الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
The Book of Commentary
2. بَابُ قَوْلِهِ: {وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ} :
2. باب: آیت کی تفسیر ”اللہ کا عرش پانی پر تھا“۔
(2) Chapter. The Statement of Allah: “...And His Throne was on the water...” (V.11:7)
حدیث نمبر: 4684
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا ابو اليمان، اخبرنا شعيب، حدثنا ابو الزناد، عن الاعرج، عن ابي هريرة رضي الله عنه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: قال الله عز وجل:" انفق، انفق عليك، وقال: يد الله ملاى لا تغيضها نفقة سحاء الليل والنهار، وقال: ارايتم ما انفق منذ خلق السماء والارض، فإنه لم يغض ما في يده، وكان عرشه على الماء، وبيده الميزان، يخفض، ويرفع". {اعتراك} افتعلت من عروته اي اصبته، ومنه يعروه واعتراني {آخذ بناصيتها} اي في ملكه وسلطانه. عنيد وعنود وعاند واحد، هو تاكيد التجبر، {استعمركم} جعلكم عمارا، اعمرته الدار فهي عمرى جعلتها له. {نكرهم} وانكرهم واستنكرهم واحد {حميد مجيد} كانه فعيل من ماجد. محمود من حمد. سجيل الشديد الكبير. سجيل وسجين واللام والنون اختان، وقال تميم بن مقبل: ورجلة يضربون البيض ضاحية ** ضربا تواصى به الابطال سجينا.حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ:" أَنْفِقْ، أُنْفِقْ عَلَيْكَ، وَقَالَ: يَدُ اللَّهِ مَلْأَى لَا تَغِيضُهَا نَفَقَةٌ سَحَّاءُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ، وَقَالَ: أَرَأَيْتُمْ مَا أَنْفَقَ مُنْذُ خَلَقَ السَّمَاءَ وَالْأَرْضَ، فَإِنَّهُ لَمْ يَغِضْ مَا فِي يَدِهِ، وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ، وَبِيَدِهِ الْمِيزَانُ، يَخْفِضُ، وَيَرْفَعُ". {اعْتَرَاكَ} افْتَعَلْتَ مِنْ عَرَوْتُهُ أَيْ أَصَبْتُهُ، وَمِنْهُ يَعْرُوهُ وَاعْتَرَانِي {آخِذٌ بِنَاصِيَتِهَا} أَيْ فِي مِلْكِهِ وَسُلْطَانِهِ. عَنِيدٌ وَعَنُودٌ وَعَانِدٌ وَاحِدٌ، هُوَ تَأْكِيدُ التَّجَبُّرِ، {اسْتَعْمَرَكُمْ} جَعَلَكُمْ عُمَّارًا، أَعْمَرْتُهُ الدَّارَ فَهْيَ عُمْرَى جَعَلْتُهَا لَهُ. {نَكِرَهُمْ} وَأَنْكَرَهُمْ وَاسْتَنْكَرَهُمْ وَاحِدٌ {حَمِيدٌ مَجِيدٌ} كَأَنَّهُ فَعِيلٌ مِنْ مَاجِدٍ. مَحْمُودٌ مِنْ حَمِدَ. سِجِّيلٌ الشَّدِيدُ الْكَبِيرُ. سِجِّيلٌ وَسِجِّينٌ وَاللاَّمُ وَالنُّونُ أُخْتَانِ، وَقَالَ تَمِيمُ بْنُ مُقْبِلٍ: وَرَجْلَةٍ يَضْرِبُونَ الْبَيْضَ ضَاحِيَةً ** ضَرْبًا تَوَاصَى بِهِ الأَبْطَالُ سِجِّينَا.
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، کہا ہم سے ابوالزناد نے بیان کیا، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بندو! (میری راہ میں) خرچ کرو تو میں بھی تم پر خرچ کروں گا اور فرمایا، اللہ کا ہاتھ بھرا ہوا ہے۔ رات اور دن مسلسل کے خرچ سے بھی اس میں کم نہیں ہوتا اور فرمایا تم نے دیکھا نہیں جب سے اللہ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے، مسلسل خرچ کئے جا رہا ہے لیکن اس کے ہاتھ میں کوئی کمی نہیں ہوئی، اس کا عرش پانی پر تھا اور اس کے ہاتھ میں میزان عدل ہے جسے وہ جھکاتا اور اٹھاتا رہتا ہے۔ «اعتراك‏» باب «افتعال» سے ہے «عروته» سے یعنی میں نے اس کو پکڑ پایا اسی سے ہے۔ «يعروه» مضارع کا صیغہ اور «اعتراني آخذ بناصيتها‏» یعنی اس کی حکومت اور قبضہ قدرت میں ہیں۔ «عنيد»، «عنود» اور «عاند» سب کے معنی ایک ہی ہیں یعنی سرکش مخالف اور یہ «جبار» کی تاکید ہے۔ «استعمركم‏» تم کو بسایا، آباد کیا۔ عرب لوگ کہتے ہیں «أعمرته الدار فهى عمرى» یعنی یہ گھر میں نے اس کو عمر بھر کے لیے دے ڈالا۔ «نكرهم‏»، «أنكرهم» اور «استنكرهم» سب کے ایک ہی معنی ہیں۔ یعنی ان کو پردیسی سمجھا۔ «حميد»، «فعيل» کے وزن پر ہے بہ معنی «محمود» میں سراہا گیا اور «مجيد‏»، «ماجد‏.‏» کے معنی میں ہے (یعنی کرم کرنے والا)۔ «سجيل» اور «سجين» دونوں کے معنی سخت اور بڑا کے ہیں۔ «لام» اور «نون» بہنیں ہیں (ایک دوسرے سے بدلی جاتی ہیں)۔ تمیم بن مقبل شاعر کہتا ہے۔ بعضے پیدل دن دھاڑے خود پر ضرب لگاتے ہیں ایسی ضرب جس کی سختی کے لیے بڑے بڑے پہلوان اپنے شاگردوں کو وصیت کیا کرتے ہیں۔

Narrated Abu Huraira: Allah's Messenger said, "Allah said, 'Spend (O man), and I shall spend on you." He also said, "Allah's Hand is full, and (its fullness) is not affected by the continuous spending night and day." He also said, "Do you see what He has spent since He created the Heavens and the Earth? Nevertheless, what is in His Hand is not decreased, and His Throne was over the water; and in His Hand there is the balance (of justice) whereby He raises and lowers (people).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 206

   صحيح البخاري4684عبد الرحمن بن صخرأنفق أنفق عليك يد الله ملأى لا تغيضها نفقة سحاء الليل والنهار وقال أرأيتم ما أنفق منذ خلق السماء والأرض فإنه لم يغض ما في يده وكان عرشه على الماء وبيده الميزان يخفض ويرفع
   صحيح البخاري5352عبد الرحمن بن صخرأنفق أنفق عليك
   صحيح مسلم2308عبد الرحمن بن صخرأنفق أنفق عليك
   صحيفة همام بن منبه40عبد الرحمن بن صخرأنفق أنفق عليك الحرب خدعة
   مشكوة المصابيح92عبد الرحمن بن صخريد الله ملاى لا تغيضها نفقة سحاء الليل والنهار ارايتم ما انفق مذ خلق السماء والارض؟ فإنه لم يغض ما في يده وكان عرشه على الماء وبيده الميزان يخفض ويرفع
   صحيح مسلم2309عبد الرحمن بن صخريمين الله ملأى لا يغيضها سحاء الليل والنهار أرأيتم ما أنفق مذ خلق السماء والأرض فإنه لم يغض ما في يمينه قال وعرشه على الماء وبيده الأخرى القبض يرفع ويخفض
   صحيح البخاري7419عبد الرحمن بن صخريمين الله ملأى لا يغيضها نفقة سحاء الليل والنهار أرأيتم ما أنفق منذ خلق السموات والأرض فإنه لم ينقص ما في يمينه وعرشه على الماء وبيده الأخرى الفيض يرفع ويخفض
   صحيح البخاري7411عبد الرحمن بن صخريد الله ملأى لا يغيضها نفقة سحاء الليل والنهار وقال أرأيتم ما أنفق منذ خلق السموات والأرض فإنه لم يغض ما في يده وقال عرشه على الماء وبيده الأخرى الميزان يخفض ويرفع
   جامع الترمذي3045عبد الرحمن بن صخريمين الرحمن ملأى سحاء لا يغيضها الليل والنهار قال أرأيتم ما أنفق منذ خلق السموات والأرض فإنه لم يغض ما في يمينه وعرشه على الماء وبيده الأخرى الميزان يرفع ويخفض
   سنن ابن ماجه197عبد الرحمن بن صخريمين الله ملأى لا يغيضها شيء سحاء الليل والنهار وبيده الأخرى الميزان يرفع القسط ويخفض قال أرأيت ما أنفق منذ خلق الله السماوات والأرض فإنه لم ينقص مما في يديه شيئا
   صحيفه همام بن منبه28عبد الرحمن بن صخريمين الله ملأى لا يغيضها نفقة سحاء الليل والنهار أرأيتم ما أنفق منذ خلق السماء والأرض فإنه لم ينقص مما في يمينه قال وعرشه على الماء وبيده الأخرى القبض يرفع ويخفض
   مسندالحميدي1098عبد الرحمن بن صخر

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 92  
´کچھ صفات الہی`
«. . . ‏‏‏‏وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَدُ اللَّهِ مَلْأَى لَا تَغِيضُهَا نَفَقَةٌ سَحَّاءُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ أَرَأَيْتُمْ مَا أَنْفَقَ مُذْ خَلَقَ السَّمَاءَ وَالْأَرْضَ؟ فَإِنَّهُ لَمْ يَغِضْ مَا فِي يَدِهِ وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ وَبِيَدِهِ الْمِيزَانُ يَخْفِضُ وَيرْفَع» - [34] - ‏‏‏‏وَفِي رِوَايَةٍ لِمُسْلِمٍ: «يَمِينُ اللَّهِ مَلْأَى قَالَ ابْنُ نُمَيْرٍ مَلْآنُ سَحَّاءُ لَا يُغِيضُهَا شَيْءٌ اللَّيْل والنهار» ‏‏‏‏ . . .»
. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا ہاتھ بھرا ہوا ہے، یعنی اس کا خزانہ بھرا ہوا ہے خرچ کرنے سے کسی قسم کی کمی نہیں ہوتی۔ رات دن برابر خرچ کرتا اور دیتا رہتا ہے، تم نے دیکھا ہے اس نے جس وقت سے زمین آسمان کو پیدا کیا ہے، کس قدر خرچ کیا ہے مگر اس کے ہاتھ (خزانہ) میں کوئی کمی نہیں ہوئی ہے، اور اس کا عرش (تخت) پانی پر تھا اور اسی کے ہاتھ میں روزی کی ترازو ہے وہی نیچا اور اونچا کرتا رہتا ہے۔ بخاری مسلم میں اسی طرح ہے اور مسلم کی روایت میں اس طرح ہے کہ اللہ تعالیٰ کا داہنا ہاتھ بھرا ہوا ہے۔ اور ابن نمیر راوی نے جو امام مسلم کے استاد ہیں یہ لفظ نقل کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ بھرا ہوا ہے وہ ہمیشہ خرچ کرنے والا ہے اور دینے والا ہے، رات دن میں خرچ کرنے سے اس کے خزانے میں کوئی کمی نہیں ہوتی۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 92]

تخریج: [صحيح بخاري 4684]،
[صحيح مسلم 2309]

فقہ الحدیث:
➊ ساری کائنات اور ہر چیز کا خالق صرف ایک اللہ ہے۔ اگر وہ اپنی مخلوقات کو اپنے پیدا کردہ خزانوں میں سے بے انتہا بخش دے تب بھی اس کے خزانوں میں کمی نہیں ہوتی۔
➋ اللہ تعالیٰ سات آسمانوں سے اوپر اپنے عرش پر مستوی ہے۔
➌ اللہ کا ہاتھ اس کی صفت ہے جس پر ایمان لانا ضروری ہے اور اللہ کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں۔ منکرین صفات کا ہاتھ سے قدرت مراد لینا باطل ہے۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث\صفحہ نمبر: 92   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث197  
´جہمیہ کا انکار صفات باری تعالیٰ۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کا دایاں ہاتھ بھرا ہوا ہے، رات دن خرچ کرتا رہتا ہے پھر بھی اس میں کوئی کمی نہیں ہوتی ہے، اس کے دوسرے ہاتھ میں میزان ہے، وہ اسے پست و بالا کرتا ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ذرا غور کرو کہ آسمان و زمین کی تخلیق (پیدائش) سے لے کر اس نے اب تک کتنا خرچ کیا ہو گا؟ لیکن جو کچھ اس کے دونوں ہاتھ میں ہے اس میں سے کچھ بھی نہ گھٹا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 197]
اردو حاشہ:
(1)
اس حدیث میں اللہ کے لیے ہاتھ اور ہاتھوں کا ذکر کیا گیا ہے۔
یہ بھی ان صفات میں سے ہے جن پر بلا تشبیہ اور بلا تاویل ایمان لانا چاہیے، قرآن مجید میں اللہ کے لیے دو ہاتھوں کا ذکر متعدد مقامات پر ہے، مثلا:
(دیکھیے سورہ ص: 75)

(2)
اس حدیث میں اللہ کے ایک ہاتھ کو دایاں کہا گیا ہے، عربی میں لفظ یمین ہے جس میں یمن، یعنی برکت کا مفہوم پایا جاتا ہے۔
حدیث میں ہے:
(كِلْتَا يَدَيْهِ يَمِيْنٌ) (صحيح مسلم، الامارة، باب فضيلة الامير العادل، حديث: 1827)
 اللہ کے دونوں ہاتھ یمین ہیں یعنی ایک کو یمین (دایاں، بابرکت)
کہنے کا یہ مطلب نہیں کہ دوسرے ہاتھ میں برکت نہیں۔
اس کے دونوں ہاتھ ہی بابرکت ہیں۔

(3)
ترازو کو اونچا کرنے اور جھکانے کا مطلب ہے کسی کو کوئی نعمت زیادہ دینا، اور کسی کو (حکمت کی بنا پر)
کم دینا یا کبھی زیادہ دینا اور کبھی کم دینا یا کبھی کسی کو کوئی نعمت زیادہ دینا اور دوسرے کوکوئی اور نعمت زیادہ دینا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَإِن مِن شَىءٍ إِلّا عِندَنا خَزائِنُهُ وَما نُنَزِّلُهُ إِلّا بِقَدَرٍ‌ مَعلومٍ﴾  (الحجر: 21)
 ہمارے پاس ہر چیز کے خزانے موجود ہیں (لیکن)
ہم اسے ایک مقرر اندازے کے مطابق نازل کرتے ہیں۔

(4)
اللہ کے خزانے ختم ہونا تو درکنار ان میں کمی بھی نہیں ہوتی،۔
کیونکہ اسے کسی بھی چیز کے حصول کے لیے کسی کا محتاج نہیں ہونا پڑتا، نہ کوئی محنت کرنا پڑتی ہے۔
بلکہ اس کا ارادہ ہی ہر مخلوق کو ہر قسم کی نعمتیں عطا فرمانے کے لیے کافی ہے۔
ارشاد ہے:
﴿إِنَّما أَمرُ‌هُ إِذا أَر‌ادَ شَيـًٔا أَن يَقولَ لَهُ كُن فَيَكونُ﴾  (یس: 82)
 وہ جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے، تو اسے اتنا فرما دینا کافی ہو جاتا ہے کہ ہو جا، وہ اسی وقت ہو جاتی ہے۔

(5)
جب اللہ کے خزانے بے شمار ہیں، بھرپور ہیں، ان میں کمی بھی نہیں ہوتی، تو انسان کو چاہیے کہ اپنی ہر حاجت اسی کے سامنے پیش کرے اور سب کچھ اسی سے مانگے۔
کیونکہ جن و انس کے سوا ہر مخلوق اسی سے سوال کرتی ہے اور وہ سب کو دیتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿يَسـَٔلُهُ مَن فِى السَّمـوتِ وَالأَر‌ضِ كُلَّ يَومٍ هُوَ فى شَأنٍ﴾  (الرحمن: 29)
 سب آسمان و زمین والے اسی سے مانگتے ہیں، ہر روز وہ ایک شان میں ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 197   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3045  
´سورۃ المائدہ سے بعض آیات کی تفسیر۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا داہنا ہاتھ بھرا ہوتا ہے، (کبھی خالی نہیں ہوتا) بخشش و عطا کرتا رہتا ہے، رات و دن لٹانے اور اس کے دیتے رہنے سے بھی کمی نہیں ہوتی، آپ نے فرمایا: کیا تم لوگوں نے دیکھا (سوچا؟) جب سے اللہ نے آسمان پیدا کیے ہیں کتنا خرچ کر چکا ہے؟ اتنا کچھ خرچ کر چکنے کے باوجود اللہ کے ہاتھ میں جو کچھ ہے اس میں کچھ بھی کمی نہیں ہوئی۔ اس کا عرش پانی پر ہے، اس کے دوسرے ہاتھ میں میزان ہے وہ اسے بلند کرتا اور جھکاتا ہے (جسے چاہتا ہے زیادہ دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے کم)۔‏‏‏۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3045]
اردو حاشہ:
وضاحت: 1؎ اور یہودیوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں،
انہی کے ہاتھ بندے ہوئے ہیں اور ان کے اس قول کی وجہ سے ان پر لعنت کی گئی،
بلکہ اللہ تعالیٰ کے دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں،
جس طرح چاہتا ہے خرچ کرتا ہے (المائدہ: 64)

2؎:
یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے جن چیزوں کا ذکر کیا ہے اس کی نہ تو تاویل کی جائے گی اور نہ ہی کوئی تفسیر،
یعنی یہ نہیں کہا جائے گا کہ اس کا ہاتھ ایسا ایسا ہے بلکہ جیسی اس کی ذات ہے ایسے ہی اس کا ہاتھ بھی ہے،
اس کی کیفیت بیان کئے بغیر اس پر ایمان لانا ضروری ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3045   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4684  
4684. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کہا: "اللہ تعالٰی نے فرمایا: (آدم کے بیٹے!) تو خرچ کر، میں بھی تجھ پر خرچ کروں گا۔ مزید فرمایا: اللہ کا ہاتھ بھرا ہوا ہے۔ رات اور دن مسلسل خرچ کرنے سے بھی اس میں کوئی کمی نہیں آتی۔" فرمایا: "تم نے دیکھا نہیں کہ جب سے اللہ تعالٰی نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے مسلسل خرچ کیے جا رہا ہے اس کے باوجود جو کچھ اس کے ہاتھ میں ہے اس میں کمی نہیں آئی۔ اس کا عرش پانی پر تھا۔ اس کے ہاتھ میں میزان عدل ہے جسے وہ جھکاتا اور اٹھاتا ہے۔" اُعْتَرَىٰكَ باب افتعال ہے۔ عروته سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں: میں نے اس کو مبتلائے مصیبت کیا۔ يعروه اور اعتراني بھی اسی سے ہے۔ ءَاخِذٌۢ بِنَاصِيَتِهَآ: تمام چلنے والوں کی چوٹی اس کے ہاتھ میں ہے، یعنی سب اس کے قبضے اور اس کی حکومت میں ہیں۔ عَنِيدٍ ﴿٥٩﴾ ، عنود اور عاند سب کے ایک ہی معنی ہیں، یعنی سرکش اور مخالف۔ یہ جبار کی تاکید ہے۔ وَيَقُولُ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4684]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒ نے اس طرح کا ایک عنوان کتاب التوحید میں بھی قائم کیا ہے۔
وہاں مقصود عرش باری تعالیٰ کا اثبات اور اللہ تعالیٰ کے اس پر مستوی ہونے کو ثابت کرنا ہے، نیز ثابت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا عرش ایک مخلوق اور اس کا پیدا کیا ہوا ہے۔
اس مقام پر امام بخاری ؒ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ زمین وآسمان کی تخلیق کے وقت بھی اس کا عرش پانی پر تھا۔
یہ پانی کہاں تھا؟ کیا یہ پانی وہی معروف ہے جسے ہم استعمال کرتے ہیں یا کوئی اور مائع قسم کا مادہ تھا؟ یہ ایسے سوالات ہیں جوہماری سمجھ سے بالاترہیں اور انھیں سمجھنے کے ہم مکلف بھی نہیں ہیں، البتہ یہ بات یقینی ہے کہ زمین وآسمان کی تخلیق سے پہلے اللہ کا عرش پانی پر تھا۔

عرش اس تخت کو کہتے ہیں جس پر بادشاہ بیٹھتا ہے، نیز عربی زبان میں گھر کی چھت کے لیے بھی عرش استعمال ہوا ہے، اس اعتبار سے اللہ کا عرش اپنے اندر وہ معانی رکھتا ہے:
الف۔
وہ اللہ ذوالجلال کامحل استواء ہے جس کی کیفیت ہم نہیں جانتے۔
ب۔
وہ تمام مخلوقات کے لیے چھت ہے۔
اس کی مکمل بحث کتاب التوحید میں ذکر ہوگی۔
باذن اللہ تعالیٰ۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 4684   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.