الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں
The Book of Tauhid (Islamic Monotheism)
22. بَابُ: {وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ} ، {وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ} :
22. باب: (سورۃ ہود میں اللہ تعالیٰ کا فرمان) ”اور اس کا عرش پانی پر تھا“، ”اور وہ عرش عظیم کا رب ہے“۔
(22) Chapter. (The Statement of Allah): “… And His Throne was on the water…” (V.11:7) "…The Lord of the Supreme Throne." (V.27:26)
حدیث نمبر: Q7418
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
قال ابو العالية استوى إلى السماء ارتفع فسواهن خلقهن، وقال مجاهد استوى علا على العرش، وقال ابن عباس المجيد الكريم والودود الحبيب، يقال حميد مجيد كانه فعيل من ماجد محمود من حمد.قَالَ أَبُو الْعَالِيَةِ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاءِ ارْتَفَعَ فَسَوَّاهُنَّ خَلَقَهُنَّ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ اسْتَوَى عَلَا عَلَى الْعَرْشِ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ الْمَجِيدُ الْكَرِيمُ وَالْوَدُودُ الْحَبِيبُ، يُقَالُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ كَأَنَّهُ فَعِيلٌ مِنْ مَاجِدٍ مَحْمُودٌ مِنْ حَمِدَ.
ابوالعالیہ نے بیان کیا کہ «استوى إلى السماء‏» کا مفہوم یہ ہے کہ وہ آسمان کی طرف بلند ہوا۔ «فسواهن‏» یعنی پھر انہیں پیدا کیا۔ مجاہد نے کہا کہ «استوى‏» بمعنی «على العرش‏.‏» ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ «مجيد» بمعنی «كريم» ۔ «الودود» بمعنی «الحبيب‏.‏» بولتے ہیں۔ «حميد»، «مجيد» ۔ گویا یہ فعیل کے وزن پر ماجد سے ہے اور «محمود»، «حميد‏.‏» سے مشتق ہے۔

حدیث نمبر: 7418
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا عبدان، قال: اخبرنا ابو حمزة، عن الاعمش، عن جامع بن شداد، عن صفوان بن محرز، عن عمران بن حصين، قال:" إني عند النبي صلى الله عليه وسلم إذ جاءه قوم من بني تميم، فقال: اقبلوا البشرى يا بني تميم، قالوا: بشرتنا، فاعطنا، فدخل ناس من اهل اليمن، فقال: اقبلوا البشرى يا اهل اليمن إذ لم يقبلها بنو تميم، قالوا: قبلنا جئناك لنتفقه في الدين ولنسالك عن اول هذا الامر ما كان، قال كان الله ولم يكن شيء قبله وكان عرشه على الماء، ثم خلق السموات والارض، وكتب في الذكر كل شيء ثم اتاني رجل، فقال: يا عمران، ادرك ناقتك فقد ذهبت، فانطلقت اطلبها، فإذا السراب ينقطع دونها، وايم الله لوددت انها قد ذهبت ولم اقم".حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو حَمْزَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ جَامِعِ بْنِ شَدَّادٍ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ مُحْرِزٍ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، قَالَ:" إِنِّي عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ جَاءَهُ قَوْمٌ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ، فَقَالَ: اقْبَلُوا الْبُشْرَى يَا بَنِي تَمِيمٍ، قَالُوا: بَشَّرْتَنَا، فَأَعْطِنَا، فَدَخَلَ نَاسٌ مِنْ أَهْلِ الْيَمَنِ، فَقَالَ: اقْبَلُوا الْبُشْرَى يَا أَهْلَ الْيَمَنِ إِذْ لَمْ يَقْبَلْهَا بَنُو تَمِيمٍ، قَالُوا: قَبِلْنَا جِئْنَاكَ لِنَتَفَقَّهَ فِي الدِّينِ وَلِنَسْأَلَكَ عَنْ أَوَّلِ هَذَا الْأَمْرِ مَا كَانَ، قَالَ كَانَ اللَّهُ وَلَمْ يَكُنْ شَيْءٌ قَبْلَهُ وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ، ثُمَّ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ، وَكَتَبَ فِي الذِّكْرِ كُلَّ شَيْءٍ ثُمَّ أَتَانِي رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا عِمْرَانُ، أَدْرِكْ نَاقَتَكَ فَقَدْ ذَهَبَتْ، فَانْطَلَقْتُ أَطْلُبُهَا، فَإِذَا السَّرَابُ يَنْقَطِعُ دُونَهَا، وَايْمُ اللَّهِ لَوَدِدْتُ أَنَّهَا قَدْ ذَهَبَتْ وَلَمْ أَقُمْ".
ہم سے عبدان نے بیان کیا، ان سے ابوحمزہ نے، ان سے اعمش نے، ان سے جامع بن شداد نے، ان سے صفوان بن محرز نے اور ان سے عمران بن حصین رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا کہ آپ کے پاس بنو تمیم کے کچھ لوگ آئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے بنو تمیم! بشارت قبول کرو۔ انہوں نے اس پر کہا کہ آپ نے ہمیں بشارت دے دی، اب ہمیں بخشش بھی دیجئیے۔ پھر آپ کے پاس یمن کے کچھ لوگ پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے اہل یمن! بنو تمیم نے بشارت نہیں قبول کی تم اسے قبول کرو۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے قبول کر لی۔ ہم آپ کے پاس اس لیے حاضر ہوئے ہیں تاکہ دین کی سمجھ حاصل کریں اور تاکہ آپ سے اس دنیا کی ابتداء کے متعلق پوچھیں کہ کس طرح تھی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تھا اور کوئی چیز نہیں تھی اور اللہ کا عرش پانی پر تھا۔ پھر اس نے آسمان و زمین پیدا کئے اور لوح محفوظ میں ہر چیز لکھ دی (عمران بیان کرتے ہیں کہ) مجھے ایک شخص نے آ کر خبر دی کہ عمران اپنی اونٹنی کی خبر لو وہ بھاگ گئی ہے۔ چنانچہ میں اس کی تلاش میں نکلا۔ میں نے دیکھا کہ میرے اور اس کے درمیان ریت کا چٹیل میدان حائل ہے اور اللہ کی قسم میری تمنا تھی کہ وہ چلی ہی گئی ہوتی اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں سے نہ اٹھا ہوتا۔

Narrated `Imran bin Hussain: While I was with the Prophet , some people from Bani Tamim came to him. The Prophet said, "O Bani Tamim! Accept the good news!" They said, "You have given us the good news; now give us (something)." (After a while) some Yemenites entered, and he said to them, "O the people of Yemen! Accept the good news, as Bani Tamim have refused it. " They said, "We accept it, for we have come to you to learn the Religion. So we ask you what the beginning of this universe was." The Prophet said "There was Allah and nothing else before Him and His Throne was over the water, and He then created the Heavens and the Earth and wrote everything in the Book." Then a man came to me and said, 'O `Imran! Follow your she-camel for it has run away!" So I set out seeking it, and behold, it was beyond the mirage! By Allah, I wished that it (my she-camel) had gone but that I had not left (the gathering). "
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 93, Number 514

   صحيح البخاري7418عمران بن الحصينكان الله ولم يكن شيء قبله وكان عرشه على الماء ثم خلق السموات
   صحيح البخاري3191عمران بن الحصينكان الله ولم يكن شيء غيره وكان عرشه على الماء وكتب

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 7418  
´اللہ تعالیٰ کا فرمان اور اس کا عرش پانی پر تھا، اور وہ عرش عظیم کا رب ہے`
«. . . قَالَ أَبُو الْعَالِيَةِ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاءِ ارْتَفَعَ فَسَوَّاهُنَّ خَلَقَهُنَّ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ اسْتَوَى عَلَا عَلَى الْعَرْشِ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ الْمَجِيدُ الْكَرِيمُ وَالْوَدُودُ الْحَبِيبُ، يُقَالُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ كَأَنَّهُ فَعِيلٌ مِنْ مَاجِدٍ مَحْمُودٌ مِنْ حَمِدَ. . . .»
. . . ابوالعالیہ نے بیان کیا کہ «استوى إلى السماء‏» کا مفہوم یہ ہے کہ وہ آسمان کی طرف بلند ہوا۔ «فسواهن‏» یعنی پھر انہیں پیدا کیا۔ مجاہد نے کہا کہ «استوى‏» بمعنی «على العرش‏.‏» ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ «مجيد» بمعنی «كريم» ۔ «الودود» بمعنی «الحبيب‏.‏» بولتے ہیں۔ «حميد»، «مجيد» ۔ گویا یہ فعیل کے وزن پر ماجد سے ہے اور «محمود»، «حميد‏.‏» سے مشتق ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب التَّوْحِيدِ: Q7418]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: Q7418 کا باب: «بَابُ: {وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ}، {وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ}::»

باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے باب کے ذریعے عرش کا ذکر فرمایا ہے اور ساتھ ہی ساتھ بڑے دقیق الفاظ میں اس کا مخلوق ہونا بھی ثابت فرمایا ہے اور یہ بھی واضح فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے، اس پر ایمان لانا بغیر تاویل کے لازمی ہے، اور تاویل کے طریقہ سے بچنا سلف کا طریقہ ہے۔ تحت الباب امام بخاری رحمہ اللہ نے دس احادیث کا ذکر فرمایا ہے، پہلی حدیث سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اس میں عرش کا ذکر موجود ہے، دوسری حدیث سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اس میں بھی عرش کا ذکر ہے، تیسری حدیث سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اس میں «فوق سبع سموات» کے الفاظ ہیں، جس سے عرش کی طرف اشارہ موجود ہے، چوتھی حدیث سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اس میں بھی آسمان کا ذکر ہے، پانچویں حدیث جو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اس میں عرش کا ذکر ہے، چھٹی حدیث بھی انہی سے مروی ہے اس میں بھی عرش کا ذکر موجود ہے، ساتویں حدیث جو سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اس میں بظاہر عرش کے الفاظ موجود نہیں ہیں مگر صحیح بخاری میں ہی دوسری جگہ عرش کے الفاظ موجود ہیں، امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کو مکمل کتاب بدء الخلق «باب صفة الشمس و القمر» (رقم الحدیث: 3199) میں ذکر فرمائی ہے، وہاں یہ الفاظ موجود ہیں:
«قال النبى صلى الله عليه وسلم لأبي ذر حين غربت الشمس: أتدري أين تذهب؟ قلت: الله و رسوله أعلم؛ قال: فإنها تذهب حتى تسجد تحت العرش فستأذن ويؤذن لها . . . . .»
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ جب سورج غروب ہوتا تو کہاں جاتا ہے؟ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ جاتا ہے یہاں تک کہ عرش کے نیچے سجدہ کرتا ہے۔
لہٰذا اس حدیث کی مطابقت بھی باب سے عرش کے الفاظ کے ساتھ قائم ہوتی ہے، ساتویں حدیث میں سورۃ توبہ کی آیت نقل فرمائی ہے جس کے آخر میں عرش کا ذکر ہے، آٹھویں حدیث جو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل فرمائی ہے اس میں بھی عرش عظیم کا ذکر ہے، نویں حدیث جو سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اس میں بھی عرش کا ذکر ہے، دسویں حدیث جو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اس میں بھی عرش کا ذکر موجود ہے، مگر باب کے تحت جو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے حدیث نقل فرمائی ہے کہ «المجيد» بمعنی کریم کے ہیں۔ تحت الباب تمام احادیث میں لفظ «المجيد» وارد نہیں ہوا، پھر کس طرح سے احادیث کا باب سے مطابقت ہو گی؟ کیونکہ باب میں «المجيد» کا ذکر موجود ہے۔ اس الجھن کو دور کرتے ہوئے علامہ ابن المنیر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
اس باب میں امام بخاری رحمہ اللہ نے جو کچھ ذکر کیا ہے، وہ ذکر عرش پر مشتمل ہے ماسوائے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے اثر کے، لیکن ان کے ساتھ ایک پرلطف بات پر متنبہ کیا ہے، وہ یہ کہ آیت میں «المجيد» قرأت کسر پر عرش کی صفت نہیں، تاکہ یہ تخیل نہ ہو کہ وہ (بھی) قدیم ہے بلکہ (کسر کے ساتھ بھی) یہ اللہ کی صفت ہے بدلیل نافع کی قرأت کے۔ [المتوري: ص 429]، [فتح الباري لابن حجر: 235/14]
لہٰذا سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے اثر کا تعلق عرش کے ساتھ نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق اللہ تعالیٰ کی صفت کے ساتھ ہے، پس یہی بتلانا امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود ہے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 319   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7418  
7418. سیدنا عمران بن حصین ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: میں ایک مرتبہ نبی ﷺ کے پاس تھا کہ اتنے میں آپ کے پاس قبیلہ بنو تمیم کے چند لوگ آئے۔ آپ ﷺ نے (ان سے) فرمایا: اے بنو تمیم! تم بشارت قبول کرو۔ انہوں نے کہا: آپ نے ہمیں بشارت تو دی ہے، کچھ (دنیا کا) مال بھی دیں۔ پھر آپ نے یمن کے کچھ لوگ آئے توآپ نے فرمایا: اے اہل یمن! تم خوشخبری قبول کرو، بنو تمیم نے اسے قبول نہیں کیا۔ انہوں نے کہا: ہم نے اسے قبول کیا۔ ہم تو آپ کے پاس اس غرض سے آئے ہیں کہ دین کے متعلق سمجھ بوجھ حاصل کریں اور آپ سے اس دنیا کے آغاز کے متعلق پوچھیں کہ اس کی ابتداء کیسی ہوئی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ عزوجل تھا اور کچھ نہیں تھا البتہ اللہ کا عرش پانی پرتھا، پھر اس نے زمین وآسمان کو پیدا کیا اور لوح محفوظ میں ہر چیز لکھ دی۔ سیدنا عمران ؓ کہتے ہیں: اتنے میں ایک آدمی نے آکر مجھ سے کہا: اے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7418]
حدیث حاشیہ:
اللہ کاعرش پرمستوی ہونا برحق ہے، اس پر بغیر تاویل کےایمان لانا ضروری ہے اور تاویل سے بچنا طریقہ سلف ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 7418   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7418  
7418. سیدنا عمران بن حصین ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: میں ایک مرتبہ نبی ﷺ کے پاس تھا کہ اتنے میں آپ کے پاس قبیلہ بنو تمیم کے چند لوگ آئے۔ آپ ﷺ نے (ان سے) فرمایا: اے بنو تمیم! تم بشارت قبول کرو۔ انہوں نے کہا: آپ نے ہمیں بشارت تو دی ہے، کچھ (دنیا کا) مال بھی دیں۔ پھر آپ نے یمن کے کچھ لوگ آئے توآپ نے فرمایا: اے اہل یمن! تم خوشخبری قبول کرو، بنو تمیم نے اسے قبول نہیں کیا۔ انہوں نے کہا: ہم نے اسے قبول کیا۔ ہم تو آپ کے پاس اس غرض سے آئے ہیں کہ دین کے متعلق سمجھ بوجھ حاصل کریں اور آپ سے اس دنیا کے آغاز کے متعلق پوچھیں کہ اس کی ابتداء کیسی ہوئی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ عزوجل تھا اور کچھ نہیں تھا البتہ اللہ کا عرش پانی پرتھا، پھر اس نے زمین وآسمان کو پیدا کیا اور لوح محفوظ میں ہر چیز لکھ دی۔ سیدنا عمران ؓ کہتے ہیں: اتنے میں ایک آدمی نے آکر مجھ سے کہا: اے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7418]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث میں (هَذَا الأَمرُ)
سے مراد کائنات کی ہر وہ چیز ہے جس کا روز مرہ ہم مشاہدہ کرتے ہیں یعنی اہل یمن نے مشاہدات کائنات کے متعلق سوال کیا تھا کہ اس کا مبدا کیا ہے؟ سوال کے ظاہری مفہوم سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے۔
(فتح الباری: 346/6)
اگرچہ انھوں نے یہ احتمال بھی ذکر کیا ہے کہ جنس مخلوقات میں سے پہلی مخلوق کے متعلق سوال تھا لیکن جواب سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ احتمال بہت بعید ہے کیونکہ اس حدیث میں زمین و آسمان کی پیدائش کا ذکر ہے حالانکہ ایک حدیث کے مطابق پہلےاللہ تعالیٰ نے قلم کو پیدا کیا اور اسے لکھنے کا حکم دیا۔
اس نے عرض کی:
کیا لکھوں؟ حکم ہوا قیامت تک پیدا ہونے والی ہر چیزکی تقدیر لکھ دے۔
(سنن أبي داود، السنة، حدیث: 4700)
نیز ایک دوسری حدیث میں اس امر کی بھی صراحت ہے کہ زمین و آسمان کی پیدائش سے پچاس ہزارسال پہلے اللہ تعالیٰ نے کائنات کی تقدیر لکھ دی تھی اور اس وقت اللہ کا عرش پانی پر تھا۔
(صحیح مسلم، القدر، حدیث: 6748(2653)
اللہ تعالیٰ کا عرش اور پانی دونوں اللہ تعالیٰ کے پیدا کیےہوئے ہیں جو تقدیریں لکھتے وقت موجود تھے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
وہی تو ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا اور اس وقت اللہ کا عرش پانی پر تھا۔
(ھود 11۔
7)


اس آیت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ پانی کی تخلیق زمین و آسمان کی تخلیق سے پہلے ہو چکی تھی اور زمین و آسمان کی پیدائش کے وقت اللہ تعالیٰ کا عرش پانی پر موجود تھا تخلیق کے بعد یہ عرش ساتوں آسمانوں اور کرسی کے بھی اوپر ہے۔
زمین و آسمان کی پیدائش کا مادہ دھواں تھا جو اس وقت موجود پانی سے بخارات کی شکل میں جمع تھا۔
اس کا اشارہ سورہ حم السجدہ آیت: 11 میں ہے پھر اس دھویں کو پھاڑ کر اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان سورج چاند اور ستارے وغیرہ بنائے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
بے شک تمام آسمان اور زمین آپس میں ملے ہوئے تھے تو ہم نے انھیں پھاڑ کر الگ الگ کیا۔
(الأنبیاء: 21۔
30)


اس حدیث سے مقصود اللہ تعالیٰ کےعرش کی عظمت اور رفعت و بلندی شان کو بیان کرنا ہے کہ اس کی قدر و منزلت زمین و آسمان کی قدر و منزلت سے کہیں بڑھ کر ہے اور اس کا وجود زمین و آسمان کے وجود سے بہت پہلے کا ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 7418   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.