الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: تفسیر قرآن کریم
Chapters on Tafsir
60. باب وَمِنْ سُورَةِ الْمُمْتَحَنَةِ
60. باب: سورۃ الممتحنہ سے بعض آیات کی تفسیر۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 3307
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا عبد بن حميد، حدثنا ابو نعيم، حدثنا يزيد بن عبد الله الشيباني، قال: سمعت شهر بن حوشب، قال: حدثتنا ام سلمة الانصارية، قالت: قالت امراة من النسوة: ما هذا المعروف الذي لا ينبغي لنا ان نعصيك فيه؟ قال: " لا تنحن "، قلت: يا رسول الله، إن بني فلان قد اسعدوني على عمي، ولا بد لي من قضائهن، فابى علي، فعاتبته مرارا، فاذن لي في قضائهن، فلم انح بعد قضائهن ولا على غيره حتى الساعة، ولم يبق من النسوة امراة إلا وقد ناحت غيري. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، وفيه عن ام عطية رضي الله عنها، قال عبد بن حميد: ام سلمة الانصارية هي اسماء بنت يزيد بن السكن.حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الشَّيْبَانِيُّ، قَال: سَمِعْتُ شَهْرَ بْنَ حَوْشَبٍ، قَالَ: حَدَّثَتْنَا أُمُّ سَلَمَةَ الْأَنْصَارِيَّةُ، قَالَتْ: قَالَتِ امْرَأَةٌ مِنَ النِّسْوَةِ: مَا هَذَا الْمَعْرُوفُ الَّذِي لَا يَنْبَغِي لَنَا أَنْ نَعْصِيَكَ فِيهِ؟ قَالَ: " لَا تَنُحْنَ "، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ بَنِي فُلَانٍ قَدْ أَسْعَدُونِي عَلَى عَمِّي، وَلَا بُدَّ لِي مِنْ قَضَائِهِنَّ، فَأَبَى عَلَيَّ، فَعَاتَبْتُهُ مِرَارًا، فَأَذِنَ لِي فِي قَضَائِهِنَّ، فَلَمْ أَنُحْ بَعْدَ قَضَائِهِنَّ وَلَا عَلَى غَيْرِهِ حَتَّى السَّاعَةَ، وَلَمْ يَبْقَ مِنَ النِّسْوَةِ امْرَأَةٌ إِلَّا وَقَدْ نَاحَتْ غَيْرِي. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَفِيهِ عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَ عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ: أُمُّ سَلَمَةَ الْأَنْصَارِيَّةُ هِيَ أَسْمَاءُ بِنْتُ يَزِيدَ بْنِ السَّكَنِ.
ام سلمہ انصاریہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ عورتوں میں سے ایک عورت نے عرض کیا: (اللہ کے رسول!) اس معروف سے کیا مراد ہے جس میں ہمیں آپ کی نافرمانی نہیں کرنی چاہیئے، آپ نے فرمایا: وہ یہی ہے کہ تم (کسی کے مرنے پر) نوحہ مت کرو، میں نے کہا: اللہ کے رسول! فلاں قبیلے کی عورتوں نے نوحہ کرنے میں میری مدد کی تھی جب میں نے اپنے چچا پر نوحہ کیا تھا، اس لیے میرے لیے ضروری ہے کہ جب ان کے نوحہ کرنے کا وقت آئے تو میں ان کے ساتھ نوحہ میں شریک ہو کر اس کا بدلہ چکاؤں، آپ نے انکار کیا، (مجھے اجازت نہ دی) میں نے کئی بار آپ سے اپنی عرض دہرائی تو آپ نے مجھے ان کا بدلہ چکا دینے کی اجازت دے دی، اس بدلہ کے چکا دینے کے بعد پھر میں نے نہ ان پر اور نہ ہی کسی اور پر اب قیامت تک نوحہ (جبکہ) میرے سوا کوئی عورت ایسی باقی نہیں ہے جس نے نوحہ نہ کیا ہو ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے،
۲- اس باب میں ام عطیہ رضی الله عنہا سے بھی روایت ہے،
۳- عبد بن حمید کہتے ہیں، ام سلمہ انصاریہ ہی اسماء بنت یزید بن السکن ہیں رضی الله عنہا۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الجنائز 51 (1579) (15769) (حسن)»

وضاحت:
۱؎: یعنی ان عورتوں میں سے ہر عورت نے نوحہ کیا ہے۔

قال الشيخ الألباني: حسن، ابن ماجة (1579)
حدیث نمبر: 1597
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا قتيبة، حدثنا سفيان بن عيينة، عن ابن المنكدر، سمع اميمة بنت رقيقة، تقول: بايعت رسول الله صلى الله عليه وسلم في نسوة، فقال لنا: " فيما استطعتن واطقتن "، قلت: الله ورسوله ارحم بنا منا بانفسنا، قلت: يا رسول الله، بايعنا، قال سفيان: تعني: صافحنا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إنما قولي لمائة امراة كقولي لامراة واحدة "، قال: وفي الباب، عن عائشة، وعبد الله بن عمر، واسماء بنت يزيد، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، لا نعرفه إلا من حديث محمد بن المنكدر، وروى سفيان الثوري، ومالك بن انس، وغير واحد هذا الحديث، عن محمد بن المنكدر، نحوه، قال: وسالت محمدا عن هذا الحديث، فقال: لا اعرف لاميمة بنت رقيقة غير هذا الحديث، واميمة امراة اخرى لها حديث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم.حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ ابْنِ الْمُنْكَدِرِ، سَمِعَ أُمَيْمَةَ بِنْتَ رُقَيْقَةَ، تَقُولُ: بَايَعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي نِسْوَةٍ، فَقَالَ لَنَا: " فِيمَا اسْتَطَعْتُنَّ وَأَطَقْتُنَّ "، قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَرْحَمُ بِنَا مِنَّا بِأَنْفُسِنَا، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، بَايِعْنَا، قَالَ سُفْيَانُ: تَعْنِي: صَافِحْنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّمَا قَوْلِي لِمِائَةِ امْرَأَةٍ كَقَوْلِي لِامْرَأَةٍ وَاحِدَةٍ "، قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ عَائِشَةَ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، وَأَسْمَاءَ بِنْتِ يَزِيدَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، وَرَوَى سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَمَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، نَحْوَهُ، قَالَ: وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ، فَقَالَ: لَا أَعْرِفُ لِأُمَيْمَةَ بِنْتِ رُقَيْقَةَ غَيْرَ هَذَا الْحَدِيثِ، وَأُمَيْمَةُ امْرَأَةٌ أُخْرَى لَهَا حَدِيثٌ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
امیمہ بنت رقیقہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے کئی عورتوں کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی، آپ نے ہم سے فرمایا: اطاعت اس میں لازم ہے جو تم سے ہو سکے اور جس کی تمہیں طاقت ہو، میں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول ہم پر خود ہم سے زیادہ مہربان ہیں، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم سے بیعت لیجئے (سفیان بن عیینہ کہتے ہیں: ان کا مطلب تھا مصافحہ کیجئے)، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم سو عورتوں کے لیے میرا قول میرے اس قول جیسا ہے جو ایک عورت کے لیے ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ہم اسے صرف محمد بن منکدر ہی کی روایت سے جانتے ہیں، سفیان ثوری، مالک بن انس اور کئی لوگوں نے محمد بن منکدر سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے،
۲- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: میں امیمہ بنت رقیقہ کی اس کے علاوہ دوسری کوئی حدیث نہیں جانتا ہوں،
۳- امیمہ نام کی ایک دوسری عورت بھی ہیں جن کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث آئی ہے۔
۴- اس باب میں عائشہ، عبداللہ بن عمر اور اسماء بنت یزید رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن النسائی/البیعة 18 (4186)، و 24 (4195)، سنن ابن ماجہ/الجہاد 43 (2874)، (تحفة الأشراف: 15781)، وط/البیعة 1 (2)، و مسند احمد (6/357) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: زبان ہی سے بیعت لینا عورتوں کے لیے کافی ہے مصافحہ کی ضرورت نہیں ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2874)
حدیث نمبر: 2481
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا عباس بن محمد الدوري، حدثنا عبد الله بن يزيد المقرئ، حدثنا سعيد بن ابي ايوب، عن ابي مرحوم عبد الرحيم بن ميمون، عن سهل بن معاذ بن انس الجهني، عن ابيه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " من ترك اللباس تواضعا لله وهو يقدر عليه دعاه الله يوم القيامة على رءوس الخلائق حتى يخيره من اي حلل الإيمان شاء يلبسها " , هذا حديث حسن، ومعنى قوله حلل الإيمان: يعني ما يعطى اهل الإيمان من حلل الجنة.حَدَّثَنَا عَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ الْمُقْرِئُ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي مَرْحُومٍ عَبْدِ الرَّحِيمِ بْنِ مَيْمُونٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ مُعَاذِ بْنِ أَنَسٍ الْجُهَنِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ تَرَكَ اللِّبَاسَ تَوَاضُعًا لِلَّهِ وَهُوَ يَقْدِرُ عَلَيْهِ دَعَاهُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى رُءُوسِ الْخَلَائِقِ حَتَّى يُخَيِّرَهُ مِنْ أَيِّ حُلَلِ الْإِيمَانِ شَاءَ يَلْبَسُهَا " , هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَمَعْنَى قَوْلِهِ حُلَلِ الْإِيمَانِ: يَعْنِي مَا يُعْطَى أَهْلُ الْإِيمَانِ مِنْ حُلَلِ الْجَنَّةِ.
معاذ بن انس جہنی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص زینت کا لباس خالص اللہ کی رضا مندی اور اس کی تواضع کی خاطر چھوڑ دے باوجود یہ کہ وہ اسے میسر ہے تو اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو قیامت کے دن تمام خلائق کے سامنے بلائے گا تاکہ وہ اہل ایمان کے لباس میں سے جسے چاہے پسند کرے، اور پہنے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے،
۲- «حلل الإيمان» سے جنت کے وہ لباس مراد ہیں جو اہل ایمان کو دیئے جائیں گے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 11302) (حسن)»

قال الشيخ الألباني: حسن، الصحيحة (717)
حدیث نمبر: 3305
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان، عن عمرو بن دينار، عن الحسن بن محمد هو ابن الحنفية، عن عبيد الله بن ابي رافع، قال: سمعت علي بن ابي طالب، يقول: " بعثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم انا والزبير، والمقداد بن الاسود، فقال:" انطلقوا حتى تاتوا روضة خاخ، فإن فيها ظعينة معها كتاب فخذوه منها فاتوني به "، فخرجنا تتعادى بنا خيلنا حتى اتينا الروضة فإذا نحن بالظعينة، فقلنا: اخرجي الكتاب، فقالت: ما معي من كتاب، فقلنا: لتخرجن الكتاب او لتلقين الثياب، قال: فاخرجته من عقاصها، قال: فاتينا به رسول الله صلى الله عليه وسلم، فإذا هو من حاطب بن ابي بلتعة إلى ناس من المشركين بمكة يخبرهم ببعض امر النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: " ما هذا يا حاطب؟ " قال: لا تعجل علي يا رسول الله، إني كنت امرا ملصقا في قريش ولم اكن من انفسها، وكان من معك من المهاجرين لهم قرابات يحمون بها اهليهم واموالهم بمكة، فاحببت إذ فاتني ذلك من نسب فيهم ان اتخذ فيهم يدا يحمون بها قرابتي، وما فعلت ذلك كفرا ولا ارتدادا عن ديني ولا رضا بالكفر بعد الإسلام، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " صدق "، فقال عمر بن الخطاب رضي الله عنه: دعني يا رسول الله اضرب عنق هذا المنافق، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " إنه قد شهد بدرا، فما يدريك لعل الله اطلع على اهل بدر "، فقال: " اعملوا ما شئتم فقد غفرت لكم "، قال: وفيه انزلت هذه السورة يا ايها الذين آمنوا لا تتخذوا عدوي وعدوكم اولياء السورة "، قال عمرو: وقد رايت ابن ابي رافع، وكان كاتبا لعلي بن ابي طالب. هذا حديث حسن صحيح، وفيه عن عمر وجابر بن عبد الله، وروى غير واحد عن سفيان بن عيينة هذا الحديث، نحو هذا، وذكروا هذا الحرف، وقالوا: لتخرجن الكتاب او لتلقين الثياب، وقد روي ايضا عن ابي عبد الرحمن السلمي، عن علي نحو هذا الحديث، ذكر بعضهم فيه، فقال لتخرجن الكتاب او لنجردنك.حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ الْحَسَنِ بْنِ مُحَمَّدٍ هُوَ ابْنُ الْحَنَفِيَّةِ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ، قَال: سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ، يَقُولُ: " بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَا وَالزُّبَيْرَ، وَالْمِقْدَادَ بْنَ الْأَسْوَدِ، فَقَالَ:" انْطَلِقُوا حَتَّى تَأْتُوا رَوْضَةَ خَاخٍ، فَإِنَّ فِيهَا ظَعِينَةً مَعَهَا كِتَابٌ فَخُذُوهُ مِنْهَا فَأْتُونِي بِهِ "، فَخَرَجْنَا تَتَعَادَى بِنَا خَيْلُنَا حَتَّى أَتَيْنَا الرَّوْضَةَ فَإِذَا نَحْنُ بِالظَّعِينَةِ، فَقُلْنَا: أَخْرِجِي الْكِتَابَ، فَقَالَتْ: مَا مَعِي مِنْ كِتَابٍ، فَقُلْنَا: لَتُخْرِجِنَّ الْكِتَابَ أَوْ لَتُلْقِيَنَّ الثِّيَابَ، قَالَ: فَأَخْرَجَتْهُ مِنْ عِقَاصِهَا، قَالَ: فَأَتَيْنَا بِهِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِذَا هُوَ مِنْ حَاطِبِ بْنِ أَبِي بَلْتَعَةَ إِلَى نَاسٍ مِنَ الْمُشْرِكِينَ بِمَكَّةَ يُخْبِرُهُمْ بِبَعْضِ أَمْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " مَا هَذَا يَا حَاطِبُ؟ " قَالَ: لَا تَعْجَلْ عَلَيَّ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي كُنْتُ امْرَأً مُلْصَقًا فِي قُرَيْشٍ وَلَمْ أَكُنْ مِنْ أَنْفُسِهَا، وَكَانَ مَنْ مَعَكَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ لَهُمْ قَرَابَاتٌ يَحْمُونَ بِهَا أَهْلِيهِمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِمَكَّةَ، فَأَحْبَبْتُ إِذْ فَاتَنِي ذَلِكَ مِنْ نَسَبٍ فِيهِمْ أَنْ أَتَّخِذَ فِيهِمْ يَدًا يَحْمُونَ بِهَا قَرَابَتِي، وَمَا فَعَلْتُ ذَلِكَ كُفْرًا وَلَا ارْتِدَادًا عَنْ دِينِي وَلَا رِضًا بِالْكُفْرِ بَعْدَ الْإِسْلَامِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " صَدَقَ "، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: دَعْنِي يَا رَسُولَ اللَّهِ أَضْرِبْ عُنُقَ هَذَا الْمُنَافِقِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّهُ قَدْ شَهِدَ بَدْرًا، فَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ اللَّهَ اطَّلَعَ عَلَى أَهْلِ بَدْرٍ "، فَقَالَ: " اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ "، قَالَ: وَفِيهِ أُنْزِلَتْ هَذِهِ السُّورَةُ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ السُّورَةَ "، قَالَ عَمْرٌو: وَقَدْ رَأَيْتُ ابْنَ أَبِي رَافِعٍ، وَكَانَ كَاتِبًا لِعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ. هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَفِيهِ عَنْ عُمَرَ وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، وَرَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ هَذَا الْحَدِيثَ، نَحْوَ هَذَا، وَذَكَرُوا هَذَا الْحَرْفَ، وَقَالُوا: لَتُخْرِجِنَّ الْكِتَابَ أَوْ لَتُلْقِيَنَّ الثِّيَابَ، وَقَدْ رُوِيَ أَيْضًا عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ، عَنْ عَلِيٍّ نَحْوَ هَذَا الْحَدِيثِ، ذَكَرَ بَعْضُهُمْ فِيهِ، فَقَالَ لَتُخْرِجِنَّ الْكِتَابَ أَوْ لَنُجَرِّدَنَّكِ.
عبیداللہ بن ابورافع کہتے ہیں کہ میں نے علی رضی الله عنہ کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے زبیر اور مقداد بن اسود کو بھیجا، فرمایا: جاؤ، روضہ خاخ ۱؎ پر پہنچو وہاں ایک ھودج سوار عورت ہے، اس کے پاس ایک خط ہے، وہ خط جا کر اس سے لے لو، اور میرے پاس لے آؤ، چنانچہ ہم نکل پڑے، ہمارے گھوڑے ہمیں لیے لیے دوڑ میں ایک دوسرے سے آگے بڑھ جانے کی کوشش کر رہے تھے، ہم روضہ پہنچے، ہمیں ہودج سوار عورت مل گئی، ہم نے اس سے کہا: خط نکال، اس نے کہا: ہمارے پاس کوئی خط نہیں ہے، ہم نے کہا: خط نکالتی ہے یا پھر اپنے کپڑے اتارتی ہے؟ (یہ سن کر) اپنی چوٹی (جوڑے) سے اس نے خط نکالا، ہم اسے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ گئے، وہ خط حاطب بن ابی بلتعہ رضی الله عنہ کی جانب سے تھا، مکہ کے کچھ مشرکین کے پاس بھیجا گیا تھا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض اقدامات کی انہیں خبر دی گئی تھی، آپ نے فرمایا: حاطب! یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہمارے خلاف حکم فرمانے میں جلدی نہ کریں، میں ایک ایسا شخص تھا جو قریش کے ساتھ مل جل کر رہتا تھا، لیکن (خاندانی طور پر) قریشی نہ تھا، باقی جو مہاجرین آپ کے ساتھ تھے ان کی وہاں رشتہ داریاں تھیں جس کی وجہ سے وہ رشتہ دار مکہ میں ان کے گھر والوں اور ان کے مالوں کی حفاظت و حمایت کرتے تھے، میں نے مناسب سمجھا کہ جب ہمارا ان سے کوئی خاندانی و نسبی تعلق نہیں ہے تو میں ان پر احسان کر کے کسی کا ہاتھ پکڑ لوں جس کی وجہ سے یہ اہل مکہ ہمارے گھر اور رشتہ داروں کی حفاظت و حمایت کریں، میں نے ایسا کفر اختیار کر لینے یا اپنے دین سے مرتد ہو جانے یا کفر کو پسند کر لینے کی وجہ سے نہیں کیا ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حاطب نے سچ اور (صحیح) بات کہی ہے، عمر بن خطاب رضی الله عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیجئیے، میں اس منافق کی گردن مار دوں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ جنگ بدر میں موجود رہے ہیں، تمہیں معلوم نہیں، یقیناً اللہ نے بدر والوں کی حالت (یعنی ان کے جذبہ جاں فروشی) کو دیکھ کر کہہ دیا ہے: جو چاہو کرو ہم نے تمہارے گناہ بخش دیئے ہیں، اسی سلسلے میں یہ پوری سورۃ «يا أيها الذين آمنوا لا تتخذوا عدوي وعدوكم أولياء» اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ، تم انہیں دوستی کا پیغام بھیجتے ہو (الممتحنۃ: ۱)، آخر تک نازل ہوئی۔ عمرو (راوی حدیث) کہتے ہیں: میں نے عبیداللہ بن ابی رافع کو دیکھا ہے، وہ علی رضی الله عنہ کے کاتب (محرر) تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اسی طرح کئی ایک نے یہ حدیث سفیان بن عیینہ سے روایت کی ہے، اور ان سبھوں نے بھی یہی لفظ ذکر کیا ہے کہ علی اور زبیر رضی الله عنہما وغیرہ نے کہا: تمہیں خط نکال کر دینا ہو گا، ورنہ پھر تمہیں کپڑے اتارنے پڑیں گے،
۳- ابوعبدالرحمٰن السلمی سے بھی یہ حدیث مروی ہوئی ہے، انہوں نے علی رضی الله عنہ سے اسی حدیث کے مانند روایت کیا ہے،
۴- اس باب میں عمر اور جابر بن عبداللہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ اور بعضوں نے ذکر کیا کہ انہوں نے کہا کہ تو خط نکال دے ورنہ ہم تجھے ننگا کر دیں گے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجھاد 141 (3700)، والمغازي 9 (3983)، وتفسیر سورة الممتحنة 1 (4890)، صحیح مسلم/فضائل الصحابة 36 (2494) (تحفة الأشراف: 10227)، و مسند احمد (1/79) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: خاخ ایک جگہ کا نام ہے اس کے اور مدینہ کے درمیان ۱۲ میل کا فاصلہ ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (2381)
حدیث نمبر: 3306
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا عبد بن حميد، حدثنا عبد الرزاق، عن معمر، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة، قالت: " ما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يمتحن إلا بالآية التي قال الله: إذا جاءك المؤمنات يبايعنك سورة الممتحنة آية 12 الآية " قال معمر، فاخبرني ابن طاوس، عن ابيه، قال: " ما مست يد رسول الله صلى الله عليه وسلم يد امراة إلا امراة يملكها ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " مَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْتَحِنُ إِلَّا بِالْآيَةِ الَّتِي قَالَ اللَّهُ: إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ سورة الممتحنة آية 12 الْآيَةَ " قَالَ مَعْمَرٌ، فَأَخْبَرَنِي ابْنُ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: " مَا مَسَّتْ يَدُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَ امْرَأَةٍ إِلَّا امْرَأَةً يَمْلِكُهَا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کا امتحان نہیں لیا کرتے تھے مگر اس آیت سے جس میں اللہ نے «إذا جاءك المؤمنات يبايعنك» اے مومنوا! جب تمہارے پاس مومن عورتیں (مکہ سے) ہجرت کر کے آئیں تو تم ان کا امتحان لو، اللہ تو ان کے ایمان کو جانتا ہی ہے، اگر تم یہ جان لو کہ یہ واقعی مومن عورتیں ہیں تو ان کو ان کے کافر شوہروں کے پاس نہ لوٹاؤ، نہ تو وہ کافروں کے لیے حلال ہیں نہ کافر ان کے لیے حلال ہیں (الممتحنۃ: ۱۰)، کہا ہے ۱؎۔ معمر کہتے ہیں: ابن طاؤس نے مجھے اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے خبر دی ہے کہ ان کے باپ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ نے اس عورت کے سوا جس کے آپ مالک ہوتے کسی عورت کا ہاتھ نہیں چھوا ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف، وانظر: صحیح البخاری/الأحکام 49 (7214) (تحفة الأشراف: 16640) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اور امتحان لینے کا مطلب یہ ہے کہ کافر ہوں اور اپنے شوہروں سے ناراض ہو کر، یا کسی مسلمان کے عشق میں گرفتار ہو کر آئی ہوں، اور جب تحقیق ہو جائے تب بھی صلح حدیبیہ کی شق کے مطابق ان عورتوں کو واپس نہیں کیا جا سکتا کیونکہ مسلمان عورت کافر مرد کے لیے حرام ہے، (مردوں کو بھلے واپس کیا جائے گا)
۲؎: اس سے اشارہ اس بات کا ہے کہ آپ عورتوں سے بیعت زبانی لیتے تھے، اور بعض روایات میں آتا ہے کہ آپ نے اپنا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر رکھ کر بیعت لیا وہ اکثر مرسل روایات ہیں، نیز یہ بھی ممکن ہے کہ آپ نے اپنے اور ان کے ہاتھوں کے درمیان کوئی حائل (موٹا کپڑا وغیرہ) رکھا ہو، جیسا کہ بعض روایات میں آتا ہے «لیس فی نسخۃالالبانی، وہوضعیف لأجل أبی نصرالاسدی فہومجہول» ۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.