثابت نہیں ہو رہا ہے۔

حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ باب اور حدیث میں مناسبت دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
«والبخاري فى هذا ماش على عادتة فى الإشارة إلى ما يتضمنه أصل الحديث فان فيه أما السن فعظم وان كانت هذه الجملة لم تذكرهنا لكنها ثابته مشهورة فى نفس الحديث .» [فتح الباري لابن حجر: 540/90]
یعنی امام بخاری رحمہ اللہ نے یہاں بھی اپنی عادت کے مطابق اصل حدیث کے متقضی کی طرف اشارہ فرمایا ہے، جس میں یہ الفاظ ہیں کہ دانت ہڈی ہے اگرچہ یہ جملہ یہاں پر مذکور نہیں ہے لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے اشارے کے ذریعے اس حدیث کی طرف اشارہ فرمایا ہے جو نص حدیث میں ثابت اور مشہور ہے۔

عبدالحق الہاشمی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«ذكر البخاري فى الباب حديث رافع وفيه ذكر السن والظفر، وليس فيه ذكر العظم، لكن مشي البخاري على عادته فى الاشارة الى ما يتضمنه اصل الحديث .» [لب اللباب فی تراجم والابواب: 306/4]

علامہ کرمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«ترجم بالعظم ولم يذكره فى الحديث، ولكن حكمه يعلم منه، لأن المذكور فى الحديث، أعني: السن والظفر أيضا من العظم .»
امام کرمانی رحمہ اللہ کی توجیہ کے مطابق بھی دوسری حدیث میں واضح لفظ ہیں کہ:
«اعنيى السن والظفر أيضاً من العظم .»

امام قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اس کے علاوہ سابقہ روایت میں زیادتی ہے کہ «أما السن فعظم» (دانت ہڈی ہے) پس یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔ [ارشاد الساري: 439/9]
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 137   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3178  
´کس چیز سے ذبح کرنا جائز ہے؟`
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم لوگ غزوات میں ہوتے ہیں اور ہمارے پاس چھری نہیں ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو خون بہا دے اور جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو تو اسے کھاؤ بجز دانت اور ناخن سے ذبح کیے گئے جانور کے، کیونکہ دانت ہڈی ہے اور ناخن حبشیوں کی چھری ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الذبائح/حدیث: 3178]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
لوہے کی چھری کے علاوہ نیزے، تلوار اور شیشے کے ٹکڑے وغیرہ سے ذبح کرنا بھی جائز ہے۔

(2)
اگر ہڈی کا ٹکڑا ٹوٹ کر تیز دھار کی طرح بن گیا ہواور اس سے ذبح کرنا ممکن ہو، تب بھی اس سے ذبح نہیں کرنا چاہیے۔

(3)
کسی چھوٹے جانور یا پرندے کو دانت سے کاٹ کر ذبح کرلیا جائے تو یہ ذبح نہیں ہوگا کیونکہ یہ ممنوع ہے۔

(4)
اسی طرح ناخن سے خون نکال کر جانور کو بے جان کرنا جائز نہیں۔

(5)
حبشیوں سے مراد غیر مسلم حبشی ہیں کیونکہ نبی کریم ﷺ کے زمانہ مبارک میں ان لوگوں کی غالب اکثریت غیر مسلموں پر مشتمل تھی۔

(6)
غیر مسلموں کے رسم ورواج اور طور طریقوں سے زیادہ سے زیادہ پرہیز کرنا ضروری ہے کیونکہ نبی ﷺ نے ناخن سے ذبح کرنے کی ممانعت کا سبب بیان کیا ہے کہ یہ غیر مسلم حبشیوں کا طریقہ ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3178   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1155  
´شکار اور ذبائح کا بیان`
سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ جو چیز خون کو بہا دے اور اسے اللہ کا نام لے کر ذبح کیا گیا ہو تو اس جانور کو کھا لو۔ ذبح کرنے کا آلہ دانت اور ناخن نہیں کیونکہ دانت تو ہڈی ہے اور ناخن حبشیوں کی چھری ہے۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1155»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الذبائح، باب الستمية علي الذبيحة...، حديث:5498، ومسلم، الأضاحي، باب جواز الذبح بكل ما أنهر الدم إلا السن وسائر العظام، حديث:1968.»
تشریح:
1. یہ حدیث مطلقاً دانت اور ناخن سے جانور کو مارنے کی ممانعت پر دلالت کرتی ہے۔
خواہ وہ دانت اور ناخن انسان کا ہو یا کسی جانور کا‘ الگ ہو یا جسم کے ساتھ لگا ہوا ہو، اگرچہ تیز دھار ہی ہو۔
(سبل السلام) 2.حبشیوں سے مراد غیر مسلم حبشی ہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ان لوگوں کی اکثریت غیرمسلموں پر مشتمل تھی۔
غیر مسلموں کے رسم و رواج اور طور طریقوں سے زیادہ سے زیادہ پرہیز کرنا ضروری ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ناخن سے ذبح کرنے کی ممانعت کا سبب یہ بیان کیا ہے کہ یہ غیر مسلم حبشیوں کا طریقہ ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 1155   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1491  
´بانس وغیرہ سے ذبح کرنے کا بیان۔`
رافع بن خدیج رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! کل ہم دشمن سے ملیں گے اور ہمارے پاس (جانور ذبح کرنے کے لیے) چھری نہیں ہے (تو کیا حکم ہے؟)، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو خون بہا دے ۱؎ اور اس پر اللہ کا نام یعنی بسم اللہ پڑھا گیا ہو تو اسے کھاؤ، بجز دانت اور ناخن سے ذبح کیے گئے جانور کے، اور میں تم سے دانت اور ناخن کی ۲؎ تفسیر بیان کرتا ہوں: دانت، ہڈی ہے اور ناخن حبشیوں کی چھری ہے ۳؎۔ محمد بن بشار کی سند سے یہ بیان کیا، سفیان ثوری کہتے ہیں عبایہ بن رفاعہ سے، اور عبایہ نے رافع ب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الصيد والذبائح/حدیث: 1491]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس میں تلوار،
چھری،
تیز پتھر،
لکڑی،
شیشہ،
سرکنڈا،
بانس اور تانبے یا لوہے کی بنی ہوئی چیزیں شامل ہیں۔

2؎:
اس جملہ کے بارے میں اختلاف ہے کہ یہ اللہ کے رسول کا قول ہے یاراوی حدیث رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کا ہے۔

3؎:
ناخن کے ساتھ ذبح کرنے میں کفار کے ساتھ مشابہت ہے،
نیز یہ ذبح کی صفت میں نہیں آتا،
دانت وناخن خواہ انسان کا ہو یا کسی اور جانور کا الگ اور جدا ہو یا جسم کے ساتھ لگا ہو،
ان سے ذبح کرنا جائز نہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1491   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2821  
´دھار دار پتھر سے ذبح کرنے کا بیان۔`
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم کل دشمنوں سے مقابلہ کرنے والے ہیں، ہمارے پاس چھریاں نہیں ہیں کیا ہم سفید (دھار دار) پتھر یا لاٹھی کے پھٹے ہوئے ٹکڑے (بانس کی کھپچی) سے ذبح کریں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جلدی کر لو ۱؎ جو چیز کہ خون بہا دے اور اللہ کا نام اس پر لیا جائے تو اسے کھاؤ ہاں وہ دانت اور ناخن سے ذبح نہ ہو، عنقریب میں تم کو اس کی وجہ بتاتا ہوں، دانت سے تو اس لیے نہیں کہ دانت ایک ہڈی ہے، اور ناخن سے اس لیے نہیں کہ وہ جبشیوں کی چھریاں ہیں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الضحايا /حدیث: 2821]
فوائد ومسائل:

بوقت ضرورت تیز دھاری دار پتھر اورلکڑی کے تیز چھلکے یا پھٹے وغیرہ سے ذبح کرنا جائز ہے، مگر دانت ہڈی۔
اور ناخن سے ذبح کرنا جائز نہیں۔
کیونکہ اس میں کفار کی مشابہت ہے۔


  ذبح کرتےوقت تکبیر پڑھنا۔
اور خون نکلنا لازمی ہے۔


جو جانور وحشی بن جائے۔
اور قابو میں نہ آرہا ہو تو اسے شکار کی مانند نشانہ مار کرذبح کرنا یا زخمی کرنا حتیٰ کہ قابو میں آجائے جائز ہے۔
جب وہ زخمی ہوکر گرجائے تو اس کے گلے پرچھری پھیرکر اسے ذبح کرلیا جائے۔


امام کو حق حاصل ہے کہ حسب مصلحت مالی تعزیر لگائے۔
(جرمانہ کرنا مباح ہے)

اسلامی معاشرے میں عدل کا نفاذ ازحد ضروری ہے۔
بالخصوص جہاد میں اور کفار کے مقابلے میں اس کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔
کیونکہ یہ عمل کفار پرنصرت اور غلبے کا ایک اہم عنصر ہے۔


اس حدیث میں ایک اونٹ کو دس بکریوں کے برابر قرار دینا ا س موقع پر قیمت کی بنیاد پرتھا۔
اس سے یہ استدلال کرنا کہ ایک اونٹ میں دس افراد حصہ دار ہوسکتے ہیں۔
محل نظر ہے۔
لیکن قربانی کے موقع پر ایک اونٹ میں دس افراد کے شریک ہونے کا ذکر دوسری احادیث سے ثابت ہے۔
(تفصیل کےلئے دیکھئے فوائد ومسائل حدیث نمبر 2810)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2821   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.