(مرفوع) حدثنا الحسن بن عرفة، حدثنا سعيد بن محمد الوراق، عن يحيى بن سعيد، عن الاعرج، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " السخي قريب من الله، قريب من الجنة، قريب من الناس، بعيد من النار، والبخيل بعيد من الله، بعيد من الجنة، بعيد من الناس، قريب من النار، ولجاهل سخي احب إلى الله عز وجل من عالم بخيل "، قال ابو عيسى: هذا حديث غريب، لا نعرفه من حديث يحيى بن سعيد، عن الاعرج، عن ابي هريرة إلا من حديث سعيد بن محمد، وقد خولف سعيد بن محمد في رواية هذا الحديث عن يحيى بن سعيد، إنما يروى عن يحيى بن سعيد، عن عائشة شيء مرسل.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْوَرَّاقُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " السَّخِيُّ قَرِيبٌ مِنَ اللَّهِ، قَرِيبٌ مِنَ الْجَنَّةِ، قَرِيبٌ مِنَ النَّاسِ، بَعِيدٌ مِنَ النَّارِ، وَالْبَخِيلُ بَعِيدٌ مِنَ اللَّهِ، بَعِيدٌ مِنَ الْجَنَّةِ، بَعِيدٌ مِنَ النَّاسِ، قَرِيبٌ مِنَ النَّارِ، وَلَجَاهِلٌ سَخِيٌّ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ عَالِمٍ بَخِيلٍ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ سَعِيدِ بْنِ مُحَمَّدٍ، وَقَدْ خُولِفَ سَعِيدُ بْنُ مُحَمَّدٍ فِي رِوَايَةِ هَذَا الْحَدِيثِ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، إِنَّمَا يُرْوَى عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَائِشَةَ شَيْءٌ مُرْسَلٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سخی آدمی اللہ سے قریب ہے، جنت سے قریب ہے، لوگوں سے قریب ہے اور جہنم سے دور ہے، بخیل آدمی اللہ سے دور ہے، جنت سے دور ہے، لوگوں سے دور ہے، اور جہنم سے قریب ہے، جاہل سخی اللہ کے نزدیک بخیل عابد سے کہیں زیادہ محبوب ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- ہم اسے «يحيى بن سعيد عن الأعرج عن أبي هريرة» کی سند سے صرف سعد بن محمد کی روایت سے جانتے ہیں، اور یحییٰ بن سعید سے اس حدیث کی روایت کرنے میں سعید بن محمد کی مخالفت کی گئی ہے، (سعید بن محمد نے تو اس سند سے روایت کی ہے جو اوپر مذکور ہے) جب کہ یہ «عن يحيى بن سعيد عن عائشة» کی سند سے بھی مرسلاً مروی ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 13973) (ضعیف جداً) (سند میں ”سعید بن محمد الوراق“ سخت ضعیف ہے، بلکہ بعض کے نزدیک متروک الحدیث راوی ہے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا الضعيفة (154) // ضعيف الجامع الصغير (3341) //
قال الشيخ زبير على زئي: (1961) إسناده ضعيف سعيد الوراق: ضعيف (تق:2387) وللحديث شواھد شديدة الضعف
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا عبدة، عن محمد بن إسحاق، عن محمد بن جعفر بن الزبير، عن عبيد الله بن عبد الله بن عمر، عن ابن عمر، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يسال عن الماء يكون في الفلاة من الارض وما ينوبه من السباع والدواب، قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا كان الماء قلتين لم يحمل الخبث ". قال عبدة: قال محمد بن إسحاق: القلة هي: الجرار، والقلة التي يستقى فيها. قال ابو عيسى: وهو قول الشافعي , واحمد , وإسحاق، قالوا: إذا كان الماء قلتين لم ينجسه شيء ما لم يتغير ريحه او طعمه , وقالوا: يكون نحوا من خمس قرب.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُسْأَلُ عَنِ الْمَاءِ يَكُونُ فِي الْفَلَاةِ مِنَ الْأَرْضِ وَمَا يَنُوبُهُ مِنَ السِّبَاعِ وَالدَّوَابِّ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا كَانَ الْمَاءُ قُلَّتَيْنِ لَمْ يَحْمِلِ الْخَبَثَ ". قَالَ عَبْدَةُ: قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق: الْقُلَّةُ هِيَ: الْجِرَارُ، وَالْقُلَّةُ الَّتِي يُسْتَقَى فِيهَا. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ , وَأَحْمَدَ , وَإِسْحَاق، قَالُوا: إِذَا كَانَ الْمَاءُ قُلَّتَيْنِ لَمْ يُنَجِّسْهُ شَيْءٌ مَا لَمْ يَتَغَيَّرْ رِيحُهُ أَوْ طَعْمُهُ , وَقَالُوا: يَكُونُ نَحْوًا مِنْ خَمْسِ قِرَبٍ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے سنا، آپ سے اس پانی کے بارے میں پوچھا جا رہا تھا جو میدان میں ہوتا ہے اور جس پر درندے اور چوپائے آتے جاتے ہیں، تو آپ نے فرمایا: ”جب پانی دو قلہ ۱؎ ہو تو وہ گندگی کو اثر انداز ہونے نہیں دے گا، اسے دفع کر دے گا“۲؎۔ محمد بن اسحاق کہتے ہیں: قلہ سے مراد گھڑے ہیں اور قلہ وہ (ڈول) بھی ہے جس سے کھیتوں اور باغات کی سینچائی کی جاتی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہی قول شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا ہے۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ جب پانی دو قلہ ہو تو اسے کوئی چیز نجس نہیں کر سکتی جب تک کہ اس کی بویا مزہ بدل نہ جائے، اور ان لوگوں کا کہنا ہے کہ دو قلہ پانچ مشک کے قریب ہوتا ہے۔
وضاحت: ۱؎: قلّہ کے معنی مٹکے کے ہیں، یہاں مراد قبیلہ ہجر کے مٹکے ہیں، کیونکہ عرب میں یہی مٹکے مشہور و معروف تھے، اس مٹکے میں ڈھائی سو رطل پانی سمانے کی گنجائش ہوتی تھی، لہٰذا دو قلوں کے پانی کی مقدار پانچ سو رطل ہوئی جو موجودہ زمانہ کے پیمانے کے مطابق دو کوئنٹل ستائیس کلو گرام ہوتی ہے۔
۲؎: کچھ لوگوں نے «لم يحمل الخبث» کا ترجمہ یہ کیا ہے کہ نجاست اٹھانے سے عاجز ہو گا یعنی نجس ہو جائے گا، لیکن یہ ترجمہ دو اسباب کی وجہ سے صحیح نہیں، ایک یہ کہ ابوداؤد کی ایک صحیح روایت میں «اذابلغ الماء قلتین فإنہ لاینجس» ہے، یعنی: اگر پانی اس مقدار سے کم ہو تو نجاست گرنے سے ناپاک ہو جائے گا، چاہے رنگ مزہ اور بو نہ بدلے، اور اگر اس مقدار سے زیادہ ہو تو نجاست گرنے سے ناپاک نہیں ہو گا، الا یہ کہ اس کا رنگ، مزہ، اور بو بدل جائے، لہٰذا یہ روایت اسی پر محمول ہو گی اور «لم يحمل الخبث» کے معنی «لم ينجس» کے ہوں گے، دوسری یہ کہ «قلتين»”دو قلے“ سے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے پانی کی تحدید فرما دی ہے اور یہ معنی لینے کی صورت میں تحدید باطل ہو جائے گی کیونکہ قلتین سے کم اور قلتین دونوں ایک ہی حکم میں آ جائیں گے۔
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا عبد الرزاق، عن معمر، عن همام بن منبه، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " لا يبولن احدكم في الماء الدائم ثم يتوضا منه ". قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح، وفي الباب عن جابر.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا يَبُولَنَّ أَحَدُكُمْ فِي الْمَاءِ الدَّائِمِ ثُمَّ يَتَوَضَّأُ مِنْهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی آدمی ٹھہرے ہوئے پانی ۱؎ میں پیشاب نہ کرے پھر اس سے وضو کرے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں جابر رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔
وضاحت: ۱؎: ٹھہرے ہوئے پانی سے مراد ایسا پانی ہے جو دریا کی طرح جاری نہ ہو جیسے حوض اور تالاب وغیرہ کا پانی، ان میں پیشاب کرنا منع ہے تو پاخانہ کرنا بطریق اولیٰ منع ہو گا، یہ پانی کم ہو یا زیادہ اس میں نجاست ڈالنے سے بچنا چاہیئے تاکہ اس میں مزید بدبو نہ ہو، ٹھہرے ہوئے پانی میں ویسے بھی سرانڈ پیدا ہو جاتی ہے، اگر اس میں نجاست (گندگی) ڈال دی جائے تو اس کی سڑاند بڑھ جائے گی اور اس سے اس کے آس پاس کے لوگوں کو تکلیف پہنچے گی۔
ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک سب سے پسندیدہ لباس قمیص تھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: محمد بن اسماعیل کو کہتے سنا: عبداللہ بن بریدہ کی حدیث جو ان کی ماں کے واسطہ سے ام سلمہ سے مروی ہے زیادہ صحیح ہے، ابوتمیلہ اس حدیث میں «عن امہ» کا واسطہ ضرور بیان کرتے تھے۔