الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: صلح کے مسائل کا بیان
The Book of Peacemaking
13. بَابُ الصُّلْحِ بَيْنَ الْغُرَمَاءِ وَأَصْحَابِ الْمِيرَاثِ وَالْمُجَازَفَةِ فِي ذَلِكَ:
13. باب: میت کے قرض خواہوں اور وارثوں میں صلح کا بیان اور قرض کا اندازہ سے ادا کرنا۔
(13) Chapter. Reconciliation between the creditors and between the inheritors and the repayment of debts by giving an amount that is not specified or counted.
حدیث نمبر: Q2709
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
وقال ابن عباس: لا باس ان يتخارج الشريكان فياخذ هذا دينا وهذا عينا، فإن توي لاحدهما لم يرجع على صاحبه.وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لَا بَأْسَ أَنْ يَتَخَارَجَ الشَّرِيكَانِ فَيَأْخُذَ هَذَا دَيْنًا وَهَذَا عَيْنًا، فَإِنْ تَوِيَ لِأَحَدِهِمَا لَمْ يَرْجِعْ عَلَى صَاحِبِهِ.
اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ اگر دو شریک آپس میں یہ ٹھہرا لیں کہ ایک (اپنے حصہ کو بدل) قرض وصول کرے اور دوسرا نقد مال لے لے تو کوئی حرج نہیں۔ اب اگر ایک شریک کا حصہ تلف ہو جائے (مثلاً قرضہ ڈوب جائے) تو وہ اپنے شریک سے کچھ نہیں لے سکتا۔

حدیث نمبر: 2709
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثني محمد بن بشار، حدثنا عبد الوهاب، حدثنا عبيد الله، عن وهب بن كيسان، عن جابر بن عبد الله رضي الله عنهما، قال:" توفي ابي وعليه دين فعرضت على غرمائه ان ياخذوا التمر بما عليه، فابوا، ولم يروا ان فيه وفاء، فاتيت النبي صلى الله عليه وسلم فذكرت ذلك له، فقال: إذا جددته فوضعته في المربد آذنت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فجاء ومعه ابو بكر، وعمر، فجلس عليه ودعا بالبركة، ثم قال: ادع غرماءك فاوفهم، فما تركت احدا له على ابي دين إلا قضيته، وفضل ثلاثة عشر وسقا سبعة عجوة وستة لون او ستة عجوة وسبعة لون، فوافيت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم المغرب، فذكرت ذلك له فضحك، فقال: ائت ابا بكر، وعمر فاخبرهما، فقالا: لقد علمنا إذ صنع رسول الله صلى الله عليه وسلم ما صنع ان سيكون ذلك". وقال هشام: عن وهب، عن جابر صلاة العصر، ولم يذكر ابا بكر ولا ضحك، وقال: وترك ابي عليه ثلاثين وسقا دينا. وقال ابن إسحاق: عن وهب، عن جابر صلاة الظهر.حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" تُوُفِّيَ أَبِي وَعَلَيْهِ دَيْنٌ فَعَرَضْتُ عَلَى غُرَمَائِهِ أَنْ يَأْخُذُوا التَّمْرَ بِمَا عَلَيْهِ، فَأَبَوْا، وَلَمْ يَرَوْا أَنَّ فِيهِ وَفَاءً، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: إِذَا جَدَدْتَهُ فَوَضَعْتَهُ فِي الْمِرْبَدِ آذَنْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَ وَمَعَهُ أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، فَجَلَسَ عَلَيْهِ وَدَعَا بِالْبَرَكَةِ، ثُمَّ قَالَ: ادْعُ غُرَمَاءَكَ فَأَوْفِهِمْ، فَمَا تَرَكْتُ أَحَدًا لَهُ عَلَى أَبِي دَيْنٌ إِلَّا قَضَيْتُهُ، وَفَضَلَ ثَلَاثَةَ عَشَرَ وَسْقًا سَبْعَةٌ عَجْوَةٌ وَسِتَّةٌ لَوْنٌ أَوْ سِتَّةٌ عَجْوَةٌ وَسَبْعَةٌ لَوْنٌ، فَوَافَيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَغْرِبَ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ فَضَحِكَ، فَقَالَ: ائْتِ أَبَا بَكْرٍ، وَعُمَرَ فَأَخْبِرْهُمَا، فَقَالَا: لَقَدْ عَلِمْنَا إِذْ صَنَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا صَنَعَ أَنْ سَيَكُونُ ذَلِكَ". وَقَالَ هِشَامٌ: عَنْ وَهْبٍ، عَنْ جَابِرٍ صَلَاةَ الْعَصْرِ، وَلَمْ يَذْكُرْ أَبَا بَكْرٍ وَلَا ضَحِكَ، وَقَالَ: وَتَرَكَ أَبِي عَلَيْهِ ثَلَاثِينَ وَسْقًا دَيْنًا. وَقَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ: عَنْ وَهْبٍ، عَنْ جَابِرٍ صَلَاةَ الظُّهْرِ.
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوہاب نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ نے بیان کیا، ان سے وہب بن کیسان نے اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میرے والد جب شہید ہوئے تو ان پر قرض تھا۔ میں نے ان کے قرض خواہوں کے سامنے یہ صورت رکھی کہ قرض کے بدلے میں وہ (اس سال کی کھجور کے) پھل لے لیں۔ انہوں نے اس سے انکار کیا، کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اس سے قرض پورا نہیں ہو سکے گا، میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب پھل توڑ کر مربد (وہ جگہ جہاں کھجور خشک کرتے تھے) میں جمع کر دو (تو مجھے خبر دو) چنانچہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ ساتھ میں ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما بھی تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں کھجور کے ڈھیر پر بیٹھے اور اس میں برکت کی دعا فرمائی، پھر فرمایا کہ اب اپنے قرض خواہوں کو بلا لا اور ان کا قرض ادا کر دے، چنانچہ کوئی شخص ایسا باقی نہ رہا جس کا میرے باپ پر قرض رہا اور میں نے اسے ادا نہ کر دیا ہو۔ پھر بھی تیرہ وسق کھجور باقی بچ گئی۔ سات وسق عجوہ میں سے اور چھ وسق لون میں سے، یا چھ وسق عجوہ میں سے اور سات وسق لون میں سے، بعد میں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مغرب کے وقت جا کر ملا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنسے اور فرمایا، ابوبکر اور عمر کے یہاں جا کر انہیں بھی یہ واقعہ بتا دو۔ چنانچہ میں نے انہیں بتلایا، تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو کرنا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ کیا۔ ہمیں جبھی معلوم ہو گیا تھا کہ ایسا ہی ہو گا۔ ہشام نے وہب سے اور انہوں نے جابر سے عصر کے وقت (جابر رضی اللہ عنہ کی حاضری کا) ذکر کیا ہے اور انہوں نے نہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ذکر کیا اور نہ ہنسنے کا، یہ بھی بیان کیا کہ (جابر رضی اللہ عنہ نے کہا) میرے والد اپنے اوپر تیس وسق قرض چھوڑ گئے تھے اور ابن اسحاق نے وہب سے اور انہوں نے جابر رضی اللہ عنہ سے ظہر کی نماز کا ذکر کیا ہے۔

Narrated Jabir bin `Abdullah: My father died and was in debt. I suggested that his creditors take the fruits (i.e. dates) of my garden in lieu of the debt of my father, but they refused the offer, as they thought that it would not cover the full debt. So, I went to the Prophet and told him about it. He said (to me), "When you pluck the dates and collect them in the Mirbad (i.e. a place where dates are dried), call me (Allah's Apostle)." Finally he came accompanied by Abu Bakr and `Umar and sat on the dates and invoked Allah to bless them. Then he said, "Call your creditors and give them their full rights." So, I paid all my father's creditors in full and yet thirteen extra Wasqs of dates remained, seven of which were 'Ajwa and six were Laun or six of which were Ajwa and seven were Laun. I met Allah's Apostle at sunset and informed him about it. On that he smiled and said, "Go to Abu Bakr and `Umar and tell them about it." They said, "We perceived that was going to happen, as Allah's Apostle did what he did."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 49, Number 872

   صحيح البخاري4053جابر بن عبد اللهوالدي قد استشهد يوم أحد وترك دينا كثيرا وإني أحب أن يراك الغرماء فقال اذهب فبيدر كل تمر على ناحية ففعلت ثم دعوته فلما نظروا إليه كأنهم أغروا بي تلك الساعة فلما رأى ما يصنعون أطاف حول أعظمها بيدرا ثلاث مرات ثم جلس عليه ثم قال ادع لي أصحابك
   صحيح البخاري2395جابر بن عبد اللهأباه قتل يوم أحد شهيدا وعليه دين فاشتد الغرماء في حقوقهم فأتيت النبي فسألهم أن يقبلوا تمر حائطي ويحللوا أبي فأبوا فلم يعطهم النبي حائطي وقال سنغدو عليك فغدا علينا حين أصبح فطاف في النخل ودعا في ثمرها بالبركة فجددت
   صحيح البخاري5443جابر بن عبد اللهامشوا نستنظر لجابر من اليهودي فجاءوني في نخلي فجعل النبي يكلم اليهودي فيقول أبا القاسم لا أنظره فلما رأى النبي قام فطاف في النخل ثم جاءه فكلمه فأبى فقمت فجئت بقليل رطب فوضعته بين يدي النبي فأكل ثم
   صحيح البخاري2781جابر بن عبد اللهوالدي استشهد يوم أحد وترك عليه دينا كثيرا وإني أحب أن يراك الغرماء قال اذهب فبيدر كل تمر على ناحيته ففعلت ثم دعوته
   صحيح البخاري2601جابر بن عبد اللهأباه قتل يوم أحد شهيدا فاشتد الغرماء في حقوقهم فأتيت رسول الله فكلمته فسألهم أن يقبلوا ثمر حائطي ويحللوا أبي فأبوا فلم يعطهم رسول الله حائطي ولم يكسره لهم ولكن قال سأغدو عليك إن شاء الله فغدا علينا حين أصبح
   صحيح البخاري2709جابر بن عبد اللهتوفي أبي وعليه دين فعرضت على غرمائه أن يأخذوا التمر
   صحيح البخاري2396جابر بن عبد اللهأباه توفي وترك عليه ثلاثين وسقا لرجل من اليهود فاستنظره جابر فأبى أن ينظره فكلم جابر رسول الله ليشفع له إليه فجاء رسول الله وكلم اليهودي ليأخذ ثمر نخله بالذي له فأبى فدخل رسول الله النخل فمشى فيها ثم قال لجابر جد له فأوف له الذي له فجده بعدما رجع رسول الل
   سنن أبي داود2884جابر بن عبد اللهأباه توفي وترك عليه ثلاثين وسقا لرجل من يهود فاستنظره جابر فأبى فكلم جابر النبي أن يشفع له إليه فجاء رسول الله وكلم اليهودي ليأخذ ثمر نخله بالذي له عليه فأبى عليه وكلمه رسول الله أن ينظره فأبى
   سنن النسائى الصغرى3670جابر بن عبد اللهتوفي أبي وعليه دين فعرضت على غرمائه أن يأخذوا الثمرة بما عليه فأبوا ولم يروا فيه وفاء فأتيت رسول الله فذكرت ذلك له قال إذا جددته فوضعته في المربد فآذني فلما جددته ووضعته في المربد أتيت رسول الله فجاء ومعه أبو بكر وعمر فجلس عليه ودعا بالبركة ثم قال ادع غرم
   سنن النسائى الصغرى3666جابر بن عبد اللهوالدي استشهد يوم أحد وترك دينا كثيرا وإني أحب أن يراك الغرماء قال اذهب فبيدر كل تمر على ناحية ففعلت ثم دعوته فلما نظروا إليه كأنما أغروا بي تلك الساعة فلما رأى ما يصنعون أطاف حول أعظمها بيدرا ثلاث مرات ثم جلس عليه ثم قال ادع أصحابك فما زال يكيل لهم حتى أد
   سنن ابن ماجه2434جابر بن عبد اللهجد له فأوفه الذي له فجد له بعد ما رجع رسول الله ثلاثين وسقا وفضل له اثنا عشر وسقا فجاء جابر رسول الله ليخبره بالذي كان فوجد رسول الله غائبا فلما انصرف رسول الله جاءه فأخبره أنه قد

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2434  
´میت کی طرف سے قرض ادا کرنے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ان کے والد وفات پا گئے، اور اپنے اوپر ایک یہودی کے تیس وسق کھجور قرض چھوڑ گئے، جابر رضی اللہ عنہ نے اس یہودی سے مہلت مانگی لیکن اس نے انہیں مہلت دینے سے انکار کر دیا تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ اس سے اس کی سفارش کر دیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس گئے اور آپ نے اس سے بات کی کہ وہ ان کھجوروں کو جو ان کے درخت پر ہیں اپنے قرض کے بدلہ لے لے، لیکن وہ نہیں مانا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے مہلت مانگی، لیکن وہ انہیں مہلت دینے پر بھی راضی نہ ہوا تو رسول اللہ صلی ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الصدقات/حدیث: 2434]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے والد غزوہ احد میں شہید ہوئےتھے۔

(2)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے والد پر اور بھی بہت سے لوگوں کا قرض تھا۔
ان کے بارے میں دوسری احادیث میں ذکر کیا گیا ہے۔
یہ یہودی ان قرض خواہوں میں سے ایک تھا۔ دیکھیے: (صحیح البخاري، الاستقراض واداء الدیون .......، باب إذا قضی دون حقه أو حلله فھو جائز، حدیث: 2395)

(3)
اس یہودی کےسوا دوسرے قرض خواہوں کو ادائیگی کرتےوقت خود نبیﷺنےماپ کر ہر ایک کو اس كا قرض ادا کیا تھا۔ (صحیح البخاري، الاستقراض، باب الشفاعة فی وضع الدین حدیث: 2405)

(4)
کھانے پینے کی چیزوں میں يہ برکت رسول اللہ ﷺکا معجزہ ہے جو متعدد مواقع پرظاہر ہوا۔

(5)
حضرت عمررضی اللہ عنہ کا ایمان اتنا زیادہ تھا کہ انھیں معجزہ ظاہر ہونے سے پہلے ہی یقین ہو گیا کہ یہ واقعہ یوں پيشں آئے گا۔
اس سےحضرت عمر رضی اللہ عنہ کی عظمت اورشان کا اظہار ہوتا ہے۔

(6)
وسق ساٹھ صاع کےبرابر ہوتا ہے جس کی کل مقدار ہمارے یہاں کےاعتبار سےتقریباً چار من بنتی ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2434   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2884  
´مال چھوڑ کر مرنے والے قرضدار کے وارث کو قرض خواہوں سے مہلت دلانا اور اس کے ساتھ نرمی کرنے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ان کے والد انتقال کر گئے اور اپنے ذمہ ایک یہودی کا تیس وسق کھجور کا قرضہ چھوڑ گئے، جابر رضی اللہ عنہ نے اس سے مہلت مانگی تو اس نے (مہلت دینے سے) انکار کر دیا، تو آپ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کی کہ آپ چل کر اس سے سفارش کر دیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس تشریف لائے اور یہودی سے بات کی کہ وہ (اپنے قرض کے بدلے میں) ان کے کھجور کے باغ میں جتنے پھل ہیں لے لے لیکن اس نے انکار کیا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الوصايا /حدیث: 2884]
فوائد ومسائل:

میت کا قرضہ اولین فرصت میں ادا کرنا چاہیے۔
مگر حسب احوال مہلت لینے میں کوئی حرج نہیں۔
اور مسلمان کو چاہیے کہ اپنے مسلمان بھائی کے ساتھ حتی الامکان نرمی کا معاملہ کرے۔
اور اس قسم کے معاملات میں سفارش کرنا بھی مستحب ہے۔


صحیح بخاری میں اس حدیث کا مضمون کچھ اس طرح ہے۔
حضرت جابر بن عبد للہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں۔
کہ میرے والد احد میں شہید ہوگئے۔
اور چھ بیٹیوں کے ساتھ ساتھ بہت سا قرض بھی چھوڑ گئے۔
جب کھجوریں کاٹنے کا موسم آیا۔
تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں چاہتا ہوں۔
آپ تشریف لائیں تاکہ قرض خواہ آپ کو دیکھ لیں۔
(اور مطالبے میں سختی نہ کریں) آپ نے فرمایا: جاؤ اور اپنا تمام پھل ایک جانب ڈھیر کرو۔
چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا اور پھر آپ کو بلا لایا، جب ان لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو مجھے غضبناک تیز نظروں سے دیکھنے لگے، جب آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے تیور دیکھے تو آپ نے سب سے بڑے ڈھیر کے گرد تین چکر لگائے اور پھر اس پر بیٹھ گئے اور فرمایا: اپنے قرض خواہوں کی بلائو، چنانچہ میں ان کےلئے کھجوریں بھرتا اور ناپتا رہا، حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے میرے والد کی امانت (قرض) ادا کردی۔
اور اللہ کی قسم میں اس بات پرراضی تھا۔
کہ اللہ میرے باپ کی امانت (قرض) پوری کرا دے۔
خواہ میں اپنی بہنوں کےلئے ایک دانہ بھی نہ لے جائوں۔
چنانچہ اللہ کی قسم وہ سب ڈھیر اسی طرح محفوظ رہے۔
اور گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ ڈھیر جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے۔
ا س میں سے ایک دانہ بھی کم نہ ہوا تھا۔
(صحیح البخاري، الوصایا، حدیث: 2781) اس حدیث میں بیان ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین حقوق العباد کے معاملے میں انتہائی حساس تھے۔
اور پھر اللہ عزوجل بھی اپنے بندوں کی عزتوں کو کس پراسرارانداز میں محفوظ فرماتا ہے۔
اور ان کے رزق میں واضح برکت ڈال دیتا ہے۔
بشرط یہ کہ ایمان وعمل میں اخلاص ہو اور ایک اللہ ہی پر توکل ہو۔
جعلنا اللہ منھم، آمین۔


وسق کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے۔
کہ ایک وسق ساٹھ صاع کا اور ایک صاع تقریبا ڈھائی کلو کا ہوتا ہے۔
اس حساب سے ایک وسق تقریباً 3 من اور 30 کلو ہو اور 30 وسق کا وزن تقریبا ً 112 من اور 20 کلو ہوا۔
واللہ اعلم
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2884   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2709  
2709. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میرے والد گرامی شہید ہوئے تو ان کے ذمے قرض تھا۔ میں نے قرض خواہوں کے سامنے ایک تجویز پیش کی کہ وہ اس قرض کے عوض میری تمام کھجوریں قبول کر لیں لیکن انھوں نے انکار کردیا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ان کھجوروں سے ان کاقرض پورا نہیں ہوگا، چنانچہ میں نبی کریم ﷺ کے پاس حاضر ہوا اور آپ سے ان کاتذکرہ کیا تو آپ نے فرمایا: جب تم کھجوریں توڑکر ان کے لیے مخصوص جگہ میں رکھو تو (مجھے) رسول اللہ ﷺ کو اطلاع کرو۔ میں نے حسب ارشاد جب انھیں توڑ کرکھلیان میں رکھا تو آپ کو اطلاع کی، چنانچہ آپ حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت عمر ؓ کے ہمراہ تشریف لائے۔ آپ کھجوروں کی ڈھیری کے پاس بیٹھ گئے، پھر ان کے متعلق برکت کی دعا کی اور فرمایا: اپنے قرض خواہوں کو بلاؤ اور ان کا قرض ادا کرو۔ اب کوئی شخص ایسا نہ رہا جس کا میرے باپ کے ذمے قرض تھا اور میں نے اسے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2709]
حدیث حاشیہ:
ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے۔
عجوہ مدینہ کی کھجور میں بہت اعلیٰ قسم ہے اور لون اس سے کمتر ہوتی ہے۔
آنحضرت ﷺ کی دعا کی برکت سے حضرت جابر ؓ نے اپنا سارا قرض ادا کردیا، پھر بھی کافی بچت ہوگئی۔
خوش نصیب تھے حضرت جابر ؓ جن کو یہ فضیلت نبوی حاصل ہوئی۔
مضمون باب کی ہر شق حدیث ہذا سے ثابت ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2709   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2709  
2709. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میرے والد گرامی شہید ہوئے تو ان کے ذمے قرض تھا۔ میں نے قرض خواہوں کے سامنے ایک تجویز پیش کی کہ وہ اس قرض کے عوض میری تمام کھجوریں قبول کر لیں لیکن انھوں نے انکار کردیا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ان کھجوروں سے ان کاقرض پورا نہیں ہوگا، چنانچہ میں نبی کریم ﷺ کے پاس حاضر ہوا اور آپ سے ان کاتذکرہ کیا تو آپ نے فرمایا: جب تم کھجوریں توڑکر ان کے لیے مخصوص جگہ میں رکھو تو (مجھے) رسول اللہ ﷺ کو اطلاع کرو۔ میں نے حسب ارشاد جب انھیں توڑ کرکھلیان میں رکھا تو آپ کو اطلاع کی، چنانچہ آپ حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت عمر ؓ کے ہمراہ تشریف لائے۔ آپ کھجوروں کی ڈھیری کے پاس بیٹھ گئے، پھر ان کے متعلق برکت کی دعا کی اور فرمایا: اپنے قرض خواہوں کو بلاؤ اور ان کا قرض ادا کرو۔ اب کوئی شخص ایسا نہ رہا جس کا میرے باپ کے ذمے قرض تھا اور میں نے اسے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2709]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت جابر ؓ نے اپنے والد گرامی کے قرض کے عوض انہیں باغ کا پورا پھل پیش کیا کہ وہ اس کی کھجوریں لے لیں اور میرے باپ کو قرض سے رہا کر دیں، لیکن انہوں نے اس پیشکش کو قبول نہ کیا۔
رسول اللہ ﷺ نے اس کے متعلق کچھ نہ کہا، جس کا مطلب یہ ہے قرض کے متعلق قرض خواہوں سے کسی بھی طریقے سے صلح ہو سکتی ہے۔
(2)
اس روایت میں اوقات نماز کے متعلق اختلاف بیان ہوا ہے۔
یہ اختلاف نقصان دہ نہیں کیونکہ اصل مقصود تو رسول اللہ ﷺ کی برکت بتانا تھا جو کھجوروں میں پیدا ہوئی۔
اسے راویوں نے بیان کیا ہے۔
تعیین نماز میں اختلاف سے اصل روایت پر کوئی اثر نہیں پڑا۔
دراصل حضرت جابر ؓ اپنے قرض خواہوں کا قرض ادا کر کے بار بار رسول اللہ ﷺ کو اطلاع دینے کے لیے آتے ہوں گے۔
بعض قرض خواہوں کا قرض دینے کی اطلاع ظہر کے وقت جبکہ دوسرے گروہ کے قرض کی ادائیگی سے عصر کے وقت مطلع کیا اور تیسرے گروہ کا قرض ادا کر کے مغرب کے وقت اطلاع کی۔
اس طرح تمام روایات اپنی اپنی جگہ صحیح ہیں۔
(3)
حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ؓ کو اطلاع دینے کا مقصد یہ تھا کہ وہ آپ کے معجزے اور حضرت جابر ؓ کے قرض کی ادائیگی سے خوش ہو جائیں کیونکہ یہ حضرات بھی حضرت جابر ؓ کے اس قرض سے بہت فکر مند تھے۔
رضي اللہ عنهم أجمعین (4)
واضح رہے کہ مدینہ طیبہ میں کھجور کی بہت سی قسمیں ہوتی تھیں۔
اس میں عجوہ، کھجور کی بہترین قسم ہے اور لون اس سے کمتر ہوتی ہے۔
رسول اللہ ﷺ کی دعا سے ایسی برکت پڑی کہ تمام قرض اور اخراجات ادا کرنے کے بعد بھی کافی کھجوریں بچ گئی۔
حضرت جابر ؓ بڑے خوش نصیب تھے کہ انہیں یہ فیضان نبوی حاصل ہوا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2709   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.