Narrated Abu Sa`id Al-Khudri: While I was present in one of the gatherings of the Ansar, Abu Musa came as if he was scared, and said, "I asked permission to enter upon `Umar three times, but I was not given the permission, so I returned." (When `Umar came to know about it) he said to Abu Musa, "Why did you not enter?'. Abu Musa replied, "I asked permission three times, and I was not given it, so I returned, for Allah's Apostle said, "If anyone of you asks the permission to enter thrice, and the permission is not given, then he should return.' " `Umar said, "By Allah! We will ask Abu Musa to bring witnesses for it." (Abu Musa went to a gathering of the Ansar and said). "Did anyone of you hear this from the Prophet ?" Ubai bin Ka`b said, "By Allah, none will go with you but the youngest of the people (as a witness)." (Abu Sa`id) was the youngest of them, so I went with Abu Musa and informed `Umar that the Prophet had said so. (See Hadith No. 277, Vol. 3)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 74, Number 262
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6245
حدیث حاشیہ:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس گواہی کے بعد فورا اس حدیث کو تسلیم کر لیا۔
مومن کی شان یہی ہونی چاہئے رضي اللہ عنه و أرضاہ۔
پس بسر کا سماع ابو سعید سے ثابت ہوا اس روایت سے یہ بھی ثابت ہوا کہ ایک راوی کی روایت بھی جب وہ ثقہ ہو حجت ہے اور قیاس کو اس کے مقابل ترک کرد ین گے۔
اہل حدیث کا یہی قول ہے۔
بعض نسخوں میں یہ عبارت زائد ہے قال أبو عبد اللہ أراد عمر أن تبثت التثبت لأن لا یجیز خبر الواحد یعنی امام بخاری نے کہا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جو ابو موسی سے گواہ لانے کو کہا تو ان کا مطلب یہ تھا کہ حدیث کی اور زیادہ مضبوطی ہو جائے یہ سبب نہیں تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک صحابی کی روایت کردہ حدیث کو صحیح نہں سمجھتے تھے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6245
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6245
حدیث حاشیہ:
(1)
کسی کے گھر میں داخل ہونے کے لیے اجازت طلب کرنے کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ دروازے کے ایک طرف کھڑے ہو کر تین مرتبہ سلام کہے، پھر اجازت طلب کرے، خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس کا اہتمام کرتے تھے۔
(سنن أبي داود، الأدب،حدیث: 5186)
دستک کے جواب میں دستک دینے والا اپنا نام یا عرف بتائے ''میں، میں'' کہنا خلاف ادب اور ناکافی تعارف ہے۔
دستک دینے یا گھنٹی بجانے میں بے ادبی اور بدتمیزی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔
اگر اجازت یا جواب نہ ملے تو بلاوجہ ناراض ہونے کے بجائے واپس آ جانا چاہیے جیسا کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے واقعے سے معلوم ہوتا ہے۔
(2)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی سختی بھی برموقع تھی تاکہ لوگ یقین و اعتماد کے بغیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کچھ منسوب نہ کرنے لگیں اگرچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی کمی کا اعتراف کیا اور حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہونے والے مناقشے کی تلافی بھی فرما دی تھی، چنانچہ انہوں نے فرمایا:
کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مجھ سے مخفی رہا ہے، ہاں مجھے بازار کے تجارتی مشاغل نے مصروف رکھا، بہرحال اے ابو موسیٰ! تم جب چاہو سلام کہہ کر آ جایا کرو اور اجازت نہ مانگا کرو۔
(سنن أبي داود، الأدب:
حدیث: 5182) (3)
ایک دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ کوفے میں لوگ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے دروازے پر کھڑے رہتے تھے جب وہ کوفہ کے گورنر تھے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس انداز سے ان کی تربیت کرنا چاہی کہ جس طرح تجھے باہر کھڑا رہنے سے تکلیف ہوئی ہے اسی طرح تجھے لوگوں کی تکلیف کا احساس کرنا چاہیے۔
(الأدب المفرد، حدیث: 1073)
اس کے علاوہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس وقت اپنے خلافت کے معاملات میں مصروف بھی تھے۔
(فتح الباري: 35/11)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6245