الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
The Book of Commentary
3. بَابُ قَوْلُهُ: {مَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ} :
3. باب: قول ”اور جو کچھ اللہ نے اپنے رسول کو ان سے بطور فے دلوایا“ کی تفسیر۔
(3) Chapter. The Statement of Allah: “What Allah gave as booty (Fai) to His Messenger...” (V.59:7)
حدیث نمبر: 4885
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان غير مرة، عن عمرو، عن الزهري، عن مالك بن اوس بن الحدثان، عن عمر رضي الله عنه، قال:" كانت اموال بني النضير مما افاء الله على رسوله صلى الله عليه وسلم، مما لم يوجف المسلمون عليه بخيل ولا ركاب، فكانت لرسول الله صلى الله عليه وسلم خاصة ينفق على اهله منها نفقة سنته، ثم يجعل ما بقي في السلاح والكراع عدة في سبيل الله".حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ غَيْرَ مَرَّةٍ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ، عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" كَانَتْ أَمْوَالُ بَنِي النَّضِيرِ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِمَّا لَمْ يُوجِفْ الْمُسْلِمُونَ عَلَيْهِ بِخَيْلٍ وَلَا رِكَابٍ، فَكَانَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاصَّةً يُنْفِقُ عَلَى أَهْلِهِ مِنْهَا نَفَقَةَ سَنَتِهِ، ثُمَّ يَجْعَلُ مَا بَقِيَ فِي السِّلَاحِ وَالْكُرَاعِ عُدَّةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ".
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے کئی مرتبہ عمرو بن دینار سے بیان کیا، ان سے زہری نے، ان سے مالک بن اوس بن حدثان نے اور ان سے عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ بنی نضیر کے اموال کو اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بغیر لڑائی کے دیا تھا۔ مسلمانوں نے اس کے لیے گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے۔ ان اموال کا خرچ کرنا خاص طور سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں تھا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں سے ازواج مطہرات کا سالانہ خرچ دیتے تھے اور جو باقی بچتا تھا اس سے سامان جنگ اور گھوڑوں کے لیے خرچ کرتے تھے تاکہ اللہ رب العزت کے راستہ میں جہاد کے موقع پر کام آئیں۔

Narrated `Umar: The properties of Bam An-Nadir were among the booty that Allah gave to His Apostle such Booty were not obtained by any expedition on the part of Muslims, neither with cavalry, nor with camelry. So those properties were for Allah's Messenger only, and he used to provide thereof the yearly expenditure for his wives, and dedicate the rest of its revenues for purchasing arms and horses as war material to be used in Allah's Cause.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 407

   صحيح البخاري4885عمر بن الخطابأموال بني النضير مما أفاء الله على رسوله مما لم يوجف المسلمون عليه بخيل ولا ركاب فكانت لرسول الله خاصة ينفق على أهله منها نفقة سنته ثم يجعل ما بقي في السلاح والكراع عدة في سبيل الله
   صحيح البخاري2904عمر بن الخطابأموال بني النضير مما أفاء الله على رسوله مما لم يوجف المسلمون عليه بخيل ولا ركاب فكانت لرسول الله خاصة وكان ينفق على أهله نفقة سنته ثم يجعل ما بقي في السلاح والكراع عدة في سبيل الله
   صحيح مسلم4575عمر بن الخطابأموال بني النضير مما أفاء الله على رسوله مما لم يوجف عليه المسلمون بخيل ولا ركاب فكانت للنبي خاصة فكان ينفق على أهله نفقة سنة وما بقي يجعله في الكراع والسلاح عدة في سبيل الله
   جامع الترمذي1719عمر بن الخطابيعزل نفقة أهله سنة ثم يجعل ما بقي في الكراع والسلاح عدة في سبيل الله
   سنن أبي داود2965عمر بن الخطابينفق على أهل بيته قوت سنة فما بقي جعل في الكراع وعدة في سبيل الله في الكراع والسلاح
   سنن أبي داود2966عمر بن الخطابما أفاء الله على رسوله من أهل القرى فلله وللرسول ولذي القربى واليتامى والمساكين وابن السبيل
   سنن النسائى الصغرى4145عمر بن الخطابأموال بني النضير مما أفاء الله على رسوله مما لم يوجف المسلمون عليه بخيل ولا ركاب فكان ينفق على نفسه منها قوت سنة وما بقي جعله في الكراع والسلاح عدة في سبيل الله
   بلوغ المرام1119عمر بن الخطاباموال بني النضير مما افاء الله على رسوله مما لم يوجف عليه المسلمون بخيل ولا ركاب
   مسندالحميدي22عمر بن الخطابإن أموال بني النضير كانت مما أفاء الله على رسوله مما لم يوجف المسلمون عليه بخيل ولا ركاب

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1119  
´(جہاد کے متعلق احادیث)`
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ بنو نضیر کے اموال، ان اموال میں سے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی طرف پلٹا دئیے ہیں۔ جن پر مسلمانوں نے نہ گھوڑے دوڑائے اور نہ اونٹ۔ یہ اموال خالص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان اموال میں سے اپنی بیویوں پر سال بھر خرچ کرتے تھے اور جو باقی بچ رہتا اس سے گھوڑے اور اسلحہ جہاد فی سبیل اللہ کی تیاری کے لیے خرید فرماتے۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1119»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الجهاد، باب المجن ومن يترس بترس صاحبه، حديث:2904، ومسلم، الجهاد والسير، باب حكم الفيء، حديث:1757.»
تشریح:
بنو نضیر‘ مدینہ منورہ میں آباد یہودیوں کا بہت بڑا قبیلہ تھا۔
ان کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معاہدہ تھا۔
انھوں نے بقول بعض‘ غزوۂ بدر کے چھ ماہ بعد اور بقول ابن اسحٰق ‘احد اور بئر معونہ کے واقعے کے بعد عہد شکنی کا ارتکاب کیا۔
تنبیہ اور یاددہانی کے باوجود وہ باز نہ آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر چڑھائی کر دی اور ان کا محاصرہ کر لیا۔
بالآخر وہ محاصرے کی تاب نہ لا کر اپنے گھر بار اور مال چھوڑ کر جلا وطن ہوگئے اور بغیر کسی قسم کی لڑائی کے ان کے اموال آپ کے ہاتھ آگئے۔
یہ اموال فے قرار پائے‘ اس لیے کہ لڑائی تو سرے سے ہوئی ہی نہیں تھی‘ اس لیے بحیثیت غازی تو کسی کا کوئی حصہ بنتا ہی نہیں تھا‘ تاہم آپ نے اس کا اکثر حصہ مہاجرین میں تقسیم کیا اور دو انصاری صحابہ کو بھی حسب ضرورت عطا فرمایا۔
باقی مال نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہل و عیال اور قرابت داروں پر خرچ کرتے تھے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 1119   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1719  
´مال فے کا بیان۔`
عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ اسود کے قبیلہ بنی نضیر کے اموال ان میں سے تھے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بطور «فے» ۱؎ عطا کیا تھا، اس کے لیے مسلمانوں نے نہ تو گھوڑے دوڑائے تھے اور نہ ہی اونٹ، یہ پورے کا پورا مال خالص اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر والوں کے لیے اس میں سے ایک سال کا خرچ الگ کر لیتے، پھر جو باقی بچتا اسے جہاد کی تیاری کے لیے گھوڑوں اور ہتھیاروں میں خرچ کرتے۔ [سنن ترمذي/كتاب الجهاد/حدیث: 1719]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
فئی:
وہ مال ہے جو کافروں سے جنگ کیے بغیر مسلمانوں کے ہاتھ آئے،
یہ مال آپ کے لیے خاص تھا،
مال غنیمت نہ تھا کہ مجاہدین میں تقسیم کیاجاتا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1719   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2965  
´مال غنیمت میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے لیے جو مال منتخب کیا اس کا بیان۔`
عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں بنو نضیر کا مال اس قسم کا تھا جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو عطا کیا تھا اور مسلمانوں نے اس پر گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے تھے (یعنی جنگ لڑ کر حاصل نہیں کیا تھا) اس مال کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر والوں پر خرچ کرتے تھے۔ ابن عبدہ کہتے ہیں: کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے اپنے گھر والوں کا ایک سال کا خرچہ لے لیا کرتے تھے اور جو بچ رہتا تھا اسے گھوڑے اور جہاد کی تیاری میں صرف کرتے تھے، ابن عبدہ کی روایت میں: «في الكراع والسلاح» کے الفاظ ہیں، (یعنی مجاہدین کے لیے گھ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 2965]
فوائد ومسائل:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکے لئے اللہ تعالیٰ نے جو اموال مخصوص کئے وہ تین طرح کے تھے۔
(الف) وہ اراضی جو انصار نے اپنی زمینوں میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطور ہدیہ پیش کی تھیں۔
ان اراضی پرپانی نہیں پہنچتاتھا۔
(ب) مخیریق یہودی نے عہد کے موقع پر اسلام لاتے ہوئے بنو نضیر کے علاقے میں اپنے سات باغات کی وصیت رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کی (ج) بنو نضیرنے جب لڑے بغیر ہتھیار ڈال کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ قبول کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اسلحہ کے علاوہ جوکچھ اونٹوں وغیرہ پر اٹھا کرلے جا سکتے تھے۔
لے جانے کی اجازت دی۔
باقی سب کچھ فے تھا جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اختیار تھا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نضیر کی باقی ماندہ تمام منقولہ جایئداد مسلمانوں میں تقسیم کردی۔
زمین وغیرہ کی آمدنی سے اپنے آپ اخراجات پورے کرتے تھے۔
لیکن زیادہ آمدنی مسلمانوں کے ولی امر کی حیثیت سے جہاد اور دیگر فوری نوعیت کی ضرورتوں پر خرچ کرتے۔
بعد ازاں خیبر کی فتح کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے وسیع اور زرخیز علاقے مسلمانوں کو عطا کردیئے۔
خیبر کا آدھا حصہ فتح ہوا تھا۔
اور جو مجاہدین میں تقسیم ہوا تھا۔
اور باقی آدھا جس میں فدک اور وادی القرُیٰ کے حصے تھے۔
بغیر جنگ کے حاصل ہوا اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق بطور فے آپ کی تحویل میں آگیا۔
اس طرح خیبر کے قلعوں میں سے وطیع اور سلالم بھی بصورت فے حاصل ہوئے۔
خیبر کا جو حصہ جنگ کے ذریعے سے حاصل ہوا۔
اس کا خمس بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تحویل میں تھا۔
 (عون المعبود باب في صفایا رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم من الأموال، شرح حدیث 2969)

خیبر کے اموال جب تحویل میں آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر والوں کے سال کے کم از کم مقدار میں کھانے کے اخراجات کے بعد باقی سب آمدنی مصیبت زدہ افراد انسانی اور خاندانی حقوق کی ادایئگی کےلئے مختص کردی۔
(ان میں بچوں کی خبر گیری نوجوانوں یا بیوہ عورتوں کی شادی جیسی مدات شامل تھیں۔
 (أبو داود، حدیث: 3012۔
2970)


حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں جب حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان اموال کا مطالبہ کیا تو حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان سنا کہ ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مال بطور وراثت تقسیم نہیں ہوگا۔
البتہ آل محمد یا نساء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کھانے کا خرچ اس میں سے ادا ہوگا۔
باقی صدقہ ہوگا۔
 (ابوداود، حدیث: 2968۔
2974)
اور یہ فیصلہ بھی فرمایا کہ ان سب اموال کے انتظام وانصرام کی ذمہ داری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشین کے پاس رہے گی۔
اور ان کی آمدنی بعینہ انہی مصارف پر خرچ ہوگی۔
جن پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خرچ فرماتے تھے۔
اس فیصلے پر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سمیت پوری امت کا اجماع ہوا۔
 (ابوداود، حدیث: 2963۔
2970)
چونکہ ان صفایا (خاص اموال) کو آپ نے صدقہ قرار دیا تھا۔
اس لئے اب ان اموال کو صفایا کی بجائے صدقۃ الرسول کہا جائےگا۔
(ابوداود، حدیث: 2968۔
2970)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2965   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4885  
4885. حضرت عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ بنو نضیر کے اموال اللہ تعالٰی نے لڑائی کے بغیر اپنے رسول ﷺ کو عطا فرمائے تھے۔ مسلمانوں نے ان کے لیے اپنے گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے۔ ان اموال کا خرچ کرنا خاص طور پر رسول اللہ ﷺ کے صوابدیدی اختیارات پر موقوف تھا، چنانچہ آپ ان میں سے ازواج مطہرات کو سالانہ خرچ دیتے تھے اور جو باقی بچتا اس سے سامان جنگ خریدتے اور گھوڑوں پر خرچ کرتے تھے تا کہ اللہ تعالٰی کے راستے میں جہاد کے موقع پر کام آئیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4885]
حدیث حاشیہ:
اسلام کی اصطلاح میں ''فے'' وہ مال ہے جو دار الحرب سے بلا جنگ حاصل ہو جائے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 4885   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4885  
4885. حضرت عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ بنو نضیر کے اموال اللہ تعالٰی نے لڑائی کے بغیر اپنے رسول ﷺ کو عطا فرمائے تھے۔ مسلمانوں نے ان کے لیے اپنے گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے۔ ان اموال کا خرچ کرنا خاص طور پر رسول اللہ ﷺ کے صوابدیدی اختیارات پر موقوف تھا، چنانچہ آپ ان میں سے ازواج مطہرات کو سالانہ خرچ دیتے تھے اور جو باقی بچتا اس سے سامان جنگ خریدتے اور گھوڑوں پر خرچ کرتے تھے تا کہ اللہ تعالٰی کے راستے میں جہاد کے موقع پر کام آئیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4885]
حدیث حاشیہ:

جو مال دوران جنگ میں مسلمانوں کی لڑائی اور محنت ومشقت کے نتیجے میں حاصل ہوا اسے مال غنیمت کہا جاتا ہے۔
اس کے متعلق تفصیلی احکام سورہ انفال میں بیان ہوئے ہیں اور جو مال جنگ کے بغیر ہاتھ آجائے اسے مال فے کہتے ہیں۔
چونکہ یہ مال اس اجتماعی قوت کا نتیجہ ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، اس کی اُمت اور اس کے قائم کردہ نظام کو عطا فرمائی ہے، اس لیے یہ مال، مال غنیمت سے جدا گانہ حیثیت رکھتا ہے۔
اس مال پر مسلمانوں کے امیر کا تصرف حاکمانہ ہوتا ہے۔
وہ اسے اپنی صوابدید کے مطابق جہاں چاہے خر چ کرے۔

اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اناج کا ایک سال تک کے لیے ذخیرہ کرنا جائز ہے لیکن اگر ذخیرہ اندوزی سے عام لوگوں کو نقصان پہنچتا ہوتو جائز نہیں، نیز خوراک کا ذخیرہ کرنا توکل کے منافی نہیں ہے۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 4885   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.