الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: فضائل و مناقب
Chapters on Virtues
19. باب فِي مَنَاقِبِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رضى الله عنه
19. باب: عثمان بن عفان رضی الله عنہ کے مناقب کا بیان
Chapter: ….
حدیث نمبر: 3710
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا احمد بن عبدة الضبي، حدثنا حماد بن زيد، عن ايوب، عن ابي عثمان النهدي، عن ابي موسى الاشعري، قال: انطلقت مع النبي صلى الله عليه وسلم فدخل حائطا للانصار فقضى حاجته، فقال لي: " يا ابا موسى املك علي الباب فلا يدخلن علي احد إلا بإذن "، فجاء رجل يضرب الباب , فقلت: من هذا؟ فقال: ابو بكر، فقلت: يا رسول الله، هذا ابو بكر يستاذن، قال: " ائذن له وبشره بالجنة "، فدخل وبشرته بالجنة، وجاء رجل آخر فضرب الباب , فقلت: من هذا؟ فقال: عمر، فقلت: يا رسول الله هذا عمر يستاذن، قال: " افتح له وبشره بالجنة "، ففتحت الباب ودخل وبشرته بالجنة، فجاء رجل آخر فضرب الباب , فقلت: من هذا؟ قال: عثمان، فقلت: يا رسول الله هذا عثمان يستاذن، قال: " افتح له وبشره بالجنة على بلوى تصيبه ". قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح وقد روي من غير وجه عن ابي عثمان النهدي، وفي الباب عن جابر، وابن عمر.حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ، قَالَ: انْطَلَقْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَخَلَ حَائِطًا لِلْأَنْصَارِ فَقَضَى حَاجَتَهُ، فَقَالَ لِي: " يَا أَبَا مُوسَى أَمْلِكْ عَلَيَّ الْبَابَ فَلَا يَدْخُلَنَّ عَلَيَّ أَحَدٌ إِلَّا بِإِذْنٍ "، فَجَاءَ رَجُلٌ يَضْرِبُ الْبَابَ , فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ فَقَالَ: أَبُو بَكْرٍ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا أَبُو بَكْرٍ يَسْتَأْذِنُ، قَالَ: " ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ "، فَدَخَلَ وَبَشَّرْتُهُ بِالْجَنَّةِ، وَجَاءَ رَجُلٌ آخَرُ فَضَرَبَ الْبَابَ , فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ فَقَالَ: عُمَرُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذَا عُمَرُ يَسْتَأْذِنُ، قَالَ: " افْتَحْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ "، فَفَتَحْتُ الْبَابَ وَدَخَلَ وَبَشَّرْتُهُ بِالْجَنَّةِ، فَجَاءَ رَجُلٌ آخَرُ فَضَرَبَ الْبَابَ , فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: عُثْمَانُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذَا عُثْمَانُ يَسْتَأْذِنُ، قَالَ: " افْتَحْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ عَلَى بَلْوَى تُصِيبُهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، وَفِي الْبَابِ عَنْ جَابِرٍ، وَابْنِ عُمَرَ.
ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلا، آپ انصار کے ایک باغ میں داخل ہوئے اور اپنی حاجت پوری کی، پھر آپ نے مجھ سے فرمایا: ابوموسیٰ! تم دروازہ پر رہو کوئی بغیر اجازت کے اندر داخل نہ ہونے پائے، پھر ایک شخص نے آ کر دروازہ کھٹکھٹایا، تو میں نے کہا: کون ہے؟ انہوں نے کہا: ابوبکر ہوں، تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ ابوبکر اجازت مانگ رہے ہیں، آپ نے فرمایا: انہیں آنے دو، اور انہیں جنت کی بشارت دے دو، چنانچہ وہ اندر آئے اور میں نے انہیں جنت کی بشارت دی، پھر ایک دوسرے شخص آئے اور انہوں نے دروازہ کھٹکھٹایا، میں نے کہا: کون ہے؟ انہوں نے کہا: عمر ہوں، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ عمر اجازت مانگ رہے ہیں، آپ نے فرمایا: ان کے لیے دروازہ کھول دو اور انہیں جنت کی بشارت دے دو، چنانچہ میں نے دروازہ کھول دیا، وہ اندر آ گئے، اور میں نے انہیں جنت کی بشارت دے دی، پھر ایک تیسرے شخص آئے اور انہوں نے دروازہ کھٹکھٹایا، تو میں نے کہا: کون ہے؟ تو انہوں نے کہا: عثمان ہوں، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ عثمان اجازت مانگ رہے ہیں، آپ نے فرمایا: ان کے لیے بھی دروازہ کھول دو اور انہیں بھی جنت کی بشارت دے دو، ساتھ ہی ایک آزمائش کی جو انہیں پہنچ کر رہے گی ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- یہ حدیث دوسری سندوں سے بھی ابوعثمان نہدی سے آئی ہے،
۳- اس باب میں جابر اور ابن عمر رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/فضائل الصحابة 5 (3674)، و6 (3693)، و7 (3695)، والأدب 119 (6216)، والفتن 17 (7097)، وخبر الواحد 3 (7262)، صحیح مسلم/فضائل الصحابة 3 (2403) (تحفة الأشراف: 9018)، و مسند احمد (4/393، 406، 407) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اشارہ اس حادثہ کی طرف تھا جس سے عثمان رضی الله عنہ اپنی خلافت کے آخری دور میں دوچار ہوئے پھر جام شہادت نوش کیا، نیز اس حدیث سے ان تینوں کی فضیلت ثابت ہوتی ہے، اور یہ کہ ان کے درمیان خلافت میں یہی ترتیب ہو گی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب

تخریج الحدیث:

قال الشيخ الألباني:

قال الشيخ زبير على زئي:
حدیث نمبر: 2
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا إسحاق بن موسى الانصاري، حدثنا معن بن عيسى القزاز، حدثنا مالك بن انس. ح وحدثنا قتيبة، عن مالك، عن سهيل بن ابي صالح، عن ابيه، عن، ابي هريرة , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا توضا العبد المسلم او المؤمن فغسل وجهه، خرجت من وجهه كل خطيئة نظر إليها بعينيه مع الماء، او مع آخر قطر الماء او نحو هذا، وإذا غسل يديه خرجت من يديه كل خطيئة بطشتها يداه مع الماء، او مع آخر قطر الماء، حتى يخرج نقيا من الذنوب ". قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح وهو حديث مالك، عن سهيل، عن ابيه، عن ابي هريرة , وابو صالح والد سهيل هو ابو صالح السمان، واسمه ذكوان، وابو هريرة اختلف في اسمه، فقالوا: عبد شمس، وقالوا: عبد الله بن عمرو، وهكذا قال: محمد بن إسماعيل وهو الاصح. قال ابو عيسى: وفي الباب عن عثمان بن عفان , وثوبان , والصنابحي , وعمرو بن عبسة , وسلمان , وعبد الله بن عمرو , والصنابحي الذي روى عن ابي بكر الصديق ليس له سماع من رسول الله صلى الله عليه وسلم، واسمه: عبد الرحمن بن عسيلة ويكنى ابا عبد الله، رحل إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقبض النبي صلى الله عليه وسلم وهو في الطريق، وقد روى عن النبي صلى الله عليه وسلم احاديث، والصنابح بن الاعسر الاحمسي صاحب النبي صلى الله عليه وسلم، يقال له: الصنابحي ايضا، وإنما حديثه قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: " إني مكاثر بكم الامم فلا تقتتلن بعدي ".حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مُوسَى الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِيسَى الْقَزَّازُ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ. ح وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ، أَبِي هُرَيْرَةَ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا تَوَضَّأَ الْعَبْدُ الْمُسْلِمُ أَوِ الْمُؤْمِنُ فَغَسَلَ وَجْهَهُ، خَرَجَتْ مِنْ وَجْهِهِ كُلُّ خَطِيئَةٍ نَظَرَ إِلَيْهَا بِعَيْنَيْهِ مَعَ الْمَاءِ، أَوْ مَعَ آخِرِ قَطْرِ الْمَاءِ أَوْ نَحْوَ هَذَا، وَإِذَا غَسَلَ يَدَيْهِ خَرَجَتْ مِنْ يَدَيْهِ كُلُّ خَطِيئَةٍ بَطَشَتْهَا يَدَاهُ مَعَ الْمَاءِ، أَوْ مَعَ آخِرِ قَطْرِ الْمَاءِ، حَتَّى يَخْرُجَ نَقِيًّا مِنَ الذُّنُوبِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ وَهُوَ حَدِيثُ مَالِكٍ، عَنْ سُهَيْلٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , وَأَبُو صَالِحٍ وَالِدُ سُهَيْلٍ هُوَ أَبُو صَالِحٍ السَّمَّانُ، وَاسْمُهُ ذَكْوَانُ، وَأَبُو هُرَيْرَةَ اخْتُلِفَ فِي اسْمِهِ، فَقَالُوا: عَبْدُ شَمْسٍ، وَقَالُوا: عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، وَهَكَذَا قَالَ: مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل وَهُوَ الْأَصَحُّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ , وَثَوْبَانَ , وَالصُّنَابِحِيِّ , وَعَمْرِو بْنِ عَبَسَةَ , وَسَلْمَانَ , وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو , وَالصُّنَابِحِيُّ الَّذِي رَوَى عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ لَيْسَ لَهُ سَمَاعٌ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَاسْمُهُ: عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُسَيْلَةَ وَيُكْنَى أَبَا عَبْدِ اللَّهِ، رَحَلَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُبِضَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي الطَّرِيقِ، وَقَدْ رَوَى عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَادِيثَ، وَالصُّنَابِحُ بْنُ الْأَعْسَرِ الْأَحْمَسِيُّ صَاحِبُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يُقَالُ لَهُ: الصُّنَابِحِيُّ أَيْضًا، وَإِنَّمَا حَدِيثُهُ قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " إِنِّي مُكَاثِرٌ بِكُمُ الْأُمَمَ فَلَا تَقْتَتِلُنَّ بَعْدِي ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جب مسلمان یا مومن بندہ وضو کرتا اور اپنا چہرہ دھوتا ہے تو پانی کے ساتھ یا پانی کے آخری قطرے کے ساتھ اس کے چہرے سے وہ تمام گناہ جھڑ جاتے ہیں ۱؎، جو اس کی آنکھوں نے کیے تھے یا اسی طرح کی کوئی اور بات فرمائی، پھر جب وہ اپنے ہاتھوں کو دھوتا ہے تو پانی کے ساتھ یا پانی کے آخری قطرے کے ساتھ وہ تمام گناہ جھڑ جاتے ہیں جو اس کے ہاتھوں سے ہوئے ہیں، یہاں تک کہ وہ گناہوں سے پاک و صاف ہو کر نکلتا ہے ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے ۳؎،
۲- اس باب میں عثمان بن عفان، ثوبان، صنابحی، عمرو بن عبسہ، سلمان اور عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- صنابحی جنہوں نے ابوبکر صدیق رضی الله عنہ سے روایت کی ہے، ان کا سماع رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے نہیں ہے، ان کا نام عبدالرحمٰن بن عسیلہ، اور کنیت ابوعبداللہ ہے، انہوں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس سفر کیا، راستے ہی میں تھے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا انتقال ہو گیا، انہوں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے متعدد احادیث روایت کی ہیں۔ اور صنابح بن اعسرا حمسی صحابی رسول ہیں، ان کو صنابحی بھی کہا جاتا ہے، انہی کی حدیث ہے کہ میں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو فرماتے سنا: میں تمہارے ذریعہ سے دوسری امتوں میں اپنی اکثریت پر فخر کروں گا تو میرے بعد تم ہرگز ایک دوسرے کو قتل نہ کرنا۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الطہارة 11 (244) (تحفة الأشراف: 12742) موطا امام مالک/الطہارة 6 (31) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: گناہ جھڑ جاتے ہیں کا مطلب گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں، اور گناہ سے مراد صغیرہ گناہ ہیں کیونکہ کبیرہ گناہ خالص توبہ کے بغیر معاف نہیں ہوتے۔
۲؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ وضو جسمانی نظافت کے ساتھ ساتھ باطنی طہارت کا بھی ذریعہ ہے۔
۳؎: بظاہر یہ ایک مشکل عبارت ہے کیونکہ اصطلاحی طور پر حسن کا مرتبہ صحیح سے کم ہے، تو اس فرق کے باوجود ان دونوں کو ایک ہی جگہ میں کیسے جمع کیا جا سکتا ہے؟ اس سلسلہ میں مختلف جوابات دیئے گئے ہیں، سب سے عمدہ توجیہ حافظ ابن حجر نے کی ہے (الف) اگر حدیث کی دو یا دو سے زائد سندیں ہوں تو مطلب یہ ہو گا کہ یہ حدیث ایک سند کے لحاظ سے حسن اور دوسری سند کے لحاظ سے صحیح ہے، اور اگر حدیث کی ایک ہی سند ہو تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ ایک طبقہ کے یہاں یہ حدیث حسن ہے اور دوسرے کے یہاں صحیح ہے، یعنی محدث کے طرف سے اس حدیث کے بارے میں شک کا اظہار کیا گیا ہے کہ یہ حسن ہے یا صحیح۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، التعليق الرغيب (1 / 95)
حدیث نمبر: 964
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا احمد بن منيع، ومحمد بن الوزير الواسطي المعنى واحد، قالا: حدثنا إسحاق بن يوسف الازرق، عن سفيان، عن عبد العزيز بن رفيع، قال: قلت لانس بن مالك حدثني بشيء عقلته عن رسول الله صلى الله عليه وسلم اين صلى الظهر يوم التروية؟ قال: " بمنى ". قال: قلت: فاين صلى العصر يوم النفر؟ قال: " بالابطح "، ثم قال: " افعل كما يفعل امراؤك ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، يستغرب من حديث إسحاق بن يوسف الازرق، عن الثوري.حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْوَزِيرِ الْوَاسِطِيُّ المعنى واحد، قَالَا: حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ يُوسُفَ الْأَزْرَقُ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ، قَالَ: قُلْتُ لِأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ حَدِّثْنِي بِشَيْءٍ عَقَلْتَهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيْنَ صَلَّى الظُّهْرَ يَوْمَ التَّرْوِيَةِ؟ قَالَ: " بِمِنًى ". قَالَ: قُلْتُ: فَأَيْنَ صَلَّى الْعَصْرَ يَوْمَ النَّفْرِ؟ قَالَ: " بِالْأَبْطَحِ "، ثُمَّ قَالَ: " افْعَلْ كَمَا يَفْعَلُ أُمَرَاؤُكَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، يُسْتَغْرَبُ مِنْ حَدِيثِ إِسْحَاق بْنِ يُوسُفَ الْأَزْرَقِ، عَنْ الثَّوْرِيِّ.
عبدالعزیز بن رفیع کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک رضی الله عنہ سے کہا: مجھ سے آپ کوئی ایسی بات بیان کیجئیے جو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یاد کر رکھی ہو۔ بتائیے آپ نے آٹھویں ذی الحجہ کو ظہر کہاں پڑھی؟ انہوں نے کہا: منیٰ میں، (پھر) میں نے پوچھا: اور کوچ کے دن عصر کہاں پڑھی؟ کہا: ابطح میں لیکن تم ویسے ہی کرو جیسے تمہارے امراء و حکام کرتے ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اور اسحاق بن یوسف الازرق کی روایت سے غریب جانی جاتی ہے جسے انہوں نے ثوری سے روایت کی ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الحج 83 (1653)، و146 (1783)، صحیح مسلم/الحج 58 (1309)، سنن ابی داود/ المناسک 59 (1912)، سنن النسائی/الحج 190 (3000)، (تحفة الأشراف: 988)، سنن الدارمی/المناسک 46 (1914) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (1670)
حدیث نمبر: 3810
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا هناد، حدثنا ابو معاوية، عن الاعمش، عن شقيق بن سلمة، عن مسروق، عن عبد الله بن عمرو، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " خذوا القرآن من اربعة: من ابن مسعود، وابي بن كعب، ومعاذ بن جبل، وسالم مولى ابي حذيفة ". قال: هذا حسن صحيح.حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ شَقِيقِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " خُذُوا الْقُرْآنَ مِنْ أَرْبَعَةٍ: مِنَ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، وَمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، وَسَالِمٍ مَوْلَى أَبِي حُذَيْفَةَ ". قَالَ: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قرآن مجید چار لوگوں سے سیکھو: ابن مسعود، ابی بن کعب، معاذ بن جبل، اور سالم مولی ابی حذیفہ سے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/فضائل الصحابة 26 (3758)، و27 (3760)، وفضائل الأنصار 14 (3806)، و16 (3808)، وفضائل القرآن 8 (4999)، صحیح مسلم/فضائل الصحابة 22 (2464) (تحفة الأشراف: 8932) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: مطلب یہ ہے کہ یہ چار صحابہ خاص طور پر قرآن کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اخذ کرنے، یاد کرنے، بہتر طریقے سے ادا کرنے میں ممتاز تھے، اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ان کے سوا دیگر صحابہ کو قرآن یاد ہی نہیں تھا، اور اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ان سے مروی قراءت کی ضرور ہی پابندی کی جائے، کیونکہ عثمان رضی الله عنہ نے اعلی ترین مقصد کے تحت ایک قراءت کے سوا تمام قراءتوں کو ختم کرا دیا تھا (اس قراءتوں سے مراد معروف سبعہ کی قراءتیں نہیں مراد صحابہ کے مصاحف ہیں)۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (1827)

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.